جی۔این۔کے اردو، 03/02/2024
دارالسلام جدید تقاضوں کی تکمیل کا استعارہ
جامعہ میں اسپورٹس مقابلے اور کل ہندمشاعرہ ،شاعراطفال ڈاکٹرحافظ کرناٹکی کاصدارتی خطاب
عمرآباد۔(پریس ریلیز)
سابقہ روایات کے مطابق جامعہ دارالسلام عمرآباد میں کل ہندمشاعرہ کاانعقادعمل میں آیا۔جس کی صدارت حکومت ہندکے بال ساہیتہ پرسکارسے سرفرازمعروف شاعراطفال ڈاکٹر امجد حسین حافظ کرناٹکی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری عمری نے انجام دیے۔ محفل مشاعرہ میں ہندوستان کے نمائندہ شعرا، مقامی اور جامعہ کے اساتذہ اور طلبا شعرا ء نے اپنے کلام بلاغت نظام سے باذوق سامعین کو دیر رات تک محظوظ کیا۔ مشاعرے کا آغاز حافظ قاری مزمل قاسمی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ بعدازاں استاذ الاساتذ مولانا ابوالبیان حماد عمری مرحوم کا کلام جامعہ کے طالب علم عبد الرحیم نے پیش کیا۔استقبالیہ اور تعارفی کلمات مولانا محمد رفیع کلوری عمری مدیر راہ اعتدال عمرآبادنے پیش کئے۔
کرناٹکااردو اردواکیڈمی کے سابق چیرمین شاعراطفال ڈاکٹرحافظ کرناٹکی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ جامعہ دارالسلام قدیم دینی تعلیم کا گہوارہ ہے۔ اور زبان و ادب کا گلشن ہے۔یہ جامعہ کاکا محمد عمرکی کوششوں سے آباد ہوا ہے ۔آج یہ ادارہ کاکا سعید اور کاکا انیس حفظہم اللہ کی سرپرستی میں اپنی علمی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس مادر علمی نے دینی، ادبی، اور تہذیبی سطح پر ملک وملّت کی بڑی خدمت کی ہے۔ وحدانیت کے پیغام کو عام کیا ہے۔ دارے کی خدما ت کے سوسال مکمل ہونے والے ہیں۔ اللہ ا سے ہزاروں سال تک قائم رکھے۔آج کے اس مشاعرے کے منتظم حافظ محمد سراج الدّین عمری ادب کی روح اور شاعری کے نبض شناس ہیں۔ ان تمام حضرات کی نگرانی اور موجودگی میں یہ مشاعرہ اپنی پاکیزگی اور روشن خیالی کے لیے ہمیشہ یاد کیاجائے گا۔
جامعہ دارالسلام ایک دینی ،علمی، ادبی اور تہذیبی ادارہ ہے۔ قوم و ملت، دین و ایمان، اور ادب و ثقافت کی خدمت کا قدیم معروف ادارہ ہے۔ مادری زبان اردو سے اس کی محبت بے اندازہ ہے۔ دینی زبان عربی کے حصول اور فروغ پر بھی آمادہ ہے۔ زبان و ادب، تہذیب وتاریخ اور ثقافت کا یہ ادارہ ایک زندہ استعارہ ہے۔فقہ،حدیث، سیرت، تفسیر اور دیگر دینی علوم کا گہوارہ ہے۔ اس ادارے کی شان کا علمی دنیا کو خوب اندازہ ہے۔ یہ عمرآباد پورے تمل ناڈو کی پہچان کا روشن مینارہ ہے۔ یہاں کی نامورشخصیات میںکاکا محمداسماعیل،کاکا محمد عمر ثانی،مولانا فضل اللہ ،مولانا نعمان اعظمی، علامہ شاکر نائطی، علامہ عبد السبحان اعظمی،حضرت سیدامین احمد عمری، علامہ عبد الواجد،مولانا امین احمد عمری،حافظ سید شبیر احمد عمری، مولانا اطہر حسین ، علامہ ظہیر الدین، مولانا خلیل الر حمٰن اعظمی ، مولانا سید عبد الکبیر ، مولانا حافظ ظفر الحق شاکر نائطی،مولانا حبیب الرحمن ،مولاناحفیظ الرحمن اورحضرت ابوالبیان حمادعمری کا بلندمرتبہ ہے۔میں نے ان کا کلام پڑھاہے، ایک زمانہ ان کا شیدا ہے۔
ڈاکٹرحافظ کرناٹکی نے کہاکہ مسرت کا مقام یہ ہے کہ جامعہ دارالسلام جدید تقاضوں کی تکمیل کا استعارہ ہے۔ اسپورٹس اور مشاعروں کے لیے ہر سال تیار و آمادہ ہے۔ تہذیب و تمدن اور طہارت کو زندہ رکھنے کا پابند اور فرستادہ ہے۔ اسی لیے مشاعرے کے تقدس کا قائل اور زبان کی تابناکی کا جوئندہ ہے۔مجھے امید ہے کہ اس پاکیزہ روایت کو دوسرے ادارے بھی اپنائیں گے اور مشاعرے کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں گے۔
جامعہ کے نائب ناظم مولانا حافظ عبد العظیم عمری مدنی کی مناجات سے مشاعرے کا باضابطہ آغاز ہوا۔ مولاناڈاکٹر الیاس اعظمی عمری مدنی مخلص،مولانا حافظ عبد المجید شاکر عمری نے اپنا کلام سنایا۔ بیرونی شعراء میں مولانا شاکر احسن باقوی، انور ہادی کڈپوی، شیخ حبیب بنگلوری، حسن علی حسن چن پٹنوی، اسانغنی مشتاق رفیقی، ایم ایل نثار، ظہیر کانپوری، نعیم راشد برہانپوری، ارسل بنارسی، عقیل حماد، طیب بنارسی، افضل الہ آبادی، وسیم جھنجھانوی اور روشن ضمیر بنگلوری نے اپنا کلام پیش کیا۔ ابنائے قدیم میں سے سالک ادیب بونتی عمری، شیخ دانش حماد جاذب عمری، ابن ایاز عبد الصبور معاذ فائز شاہ پوری عمری، مولانا ساجد عبد الباری عمری، مولانا شیخ جاوید احمد جاوید عمری میسوری، مولانا حافظ اسامہ ظاہر اور ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری نے اپنا کلام سنایا۔طلبائے جامعہ میں سے حافظ مطیع اللہ سعید مطیع، عبد التواب قاسم، سمیر اسماعیل ذاکر، عبد الرشید مقبول، حافظ سعد ناصر سعدی، محمد سلیمان قاسم، محمد ایان حامد، سیف الرحمن سیف، صفوان جلیل جامد اور ہشام نے اپنا کلام سنایا۔یہ کامیاب مشاعرہ مولانا حافظ سراج الدین عمری کے ہدیہ تشکرکے ساتھ اختتام پذیرہوا۔