قلم کار سے ملاقات

پروفیسر طارق چھتاری صاحب، چیرمین و صدر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی

شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام “قلم کار سے ملاقات” میں آج ہمارے مہمان ہیں پروفیسر طارق چھتاری صاحب
پروفیسر طارق چھتاری معاصر اردو افسانے کا ایک معتبر اور معروف نام ہے۔ آپ یکم اکتوبر/1954 کو چھتاری ضلع بلند شہر یو پی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے پائی۔ جہاں سے آپ نے ایم۔ اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔ پہلے آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایگزیکٹیو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ریڈیو میں آپ تقریباً دس سال رہے جہاں آپ کا کئی جگہ تبادلہ بھی ہوا۔
برسوں تک ریڈیو میں خدمات انجام دینے کے بعد آپ کا تقرر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بحیثیت لیکچرر ہوا۔ آپ اپنی محنت اور لیاقت سے لیکچر سے ریڈر اور پھر ریڈر سے پروفیسر ہوئے۔ آپ فی الوقت شعبہ اردو کے چیرمین و صدر شعبہ اردو ہیں۔
پروفیسر طارق چھتاری جدید اردو افسانہ نگاری میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپ کا شمار اردو کے ممتاز اور مقبول افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ “باغ کا دروازہ” طارق چھتاری کا شہرۂ آفاق افسانوی مجموعہ ہے آپ پر تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں اور آپ کے ادبی کارناموں کے اعتراف میں ڈاکٹر حامد رضا صدیقی ،راشد انور راشد اور محمد علی جوہر کی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ پروفیسر طارق چھتاری کو اردو کے معروف ناقدین نے موضوع بنایا ہے۔ پروفیسر عبدالصمد لکھتے ہیں کہ “طارق چھتاری کے افسانوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس افسانہ نگار نے لکھا کم، پڑھا زیادہ اور جو لکھا اسے ہضم بھی کیا۔ ان کی شخصیت کے تعلق سے معین الدین جینا بڑے لکھتے ہیں کہ ” طارق چھتاری کی “اچھائی” گنگا جمنی تہذیب کی جملہ خوبیوں کو محیط ان کے اخلاق سے عبارت ہے”
پروفیسر طارق چھتاری نہایت مخلص اور مشفق استاد ہیں۔ آپ نے اپنی تخلیقی ہنرمندی اور برگزیدہ شخصیت سے ایک بڑے حلقے کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ آپ اپنی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی نبھا رہے ہیں جن سے آپ کبھی عہدہ بر آ نہیں ہوتے۔ غلام نبی کمار کے ساتھ پروفیسر طارق چھتاری کی یہ گفتگو آپ کو کیسی لگی کمینٹ بکس میں ضرور لکھیے گا۔

مصنف کے بارے میں

میر زبیر

ایک تبصرہ چھ