غیر درجہ بند

پہلا مرحلہ ووٹروں کا صاف اشارہ از محمد ہاشم القاسمی

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 

موبائل فون :=9933598528 

ہمارے ملک کی 543 رکنی پارلیمنٹ کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ملک کی 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے ۔ اس مرحلے میں صرف جنوب کی تمل ناڈو ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں تمام 39 حلقوں میں اسی مرحلے میں پولنگ مکمل ہو گئی ۔

 پارلیمنٹ کے 102 حلقوں کے لیے 1625 سے زیادہ امیدوار انتخابی میدان قسمت آزمائی کر رہے ہیں جن میں 135 خواتین امیدوار ہیں۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات کے اس مرحلے میں اروناچل پردیش اور سکم کے اسمبلی انتخابات کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے ۔ پارلیمانی انتخابات کے اس پہلے مرحلے میں آسام کی پانچ، بہار کی چار ، مدھیہ پردیش کی چھ، مہاراشٹر کی پانچ، راجستھان کی 12، بنگال کی تین اور اتر پردیش ریاست کی آٹھ نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اتر پردیش میں پارلیمنٹ کی 80 سیٹیں ہیں۔ ان ریاستوں کے علاوہ، شمال مشرق کی چھوٹی ریاستوں کی نشستوں، انڈمان نکوبار جزائر، لکش دیپ اور جموں کشمیر کے ایک حلقے کے لیے بھی ووٹ ڈالے گئے، پارلیمنٹ کی 543 نشستوں کے لیے انتخابات سات مرحلوں میں پورے کیے جائیں گے اور ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہو گا۔ جبکہ ووٹوں کی گنتی پورے ملک میں ایک ساتھ 4 جون کو ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق مجموعی طور پر 60 فیصد سے زائد پولنگ ہوئی۔ این ڈی ٹی وی اور انڈیا ٹوڈے سمیت بیشتر میڈیا اداروں کے رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر62.37 فیصد ووٹ پول ہوئے۔ جب کہ 2019 میں پہلے مرحلے میں 69.43 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ بہار میں سب سے کم 48.5 فیصد پولنگ ہوئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تمل ناڈو میں جہاں تمام 39 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے، 67.2 فیصد پولنگ ہوئی۔ جب کہ 2019 میں 72.4 فیصد ہوئی تھی۔ راجستھان میں 57.3 فیصد ہوئی۔ جب کہ 2019 میں 64 فیصد ہوئی تھی۔رپورٹس کے مطابق سب سے زیادہ 77.6 فیصد مغربی بنگال میں دیکھا گیا۔ شمال مشرق کی بی جے پی حکومت والی ریاستوں آسام میں 72.3، میگھالیہ میں 75.5، منی پور میں 62.9، اروناچل پردیش میں 67.6 اور تری پورہ میں 80.6 فیصد پولنگ ہوئی. 2019 کے مقابلے ہر جگہ ووٹ فیصد میں چار سے آٹھ فیصد کی کمی آئی ہے، ایک دو فیصد ووٹ کی کمی کا مطلب ہے ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد نے ووٹ نہیں ڈالے، یہ انتخاب کا پہلا مرحلہ ہے مگر امید ہے کہ یہ سلسلہ دوسرے تیسرے مرحلوں میں برقرار نہیں رہے گا تاہم اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مودی حکومت نے نیند کی جو گولیاں کھلا کر سبز باغ کے خواب دکھائے تھے ان گولیوں کا اثر زائل ہو چکا ہے اور آنکھوں سے وہ خمار ختم ہو چکا ہے اور اب پورے طور سے بیدار ہو چکے ہیں اس لئے خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں، ان کی باتوں سے پورا بھروسہ آٹھ چکا ہے چونکہ مودی نے آزادی کے پچھتر سال کے تقریب میں یہ بھی عہد کیا تھا کہ “ملک میں کم از کم پچھتر فیصد ووٹ دلایا جانے کو یقینی بنایا جائے گا” مگر کہاں؟ نیز بی جے پی کی لوک سبھا امیدوار نونیت رانا کا ایک بیان کافی وائرل ہوا جس میں وہ اپنے کارکنان سے کہا تھا کہ ” وہ اب اس بھروسے میں نہ رہے کہ ’مودی لہر‘ چل رہی ہے اس لئے ہم جیت جائیں گے” یاد رہے کہ نونیت رانا 2019 ء کا الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑا تھا البتہ بی جے پی نے ان کے سامنے امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ اس بار وہ براہ راست بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں اس وقت ملک کے کسی بھی حصے میں کسی قسم کی کوئی مودی لہر نہیں ہے۔ یعنی سنہ 2014 اور 2019 میں جیسے مودی اپنے نام کو بیچ کر ہندوستان کے بادشاہ بن بیٹھے تھے، وہ اس بار قطعاً ممکن نہیں ہے۔ پہلے مرحلے سے یہ بھی واضح ہے کہ ملک بھر میں مودی کے خلاف ایک لہر چل رہی ہے جو مودی کی پچھلے دس سالوں کی ناکامیوں کا نتیجہ ہے، مودی کی امیج ان کے بھکتوں کے باہر ایک ناکام اور دھوکے باز وزیر اعظم کی بن چکی ہے، عوام اور عام ووٹر گزشتہ دس سالوں سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھولے نہیں ہیں۔ اس کے سبب پیدا ہونے والی بے روزگاری اور تجارت میں غیر معمولی نقصان سے پریشان ووٹر مودی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ووٹ دے رہا ہے. نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سب سے بڑی پریشانی کسانوں اور پڑھے لکھے نوجوان میں بی جے پی کے خلاف غصہ ہے جو ملک کے ہر صوبہ میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے سبب پہلے مرحلے سے ہی یہ ٹرینڈ نظر آ رہا ہے کہ دیہی علاقوں میں بڑی کثیر تعداد میں ووٹر بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈال رہے ہیں. ایک بات اور جو بہت صاف نظر آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹر بہت سوچ سمجھ کر اپنا ووٹ ڈال رہا ہے۔ یعنی جیسے سنہ 2014 میں مودی مخالف ووٹ مختلف سیکولر پارٹیوں کے بیچ بٹ گیا تھا، اس بار انڈیا الائنس کے مضبوط ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ایک اور انتہائی اہم ٹرینڈ جو اس مرحلے میں ابھرا ہے وہ یہ ہے کہ غریب ووٹر جن کو پانچ کلو اناج پر پوری زندگی کا انحصار ہے اس کے لئے بھی انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور وہ کثیر تعداد میں مودی کے خلاف ووٹ ڈال رہا ہے۔ شہری علاقوں میں آباد مڈل کلاس، پیسے والا اور اعلیٰ ذات کا بڑا طبقہ بھی مودی کے حق میں ووٹ ڈالتے نظر نہیں آرہا ہے ۔ یعنی اس چناؤ میں غریب اور امیر کی خلیج بھی کافی کم ہوتی نظر آ رہی ہے، جو مودی اور بی جے پی کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہے کہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے ہی مودی کے لیے بہت مشکلیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس لئے بی جے پی نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبور ہو رہی ہے ناگپور کے متعدد مقامات پر ووٹروں کے ہاتھوں میں ایسی پرچیاں دیکھی گئیں جن پر نہ صرف بی جے پی امیدوار نتن گڈکری کی تصویر تھی بلکہ اس پر یہ نعرہ بھی درج تھا ’’ کہو دل سے… نتن جی دل سے‘‘ ان پرچیوں کو دیکھ کر کانگریسی کارکنان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے بوتھ پر جا کر ووٹنگ مشین ہی توڑ دی۔ پولیس نے فوری طور پر ان پرچیوں کو پولنگ بوتھ سے ہٹانے کی ہدایت دی جس کے بعد معاملہ قابو میں آیا۔ اطلاع کے مطابق چند پور کے ایک پولنگ بوتھ پر اس بات پر ہنگامہ ہوا کہ کانگریس امیدوار کے نام کے آگے کینسل (غلط) کا نشان لگا ہوا تھا۔ پولیس نے مداخلت کرکےحالات کو قابو میں کیا۔ اور ووٹنگ مشین میں لگے اس .نشان کو درست کیا ان تمام باتوں سے خوب سمجھ میں آتا ہے کہ اس پہلے مرحلے کی ووٹنگ کیا کہتی ہے . ***

   Photo from Md Hashim Alqasmi

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ