افسانچہ افسانوی نثر

معز ہاشمی کے 6 / افسانچے ، پیش کش : جی این کے اردو

معز ہاشمی
1-27-54معز ریسیڈینسی، منظور پورہ، اورنگ آباد۔9372696300


ایک مُصمم ارادہ کے ساتھ وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ساری زندگی وہ خوف کے سائے میں جیتا رہا۔بچپن ہی سے اس کے ذہن میں نامعلوم دشمن کی شبیہ کچھ اس طرح دکھائی گئی کہ وہ تمہارا دشمن ہے۔اس سے تمہیں اذیت پہنچنے کا قوی امکان ہے اس لیے سخت احتیاط شرط ہے ۔شرطوں میں بٹی ریزہ ریزہ ہوئی اس کی زندگی نے آج اسے انتہائی سخت قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔نامعلوم دشمن سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ پانے کا اس نے ایسا منصوبہ بنایا کہ اسے اپنے منصوبے کی کامیابی پر پورا یقین ہوگیا اور آج اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ میڈیا کے ہمراہ دشمن کی گلی میں داخل ہوا اسے اپنے سامنے دیکھ کر دشمن کاخون کھول گیا اس کے جسم سے خون کی پتلی سی لکیر نکلی دشمن نے جان لیوا حملہ کر دیا اس واردات کی شوٹنگ ریکارڈ ہوگئی ۔اقدام قتل کے جرم میں اس کے دشمن کو سات سال قید بامشقت ہوگئی ۔ایک ٹھنڈی آہ لے کر اس نے سات سالوں کے لیے کھلی فضاء میں سانس لینے کی آزادی پر مہر لگادی۔


ہماری نظریں شرم سے زمین میں گڑھی جارہی تھی ۔ہم نے اپنے سر کو اس وقت تک جھکارہنے دیا تا وقتیکہ سامنے والانوجوان قعدہ میں نہیں آجاتا تاکہ ہم نگاہ کے گناہ سے بچ کر خشوع وخضوع سے اپنی عبادت ادا کریں ۔


لوگ بھی کتنے عجیب ہوتے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے بزرگانہ مشورے پر زندہ قوم کا دعویٰ پیش کر دیا جاتا دوسرے ہی پل یہی لوگ جنازہ کے لیے خود اپنے ہاتھوں رکاٹوں کو ہٹا دیتے اور مردہ انسان کو جلد سے جلد اس کی منزل کی طرف روانہ کرنے کے لیے چالیس قدم بھی اس کا ساتھ دے کر اپنے نام نیکیاں بٹور لیتے ۔
اس عجیب و غریب رواج کو بدلا نہیں جاسکتا صرف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔شاید یہ ’’مردہ بدست زندہ‘‘ کی تحریر کا مابقی اقتباس ہے۔


ایک عرصہ بعد دیرینہ دوست سے ہماری اچانک ملاقات ہوئی ۔پر جوش انداز میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہونے کے بعد رسماًطویل غیر حاضری کا سبب جاننے کے لیے ہم نے دریافت کیا ،کیا کر رہے ہو!اس نے کاروباری مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے کہا:موم بتی کا ٹھوک اور چلّر دھندہ کررہاہوں۔
دکان کس محلہ میں ہے ؟ میاں دکان تو اوپر والے کے کرم سے ایسی جگہ ہے جہاں سے مورچوںکی ابتداء ہوتی ہے وہاں تمہارا کیا دھندہ ہوتا ہوگا۔میاں ہمارے تو اچھے دن آگئے ہیں ۔یوں سمجھ لو ہر ہفتہ پندرہ دن میں’’کینڈل مارچ‘‘ کے لیے ہماری ہی موم بتیاں روشن ہوتی اور ساتھ ہی ہماری دکان بھی چمک جاتی۔تو بتا کیا کررہا ہے آج کل ۔بس ایسا سمجھ لیں کہ تیرے دھندے کا چلا رہا ہوں NGO


شہر کے مصروف چورا ہے پر ٹریفک جام ہوگیا۔کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ۔پہلے تو،تو تو میں میں پھر ہاتھا پائی چند زخمی ہوئے چند ایک شدید زخمی ہوئے۔دوسرے دن اخبارمیں خبر آئی گذشتہ دن جو ٹریفک کی وجہ سے سنگین حادثہ ہواتھا اس میں کا ایک شدید زخمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل
بسا۔شہر کے چار معزز افراد نے پولیس محکمہ میں شکایت درج کروائی کہ حادثہ ٹریفک پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔محکمہ کارپوریشن نے یہ کہہ کر پلڑا جھاڑ دیا کہ اگلی میٹنگ میں اس چورہے ا کا نام مرنے والے کے نام پر رکھدیا جائیگا۔


ترقی یافتہ شہر کی یہ خوبی ہوتی ھیکہ وہاں کی سڑکیں چوڑی اور کشادہ ہوتی ہے ۔یہی سوچ کر شہریوں کی کثیر تعداد نے شہر کی ترقی کے لیے اپنے آبائی بوسیدہ مکانوں کی قربانی پیش کیں اور اس کام میں اس نے بڑھ چڑھ کر لوگوں کویہ باور کروایا کہ تمہارے کچے مکانوں کے کچھ حصے اگر کشادگی راہ کی بھینٹ چڑھ بھی گئے تو تمہاری باقی ماندہ جگہ کی قیمت بڑھ جائیگی ۔اس کی میٹھی میٹھی باتوں میں لوگ آتے گئے اور سڑک کشادہ ہو گئی اور وہ تمام معصوم سڑک پر آگئے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu