آج ہم ایک ایسی شخصیت کے ساتھ بچپن(ادب اطفال) کی بزم میں حاضر ہیں۔ جو ادب اطفال میں نوآموز کی حیثیت ہے مگر وہ بہت سی خصوصیات کی حامل ہیں۔ وہ صدر معلمہ ہیں جو اپنے شاگردوں کی ہمدرد،ان کی خیرخواہ اور اپنی بہترین انتظامی خصوصیات سے ان کی کردار سازی میں کوشاں رہتی ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لئے لکھنا شروع کیا تو اس میں ان کی سنجیدگی جھلکتی ہے۔ یہ سنجیدگی اگر دینی نہج پر ہو سر پر حجاب ہو اور قدرت نے اگر سراپا بھی خوبصورت دیا ہو تو ایسی شخصیت تعلیم و تعلم سے وابستہ ہو تو تعلیم و تربیت میں تقدس کا ایک نور سا پیدا ہوجاتا ہے۔ جی ہاں ہم بات کررہے محترمہ کوثر حیات صاحبہ کی۔
سراج عظیم : کوثر حیات صاحبہ بچپن کی بزم میں آپ کا استقبال ہے
کوثر حیات : ارباب بچپن کی خدمت میں بصد احترام سلام۔ بہت شکریہ آپ کا جناب سراج عظیم صاحب۔
سراج عظیم: کوثر حیات صاحبہ حالانکہ آپ بچپن کی فعال رکن ہیں۔ زیادہ تر لوگ آپ سے واقف ہیں مگر پھر بھی گروپ کی روایت ہے کہ آپ اپنا تعارف ہمارے ممبران کے لئے پیش کریں۔
خواجہ کوثرحیات : میرا تعلق بھارت کے شہر خجستہ بنیاد اورنگ آباد (دکن) سے ہے۔خاندانی پس منظر علاقہ برار کے شہر ایلچپور کے ایک دیندار،مہذب، علمی اور ادبی خانوادے سے تعلق رکھتی ہوں۔، نثر نگاری اور شاعری کا فن وراثت میں ملا۔ میرے جد امجد سید ابوالفتح ضیاء الدین سید امجد حسین خطیب ودربھ کے پہلے صاحب دیوان شاعر گزرے۔
گزشتہ ربیع صدی سے پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہوں بطور صدر معلمہ فاطمہ اردو اسکول میں فرائض انجام دے رہی ہوں۔میں ایم۔ اے (انگریزی)، ڈی۔ایڈ ہوں۔ میری تعلیمی اور درسیاتی و نصابی نیز ہم درسی سرگرمیوں کا دورانیہ کافی طویل ہے۔ نثر ونظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرتی ہوں۔ خصوصاً تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنا اور بچوں و اساتذہ کے لیے تربیتی و رہنمائی مضامین تحریر کرتی ہوں۔ ساتھ ہی ڈاکیومینٹری اور رپورتاژ تیار کرنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہوں۔
طلباء کے لیے ریاستی سطح پر بین المدارس مقابلوں کا انعقاد کرتی رہتی ہوں۔ بحیثیت ممتحن کئی ادبی، ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں میں شرکت کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے مسلسل کوشاں رہتی ہوں۔ تخلیقی میدان میں طفل مکتب ہوں۔
سراج عظیم : کوثر صاحبہ آپ جانتی ہیں کہ یہاں ہم ادب اطفال کے تعلق سے بات کرتے ہیں۔ آپ ایک اسکول کی صدر مدرسہ ہیں۔ ہم سیدھا سوال کرتے ہیں۔ تعلیم یا تدریس میں ادب اطفال کی حیثیت کیا ہے؟
خواجہ کوثر حیات : بچوں کی تعلیم و تدریس کی بات کی جائے وہ بھی ادب اطفال کے تناظر میں تو آج کے بچے ذہین، متجسس، بے باک اور نئی جہتوں کو سمجھنے اور جاننے کے متلاشی ہیں۔اس لئے ادب اطفال تخلیق کرنے والے قلمکاروں کے لیے قدیم و جدید سائنسی معلومات،ایجادات،ماحولیات، ارضیات، فلکیات کو ادب میں شامل کرنا ضرورت بن گیا ہے۔ چاہے وہ درسی نصاب ہو یا پھر تفریحی۔
سراج عظیم : ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ادب اطفال تدریسی ضروریات میں معاون ہے؟
خواجہ کوثر حیات : جی یقیناً! ادب اطفال اگر ان تمام عناوین کا احاطہ کررہا ہو تو تدریسی عمل میں نہایت مفید و کار آمد ثابت ہوں گا۔ مثال کے طور پر خان عاقب حسنین صاحب کی جغرافیائی معلومات پر مبنی نظمیں شہاب ثاقب اور مد و جزر اگر اس کا استعمال دوران تدریس تفہیم سبق کے لیے کیا جائے تو ان عنوانات کو سمجھانا ایک معلم کے لیے بہت آسان ہوگا۔
سراج عظیم : یقینا دور موجود سائنس اور ٹیکنالوجی سے تعبیر ہے۔ کیا اردو میڈیم کے طلباء اور قاری بچے عصر کے ہم رکاب ہیں؟اس کے متحمل ہیں؟ آپ کا کمینٹ۔
خواجہ کوثر حیات : کسی بھی زبان سے تعلق رکھنے والا عموماً ہر بچہ دور عصر کا ہم رکاب ہوتا ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہیکہ زیرو سے نو سال کی عمر کا بچہ چھ زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اب یہ سوال جو آپ نے کیا ہمارے سمجھانے یا ان بچوں کو مہیا کی جانیوالی تعلیم و مواد پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح بچوں کو اس کے لیے تیار کریں۔
سراج عظیم : یعنی آپ درس و تدریس میں ادب اطفال کو اہم جزو مانتی ہیں۔ حالانکہ کچھ لوگ ادب اطفال اور درس و تدریس کو مختلف زاویوں کے پیش نظر ان کے تعلق سے انکار کرتے ہیں۔ اپ کیا کہتی ہیں۔
خواجہ کوثر حیات : میرا اپنا تجربہ رہا کہ وہ ادب جو بچوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو جلا بخشے، ان کی اخلاقی تربیت کرے اور ان میں اعلی اقدار و سائنسی نکتہ نظر پروان چڑھائے، وہی آج کے زمانے کا ادب برائے اطفال ہے پھر چاہے وہ ادب نثری قالب میں ہو یا شعری ہیئت میں۔ اور ادب کے زمرے میں وہ تمام علم آجاتے ہیں بشمول سائنس، جغرافیہ، ریاضی ان تمام کا راست یا بالراست تعلق بچوں سے ہے۔ انہیں نصاب سے علیحدہ تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سراج عظیم: یعنی آپ تعلیم وتعلم میں ادب اطفال کے اطلاق کو معلم کی صلاحیت پر موقوف کررہی ہیں
خواجہ کوثر حیات : ادب اطفال کے اطلاق کی ذمہ داری صرف معلم پر نہیں ہر وہ شخص تو تحصیل علم کا ذریعہ بن رہا ہو۔ اس کے علاوہ والدین اور خصوصی طور پر یہ ذمہ داری تخلیق کار پر عائد ہوتی ہے کہ اس کا تخلیق کردہ ادب قاری تیار کرنے میں کامیاب ہورہا ہے یا نہیں۔
سراج عظیم : آپ صدر معلمہ ہیں آپ کے خیال میں ادب اطفال کے خد و خال کیا ہونا چاہئے؟
خواجہ کوثر حیات : بچوں کے ادب کے موضوعات میں وسعت و تنوع وقت کا تقاضہ ہے۔ یہ مسابقتی دور کے پروردہ بچے ہیں۔ بچوں کے ادب کے خدوخال ہم دیکھیں تو موجودہ زمانے میں ادب اطفال سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میں روایتی اور مافوق الفطرت موضوعات سے مبرا اور جدید ایجادات و استعمال میں آنیوالے موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ سے، سائنسی تعلیم کی اہمیت، سائنسی معلومات اور سائنسی ایجادات کے بارے میں معلومات سے پر کہانیاں تخلیق ہوں تو بچوں کو جدید علوم و فنون سے ہم آہنگ کرنے میں آسانی ہو گی۔ ادب اطفال سے زمانہ قدیم کے طرح آج بھی وہی توقعات ہیں۔
سراج عظیم : یعنی ادب اطفال کے اطلاق کی ذمہ داری آپ ادیب الاطفال پر راست عائد کررہی ہیں؟
خواجہ کوثر حیات : معذرت کے ساتھ میں عالمی سطح پر آپ کی سرپرستی میں چلانے جانے والے بچپن گروپ پر ایک ادیب سے زیادہ ایک طالب علم کی حیثیت سے شریک ہوتی ہوں اور میرے مشاہدہ کے مطابق بچپن کا یہ پلیٹ فارم اب تک تخلیق کاروں کی اچھی تعداد بنا چکا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ تخلیق کار کی ذمہ داری ہے کہ تخلیقی کام 80 فیصد ہوتو 20 فیصد توجہ ترویج اور زبان کی بقاء کے لئے عملی طور پر دے تاکہ اردو کے قاری تیار ہو۔اور اس کے لیے ہفتے میں کم از کم دو دن مذاکرہ کے ذریعہ لائحہ عمل ترتیب دیئے جانے پر توجہ ہو کیونکہ ادیب اطفال ہی بچوں کی نفسیات سے خوب تر واقف ہوتا ہے۔
سراج عظیم : کیا ادب اطفال کی حیثیت صرف جدید تقاضوں تک ہی محدود کر دینا چاہیے جہاں صرف سائنسی ایجادات، خلائے بسیط، سیاروں اور دیگر کا ذکر ہو اخلاقیات، دینی تمیز و تہذیب کی بات نہ کی جائے۔ آپ کا معلمہ کے رول میں ردعمل؟
خواجہ کوثر حیات : جس طرح عصری علوم کے ارتقاء اور ترقی سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح صحت مند معاشرہ کی افادیت اور تعمیرروز اول کی طرح لازم و ملزوم ہے۔ اور صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اقدار کی تعلیم مذہبی ارکان سے واقفیت بہت ضروری ہے۔
بطور معلمہ میں سمجھتی ہوں کہ بچہ کو پہلے اللہ کا صالح بندہ بنانا پھر مسابقتی دور کے لیے بھر پور توجہ دینا دونوں میدان میں کام ضروری ہیں۔
سراج عظیم : یعنی آپ سیدھے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر کوئی ادیب ادب تخلیق کر رہا ہے تو اس کو زبان کی ترویج کے لئے معلم کا کردار بھی عملی طور پرادا کرنا چاہئے۔ تو پھر معلم کا کیا کام رہ جاتاہے؟ صرف مضمون پڑھانا؟
خواجہ کوثر حیات : میں اب بھی اپنی کہی بات پر قائم ہوں۔ معلم کو متعین کیے گئے نصاب کو مقررہ وقت میں تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ کس طرح ہمہ جہت صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا کام کریں گا۔ ایک معلم کو زبان کے ارتقاء کے لیے وقت نکالنا ضرور چاہیے مگر اس کام میں اگر ادبا و شعرا بھی شامل ہوجائے جیسا کہ میں نے کہا وہ بچوں کی نفسیات خوب جانتے ہیں تو خاطر خواہ نتائج مل سکتے ہیں۔
سراج عظیم : مقصد آپ یہ مانتی ہیں کہ جہاں عصری علوم کی واقفیت ضروری ہے وہیں اخلاق ادب و تہذیب اور دینی معلومات کی بھی بچوں کے کردار صالح اور کامیاب انسان بننے کے لئے ضروری ہے۔ مگر اجکل بچہ تو اسکرین زدہ ہے ایسے میں بچوں کے ادب کی اہمیت مثبت ہے یا منفی نظریات لئے ہوئے ہے؟
خواجہ کوثر حیات : بیشک پریوں اور جنوں کی کہانیاں نیز دیگر مافوق الفطرت واقعات بچوں کی قوت متخیّلہ اور اقدار کو پروان چڑھانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔چونکہ آج کا بچہ سائنسی ترقی سے اس قدر مانوس ہوچکا ہے کہ محض ایک بٹن دباکر ہزاروں کاموں کو انجام دیتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور اسے ملٹی ٹاسکنگ سے بھلی بھانتی واقف ہے تو بھلا اس کے پاس پریوں اور دیو ہیکل جن کی کیا اہمیت!؟
اس لیے آج اشد ضرورت ہے کہ قاری تیار ہو ساتھ ہی اسکرین زدہ کا حل یہ ہے کہ ان تخلیقات کو وقت کی ضرورت کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو ویژول بنایا جائے۔ مگر خصوصی توجہ قاری تیار کرنے پر دی جائے۔
سراج عظیم: آج پورا معاشرہ اسکرین زدہ ہے جسکی وجہ سماجی رویوں میں بہت تبدیلی آرہی ہے۔ خصوصاً نسل نو اس کے سحر میں پوری طرح سے غرق ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے دو سوال ہیں۔ ایسے میں بچوں کے ادب کی ترویج میں کیا مستورات کی ذمہ داری گھٹی ہے؟
دوسرے اسکرین زدہ معصوم قاری میں صالح اقدار مہمیز کرنے کے لئے کیا ہمیں اردو میں بچوں کا ادب اسکرین پر لانا چاہئے؟
خواجہ کوثر حیات : آج زیادہ تر خواتین کا تناسب کسب معاش کے لیے سرگرداں ہیں ایسے میں قدیم روایات جہاں گھر میں موجود خواتین والدہ، پھوپی، دادی بچوں کی ہمہ وقت تربیت کرتی تھیں،ندارد ہے۔سنگل فیملی کا سسٹم بھی تربیت کو اثر انداز کررہا ہے اس لیے منجملہ گھر کے تمام افراد اور معاشرے کے لیے بھی یہ فکر انگیز باب ہے کے اس مسئلہ کا حل نکالے۔
آپ کا دوسرا سوال تھا اسکرین زدہ پر تو یقینا وقت کے ساتھ چلنا دانشمندی ہے اور الحمد للہ آج اردو ادب اطفال کے پاس ایک ضخیم اثاثہ موجود ہے جسے اسکرین پر لایا جاسکتا ہے۔
سراج عظیم: ہم نے کئی بچوں کے مشہور سیرئلز دیکھے ہیں ان میں بھی پریوں اور دیوؤں کو جدید طریقہ سے دکھایا جاتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ سوائے سائنسی ترقی کو آگے آنے والے زمانے میں کس طرح بروئے کار لائیں گے اس کی نالج کے علاوہ اخلاقیات سے مبرا ہوتے ہیں۔ جبکہ کلاسیکل ادب میں اخلاقی اقدار کا ذکر ہوتا ہے۔ سماجی رویوں کے تناظر آپ کیا بہتر سمجھتی ہیں؟
خواجہ کوثر حیات: انگریزی قول ہے
If you are not update you are out of date
آپ نے درست فرمایا مخصوص بچوں کے دلچسپ پروگرام جو گیجٹس اور سائنسی ترقی کو پیش کرکے بچوں کو اپنا گرویدہ بنا چکے ہیں مگر ہمیں بھی اس تکنیک یا اس طرح سے ادب اطفال کو منتقل کرکے دلچسپ بنانے کی ضرورت ہے اور آج یہ پہل ہمارے پاس ہوچکی ہے ماہنامہ بزم اردو، پاکستان اور’الفاظ پبلیکشنز‘ کے تحت خود آپ کی کہانیوں اور ڈاکٹر یعقوب صاحب کی ’کائنات سیریز‘ اور’بچپن گروپ‘ پر پیش کردہ معلوماتی کہانیوں کو ویڈیو کی شکل میں عملی جامہ پہنایا گیا ہے اور یہ تجربہ کامیاب بھی رہا۔ اگر اس سلسلے کو شروع رکھا جائے تو ضرور آپ کی متوقع مقاصد کی حصول یابی جلد ممکن ہو گی۔
سراج عظیم : چلئے بات کا رخ ہم آپ کی جانب کرتے ہیں۔ آپ ایک سنجیدہ مضمون نگار، تنقید نگار، محقق اور ادیبہ ہیں۔ بچوں کے ادب کا رخ آپ نے اپنی معلمی کی ضروریات کے تحت کیا یا محض شوق کے لئے؟
خواجہ کوثر حیات : آج بہترین انداز میں ادب اطفال پر کام ہورہا ہے۔ میرا زیادہ کام یقینا تحقیقی و تنقیدی مضامین پر ہی ہوا ہے مگر جب جناب خان عاقب حسنین صاحب نے میری شمولیت بچپن واٹس ایپ کے پلیٹ فارم پر کروائی۔ جناب سراج عظیم صاحب کی ترغیب اور بچپن کے تمام زور آور قلمکاروں کی ادب اطفال کے تئیں جہد مسلسل نے مجھے ادب اطفال کی جانب مائل کیا اور اپنی پہلی تخلیق نظم پانی کی شکل میں نے اپنے قلم کو بچوں کے لئے جنبش دی۔ اور یہ سلسلہ چل پڑا۔
سراج عظیم: آپ کہہ رہی ہیں کہ محض شوق کی تکمیل کے لئے ادب اطفال کا رخ کیا؟
خواجہ کوثر حیات : بچوں کی اردو زبان سے دوری نے مجھے اس بات کے لیے مجبور کیا کہ بچوں سے راست مخاطب ہوکر ہی ہم ان کی ذہنی آمادگی اور اردو کے تئیں لگاؤ پیدا کرنے کی سعی کرسکتے ہیں۔
سراج عظیم: آپ ایک استاد ہیں۔ بچوں کی نفسیات سے واقف ہیں۔ اکثر ادبی حلقوں میں یہ بحث ہوتی ہے کہ بچوں کا ادب عمر کے لحاظ سے ہونا چاہئے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں بچوں کا ادب خانوں میں بٹنا چاہئے۔ کہنے کا مقصد درجہ بند ہونا چاہیے۔
خواجہ کوثر حیات : بچہ کی ذہنی صلاحیت کے لحاظ سے اس کی تعلیم وتربیت لازمی ہے۔ادب اطفال میں درجہ بندی کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہر بچہ مختلف ذہانت رکھتا ہے کوئی غیر معمولی اور کوئی اپنی مسلسل کوشش سے مقصد کو حاصل کرلیتا ہے اس لیے ہم درجہ بندی کرکے ادب کو محدود کردے یہ صحیح نہیں۔
سراج عظیم: اس سلسلے میں آپ کا بچوں کے ادب میں کوئی اختصاص؟
خواجہ کوثر حیات : ادب اطفال کے لئے اردو کا قاری تیار کرنا۔ اپنی تحریروں کے ذریعے بچوں کو پڑھنے کے لئے آمادہ کرنا یعنی خود آموزی۔ میرے اختصاص کی چند مثالیں جس کے تحت عملی طور پر بچوں میں اچھے ناظم (نظامت میں ماہر)، مقرر، مضمون نویس، تبصرہ نگار و نعت خواں اور’وی لوگر‘تیار کیے گیے۔ اس ضرورت کو میں نے بطور ادیب محسوس کیا اور عملی طور پر اس کے حل کی چھوٹی سی کوشش شروع کیں۔ اپنے اسکول میں ایک لائبرری کارنر شروع کیا جہاں بغیر اندراج کے بچہ کوئی بھی رسالہ پڑھنے کے لیے لے سکتے ہیں۔اس ضمن میں بچوں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد۔ بچوں کے لکھے گئے مواد کو ویب سائٹ اور بلاگز پر شائع کرنا۔
سراج عظیم : مگر آپ مختلف عمر کے زمروں میں تدریسی ادب کو بانٹتے ہیں۔ تین سے پانچ سال، چھ سے گیارہ سال، بارہ سے سولہ سال اس تفریق کے ساتھ نصاب بھی تیار کرتے ہیں۔ تو ادب اطفال میں کیوں نہیں؟
خواجہ کوثر حیات : قومی تعلیمی پالیسی کے تحت نصاب تمام بچوں کو مد نظر رکھ کر عمر کے زمروں کے لحاظ سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ جس میں ذہین، اوسط اور کمزور شامل ہوتے ہیں۔ مگر ادب اطفال کے طرف یہ مجموعی تعداد راغب نہیں ہوتی ہیں۔ اس کی بہ نسبت دلچسپی رکھنے والے بچے ہی رجوع ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر ادب اطفال نصاب کا حصہ نہیں ہوتا۔ جب بچے کو اردو پڑھنا لکھنا آجاتا ہے اس کے بعد اس میں اردو زبان سے محبت کا جذبہ پروان چڑھانے کے لئے کارگر ثابت ہوتا ہے۔ آپ ادب میں جتنے چیلینجیز پیش کریں گے بچوں کے لیے وہ ادب اتنا ہی دلچسپ بنے گا۔
سراج عظیم : آپ نے کہا کہ اپنی تحریروں سے قاری پیدا کرنا۔ کیا یہ کام یعنی اردو کا معصوم قاری، کتب بینی پر مرکوز بچہ ایک مدرس آسانی سے پیدا کرسکتا ہے بہ نسبت ایک ادیب کے۔ اس میں کسی حد تک ماں کا بھی اہم کردار ہوسکتا ہے۔ آپ چونکہ ایک معلمہ اور ماں دونوں حیثیتیں رکھتی ہیں۔ آپ کا جواب؟
خواجہ کوثر حیات : آپ کی بات سے متفق ہوں معلم کا کام ہی سیکھانا ہے مگر اس کے لیے خالص جذبہ کی بھی ضرورت ہے تب ہی آپ یہ توقع رکھ سکتے ہیں۔آج یہ جذبہ کم ہوگیا ہے۔ اچھا معلم ہمیشہ بچوں کو آگے بڑھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ مگر میری یہ درخواست تھی کہ کہ اگر اس میں ادیب بھی شامل ہوجائے تو شاید مزید بہتر نتائج سامنے آئے۔
آپ کا اگلا سوال ماں کی تربیت۔ تو بیشک بچوں کی تربیت میں ماں کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ کم عمری سے ہی بچوں کے سامنے کتابوں کا استعمال کیا جائے۔ اس کی اہمیت ذہن میں بٹھائی جائے تو یہ کام گھر سے ہی شروع ہوجائے گا۔
سراج عظیم : بہرحال ابھی اس بحث کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔ کیوں کہ یہ طویل ہو جائے گی۔ مگر یہ تو ہے کہ بچوں کا ادب بچہ کی ذہنی استعداد اس کی دلچسپی کے مطابق ہونا چاہئے۔ آج کے صارفیت کے دور میں بچوں کا ادب اردو کے حوالے سے کہاں کھڑا ہے۔
خواجہ کوثر حیات : ادب ایسا ہو جو بچہ کے تجسس کی تشفی کرے۔ آج ادب اطفال اپنا منفرد مقام رکھتا ہے جہاں ہمیں انصار احمد معروفی صاحب کی تخلیقات کے ذریعہ احادیث ملتی ہیں۔ وہیں سراج عظیم صاحب کی کہانیوں سے اخلاقی درس۔ حافظ کرناٹکی صاحب کے پاس رباعیات کا خزانہ ہے بچوں کے لیے تو متین اچل پوری صاحب راج آفریدی صاحب کے پاس درس دیتی دلچسپ کہانیاں و نظمیں۔ اسی طرح رفیع الدین ناصر صاحب کی سائنس پر جہاں 37/ کتابیں شائع ہوچکی وہیں حاطب صاحب، حسنین صاحب اور ودود صاحب اسی طرح شاہ تاج صاحبہ کی سائنس، ریاضی اور جغرافیہ کا احاطہ کرتی کتابیں۔ وہیں ابن آس صاحب کی ماورائی ناولوں کے سلسلے کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ادب اپنی بہتر رفتار سے گامزن ضرور ہے بس بچوں کی جبلتوں کے لحاظ سے اسے اور پرکشش و دلچسپ بناکر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
سراج عظیم : ہم یہی کہہ رہے تھے اور برابر کہتے ہیں کہ کتابوں سے دوری بچوں کا قصور نہیں ہے اس میں کسی حد بچہ کی پہلی درسگاہ ماں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ خیر۔ آپ نے چونکہ بچوں کے لئے بچپن سے تحریک پاکر لکھنا شروع کیا ہے۔ بچپن کا کردار عصر حاضر میں ادب اطفال کے تناظر میں۔ دوسرے آپکی پہلی بچوں کے ادب میں تصنیف کب شائع ہورہی ہے؟
خواجہ کوثر حیات : بچپن جناب سراج عظیم صاحب کا بنایا عالمی سطح کا وہ پلیٹ فارم ہے جہاں انھوں نے برصغیر کے علاوہ کئی مغربی ممالک کے تخلیق کاروں کو جوڑا ہے جس پر بلاناغہ نثرونظم ہر دو صورت میں تخلیقات بیش کی جاتی ہیں یہی نہیں بلکہ ان تخلیقات کے لیے قابل ستائش اقدام یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم پر اخبار و رسائل کے ذمہ داران کو بھی جوڑا گیا ہے۔ جہاں بچپن پر پیش کی گئی تخلیقات تواتر سے شائع ہوتی ہیں۔ اس تعمیراتی کام کے لیے میں سراج عظیم صاحب کو پر خلوص مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ آپ نے کئی اخبارات میں نہ صرف بچوں کا ادبی صفحہ شروع کروایا ساتھ ہی کئی صفحات کو آپ خود ترتیب بھی دیتے ہیں۔
ہم نے اپنے بچپن میں چند رسائل پڑھیں جن میں کھلونا، نور، گل بوٹے کا کردار رہا مگر آج یہ روشن باب ہے کہ جہاں لازوال، نیا نظریہ، الحیات،قومی صحافت، اورنگ آباد ٹائمز،ایشیا ایکسپریس، صدائے بسمل، چار سدہ نیوزاور معیار،ممبئی جیسے اخبارات اور بچوں کی دنیا،نئی دہلی، امنگ، پھول، جنت کے پھول اور دیگر کئی رسائل نے خصوصی توجہ اور دلچسپی سے ادب اطفال کے لئے صفحات مخصوص کیے اس کے باعث میں سمجھتی ہوں ادب اطفال میں بہترین ذخیرہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ جس میں ذمہ داران کے ساتھ آپ (سراج عظیم صاحب) کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔