خبریں سیاسی

کولکتا میں اساتذہ کی تقرری کی منسوخی از سلمان عبد الصمد

.

کولکاتا میں اساتذہ کی تقرری کی منسوخی!
سلمان عبدالصمد

انتخابی ہلچل کے درمیان کولکاتاہائی کورٹ نے مغربی بنگال اسکول سروس کمیشن کے اساتذہ کی تقرریوں کو منسوخ کر دیا ہے۔اس خبر سے جہاں خیمہئ اساتذہ میں سراسیمگی کی فضا پائی جارہی ہے،وہیں ماہرین تعلیم تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ کیوں کہ آج کل تعلیمی بورڈوں کی منسوخی کا معاملہ عروج پر ہے۔ چند برس قبل آسام مدرسہ بورڈ کو معطل کردیا گیا تھا۔ اسی نظیر کے مدنظر یوپی میں مدرسہ بورڈ کو تحلیل کرنے کا حکم جاری ہوا تھامگر اس مسئلے میں سپریم کی مداخلت کام آئی۔ کولکاتا میں اساتذہ کی تقریری کی منسوخی کا معاملہ میڈیا کے گلیاروں میں بھی گردش کررہا ہے۔ کیوں کہ اس کا تعلق کہیں نہ کہیں سیاست سے ہے۔ حقیقی معنوں میں ان تمام معاملات کی وجہ سے انتخابی ماحول گرم ہوگیا ہے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں جن کی ملازمت پرتلوار لٹکی ہوئی ہے۔ اگر وہ اور ان کی پارٹی سپریم کورٹ جاتی ہے تو شاید بنگال میں اساتذہ راحت کی سانس لے سکیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے چند فیصلوں سے عدالت پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی مدرسہ بورڈ کو غیر آئینی قرار دیا تھاتو بہت سے لوگ سکتے میں تھے۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔ مدارس کے مستقبل پر پیشین گوئیاں کی جارہی تھیں لیکن کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت عالیہ نے طالب علم کے مستقبل اور اساتذہ کی ملازمتوں کی حساسیت کو محسوس کیا اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی گئی۔
اساسی طور پر مغربی بنگال میں اساتذہ کی ہونے والی منسوخی کے تین پہلو ہیں: سیاسی فائدہ، اساتذہ اور طلبہ کا مستقبل، اور رشوت کے مسائل۔علی الترتیب ان امور پر گفتگو مناسب ہے۔
اول،سیاسی فائدہ: درحقیقت تمام سیاسی پارٹیاں اپنے مقاد کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی مدرسہ بورڈ کے معاملے پر کام کر رہی تھی۔ کیوں کہ ان کی نگاہ میں بورڈ کا قیام غیر آئینی تھا۔اس مسئلے پر ہائی کورٹ میں کچھ متحرک لوگوں کے درمیان مباحث ہوئے۔ قیامِ مدارس کے مقاصد کی توضیح کی گئی مگر مدرسہ بورڈ پر اعتراض کرنے والے حق تعلیم ایکٹ کی آڑ میں اپنے دلائل پیش کررہے تھے۔ شاید حکومت کے منشا کے مطابق ہائی کورٹ نے مدرسہ بورڈ کو غیر آئینی قراردیا۔ کیوں کہ کورٹ مسلم نمائندگان کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوسکی تھی۔حالاں کہ یوپی میں جس ایکٹ کے تحت مدرسہ بورڈ قائم ہے، اسی کے تحت سنسکرت بورڈ کام کررہا ہے۔ یہی سبب تھا کہ جب مسلم نمائندگان سپریم کورٹ پہنچنے اور انھوں نے معاملات کو پیش کیا تو ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی گئی۔ اس کا سیاسی نقصان بی جے پی کو ہوا کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملی۔ الیکشن سے عین قبل ایسا فیصلہ آیا تھا تو لوگ قیاس کررہے تھے کہ بی جے پی کا کافی فائدہ ہوگامگر جس سرعت سے سپریم کورٹ نے اس پر روک لگائی، اس سے یقینی طور پر بی جے پی کا نقصان ہی ہوگا۔کیوں کہ لوگوں کے ذہن میں بھی یہ بات آتی ہے کہ آخر زمانہ ئ الیکشن میں ہی ادارے غیر آئینی کیوں نظر آتے ہیں۔
عام انتخابات کے ا یک مرحلے کی ووٹنگ ہوچکی ہے۔اس کے نتائج ظاہر ہیں جون میں سامنے آئیں گے مگر لوگوں نے ابھی سے قیاس آرائیاں شروع کردیں کہ اس مرحلے میں بی جے پی کا نقصان ہوا ہے۔ شاید بی جے پی کوبھی اس کا احساس ہو۔ اس لیے شاید وہ دیگر حربے استعمال کرنے میں جٹ گئی۔ بنگال میں اساتذہ کی تقرری کی منسوخی کا معاملہ کسی نہ کسی سطح پر بی جے پی کے اسی حربے سے تعلق رکھتا ہے۔ انڈیا اتحاد سے الگ ہونے میں ممتا بنرجی کی کون سی مجبوری شامل تھی اس کا علم تو انھیں ہی زیادہ ہوگا۔ پھر بھی ممتا بنرجی اور این ڈی اے اتحاد کے درمیان ایک طرح رسہ کشی جاری ہے۔خاموش ناراضگی کا معاملہ ہے۔ پھراساتذہ کی تقرری کی منسوخی کا نقصان ممتا بنرجی کو ہوسکتا ہے۔ اس لیے بی جے پی نے ممتا کی ریاست کے اساتذہ کو پریشان کرکے خود ان کو پریشانی میں ڈال دیا۔ اس لیے ممتا بنرجی نے سپریم کورٹ جانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ جس طرح سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ بورڈ معاملے میں بی جے پی کا کھیل خراب کیا، اسی طرح اگر ممتا بنرجی کی پارٹی سپریم کورٹ جاتی ہے تو اس بار بھی بی جے پی کا کھیل خراب ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اکثر بی جے پی صحیح وقت پر کوئی فیصلہ نہیں لے پاتی ہے۔ کولکاتا میں اساتذہ کی تقرری کی منسوخی سے بی جے پی کو کتنا فائدہ ہوگا، یہ جون میں پتا چل جائے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج تعلیم کا مسئلہ سیاسی ہوتا جا رہا ہے۔
دو دن قبل پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار کالج کمیشن کو اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے انٹرویو کا عمل شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ کمیشن نے 2020 کی ویکنسی میں ریزرویشن روسٹرس کا خاص خیال نہیں رکھا تھا۔ اس لیے چند امیدواروں نے پٹنہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کورٹ نے کمیشن سے جواب طلب کیا۔ پھر کمیشن نے ریزرویشن پالیسی کے مدنظر نئی فہرست تیار کی جسے عدالت سے منظوری ملنے کے بعد انٹرویو کا راستہ صاف ہوچکا ہے۔گویا اب 27 مضامین کے امیدوارکی جان میں جان آئی۔ پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ این ڈی اے انٹرویو شروع کراکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ بہار کے ووٹروں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن کولکاتا ہائی کورٹ کا فیصلہ بی جے پی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔
دوم:اساتذہ اور طلبہ کا مستقبل: اسکولی تعلیم کا نظام حساس مسائل میں سے ایک ہے۔ کیوں کہ اس سے بچوں کا ہی نہیں، ملک کا مستقبل مربوط ہوتا ہے۔ظاہر ہے 25ہزار تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے متاثر ہونے سے اسکول کا تعلیم نظام ابتر ہوگا۔پھر آج ہم بے روز گاری کے مسائل سے پریشان ہیں۔ ایسی دردناک صورت حال میں ملازت کا ختم ہوجانا ناقابل فہم ہے۔ گویا پہلے ملازمت دی جاتی تھی۔ اب ملازمت مہیا کرانا تو دور، ملازمت ختم کرنے کی مہم سی چل گئی ہے۔ ملازمتوں کے بحران میں، ہمیں ملازمت کے مواقع پر توجہ دینی چاہیے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی۔ جمہوریت کا مقصد صرف الیکشن جیتنا نہیں۔ انتخابات ملک کے نظام کو برقرار رکھنے کا ایک منصفانہ عمل ہے۔ عدالت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کے مفادات سیاسی مفادات پر مقدم ہیں مگر آج تعلیمی معاملہ مکمل طور پر سیاسی ہوگیا اور سیاست داں ہی ماہرینِ سیاست بن بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے نئی تعلیمی پالیسی کو بھی سیاسی ایجنڈا بنادیا اور وہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔
سوم:رشوت کا مسئلہ: رشوت ہمارے معاشرے میں ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ کولکاتا ہائی کورٹ نے تقرری کی منسوخی میں رشوت کو اہم وجہ قراردیا ہے۔ اس معاملے کی تفتیش سی بی آئی کرے گی اور نہ جانے کب یہ معاملہ فیصل ہوگا۔ عدالت نے او ایم آر شیٹ کا از سر نو جائزہ لینے کی ہدایت دی ہے۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل امر ہے اور اس سے حکومت کے خزانے پر کتنا اثر پڑے گا۔ کیوں کہ 24ہزار اسامیوں کے لیے 23لاکھ امیدوار تھے۔ تعلیم یا اساتذہ کا مسئلہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ الیکشن کے فائدے کے لیے تعلیمی نظام کو خراب کرنا خود ملک سے کھلواڑ جیسا ہے۔ظاہر ہے اگر تعلیمی نظام متاثر ہوتا ہے ملک خود کمزور ہو نے لگے گامگر آج کچھ لوگ تعلیم کو صارفیت سے جوڑ رہے ہیں اور کچھ لوگ سیاست سے!

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu