تبصرے کتاب شناسی

زندہ زبان کا زندہ رسالہ “ثالث” از ڈاکٹر غلام نبی کمار

جی این کے اردو

زندہ زبان کا زندہ رسالہ ”ثالث“(عالمی افسانہ نمبر و سلور جوبلی نمبر) سہ ماہی”ثالث“ہندوستان کی سرزمین سے شائع ہونے والا ایک ایسا رسالہ ہے جو اپنے موضوع،مواد اور انتخاب میں یکتا ہے۔چونکہ ”ثالث“ کے 26/ شمارے منظر عام پر آئے ہیں اس لئے تازہ شمارہ سلور جوبلی نمبر کہلاتا ہے اور اس موقع پر ایک ایسی اشاعت عمل میں آئی ہے جو بیک وقت ہندوپاک کے قارئین کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔”ثالث“کی کامیابی کی ضمانت کا راز اس کے مدیر اعزازی پروفیسر اقبال حسن آزاد کے سر جاتا ہے۔جنھوں نے تن تنہا،بڑی دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ اس کی ترتیب اور اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ہندوستان سے عصر حاضر میں متعدد ادبی رسائل شائع ہوتے ہیں جن میں سرکاری رسائل کو چھوڑکچھ شخصیات کی ذاتی کوششوں کو سراہنا ہمارا اولین فریضہ ہے کیونکہ ان کی انفرادی کوششوں ہی کے سبب ہندوستان میں ادبی صحافت کی بنیاد مضبوط ہو رہی ہے۔وگرنہ اس مصروف ترین زندگی اور تیز رفتار دور میں ایک ادبی رسالے کی اشاعت کا ذمہ کون اٹھائے؟ جس میں خرچہ بہت ہو لیکن کمائی بالکل نہ ہو۔نیز وقت اور محنت کاتقاضا الگ سے اور ایک پارکھ کی نظر رکھنا لازمی ہے۔”ثالث“کے معاصر رسائل میں چند اہم ”انتساب“،”دربھنگہ ٹائمز“،”ادب سلسلہ“،”تمثیلِ نو“،”ادبی نشیمن“،پنج آب“،”انکور“،”عالمی میراث“،”جہانِ اردو“،”عالمی فلک“،”فکر و تحریر“،”اردو چینل“وغیرہ نام قابل ذکر ہیں۔ ”ثالث“ گذشتہ برسوں سے تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔اس کے کئی خاص نمبر اور گوشے شائع ہوئے۔”عالمی افسانہ نمبر“ سے قبل اس کا فکشن نمبر بھی شائع ہوا تھا جس پر راقم نے تبصرہ بھی کیا تھا۔اس کے سارے شمارے نہ صرف ضخامت کے لحاظ سے بلکہ معیار،مواد،موضوع اور انتخاب کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔چوں کہ ”ثالث“کے مدیر اعزازی پروفیسر اقبال حسن آزاد خود ایک ممتاز افسانہ نگار اور شاعر ہیں اس لئے وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ کس نوعیت کی تخلیقات رسالے کو زیب بخشتی ہیں۔اسی وجہ سے تخلیق کی اشاعت سے قبل وہ انتخاب پر زور دیتے ہیں۔یہ خاصیت”ذہن جدید“کے مدیر زبیر رضوی کے ہاں بھی پائی جاتی تھی جس کے سبب بعض لوگ اُن سے نالاں بھی رہتے تھے۔بہر حال ساری باتیں اپنی جگہ”ثالث“ شمارہ23تا 26مشترکہ شمارے کی شکل میں منصہ شہود پر آیا ہے جو 664صفحات پر مشتمل ہے۔ ”ثالث“ کے پیش نظر شمارے میں کل تینتالیس افسانے شائع کیے گئے ہیں جس میں سرحد کے اِ س پار اور اُس پار دونوں اطراف کے افسانہ نگاروں کو جگہ دی گئی ہے۔مدیر موصوف کے اندر یہ خاصیت ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے کہ وہ ادب کو ہندوستانی اور پاکستانی خانوں میں تقسیم کے خواہاں نہیں ہیں۔کیوں نہ ہو………. سرحدیں تقسیم ہو ئیں تو کیا ہوا،انسانیت،انسانی تقاضوں اور چاہتوں کے درمیان فاصلے پیدا کرنا آسان ہے کیا؟…. ان افسانوں کی ترتیب اوراشاعت سے صاف جھلکتا ہے کہ معیار کو خاص طور پر ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔اس میں شامل چند افسانوں میں ”نیاعالمی چیپٹر(نعیم بیگ)،”بار زیست“(محمد جاوید انور)،”تازہ ہوا کے شور میں“(حسن امام)، ”کووڈ کے ماتم دار“(ذکیہ مشہدی)،”ادھورے“(ہما فلک)،”کھیپ“(شاہین کاظمی)،”رکشہ والا“ (اقبال حسن آزاد)،”افسانہ ہائے خواب“(سید کامی شاہ)،”سرنگ کے راستے“(سبین علی)،”اندھیرے میں“(دلشاد نسیم)،”ایک دوپہر“(شاکر انور)،”تم“(احسان قاسمی)،’’درپرددہ“(عشرت ظہیر)،”عکس بر عکس“(شفقت محمود)،”مقدس سکہ“(محمد شاہد محمود)،”میری دلاری(فرحین جمال)،”مفاہمت کا عذاب“(اسرار گاندھی)،”تحفوں کی تھیلی“(ڈاکٹر صادقہ نواب سحر) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔یہ افسانے کووڈ کے دور میں فیس بک پر ایک افسانوی میلے میں انتخاب کی صورت میں شائع کیے گئے ہیں۔جن پر وہاں تبصرے بھی کیے گئے اور خوبیوں خامیوں کو بے حد خوبی سے اجاگر کیا گیا۔ان باتوں کا اظہار اقبال حسن آزاد نے ”اداریے“میں بھی کیا ہے۔انھوں نے ان تمام قلم کاروں کا بھی شکریہ کیا جن کا انھیں تعاون حاصل رہا اور جن کی وجہ افسانوی میلہ کامیاب ہو سکا تھا۔اس شمارے میں افسانوی نشست سے متعلق کچھ مضامین کو بھی جگہ ملی ہے جن میں ارشد عبدالحمید،اقبال حسن آزاد،خالد سعید /مکرم نیاز،ڈاکٹر ریاض توحیدی،سیدہ آیت گیلانی،ثمینہ سید،نوشی قیصر،ساجد ہدایت،عظیم اللہ ہاشمی کے مضامین اہمیت کے حامل ہیں۔مزید برآں پروفیسر حسین الحق کا خطبہ بھی شائع ہوا ہے جو انھوں نے افسانوی نشست کے وقت دیا تھا۔لیکن آج موصوف ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے (آمین)۔ افسانوں کے علاوہ اس شمارے میں حمد،نعت،نظم،غزلیں اور سلور جوبلی نمبر کے مضامین بھی شائع کیے گئے ہیں۔جن میں ”بہار کی بہار:خودنوشت کا ایک حصہ“(ڈاکٹر ابرار رحمانی)،”معاصر اردو فکشن:مسائل و امکانات“(پروفیسر صفدر امام قادری)،”اکیسویں صدی میں اردو افسانہ:بہار کے پس منظر میں“(ڈاکٹر اسلم جمشید پوری)،”افسانوی ادب کا ایک روشن ستارہ:عطیہ پروین“(ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خان) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ اس شمارے میں ”ثالث“ کے گذشتہ شماروں پر کیے گئے تبصرے اورتازہ مطبوعات پر تبصروں اور مکتوبات بھی شائع ہوئے ہیں۔ پونے سات سو صفحات پر مشتمل اس شمارے کے تمام افسانوں کوایمانداری کے ساتھ پڑھا جائے توکم از کم ایک ہفتہ درکار ہوگا اور اگر ان میں سے بعض پر رائے دینی ہو تو وہ مزید کچھ دن کا تقاضا کرتے ہیں۔البتہ یہ صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ”ثالث“میں شامل تخلیقات اور مضامین یقینا معیاری ہیں جو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں جب تک اقبال حسن آزاد جیسے بے باک،صاف گو،صحافی اور شاعر و ادیب موجود ہیں اس وقت تک بلاشبہ ادبی صحافت کے معیار کی خوب سے خوب تر کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔افسانہ نمبر شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن ”ثالث“ کے افسانہ نمبر کی دوسری نظیر نہیں ملتی۔82/افسانوں میں 43/افسانوں کا انتخاب اگرچہ ایک مدیر کے لئے مشکل نہیں ہے لیکن یہاں صرف مدیر حضرت کا عمل دخل نہیں رہا بلکہ افسانوی نشست میں شامل مبصرین اور افسانوی قارئین کی مجموعی رائے کو مد نظر رکھ کر آپ چنندہ افسانوں کو پڑھ پا رہے ہیں جو یقینا ایک قاری کوتشنگی کم کر سکتے ہیں۔میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ”ثالث“ ایک زندہ زبان کا زندہ رسالہ ہے جب تک اس جیسے رسالے نکلتے اور شائع ہوتے رہیں گے۔اردو زبان بھی اپنی تابندگی کا ثبوت دیتی رہے گی۔ڈاکٹر غلام نبی کمار

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ