اردو ادب غزل

حافظ کرناٹکی کی 50 غزلیں، پیش کش جی۔این۔کے اردو

GNK URDU ADABI DESK 30 APRIL 2024

غزل 

قافیئے خاک ہوئے اور ردیفیں جھُلسیں 

شعر کیا کہیے کہ افکار کی لہریں جھُلسیں 

مائیں جی پائیں نہ بچھڑے ہوئے بچوں کے بغیر 

پیڑ سے پھول ہوئے دور تو شاخیں جھُلسیں 

جانے کس آگ میں جلتا رہا مرنے والا 

جس کے تابوت میں ٹھونکی گئی کیلیں جھُلسیں 

میں نے دیکھے ہیں کئی ایسے دہکتے ہوئے خواب 

جن کو تعبیر نہیں مل سکی نیندیں جھُلسیں 

امتحاں جب کبھی شعلوں نے لیا سجدوں کا 

کیا بتاؤں کہ میں کتنوں کی جبینیں جھُلسیں 

پیاس جن سے نہ کبھی پیاسے پرندوں کی بجھی 

خشک وہ ندیاں ہوئیں اور وہ جھیلیں جھُلسیں 

اب عدالت میں بھی انصاف کہاں ہے ممکن 

رشوتیں گرمی دکھائیں تو دلیلیں جھُلسیں 

اپنی تقدیر میں ہے کرب و بلا صدیوں سے 

ہم تو پیاسے ہی رہے اور سبیلیں جھُلسیں 

چمچماتے ہوئے سورج سے ملا کر نظریں 

میں نے دیکھا ہے فضا میں کئی چیلیں جھُلسیں 

وہ دلہن جس نے دُلہا خود ہی چُنا تھا حافظؔ

اُس کے مہندی بھرے ہاتھوں کی لکیریں جھُلسیں 

٭٭٭

غزل 

جب بھی کاغذ پہ چلتا ہے میرا قلم 

خون دل کا اُگلتا ہے میرا قلم 

جو بھی لکھنا ہے لکھ کر ہی پاتا ہے چین 

کب روےّہ بدلتا ہے میرا قلم 

سچّے الفاظ شعلوں سے کچھ کم نہیں 

جن کو لکھ لکھ کے جلتا ہے میرا قلم 

رات کو روشنی بخشنے کے لئے 

چاند بن کر نکلتا ہے میرا قلم 

ظلم ہوتے ہوئے دیکھ سکتا نہیں 

تیغ و خنجر میں ڈھلتا ہے میرا قلم 

نیند آئے تو آئے مجھے کس طرح 

زیر تکیہ مچلتا ہے میرا قلم 

بے سہارا بھی ہے اور خود دار بھی 

خود ہی گرتا سنبھلتا ہے میرا قلم 

مرثیے لکھ کے ہوتا ہے ماتم کُناں 

گیت لکھ کر بہلتا ہے میرا قلم 

جھوٹ لکھنا ہو مدّ نظر جب کبھی 

چلتے چلتے پھسلتا ہے میرا قلم 

حافظمؔ آتش فکر میں روز و شب 

قطرہ قطرہ پگھلتا ہے میرا قلم 

٭٭٭

غزل 

آنکھیں نکال، درد کے منظر میں ڈال دے 

سکّے یہ نور کے کسی چادر میں ڈال دے 

یہ بوجھ لے کے پھرتا رہے گا کہاں کہاں 

جتنی بھی نیکیاں ہیں سمندر میں ڈال دے 

یہ نرم التماس کے لہجے کو ترک کر 

وہ چیخ بن شگاف جو پتھر میں ڈال دے 

یہ تاج ہی تو ہے کوئی دستار تو نہیں 

اس کو کسی فقیر کی ٹھوکر میں ڈال دے  

حافظؔ زمیں پہ کل جنہیں ہونا ہے رونما 

اُن سارے حادثوں کو مرے گھر میں ڈال دے 

٭٭٭

غزل 

میں جو چاہوں نظر آتا ہے اندھیرے میں مجھے 

معجزہ دل یہ دکھاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

اے مسیحا تُو مرا زخم نہ مرہم سے بجھا 

یہ دیا راہ دکھاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

جو خطا مجھ سے ہوئی ہے وہ خطا میری نہیں 

کوئی تو عاصی بناتا ہے اندھیرے میں مجھے 

میری تنہائی وہ کچھ بانٹ لیا کرتا ہے 

چاند جب سامنے پاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

سیکھ لے اس سے کوئی روشنی کرنے کا ہنر 

دل مرا جل کے جلاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

مجھ کو سورج کی مدد بھی نہیں ملنے پاتی 

چھوڑ کے سایہ ےُوں جاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

چھین لیتا ہے وہ خیرات عطا کر کے مدام 

کون اس درجہ ستاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

وہ میری ماں کا تصوّر ہے جو شب بھر اکثر 

تھپکیاں دے کے سُلاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

گھولتا ہے کوئی کانوں میں اُجالے میرے 

نغمہئ نور سُناتا ہے اندھیرے میں مجھے 

میرے بچپن کی طرح آج تلک اے حافظؔ

شور اذانوں کا جگاتا ہے اندھیرے میں مجھے 

٭٭٭

غزل 

پھر آج قتلِ خریدار ہونے والا ہے 

یہ حادثہ سرِ بازار ہونے والا ہے 

ابھی سے سوچ کے رکھ لو سزا ہمارے لئے 

ہماری سمت سے انکار ہونے والا ہے 

جو شخص سچ کے سوا بولتا نہیں کچھ بھی 

وہ جلد موت کا حقدار ہونے والا ہے 

میں دشمنوں کو خبردار کر کے مارتا ہوں 

سنبھل کے تجھ پہ مرا وار ہونے والا ہے 

وہ چاند آئے گا بادل کی اوڑھنی اوڑھے 

نصیب رات کا بیدار ہونے والا ہے 

تم اپنی زلف کی زنجیر کو نہ دو زحمت 

دل اپنا خود ہی گرفتار ہونے والا ہے 

ہمارے ملک میں ہے حکمرانی جھوٹوں کی 

یہاں جو سچ کہے سنگسار ہونے والا ہے 

اُسے تو عید کی خوشیاں بھی پھیکی لگتی ہیں 

جو تیری دید سے سرشار ہونے والا ہے 

خود آپ اپنے تحفّظ کے ذمہ دار ہیں ہم 

ہمارا کون مددگار ہونے والا ہے 

جہاں زباں سے نہ کچھ کام چل سکے حافظؔ

میرا قلم وہاں تلوار ہونے والا ہے 

٭٭٭

غزل 

لکھنا، پڑھنا کام ہے میرا 

چاروں طرف اب نام ہے میرا 

میں نے بنایا خود کو نشانہ 

مجھ پر ہی الزام ہے میرا 

بولتا ہوں میں سوچ سمجھ کر 

نَپا تُلا اقدام ہے میرا 

خالی میرے ہاتھ ہیں اب تک 

دیکھو یہ انعام ہے میرا 

فکرِ سخن میں گُم رہنا ہی 

مشغلہ صبح و شام ہے میرا 

روشن میرے نقشِ قدم ہیں 

ایک دیا ہر گام ہے میرا 

مجھ کو سُکوں دیتی ہے مشقّت 

محنت میں آرام ہے میرا 

پھولوں میں ہے عزّت میری 

کانٹوں میں کہرام ہے میرا 

علم کریں حاصل ہر صورت 

سب کو یہی پیغام ہے میرا 

اہلِ ادب سے پوچھو حافظؔ

کیا قیمت کیا دام ہے میرا 

٭٭٭

غزل 

جسم پہ جس کے بھی سَر ہو 

اُس کو میسّر اک گھر ہو 

چاند بنوں میں راتوں کا 

چلنا میرا مقدّر ہو 

قطرے کو وسعت جو ملے 

ظرف میں وہ بھی سمندر ہو 

میں دیوانہ کہلاؤں 

ہاتھ میں اُس کے پتّھر ہو 

کاش کچھ ایسا کر جاؤں 

تذکرہ میرا گھر گھر ہو 

ناممکن ہے ناممکن 

سینہئ گل میں پتھر ہو 

چھینے ہوئے ہر لقمے میں 

دانہ دانہ کنکر ہو 

اُس مالک کو نیک سمجھ 

شاداں جس کا نوکر ہو 

کاش جہاں میں ہر جانب 

خوشحالی کا منظر ہو 

ہر سچّا انساں حافظؔ

یکساں باہر اندر ہو 

٭٭٭

غزل 

راہ مشکل ہو تو چلنے کا مزا آتا ہے 

ٹھوکریں کھا کے سنبھلنے کا مزا آتا ہے 

حکم نمرود میں شامل ہو مدد رب کی تو پھر 

آتشِ عشق میں جلنے کا مزا آتا ہے 

میں بھی سادہ ہوں بہت سادہ سے پانی کی طرح 

مجھ کو ہر رنگ میں ڈھلنے کا مزا آتا ہے 

سیج گُل کی بھی کہاں دیتی ہے ویسا آرام 

گود ماں کی ہو تو پلنے کا مزا آتا ہے 

رات آتی ہے تو تنہائی کے تہہ خانے میں 

تیری یادوں سے بہلنے کا مزا آتا ہے 

بھوک کی آگ سے بچوں کو بچانے کے لئے 

صبح کو گھر سے نکلنے کا مزا آتا ہے 

یہ تو فطرت کا تقاضا ہے کہ پروانے کو 

عشق کی آگ میں جلنے کا مزا آتا ہے 

جن کی رگ رگ میں رواں زہر تعصب کا ہو 

ایسے سانپوں کو کچلنے کا مزا آتا ہے 

محفلِ شعر میں اک شمع کی مانند ہمیں 

ایک اک قطرہ پگھلنے کا مزا آتا ہے 

مرد کو بحرِ مصائب سے ہمیشہ حافظؔ

لڑکے موجوں سے نکلنے کا مزا آتا ہے 

٭٭٭

غزل 

گزر تو سکتی ہے عمر تمام گھر کے بغیر 

مزا سفر کا نہ آئے گا ہمسفر کے بغیر 

مری دعا کی کوئی قدر ہے نہ قیمت ہے 

ترے کرم کے بِنا اور ترے اثر کے بغیر 

کوئی بھی دیکھ نہ پائے گا چہرا سورج کا 

یہ انقلاب ہے ممکن کہاں؟ سحر کے بغیر 

چھِڑا فساد تو کوئی سبب رہا ہوگا 

لگی ہے آگ کبھی کیا کسی شرر کے بغیر؟ 

درخت سارے پسارے کھڑے ہیں خالی ہاتھ 

بہار آئی ہے اِس بار بھی ثمر کے بغیر 

ہمیں تو ٹھنڈی سی لگتی ہے صبح کی چائے 

کسی بھی تازہ سُلگتی ہوئی خبر کے بغیر 

یہاں مہک نہیں سکتے ہیں پھول کاغذ کے 

دیارِ فن میں چلے آئے ہو ہنر کے بغیر 

ہَوا کا زور پہاڑوں کو پیس دیتا ہے 

کرو نہ جرأتِ پرواز بال و پر کے بغیر 

پلٹ کے اُن کا اب آنا ہے غیر ممکن سا 

چلے ہیں جانبِ منزل جو راہبر کے بغیر 

تمہاری مانگ اَدھوری ہے آج بھی حافظؔ

خدا سے مانگنے بیٹھے ہو چشمِ تر کے بغیر 

٭٭٭

غزل 

میں دے چکا ہوں اُس کو نشانی مری غزل 

گائے گی روز ایک جوانی مری غزل 

کیا میرا لہجہ ہونے لگا ہے سدا بہار 

لگتی ہے کیوں نئی سی پرانی مری غزل 

وہ آسمانِ حسن کے سورج کی روشنی 

دریائے فکر و فن کی روانی مری غزل 

دامن میں اُن کے حسنِ تغزّل ہی آسکا 

تنقیدی چھلنیوں نے جو چھانی مری غزل 

بہلا سکے تمہیں تو سفر کا مزا ملے 

موسم سے ملتی جلتی سہانی مری غزل 

ہے کوئی جو قبول کرے یہ حقیقتیں 

چھلکا رہی ہے کتنے معانی مری غزل 

کیا کیا نہ اس کے واسطے میں نے کئے جتن 

کرتی رہی جو خون کو پانی مری غزل 

تم کوسنائی کل جو تھی غالبؔ نے میرؔ نے 

دہرا رہی ہے پھر وہ کہانی مری غزل 

اندازہ اُس کو ہوگا مرے درد و کرب کا 

جو بھی سنے گا میری زبانی مری غزل 

میں اک فقیرِ عشق ہوں حافظؔ ہے میرانام 

صدقہ ہے ترے حسن کا رانی مری غزل 

٭٭٭

غزل 

ترے جمال پہ مرنا مرے نصیب میں ہے 

جنوں کی حد سے گزرنا مرے نصیب میں ہے 

تو مجھ کو دیکھ کے مرا نصیب چمکا دے 

تری نظر سے سنورنا مرے نصیب میں ہے 

میں آفتاب کی مانند کش مکش میں ہوں 

یہ ڈوبنا یہ ابھرنا مرے نصیب میں ہے 

سفر ہے جاری و ساری تلاشِ منزل میں 

کہاں ابھی سے ٹھہرنا مرے نصیب میں ہے 

میں اجنبی ہوں یہاں اور بہت اکیلا ہوں 

خود اپنے سائے سے ڈرنا مرے نصیب میں ہے 

سمجھ لو پھول سے بچھڑی ہوئی مہک مجھ کو 

ہوا میں ڈھل کے بکھرنا مرے نصیب میں ہے 

میں چیخ پڑتا ہوں گرمی سے گرم موسم میں 

تو سردیوں سے ٹھٹھرنا مرے نصیب میں ہے 

مرے نُمو کی ہے رفتار سست اور دھیمی 

ٹھہر ٹھہر کے نکھرنا مرے نصیب میں ہے 

جوکام فرض ہوئے مجھ پہ روزِ اوّل سے 

عمل انہی پہ نہ کرنا مرے نصیب میں ہے 

جو وقت سامنے لاتا ہے آئے دن حافظؔ

وہ خاکے خون سے بھرنا مرے نصیب میں ہے 

٭٭٭

غزل 

میں نے غم تیرا زمانے سے چھپا رکھّا ہے 

اپنی پلکوں میں سمندر کو دَبا رکھّا ہے 

اب نہ پہنچیں گی کنارے پہ کسی کی چیخیں 

بادبانوں نے ہواؤں کو رُکا رکھّا ہے 

اے نئے دور کے فرعون ذرا ہوش میں آ 

میرے ہر ایک سپاہی نے عصا رکھّا ہے 

اپنی ٹوٹی ہوئی سانسوں کی مہک پھیلا کر 

میں نے اب تک ترے گلشن کوسجا رکھّا ہے 

چل ابھی بیٹھ کے آپس میں صفائی کرلیں 

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھّا ہے 

آپ تاروں کی تلاوت کے مخالف ہی سہی 

میری بینائی نے یہ فرض نبھا رکھّا ہے 

دل کی دھڑکن میں توازن سا ہوا ہے پیدا 

کس نے سینے پہ مرے دستِ حِنا رکھّا ہے 

ساری دنیا میں ملیں گے نہ تمہیں ہم جیسے 

بے وفائی کا صِلہ ہم نے وفا رکھّا ہے 

تیری ایک ایک ادا آج قلمبند ہوئی 

میں نے شعروں میں ترا حسن بسا رکھّا ہے 

آئینہ کتنا ہے عےّار نہ پوچھو حافظؔ

اپنا ہر عیب یہ ظالم نے چھپا رکھّا ہے 

٭٭٭

غزل 

اپنے سائے سے جو ڈر جاتے ہیں 

موت سے پہلے وہ مرجاتے ہیں 

ہر چکا چوند سے اِس دنیا کی 

کر کے ہم صرفِ نظر جاتے ہیں 

آسمانوں سے اُترتے ہیں عذاب 

جب گھڑے پاپ کے بھر جاتے ہیں 

جب دعاؤں کی ہَوا چلتی ہے 

ڈوبنے والے اُبھر جاتے ہیں 

جتنے الزام بنے ہیں اکثر 

بے گناہوں کے ہی سر جاتے ہیں 

اُن کو ہوتی ہے بلندی حاصل 

پستیوں میں جو اُتر جاتے ہیں 

نیند آتی ہی نہیں آنکھوں میں 

خواب پلکوں پہ بکھر جاتے ہیں 

اُن کی نظروں سے مِلا کر نظریں 

آئینے سارے سنور جاتے ہیں 

دن ڈھلا ڈوب رہا ہے سورج 

جتنے پنچھی ہیں وہ گھر جاتے ہیں 

پیڑ جو ہوتے ہیں خود رو حافظؔ

آپ خود ہی وہ نکھر جاتے ہیں 

٭٭٭

غزل 

چڑھتے ہوئے سورج سے ملایا کرو آنکھیں 

کتراؤ نہ گھبرا کے چُرایا کرو آنکھیں 

قید ان میں نہ کر پاؤ گے ہر نقل و حمل کو 

دروازوں پہ تم لاکھ لگایا کرو آنکھیں 

کرنی ہو اگر خواب کی پریوں کی زیارت 

تکیوں کے غلافوں میں چھپایا کرو آنکھیں 

ہر آدمی ہوتا نہیں حقدارِ عقیدت 

ہر شخص کی خاطر نہ بچھایا کرو آنکھیں 

رہنے دو ابھی اِن میں ذرا شرم کا پانی 

آنکھوں سے نہ یوں سب کی ملایا کرو آنکھیں 

ممکن ہے کہ لُٹ جائیں چراغوں سے اُجالے 

بہتر ہے کہ اشکوں سے جلایا کرو آنکھیں 

ہر کوئی جہاں سے تمہیں چھوٹا نظر آئے 

اتنی بھی بلندی پہ نہ لایا کرو آنکھیں 

مانا کہ ہر اک گھر سے ہے غائب کوئی یوسف ؔ

اِس غم میں نہ رو رو کے گنوایا کرو آنکھیں 

گر دیکھنا ہو تم کو نئے کل کا سویرا 

یوں بامِ فلک کو نہ دکھایا کرو آنکھیں 

حافظؔ نیا اندازِ سخاوت ہے ضروری 

جھولی میں ہر اندھے کی نہ ڈالا کرو آنکھیں 

٭٭٭

غزل 

لٹیروں کو قائد کہا جا رہا ہے 

قیادت کو نادم کیا جا رہا ہے 

مرے پاؤں خود رُک گئے چلتے چلتے 

کسی کا جنازہ چلا جا رہا ہے 

دھوئیں کی ہے منزل نہ کوئی ٹھکانہ 

اُڑا جا رہا تھا اڑا جارہا ہے 

اُدھر اُن کی نظریں کسی پرجمی ہیں 

اِدھر دل ہمارا جلا جارہا ہے 

ہیں حد درجہ پیاسے سیاسی درندے 

لہو بے بسوں کا پیا جارہا ہے 

ہے عیبوں کی بہتات جس کے ہنر میں 

اسے اہلِ فن میں گِنا جارہا ہے 

فلک پر پہنچنا اگر ہے تو ڈھونڈو 

زمیں سے ہی جو راستہ جا رہا ہے 

اُتر کر دُلہن کی ہتھیلی سے آخر 

کہاں جانے رنگِ حنا جارہا ہے 

فریب اِس قدر کھائے ہیں اس جہاں سے 

کہ سب سے بھروسہ اٹھا جارہا ہے 

فرشتے ہیں لکھنے میں مصروف حافظؔ

عمل اپنا اک اک لکھا جارہا ہے 

٭٭٭

غزل 

ہر ندی خشک ہے خالی مرا پیمانا ہے 

تشنگی آج تجھے صبر کئے جانا ہے 

انتہا دیکھو مرے ظرف کی میرے دل کی 

میں نے قاتل کو مسیحا کا بدل مانا ہے 

ترا بخشا ہوا ہر زخم ہے انعامِ وفا 

دردِ دل بھی تو ترے عشق کا نذرانہ ہے 

کوئی سن پایا نہ اِس کو کبھی انجام تلک 

کس قدر تلخ حقیقت مرا افسانہ ہے 

بدنصیبی سے مرے شعر اُسی نے نہ سنے 

جس کی جانب سے مجھے دادِ سخن پانا ہے 

کسی مرہم کسی شبنم کسی ہمدم کے بغیر 

میرے ہر زخم کو خود آپ ہی بھر جانا ہے 

کیسے پیپل کے درختوں سے کھجوریں نکلیں 

جیسا ہم بوتے ہیں ویسا ہی ہمیں پانا ہے 

پڑھنے والوں کے لئے پیش کیا کرتا ہوں 

یہ مرے شعر مری فکر کا نذرانہ ہے 

میں اکیلا ہی سزا کاٹ رہا ہوں اب تک 

میری تنہائی مرے واسطے تہہ خانہ ہے 

اجنبیت کی تڑپ ہے مرے دل میں حافظؔ

مجھ کو بِن میرے کسی نے نہیں پہچانا ہے 

٭٭٭

غزل 

یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے 

ہر کوئی گلے مل کر جذبات کو ڈستا ہے 

انسان حقیقت میں اور اس کے سوا کیا ہے؟ 

مہکی ہوئی مِٹی کا معصوم سا سپنا ہے 

سب دیکھتے رہتے ہیں آئینے میں چہرے کو 

میں نے مرے چہرے میں آئینے کو دیکھا ہے 

جس لفظ کو تم اکثر بے مایہ سمجھتے ہو 

دیکھو تو وہ قطرہ ہے سمجھو تو وہ دریا ہے 

مصنوعی دکھاوا ہے اک زخم کا مٹ جانا 

یہ پھول ہے ایسا جو مرجھا کے نکھرتا ہے 

اک رمز ہے یہ ہستی اک راز ہے یہ دنیا 

ہم سمجھیں بھلا کیسے پردے پہ بھی پردا ہے 

آنکھوں کے مقابل تو بے لاگ مناظر ہیں 

نظروں کو کوئی منظر مشکل ہی سے جچتا ہے 

ایمان کی راہوں پہ خطرہ ہے لٹیروں کا 

ہر سمت نظر رکھنا ہر گام پہ دھوکا ہے 

اس کذب کی وادی میں آساں نہیں سچ کہنا 

سوچوں پہ ہے پابندی افکار پہ پہرا ہے 

وہ تجربے جو حافظؔ حاصل ہوئے دنیا سے 

میں نے انہیں چن چن کے شعروں میں پرویا ہے 

٭٭٭

غزل 

دور گھر سے غمِ غربت نہیں کرنے دیتے 

میرے بچے مجھے ہجرت نہیں کرنے دیتے 

کتنے سفّاک و ستمگر ہیں یہ دنیا والے 

مجھ کو حاصل مری جنت نہیں کرنے دیتے 

روز مرّہ کے مسائل ہیں بڑے ہی کافر 

یہ مسلماں کو عبادت نہیں کرنے دیتے 

قاتلوں کو یہاں حاکم کی سند ملتی ہے 

لوگ ولیوں کو حکومت نہیں کرنے دیتے 

بے ارادہ جو کبھی ہم سے ہوئے ہیں سرزد 

وہ گنہ خواہشِ جنت نہیں کرنے دیتے 

بارہا توڑا گیا ہے اسے شیشہ کی طرح 

دل کے ٹکڑے کوئی حسرت نہیں کرنے دیتے 

دیکھ کر درد کی گرمی سے پگھلتی پلکیں 

اشک آنکھوں سے بغاوت نہیں کرنے دیتے 

مبتلا اپنے غموں میں وہ مجھے رکھتے ہیں 

مجھ کو خوشیوں میں جو شرکت نہیں کرنے دیتے 

کام آئیں گے بہت ہم کو منا کر رکھ لو 

ہم جو بگڑیں تو حکومت نہیں کرنے دیتے 

میرے بازو مرے خود دار معاون حافظؔ

مجھ کو اظہارِ ضرورت نہیں کرنے دیتے 

٭٭٭

غزل 

مرا طریقِ محبت زمانے والا نہیں 

تمہاری یاد میں دل سے بھلانے والا نہیں 

گزرتے وقت سے کچھ کم نہیں اَنا میری 

میں چل پڑوں تو پلٹ کر پھر آنے والا نہیں 

بسے بسائے گھروں کو اُجاڑتے ہیں سبھی 

پرندہ بن کے کوئی گھر بسانے والا نہیں 

تُو بھاگنے پہ بضد ہے میں غور کرنے پر 

یہ اعتذار مری جاں بہانے والا نہیں 

یہ روٹھنے سے ذرا پہلے جان کر رکھ لو 

یہاں پہ کوئی کسی کو منانے والا نہیں 

تمام شہر کو بانٹی تھی روشنی جس نے 

لحد پہ اُس کی دیا تک جلانے والا نہیں 

کمانی پڑتی ہیں بیساکھیاں شرافت کی 

گریں نظر سے تو کوئی اٹھانے والا نہیں 

نہ لوں گا میں تری خیرات کی خوشی ظالم 

میں اس طرح سے کبھی مسکرانے والا نہیں 

زمانہ ہوگیا ملّت کو اپنی سوئے ہوئے 

ہمیں تو شورِ قیامت جگانے والا نہیں 

الاپتے ہیں سبھی اپنا راگ اپنا ہی حافظؔ

ہمارے سُر میں کوئی سُر ملانے والا نہیں 

٭٭٭

غزل 

اُتار پھینکوں بدن یہ قبا بدل جاؤں 

بتا میں تیرے لئے اور کیا بدل جاؤں 

کئی دنوں سے یہ اصرار ہے طبیعت کا 

کہ شہر چھوڑ دوں آب و ہوا بدل جاؤں 

کبھی کبھی مری شدّت پسندی کہتی ہے 

ہر ایک چیز میں تیرے سِوا بدل جاؤں 

دعا اثر نہ دکھائے دَوا نہ کام کرے 

بس اتنی بات پہ کیسے خدا بدل جاؤں 

گھٹا کی اوڑھنی اوڑھے بہار آئے گی 

کھِلے جو دھوپ تو یہ سوچ کیا بدل جاؤں 

یہ احتجاجی روش ہے مری جڑوں کی مہک 

تو چاہتا ہے یہ فطری ادا بدل جاؤں 

ترس کے مانگوں تجھے میں تیرے تصوّر سے 

جو سامنا ہو کبھی مدّعا بدل جاؤں 

شکار ہوتا رہوں حادثوں کا میں کب تک 

بھلا اسی میں ہے میں راستہ بدل جاؤں 

ہمیشہ اٹھتا ہو جس سے دھواں تعصّب کا 

میں سارے شہر سے ہر وہ دیا بدل جاؤں 

جتائی جائے نہ کم ظرفی مجھ سے اے حافظؔ

وہ بے وفائی کرے میں وفا بدل جاؤں 

٭٭٭

غزل 

جئے تو ایسے جئے ہم کہ جان سے گزرے 

کسی کے واسطے ہر امتحان سے گزرے 

گزشتہ یاد کا سورج طلوع ہوتے ہی 

زمیں پہ چلتے ہوئے آسمان سے گزرے 

اُس ایک دن کی تمنّا ہے برقرار ابھی 

جو اِس جہان میں امن و امان سے گزرے 

چلے جو ہم تو تعاقب کیا گیا اپنا 

نظر کے تیر بھوؤں کی کمان سے گزرے 

وقوع ہوں گے وہ اک دن یقیں کی سرحد پر 

جو حادثے مرے وہم و گمان سے گزرے 

ذرا سا سچ کبھی کہنے کی یہ سزا پائی 

عدالتوں میں پہنچ کر بیان سے گزرے 

ڈرا سکا نہ کوئی انتباہ ہم کو کہ ہم 

شدید خطرے کے ہر اک نشان سے گزرے 

اِدھر تھی دولتِ دنیا اُدھر تھی دعوتِ عیش 

ہمارا ظرف تھا ہم درمیان سے گزرے 

یوں سہل کرلیا ہم نے سمندروں کا سفر 

ڈھلے ہواؤں میں اور بادبان سے گزرے 

مطالعہ کیا ساری کتابوں کا حافظؔ

نظر میں نور ڈھلا جب قرآن سے گزرے 

٭٭٭

غزل 

جئے تو ایسے جئے ہم کہ جان سے گزرے 

کسی کے واسطے ہر امتحان سے گزرے 

گزشتہ یاد کا سورج طلوع ہوتے ہی 

زمیں پہ چلتے ہوئے آسمان سے گزرے 

اُس ایک دن کی تمنّا ہے برقرار ابھی 

جو اِس جہان میں امن و امان سے گزرے 

چلے جو ہم تو تعاقب کیا گیا اپنا 

نظر کے تیر بھوؤں کی کمان سے گزرے 

وقوع ہوں گے وہ اک دن یقیں کی سرحد پر 

جو حادثے مرے وہم و گمان سے گزرے 

ذرا سا سچ کبھی کہنے کی یہ سزا پائی 

عدالتوں میں پہنچ کر بیان سے گزرے 

ڈرا سکا نہ کوئی انتباہ ہم کو کہ ہم 

شدید خطرے کے ہر اک نشان سے گزرے 

اِدھر تھی دولتِ دنیا اُدھر تھی دعوتِ عیش 

ہمارا ظرف تھا ہم درمیان سے گزرے 

یوں سہل کرلیا ہم نے سمندروں کا سفر 

ڈھلے ہواؤں میں اور بادبان سے گزرے 

مطالعہ کیا ساری کتابوں کا حافظؔ

نظر میں نور ڈھلا جب قرآن سے گزرے 

٭٭٭

غزل 

دل لگانا بھی تڑپنا بھی، بچھڑ جانا بھی 

اُس کی عادت ہے جُدا ہوکے ستم ڈھانا بھی 

زندگانی کا سفر اُس کے لئے آساں ہے 

سیکھ لیتا ہے جو خود گر کے سنبھل جانا بھی 

اپنی قسمت کا ہے محکوم سمندر کا نہیں 

موج سے موج کا ملنا یا بچھڑ جانا بھی 

لب دعا کو نہ کھُلیں ہاتھ دُعا کو نہ اُٹھیں 

کام کیا آئے گا اُس موڑ پہ پچھتانا بھی 

ایک اک لفظ میں معنی کی بسا کر دنیا 

کھیل بچّوں کا نہیں دادِ سخن پانا بھی 

صرف اعمال سے، اخلاص سے، اور کوشش سے 

ڈھالا جا سکتا ہے مسجد میں صنم خانہ بھی 

دیکھنے والے بدل دیتے ہیں پہچان مری 

اُن کے آگے میں حقیقت بھی ہوں افسانا بھی 

ہو خدا ایسا، بُرے وقت مدد کو آئے 

کام کیا آئے گا اک سنگ سے ٹکرانا بھی 

دل ہو سینے میں تو مشکل بھَلا لگتا ہے کیا

بن کے اپنا کسی بیگانے کو اپنانا بھی 

دل کے ہر زخم کو کردیتا ہے تازہ حافظؔ

چند بھولے ہوئے اسباق کو دہرانا بھی 

٭٭٭

غزل 

ہر دہن میں زبان میری ہے 

چار سُو داستان میری ہے 

کیا کسی سے موازنہ ہو مرا 

میری حد میں اُڑان میری ہے 

تیر جتنے بھی چل رہے ہیں یہاں 

اُن کے پیچھے کمان میری ہے 

جی رہا ہوں کہ مجھ کو جینا ہے 

جسم سے دور جان میری ہے 

میں کھلونا ہوں اُس کھلاڑی کا 

جس کے قبضے میں جان میری ہے 

سنگ کے تاجروں کی بستی میں 

آئینوں کی دُکان میری ہے 

میرا بستر نہیں ہے نرم اتنا 

سخت جتنی تکان میری ہے 

اپنے کانوں کی باز گشت سنو 

گُم انہیں میں اذان میری ہے 

آپ کو دولتیں مبارک ہوں 

فکر و فن سے ہی شان میری ہے 

فکر کے شہر میں ابھی حافظؔ

منفرد آن بان میری ہے 

٭٭٭

غزل 

ترک کر دو رنگ برنگی عادتیں 

لازمی ہیں سیدھی سادھی عادتیں 

اپنے اندر کے ہیں ہم مارے ہوئے 

دشمنِ جاں ہیں ہماری عادتیں 

اُلجھی اُلجھی زندگانی کا علاج 

کرسکیں گی سلجھی سلجھی عادتیں 

کیوں نہ دیکھے گا وہ اچھائی کے دن 

جس نے اپنالی ہیں اچھی عادتیں 

کس طرح مثبت نتیجہ لائیں گی 

بے طرح، بے کار، منفی عادتیں 

ٹھوکریں کھا کے گروگے کیا یونہی 

کیا نہیں بدلو گے اپنی عادتیں 

جس قدر ہو پائے جلدی چھوڑ دو 

زندگی برباد کرتی عادتیں 

میں نے دیکھی ہیں دکھائی دیں مجھے 

ہر کسی میں مختلف سی عادتیں 

کیسے چل پائے اٹھا کر اتنا بوجھ 

ایک انساں ڈھیر ساری عادتیں 

لکھتے رہنا، پڑھتے رہنا حافظمؔ

بس یہی تو دو ہیں میری عادتیں 

٭٭٭

غزل 

تخت و تاج بکتے ہیں اقتدار بکتا ہے 

مال ہے یہ بکنے کا بار بار بکتا ہے 

قیمتیں بڑھاتی ہے رات بکنے والوں کی 

اونچے اونچے داموں میں انتظار بکتا ہے 

قیسؔ اور رانجھاؔ کے اشک رائیگاں ٹھہرے 

ایک مسکراہٹ پر آج پیار بکتا ہے 

آج کل بھروسے کا مول ہی نہیں کوئی 

وعدے توڑے جاتے ہیں اعتبار بکتا ہے 

صرف مفلسوں کی ہی بولیاں نہیں لگتیں 

موقع ہاتھ آتے ہی مالدار بکتا ہے 

سخت تر ارادے بھی پانی پانی ہوتے ہیں 

بے بسی کے موسم میں اختیار بکتا ہے

سازشی وزیروں کی اندرونی سازش سے 

بھولے بادشاہوں کا افتخار بکتا ہے 

باغباں کی نےّت میں کچھ فتور آتے ہی 

پھول سُوکھ جاتے ہیں اور نکھار بکتا ہے 

ہر طرف ہے ایماں کا کاروبار زوروں پر 

بک رہے ہیں پنڈت بھی دیندار بکتا ہے 

لڑکھڑانے لگتے ہیں چند پاؤں بھی حافظؔ

رات گہری ہوتے ہی جب خمار بکتا ہے 

٭٭٭

غزل 

جیتنا ہو تو ہارنا سیکھو 

نفس کو اپنے مارنا سیکھو 

گھر کے طوفان میں مسائل کے 

حوصلوں کو اُبھارنا سیکھو 

سب میں مل جاؤ سب میں گھُل جاؤ 

آب کا رُوپ دھارنا سیکھو 

لب پہ آئے کبھی نہ غیر کا نام 

صرف رب کو پُکارنا سیکھو 

زخم جتنے ملے ہیں تم کو انہیں 

آنسوؤں سے نکھارنا سیکھو 

زندگی اک حسیں امانت ہے 

اس کو ہر پل سنوارنا سیکھو 

قرض کے بیکراں سمندر کو 

قطرہ قطرہ اتارنا سیکھو 

شاخِ اُمّید کو رکھو سر سبز 

اور خزاں کو بہارنا سیکھو 

مرتبہ بخشتا ہے یہ جذبہ 

خود کو اوروں پہ وارنا سیکھو 

روز و شب کو مری طرح حافظؔ

فکر و فن میں گزارنا سیکھو 

٭٭٭

غزل 

ساتھ ساتھ چلنے کا فیصلہ بدل دیجئے 

ہمسفر لٹیرا ہے راستہ بدل دیجئے 

دل جلانے والا کل گھر جَلا بھی سکتا ہے 

جس سے گھر کو خطرہ ہو وہ دیا بدل دیجئے 

جو حسین چہروں کو داغدار کرتا ہو

سنگسار کر کے وہ آئینہ بدل دیجئے 

دیکھئے مرے دل کی تیز ہوگئی دھڑکن 

آپ اپنی نظروں کا زاویہ بدل دیجئے 

جو بہار کانٹوں کی فصل لے کے آتی ہو 

اُس کو موڑیئے اُس کا راستہ بدل دیجئے 

چل رہے ہیں مدّت سے پا نہیں سکے منزل 

اب تو مہربانی سے رہنما بدل دیجئے 

اس نے آج تک مجھ کو فائدہ نہ پہنچایا 

آپ اپنا دیرینہ مشورہ بدل دیجئے 

پھر یہی دُعا میرے کام آ نہیں سکتی 

بد دعا ہی دے دیجے یہ دعا بدل دیجئے 

آسماں ہو یا آنچل دونوں ایک جیسے ہیں 

شرط ہے تحفّظ تو آسرا بدل دیجئے 

آئیے نہ جانے کا عزم لے کے اب حافظؔ

روز آنے جانے کی یہ ادا بدل دیجئے 

٭٭٭

غزل 

دیکھنا میری دعاؤں میں اثر آئے گا 

تیری آنکھوں میں میرا خون اُتر آئے گا 

عشق اک دریا ہے پانی کا ہو یا آگ کا ہو 

اِس سے گزرو تو جدائی کا بھنور آئے گا 

جتنے الزام تھے سب مجھ پہ لگائے تم نے 

اب بچا کیا ہے بھلا کیا مرے سَر آئے گا 

اپنے اعمال کا دھن تن پہ کفن کا ٹکڑا 

ساتھ میں بس یہی سامانِ سفر آئے گا 

فتح کا سلسلہ چلتا رہے قائم بھی رہے 

ورنہ جو زیر ہوا بن کے زبر آئے گا 

کیا خبر تھی کہ محبت ےُوں دکھائے گی اثر 

کل جو آنکھوں میں تھا وہ دل میں بھی دَر آئے گا 

رکھ سکے گا کوئی بچّہ نہ جوانی میں قدم 

بددعاؤں میں اثر ماں کی اگر آئے گا 

موت سے پہلے ہی مرتے ہوئے دیکھو گے اُسے 

خوف جس شخص کی نس نس میں اُتر آئے گا 

جو بھی مزدور ہے دن ڈھلتے ہی وہ بے چارہ

جسم پر اپنے تھکن اوڑھ کے گھر آئے گا 

میں نے دشمن کو مرے بخش دیا ہے حافظؔ 

میرے بچّوں میں بھی کیا کل یہ ہنر آئے گا 

٭٭٭

غزل 

دلوں میں خوف ڈالا جارہا ہے 

ہمیں گھر سے نکالا جارہا ہے 

جہاں میں جا نہیں پایا وہاں تک 

مرے فن کا اُجالا جارہا ہے 

کسی کی ہولیاں رنگین کرنے 

ہمارا خوں اُچھالا جارہا ہے 

جہاں تعمیر کی خُو بُو نہیں ہے

وہاں مکڑی کا جالا جارہا ہے 

چڑھی ہے بھوک کی ہانڈی کہیں پر 

کہیں فاقہ اُبالا جارہا ہے 

سُنا ہے ایک سُوئی گر گئی تھی 

سمندر کو کھنگالا جارہا ہے 

مسائل دن بدن بڑھنے لگے ہیں 

مسلسل ہم کو ٹالا جارہا ہے 

اندھیروں کی حکومت ہے تو ڈر کے 

چراغوں سے اُجالا جارہا ہے 

زمیں پر ہاتھ اٹھائے ہم کھڑے ہیں 

فلک پر اپنا نالہ جارہا ہے 

عقائد کا پِلا کر دودھ حافظؔ

یہاں سانپوں کو پالا جارہا ہے 

٭٭٭

غزل 

میں اک جنّت بنانا چاہتا ہوں 

تمہیں اُس میں بسانا چاہتا ہوں 

مرے شعروں میں ڈھل جاؤ خدارا 

میں تم کو گنگنانا چاہتا ہوں 

مجھ کو بس تمہاری ہے ضرورت 

میں کب سارا زمانہ چاہتا ہوں 

چھپا لو مجھ کو زلفوں کی گھٹا میں 

تمہارا قُرب پانا چاہتا ہوں 

ذرا دروازہ کھولو اپنے دل کا 

مسافر ہوں ٹھکانا چاہتا ہوں 

ملے گی اک نہ اک دن کامیابی 

تمہیں تم سے چُرانا چاہتا ہوں 

کبھی تم اپنے خوابوں میں بُلا لو 

کہ ملنے کا بہانا چاہتا ہوں 

رہو تم ہی مری نظروں کے آگے 

یہی منظر سہانا چاہتا ہوں 

نگاہیں تو کبھی کی مِل چکی ہیں 

میں دل سے دل ملانا چاہتا ہوں 

بٹھا کر سامنے تم کو میں حافظؔ

مری غزلیں سنانا چاہتا ہوں 

٭٭٭

غزل 

جب قیامت کا اعلان ہوجائے گا 

ختم جینے کا امکان ہوجائے گا 

پیدا کچھ ایسے حالات ہوجائیں گے 

بچہ بچہ مسلمان ہوجائے گا 

جب سیاست میں ہوجائے گا داخلہ 

اک بھکاری بھی دھنوان ہوجائے گا 

روپ لے کر خزاں کا بہار آئے گی 

ہر گلستاں بیابان ہوجائے گا 

جب گھڑی سر پہ تقسیم کی آئے گی 

گھر لڑائی کا میدان ہوجائے گا 

ایک دن موت کو موت آجائے گی 

زندگانی کا بحران ہوجائے گا 

اُس کے ماتھے پہ رکھ دو بھروسے کا تاج 

وہ لٹیرا نگہبان ہوجائے گا 

جب کرے گا مصائب کا وہ سامنا 

آدمی جو ہے انسان ہوجائے گا 

ہوگا منسوب جب یہ ترے نام سے 

معتبر میرا دیوان ہوجائے گا 

جب دعاؤں میں آئے گا حافظؔ اثر 

میری بخشش کا سامان ہوجائے گا

٭٭٭

غزل 

آپ کیا ہمسفر ہوگئے 

راستے مختصر ہوگئے 

مجھ کو ہنستا ہوا دیکھ کر 

دوست بھی بد نظر ہوگئے 

پنچھیوں نے جنہیں دی دُعا 

اب وہ پودے شجر ہوگئے 

رات دن سوچتے سوچتے 

ذہن و دل در بہ در ہوگئے 

حسن اشعار میں جب ڈھلا 

لفظ سارے گہر ہوگئے 

اَن گنت آہ و نالے مرے 

گونج کر بے اثر ہوگئے 

کل جو اک آنکھ بھاتے نہ تھے 

آج نورِ نظر ہوگئے 

رازداں بے وفا ہوگیا 

راز سب مُشتہر ہوگئے 

ہم جو رکھتے تھے سب کی خبر 

خود سے بھی بے خبر ہوگئے 

حافظمؔ بے ہنر لوگ بھی 

مکر سے معتبر ہوگئے 

٭٭٭

غزل 

شمعِ حق دل میں جلتی رہی 

نور میں زیست ڈھلتی رہی 

مر نہیں پائے ہم موت سے 

زندگی گھر بدلتی رہی 

بن کے اولاد ہر آرزو 

عمر بھر دل میں پلتی رہی 

کام آئی کوئی اک دُعا 

ہر بَلا سر سے ٹلتی رہی 

سردیوں سے ٹھٹھرتی زمیں 

گرمیوں میں اُبلتی رہی 

پھر ملی اُس نظر سے نظر 

حسرتِ دل نکلتی رہی 

حسن نے وہ کرشمے دکھائے 

نیک نےّت بدلتی رہی 

زندگی ایک نادار کی 

خود ہی گرتی سنبھلتی رہی 

لمحہ لمحہ طبیعت مری 

شاعری سے بہلتی رہی 

شمع کے ساتھ شب حافظمؔ

قطرہ قطرہ پگھلتی رہی 

٭٭٭

غزل 

جب کوئی یاد آتا ہے 

دل کیوں ڈوبا جاتا ہے 

سونے والے کھوتے ہیں 

جاگنے والا پاتا ہے 

بارش مانگنے والوں کو 

ابرِ کرم ترساتا ہے 

سوچو روٹھنے سے پہلے 

کون اب کس کو مناتا ہے 

اپنے اپنے گھر کا چراغ 

گھر کو آگ لگاتا ہے 

جو کچھ کر نہیں سکتا وہ 

وعدوں سے بہلاتا ہے 

آنکھ سے آنکھ کے ملتے ہی 

دل سے دل ٹکراتا ہے 

دن ڈھلتے ہی چاند کے ساتھ 

وہ بھی چھت پر آتا ہے 

نیک ہو نےّت تو ہر دل 

آئینہ بن جاتا ہے 

میرا ناداں دل حافظؔ

ہر دن دھوکا کھاتا ہے 

٭٭٭

غزل 

کانٹے مہکے بن کر پھول 

پیارے پیارے سُندر پھول 

دیکھ سکیں گی کب آنکھیں 

ہرسُو منظر منظر پھول 

جنگ اِن سے کرتی ہے ہوا 

امن کے ہیں پیغمبر پھول 

جدّت کی پہچان بنے 

کانچ اور کانٹے پتھر پھول 

غصہ میرا ہُوا پانی 

بدلے میرے تیور پھول 

خوشیاں ناچیں آنگن میں 

کھِلنے لگے ہیں گھر گھر پھول 

شب بھر مسلے جاتے ہیں 

اکثر بستر بستر پھول 

پت جھڑ کی رُت آتے ہی 

سوگ منائے مل کر پھول 

باغ کی زینت ہے اِن سے 

گلشن کا ہیں زیور پھول 

اپنی خوشبو سے حافظؔ

کرتے ہیں جادو منتر پھول 

٭٭٭

غزل 

خود ہی گرتے ہیں خود سنبھلتے ہیں 

ہم لگاتار پھر بھی چلتے ہیں 

جو بھی جاگا ہے اُس نے پایا ہے 

سونے والے تو ہاتھ ملتے ہیں 

دیکھ کر میری سُرعتِ رفتار 

راستے منزلوں میں ڈھلتے ہیں 

کیوں انہیں موت سے ڈراتے ہو 

جو حوادث کا رُخ بدلتے ہیں 

رزق دیتا ہے دستکیں دَر پر 

صبح دم گھر سے ہم نکلتے ہیں 

جن کا بچپن بموں سے کھیلا ہو 

کب کھلونوں سے وہ بہلتے ہیں 

رات ہوتے ہی دل کے آنگن میں 

کس کے سائے ہیں جو ٹہلتے ہیں 

چاند روشن نہ ہو جہاں پہ وہاں 

آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں 

یہ علامات ہیں جوانی کی 

آنکھیں ملتے ہی دل مچلتے ہیں 

جس پہ چلتا نہیں کوئی حافظؔ

چلئے اُس راستے پہ چلتے ہیں 

٭٭٭

غزل 

کل نہ تھی جن کی کچھ اوقات 

آج وہ کرتے ہیں خیرات 

کتنا اچھا لگتا ہے 

میرے ہات میں تیرا ہات 

درس ہے کوئی اس میں نہاں 

ماں کی مار بھی ہے سوغات 

دن ڈھلتے ہی شام ہوئی 

نکلی یادوں کی بارات 

عشق کھڑا ہے کاسہ لئے 

حسن کی ڈالو اِس میں زکوٰۃ 

آنکھوں سے اقرار ہوا 

دل نے کرلی دل سے بات 

آج نہیں آئے گا پھر 

کل بہتر ہوں گے حالات 

داناؤں کی قلّت ہے 

نادانوں کی ہے بہتات 

ہاتھ ہمارے ملتے رہے 

دل سے دل کی کب ہوئی بات 

اُن کی یادوں سے حافظؔ

مہکے ہیں میرے دن رات 

٭٭٭

غزل 

اہلِ فن کو نہیں جب کہ فن کا لحاظ 

کیا گُلوں سے ہو ممکن چمن کا لحاظ 

حد سے بڑھنے لگی اب تو عریانیت 

روح کیا کرسکے گی بدن کا لحاظ 

جس پہ دھبّے ہوں بد عملیئ زیست کے 

قبر کرتی نہیں اُس کفن کا لحاظ 

اُس سے ملنے کوئی ہاتھ بڑھتا نہیں 

جس کے دل میں نہ ہو انجمن کا لحاظ 

میں ہوں خورشید میرے لئے ہے اہم 

اپنی اک اک چمکتی کرن کا لحاظ 

کیوں نہ اس پر وہ سایہ فگن ہو بھلا 

جب زمیں نے کیا ہے گگن کا لحاظ 

ہم کو جنت سے نکالا کیا جائے گا؟ 

جب نہ پھر سے کریں ہم عدن کا لحاظ 

میں بھی پونچھوں گا آنسو تمہارے مگر 

تم کرو میرے دل کی چبھن کا لحاظ 

بے حیائی کرے بھی تو کیسے کرے 

اپنے تن پر سجے پیرہن کا لحاظ 

قدر دانش وروں کی ہے حافظؔ کہاں 

دل میں اکبرؔ کے تھا نو رتن کا لحاظ 

٭٭٭

غزل 

وہ پھر مجھ سے دور ہوا 

ملنے سے مجبور ہوا 

زخم جو پایا تم سے وہ 

رِس رس کر ناسور ہوا 

آنکھ ملی تو دل میرا 

سینے سے مفرور ہوا 

مئے کی ضرورت کیا ہو اُسے 

دید سے جو مخمور ہوا 

سنگ زنی سے اپنوں کی 

دل کا شیشہ چوُر ہوا 

فکر و سخن کے منصب پر 

شوق مرا معمور ہوا 

قسطوں میں مرنے کا عمل 

جینے کا دستور ہوا 

لگتا ہے میرے قابل 

وہ حتی المقدور ہوا 

نیند کی گولی کھائے بغیر 

خواب میں گُم مزدور ہوا 

میں گمنام رہا حافظؔ

فن میرا مشہور ہوا 

٭٭٭

غزل 

بن گئی ہم سفر تیری یاد 

ہر ڈگر ہر نگر تیری یاد 

درج کروائے موجودگی 

ایک اک موڑ پر تیری یاد 

نیند آنکھوں سے روٹھی رہی 

جاگی پچھلے پہر تیری یاد 

جب بھی آئی تو کرنے لگی 

دل کو زیر و زبر تیری یاد 

ڈھل گیا دل صدف میں مرا 

اور بنی ہے گہر تیری یاد 

کر گئی آنسوؤں میں مجھے 

آج پھر تر بتر تیری یاد 

اس سے بچ کر میں جاؤں کہاں 

مجھ پہ رکھے نظر تیری یاد 

لمحہ لمحہ ستائے مجھے 

بن کے کھونے کا ڈر تیری یاد 

ڈس رہی ہے بلا روک ٹوک 

مجھ کو شام و سحر تیری یاد 

مستقل آج بھی حافظمؔ

آ کے مہکائے گھر تیری یاد 

غزل 

جب قیامت کا اعلان ہوجائے گا 

ختم جینے کا امکان ہوجائے گا 

پیدا کچھ ایسے حالات ہوجائیں گے 

بچہ بچہ مسلمان ہوجائے گا 

جب سیاست میں ہوجائے گا داخلہ 

اک بھکاری بھی دھنوان ہوجائے گا 

روپ لے کر خزاں کا بہار آئے گی 

ہر گلستاں بیابان ہوجائے گا 

جب گھڑی سر پہ تقسیم کی آئے گی 

گھر لڑائی کا میدان ہوجائے گا 

ایک دن موت کو موت آجائے گی 

زندگانی کا بحران ہوجائے گا 

اُس کے ماتھے پہ رکھ دو بھروسے کا تاج 

وہ لٹیرا نگہبان ہوجائے گا 

جب کرے گا مصائب کا وہ سامنا 

آدمی جو ہے انسان ہوجائے گا 

ہوگا منسوب جب یہ ترے نام سے 

معتبر میرا دیوان ہوجائے گا 

جب دعاؤں میں آئے گا حافظؔ اثر 

میری بخشش کا سامان ہوجائے گا

٭٭٭

غزل 

آپ کیا ہمسفر ہوگئے 

راستے مختصر ہوگئے 

مجھ کو ہنستا ہوا دیکھ کر 

دوست بھی بد نظر ہوگئے 

پنچھیوں نے جنہیں دی دُعا 

اب وہ پودے شجر ہوگئے 

رات دن سوچتے سوچتے 

ذہن و دل در بہ در ہوگئے 

حسن اشعار میں جب ڈھلا 

لفظ سارے گہر ہوگئے 

اَن گنت آہ و نالے مرے 

گونج کر بے اثر ہوگئے 

کل جو اک آنکھ بھاتے نہ تھے 

آج نورِ نظر ہوگئے 

رازداں بے وفا ہوگیا 

راز سب مُشتہر ہوگئے 

ہم جو رکھتے تھے سب کی خبر 

خود سے بھی بے خبر ہوگئے 

حافظمؔ بے ہنر لوگ بھی 

مکر سے معتبر ہوگئے 

٭٭٭

غزل 

شمعِ حق دل میں جلتی رہی 

نور میں زیست ڈھلتی رہی 

مر نہیں پائے ہم موت سے 

زندگی گھر بدلتی رہی 

بن کے اولاد ہر آرزو 

عمر بھر دل میں پلتی رہی 

کام آئی کوئی اک دُعا 

ہر بَلا سر سے ٹلتی رہی 

سردیوں سے ٹھٹھرتی زمیں 

گرمیوں میں اُبلتی رہی 

پھر ملی اُس نظر سے نظر 

حسرتِ دل نکلتی رہی 

حسن نے وہ کرشمے دکھائے 

نیک نےّت بدلتی رہی 

زندگی ایک نادار کی 

خود ہی گرتی سنبھلتی رہی 

لمحہ لمحہ طبیعت مری 

شاعری سے بہلتی رہی 

شمع کے ساتھ شب حافظمؔ

قطرہ قطرہ پگھلتی رہی 

٭٭٭

غزل 

جب کوئی یاد آتا ہے 

دل کیوں ڈوبا جاتا ہے 

سونے والے کھوتے ہیں 

جاگنے والا پاتا ہے 

بارش مانگنے والوں کو 

ابرِ کرم ترساتا ہے 

سوچو روٹھنے سے پہلے 

کون اب کس کو مناتا ہے 

اپنے اپنے گھر کا چراغ 

گھر کو آگ لگاتا ہے 

جو کچھ کر نہیں سکتا وہ 

وعدوں سے بہلاتا ہے 

آنکھ سے آنکھ کے ملتے ہی 

دل سے دل ٹکراتا ہے 

دن ڈھلتے ہی چاند کے ساتھ 

وہ بھی چھت پر آتا ہے 

نیک ہو نےّت تو ہر دل 

آئینہ بن جاتا ہے 

میرا ناداں دل حافظؔ

ہر دن دھوکا کھاتا ہے 

٭٭٭

غزل 

کانٹے مہکے بن کر پھول 

پیارے پیارے سُندر پھول 

دیکھ سکیں گی کب آنکھیں 

ہرسُو منظر منظر پھول 

جنگ اِن سے کرتی ہے ہوا 

امن کے ہیں پیغمبر پھول 

جدّت کی پہچان بنے 

کانچ اور کانٹے پتھر پھول 

غصہ میرا ہُوا پانی 

بدلے میرے تیور پھول 

خوشیاں ناچیں آنگن میں 

کھِلنے لگے ہیں گھر گھر پھول 

شب بھر مسلے جاتے ہیں 

اکثر بستر بستر پھول 

پت جھڑ کی رُت آتے ہی 

سوگ منائے مل کر پھول 

باغ کی زینت ہے اِن سے 

گلشن کا ہیں زیور پھول 

اپنی خوشبو سے حافظؔ

کرتے ہیں جادو منتر پھول 

٭٭٭

غزل 

خود ہی گرتے ہیں خود سنبھلتے ہیں 

ہم لگاتار پھر بھی چلتے ہیں 

جو بھی جاگا ہے اُس نے پایا ہے 

سونے والے تو ہاتھ ملتے ہیں 

دیکھ کر میری سُرعتِ رفتار 

راستے منزلوں میں ڈھلتے ہیں 

کیوں انہیں موت سے ڈراتے ہو 

جو حوادث کا رُخ بدلتے ہیں 

رزق دیتا ہے دستکیں دَر پر 

صبح دم گھر سے ہم نکلتے ہیں 

جن کا بچپن بموں سے کھیلا ہو 

کب کھلونوں سے وہ بہلتے ہیں 

رات ہوتے ہی دل کے آنگن میں 

کس کے سائے ہیں جو ٹہلتے ہیں 

چاند روشن نہ ہو جہاں پہ وہاں 

آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں 

یہ علامات ہیں جوانی کی 

آنکھیں ملتے ہی دل مچلتے ہیں 

جس پہ چلتا نہیں کوئی حافظؔ

چلئے اُس راستے پہ چلتے ہیں 

٭٭٭

غزل 

کل نہ تھی جن کی کچھ اوقات 

آج وہ کرتے ہیں خیرات 

کتنا اچھا لگتا ہے 

میرے ہات میں تیرا ہات 

درس ہے کوئی اس میں نہاں 

ماں کی مار بھی ہے سوغات 

دن ڈھلتے ہی شام ہوئی 

نکلی یادوں کی بارات 

عشق کھڑا ہے کاسہ لئے 

حسن کی ڈالو اِس میں زکوٰۃ 

آنکھوں سے اقرار ہوا 

دل نے کرلی دل سے بات 

آج نہیں آئے گا پھر 

کل بہتر ہوں گے حالات 

داناؤں کی قلّت ہے 

نادانوں کی ہے بہتات 

ہاتھ ہمارے ملتے رہے 

دل سے دل کی کب ہوئی بات 

اُن کی یادوں سے حافظؔ

مہکے ہیں میرے دن رات 

٭٭٭

غزل 

اہلِ فن کو نہیں جب کہ فن کا لحاظ 

کیا گُلوں سے ہو ممکن چمن کا لحاظ 

حد سے بڑھنے لگی اب تو عریانیت 

روح کیا کرسکے گی بدن کا لحاظ 

جس پہ دھبّے ہوں بد عملیئ زیست کے 

قبر کرتی نہیں اُس کفن کا لحاظ 

اُس سے ملنے کوئی ہاتھ بڑھتا نہیں 

جس کے دل میں نہ ہو انجمن کا لحاظ 

میں ہوں خورشید میرے لئے ہے اہم 

اپنی اک اک چمکتی کرن کا لحاظ 

کیوں نہ اس پر وہ سایہ فگن ہو بھلا 

جب زمیں نے کیا ہے گگن کا لحاظ 

ہم کو جنت سے نکالا کیا جائے گا؟ 

جب نہ پھر سے کریں ہم عدن کا لحاظ 

میں بھی پونچھوں گا آنسو تمہارے مگر 

تم کرو میرے دل کی چبھن کا لحاظ 

بے حیائی کرے بھی تو کیسے کرے 

اپنے تن پر سجے پیرہن کا لحاظ 

قدر دانش وروں کی ہے حافظؔ کہاں 

دل میں اکبرؔ کے تھا نو رتن کا لحاظ 

٭٭٭

غزل 

وہ پھر مجھ سے دور ہوا 

ملنے سے مجبور ہوا 

زخم جو پایا تم سے وہ 

رِس رس کر ناسور ہوا 

آنکھ ملی تو دل میرا 

سینے سے مفرور ہوا 

مئے کی ضرورت کیا ہو اُسے 

دید سے جو مخمور ہوا 

سنگ زنی سے اپنوں کی 

دل کا شیشہ چوُر ہوا 

فکر و سخن کے منصب پر 

شوق مرا معمور ہوا 

قسطوں میں مرنے کا عمل 

جینے کا دستور ہوا 

لگتا ہے میرے قابل 

وہ حتی المقدور ہوا 

نیند کی گولی کھائے بغیر 

خواب میں گُم مزدور ہوا 

میں گمنام رہا حافظؔ

فن میرا مشہور ہوا 

٭٭٭

غزل 

بن گئی ہم سفر تیری یاد 

ہر ڈگر ہر نگر تیری یاد 

درج کروائے موجودگی 

ایک اک موڑ پر تیری یاد 

نیند آنکھوں سے روٹھی رہی 

جاگی پچھلے پہر تیری یاد 

جب بھی آئی تو کرنے لگی 

دل کو زیر و زبر تیری یاد 

ڈھل گیا دل صدف میں مرا 

اور بنی ہے گہر تیری یاد 

کر گئی آنسوؤں میں مجھے 

آج پھر تر بتر تیری یاد 

اس سے بچ کر میں جاؤں کہاں 

مجھ پہ رکھے نظر تیری یاد 

لمحہ لمحہ ستائے مجھے 

بن کے کھونے کا ڈر تیری یاد 

ڈس رہی ہے بلا روک ٹوک 

مجھ کو شام و سحر تیری یاد 

مستقل آج بھی حافظمؔ

آ کے مہکائے گھر تیری یاد 

٭٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu