تبصرے

“ثالث” کا “غضنفر نمبر” اور میری رائے از ڈاکٹر غلام نبی کمار

“ثالث” کا غضنفر نمبر موصول ہوا۔ “ثالث” میں وہ سبھی خوبیاں موجود ہیں جو ایک بڑے اور معتبر رسالے میں ہونی چاہیئے۔ یہ رسالہ اپنے سفر کی جانب رواں دواں ہے۔ تیز و تند ہوائیں اس پر کوئی اثر نہیں کرتیں کیونکہ اقبال حسن آزاد صاحب اس کے ہر شمارے میں اپنا خلوص اور اپنی محبت بھر دیتے ہیں۔
لوگ دو دو تین تین لاکھ تنخواہ پانے کے باوجود ایک شمارہ خریدنے سے قاصر ہیں اور دوسری طرف اقبال حسن آزاد صاحب ہیں جو کوئی تقاضا کیے بغیر سیکڑوں لوگوں کو مفت اور بے غرض شمارہ ارسال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اور کیا کہئیے جو دل و جان سے ہماری زبان اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
“ثالت” کے گذشتہ شماروں پر نظر ڈالیے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے ہر شمارے کا کوئی خاص موضوع ضرور رہا ہے اور ہر شمارہ اپنی ضخامت کی دلیل پیش کر رہا ہے۔ آج کے زمانے میں ضخامت سے بھی فرق پڑتا ہے ، یعنی جتنی ضخامت ہوگی اتنے ہی روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں بلکہ قارئین کو بھیجنے کی جھنجھٹ مزید۔
بہرکیف “ثالث” شمارہ نمبر 30-29-28 ، جلد نمبر 11، اور اشاعت کے گیارویں سال کے اس خاص شمارے کا موضوع “غضنفر” ہے۔ “غضنفر نمبر” کے اس شمارے کے کل 424 صفحات ہیں۔ “غضنفر” نام کی شخصیت نے اردو زبان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں کہ بجا طور پر ان کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
جب سے میرے اندر ادبی شعور نے ہوش سنبھالا تب سے “غضنفر” جو دراصل پروفیسر غضنفر ہیں، جو اردو زبان و ادب کی بے انتہا خدمت کر رہے ہیں، خاکسار کے ذہن پر سوار ہے۔
“ثالث” کے اداریے میں ایڈیٹر اقبال حسن آزاد نے غضنفر سے شناسائی اور رسم و راہ کا تذکرہ خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ میری غضنفر صاحب سے پہلی ملاقات غالباً دو ہزار سولہ میں ہوئی جب وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ میرے ساتھ سلمان عبد الصمد تھے۔ اس موقع پر انھوں نے مجھے اپنی مثنوی کی کتاب “کرب جاں” عنایت فرمائی۔ اس کے بعد چھوٹی چھوٹی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ “غضنفر” صاحب استاد اور ادیب دونوں حیثیتوں سے مالا مال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں علم اور عزت و شہرت سے بہت نوازا ہے۔
اقبال حسن آزاد نے ان پر شمارہ شائع کرکے ایک بڑا فریضہ انجام دیا ہے۔
“غضنفر” پر بہت مضامین لکھے گئے ہوں گے اس شمارے میں ان پر تقریباً چھبیس مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کچھ افسانوں کے تجزیے اور تخلیقات بھی شائع کی گئی ہیں۔
“غضنفر” نمبر میں غضنفر کی ادبی شخصیت کے بیشتر پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ جس میں ان کی افسانوی و شعری جہات اور شخصی و تدریسی جہات وغیرہ پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔
شمارے کا آغاز غضنفر کی دعا اور نعت پاک سے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد رمیشا قمر نے “ہمہ رنگ غضنفر” میں غضنفر کی شخصیت ، زندگی، ادبی کارناموں اور کتابوں کی تفصیل پیش کی ہے۔ پروفیسر قمر الہدی فریدی نے اپنے مضمون “نوک قلم سے حد نگاہ تک” غضنفر کے تعلق سے اپنے تجربات و مشاہدات اور خیالات کو ڈھال بنایا ہے، بلکہ ان ان باتوں کی نشان دہی کی ہے جو ان کی کسی کتاب میں نہیں مل سکتیں۔ مشتاق احمد نوری کا مضمون غضنفر کی شخصیت، ہلکی سی ادبی جھلک اور یاداشتوں کا مجموعہ ہے۔ طیب فرقانی کا انٹرویو غضنفر سے متعلق ان باتوں کا پتہ دیتا ہے جو صرف مصنف کی زبانی ہی پتہ چل سکتی ہیں۔ اس انٹرویو سے مصنف کے ذاتی خیالات سے پردہ ہٹ جاتا ہے۔ انٹرویو میں کیے گئے سوالات قابل ستائش ہیں۔ “میرا تخلیقی عمل” میں غضنفر نے اپنی ادبی تخلیقات اور جہات کے متعلق محسوسات سے روشناس کرایا ہے۔ “ایک قصہ زندگی کا” کرب جاں کے حوالے سے شارب ردولوی کا مختصر مگر جامع مضمون ہے۔ پیغام آفاقی نے”اردو ناول کی تجدید اور غضنفر” میں غضنفر کے ناولوں کا تذکرہ، موضوعی تنوع اور عصری مماثلت پر اپنی ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔

پروفیسر شہاب ظفر اعظمی نے “غضنفر کی ناول نگاری” میں غضنفر کے ناول ‘پانی’ ، ‘کینچلی’ ، ‘کہانی انکل’ ، ‘مم’ ، ‘دویہ بانی’ ‘فسوں’ ، ‘وشن منتھن’ ،’شوراب’ کا موضوعی، فنی و فکری اور اسلوبیاتی جائزہ لیا ہے۔ اقبال حسن آزاد نے “غضنفر ایک مختلف رنگ و آہنگ کا ناول نگار” میں ان کے ناولوں میں معنی و مفاہیم کی مختلف تہوں کو کھنگالا ہے۔ تسلیم عارف نے “شوراب” کا جائزہ ہم عصر مسلم خواتین کی کردار نگاری کے تعلق سے لیا ہے۔ مہدی جعفر نے غضنفر کی کہانیوں میں عصری جھلک دیکھنے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے “خالد کا ختنہ” مسنگ مین” ، تیشہ”، “منگول بچہ” ، “پنڈلم” ، “رمی کا نوکر” وغیرہ کہانیوں کو موضوع بنایا ہے۔
اس کے علاوہ پروفیسر علی رفاد فتیحی “غضنفر کا بیانیہ” ، “غضنفر کا فکشن: ایک جائزہ” از پروفیسر اسلم جمشید پوری ، “غضنفر کی تحریروں کا انوکھا پن” ، ڈراما نگاری اور غضنفر” از محمد ذاکر حسین “غضنفر کی خودنوشت: چند تاثرات ” از سید محمد اشرف”غضنفر ایک انشاپرداز قصہ گو” از پروفیسر صفدر امام قادری وغیرہ مضامین اس شمارے کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
اس شمارے میں مختلف مشاہیر کے مضامین اور تجزیے شامل ہیں۔ جو دعوت مطالعہ دیتے ہیں۔

اس شمارے کے لیے میں اقبال حسن آزاد اور “غضنفر” کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ “ثالث” کو زندگی اور ترقی عطا کرے آمین ۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ