ادبی خبریں

ہر لکھی ہوئی تحریر افسانچہ نہیں ہوتی، افسانچہ کے خدو خال طے ہونے چاہیے: نورالحسنین

جی این کے اردو، 5 /اگست 2023

’’محمود شاہد نے دیا سلائی روشن کردی ہے، چراغ جلانا آپ کا کام ہے۔‘‘ (ڈاکٹر شائستہ یوسف)
’’افسانہ نُما‘‘ کے اورنگ آباد میں اجرأ کے موقع پر شہاب افسر نے منعقد کی ایک روزہ ادبی کانفرنس
’’ہر لکھی ہوئی تحریر افسانچہ نہیں ہوتی۔ افسانچہ کے خدوخال طئے ہونا چاہئے۔‘‘ (نورالحسنین)

رپورتاژ : خواجہ کوثر حیات ،اورنگ آباد(دکن)
Email : Khwaja.kauser@gmail.com

محمود شاہد ایک جہاندیدہ قلمکار، فنکار اور شاعر ہیں۔ وہ وسیلہ ٹی وی کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ جب انھوں نے خالص افسانچوں پر مشتمل ایک رسالہ کے اجرأ کا فیصلہ کیا تو اس کا نام ’’افسانہ نما‘‘ طئے کیا۔ اس کی مجلسِ ادارت تشکیل دی جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے نمائندگی کا خیال رکھا گیا۔جب اس کے چیف ایڈیٹر کا نام طئے کرنے کا مرحلہ آیا تو انھوں نے دور دور تک یعنی ملک و بیرونِ ملک نگاہ دوڑائی تو ان کی نگاہِ انتخاب ڈاکٹر شہاب افسر پر مرکوز ہوکر رہ گئی۔ وہ ڈاکٹر شہاب افسر خان جن کے افسانوں کے مجموعہ’’میرے افسانوں‘‘ کا پچھلے دنوں حیدرآباد میں اِجرأے ثانی ہُوا تھا۔ (اس کا اجرأ پہلے اورنگ آباد میں ہوچکا تھا اجرأے ثانی حیدرآباد میں مقیم ان کے دوست احباب اور چاہنے والوں نے بہ اصرارکیا تھا۔ اجرأے ثانی کا فائدہ یہ ہے کہ اس پرنا صاحبِ کتاب کو اعتراض ہوتا ہے اور نا کتاب کو کچھ ترددہوتا ہے۔اس اجرأ کے بعد وہ مسلسل ڈاکٹر شہاب افسر کے رابطہ میں رہے اور آخرکار ڈاکٹر شہاب افسر خان نے اس پیش کش کو قبول کرلیا۔ڈاکٹر شہاب افسر اور محمود شاہدکا تعارف کسی خلیجی ملک میں ہُوا تھا جہاںدونوں ہی بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ ڈاکٹر شہاب افسر نے خلیجی ممالک اور سعودیہ عربیہ میں کُل چالیس سال گذارے ہیں۔ان چالیس برسوں سے قبل وہ اورنگ آباد ہی میں مختلف انگریزی اسکولوں میں ٹیچر اور پرنسپل کی حیثیت سے برسرِکار رہے ہیں۔ اورنگ آباد سے شائع ہونے والے اُردو روزنامہ آج کے ادبی صفحہ ’’جھروکے‘‘ کے ترتیب کار ومدیر رہے ہیں۔ اپنے وقت کے ذی وقار ادبی جریدوں بیسوی صدی’’روبی‘‘ اور ’’شمع‘‘ کے علاوہ دیگر رسائل و جرائد میں بھی ان کے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب پچھلے کچھ عرصہ سے وہ اخبارات و رسائل کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر شہاب افسر کا تعلق شہرِ خجستہ بنیاد اورنگ آباد سے ہے۔ جو ولیؔوسراجؔ کی سرزمین ہے۔ جہاں افسانہ کی روایت عزیز احمد اور ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے نقشِ قلم سے عبارت ہے۔ جو مولوی عبدالحق اورمولانامودودی کی جوالان گاہ ہے۔جو صفیؔ و وجدؔ کا مولد ہے۔ جو قاضی سلیم و بشر نواز کا مسکن ہے۔ جہاں غلام علی آزاد بلگرامی اور ڈاکٹر عصمت جاویدشیخ کے قلم و ذہن کو جِلا ملی۔جہاں ابوالحسن تاناشاہ، ملک عنبر، اورنگ زیب عالمگیرـاور آصفجاہ اوّل میر قمر الدین علی خان کو سکون میسر آیا۔ اسی شہر میں وہ شہاب جاں گزیں ہے جو ثاقبؔ کا ٹوٹا ہوا تارہ ہے۔ یہ وہ شرارہ ہے جس کے دم قدم سے تعلیم کے مینارروشن و تابندہ ہیں۔شہاب افسر کی چیف ایڈیٹری کی بنا پر اس دوماہی رسالہ’’افسانہ نما‘‘ کا اجرأاورنگ آباد سے ہونا طئے پایا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ افسانچہ کے پودے کی کونپلیں یہیں سے پھوٹی تھیں۔ سعادت حسن منٹو کے بعد اسی شہرمیں رہ کر جوگیندر پال نے افسانچے لکھے تھے ان کے بعد اس صنف کو شعوری طور پرعارف خورشید نے اپنے اظہار کے لیے استعمال کیا۔ اسی صنف میں یہاں نورالحسنین، ندیم فردوسی، صفی ،اقبال بلگرامی،عظیم راہی اور مقصود ندیم نے طبع آزمائی کی۔عارف خورشید کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ’’یادوں کے سائبان‘‘ 1987ء میں شائع ہوا۔
1987ء ہی میں تین فنکاروں کا مشترکہ افسانچوں کا مجموعہ ’’آنکھوں کی زبان‘‘ شائع ہوا۔ جس میں اقبال بلگرامی، عارف خورشید اور مقصود ندیمؔکے افسانچے شامل ہیں۔ عارف خورشید کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ’’ آتشیں لمحوں میں‘‘ 1989ء میں شائع ہواجبکہ تیسرا مجموعہ’’اور کچھ بھی نہیں کہانی میں‘‘ 2000ء میں شائع ہوا۔ عظیم راہی نے اس صنف کو ایسے گلے لگایا کہ ان پر پیرِ تسمہ پا کا گمان ہونے لگا۔ انھوں نے افسانچہ پر باضابطہ کتاب لکھی مہاراشٹر سے نقشِ اوّل کے طور پر اس صنف میں۱۲؍اہلِ قلم نے اپنے افسانچوں کے مجموعے شائع کئے اور عظیم راہی کو اس صنف کے فروغ کی کاوشوں کی بناپر ’’بابائے افسانچہ‘‘ کہا جانے لگا۔اورنگ آبادنے اُردو ادب کو ولیؔکے ذریعہ اردو و غزل ، افسانچہ اور حمایت علی شاعر و قمر اقبال کے ذریعہ تین مصرعوں کی صنفِ سخن’’ ثلاثی‘‘ یا ’’تثلیث‘‘ دی ہے اورنگ آباد میں مولوی عبدالحق کی ’’انجمنِ ترقی اُردو‘‘ کے ذریعہ ادبی و لسانی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔یہاں ان کی اشاعتی سرگرمیاں اور دنیا کے پہلے خالص اُردو و ادبی رسالہ سہ ماہی ’’اردو‘‘ کا اجرأ انہوں نے یہیں سے کیا تھا۔ مولوی عبدالحق نے اردو کی پہلی قواعد یہیں لکھی اور یہیں سے انجمنِ ترقی اردو کے مطبع سے شائع کی۔ اردوانگلش اور انگلش اردوکی پہلی ڈکشنری بھی یہیں ترتیب پائی اور اس کی اشاعت بھی یہیںسے ہوئی۔ کئی قدیم اردو مخطوطات، قدیم مثنویاں ، داستانیں اور ادبی شہ پاروں کی اشاعت کا مرکز انجمنِ ترقی اردو یہیںاورنگ آبادمیں 1911ء تا1938ء کارکرد رہا۔ان ۲۷؍ سالوں میں اردو دنیا کو جو کچھ مولوی عبدالحق نے اور اورنگ آباد نے دیا وہ اردو زبان وادب کو ایسا انمول تحفہ ہے جو اردو زبان اور اہلیانِ اردوکبھی فراموش نہیں کرسکتے۔لیکن کیا کیا جائے ان کم ظرفوں کا جو اسے بھول جاتے ہیں یا نظر انداز کرتے ہیں۔ اورنگ آبادکے اسی اختصاص کی بنا پر محمود شاہد نے ’’افسانہ نما‘‘ کے اجرأ کے لیے اورنگ آباد کا انتخاب کیا۔ یہ انتخاب اس لیےبھی کیا گیا کہ قطر کا چوبیسواں عالمی ادبی ایوارڈ 2020 اورنگ آباد کے سپوت عالمی افسانہ و ناول نگار نورالحسنین کو ملا۔ 2019ء تا 2022ء نورالحسنین کا وارثانِ حرف و قلم نے تین سال تک جشن منایا جو دنیا کا سب سے طویل ترین جشن ہے۔اس جشن میں کُل 151 ؍ پروگرام مراہٹواڑہ کے مختلف اضلاع میں انعقاد پذیر ہوئے۔ نیز 141؍ پروگراموں کی روداد پر مشتمل 250؍ اوراق پر مشتمل آرٹ پیپر پر رنگین یادگار مُجلّہ بھی شائع کیا گیا تو افسانہ اور افسانچہ کی اُفق پر اورنگ آباد کہکشاں کی طرح جگمگانے لگا۔ افسانچے کی دنیا میں اس شہر کے فرزندڈاکٹر عظیم راہی کے دو افسانچوں کے مجموعے ’’درد کے درمیاں‘‘ (مطبوعہ2002ء) اور دوسرا’’ کل اور آج کا غم‘‘ (مطبوعہ 2020ء) جبکہ’’ اردو افسانچے کی روایت ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ 2008ء میں اور’’ اردو افسانچہ کی مقبولیت اور پیش رفت ایک مطالعہ ‘‘2015ء میں شائع ہوکر مقبول ہوئیں۔ ان کتابوں نے افسانچے کی مقبولیت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ ان کو بحیثیت صنف بھی منوایا۔ اسی لیئے ’’افسانہ نما‘‘ کے مدیر محمود شاہد نے افسانچوں کے خالص رسالہ ’’افسانہ نما‘‘ کے اجرأ کے لیئے اورنگ آباد کو منتخب کیا اور 23؍جولائی 2023ء اتوار کی صبح ڈاکٹر شہاب افسر خان (مدیر اعلیٰ ’’افسانہ نما‘‘)کی موجودگی اور انہی کی سرکردگی میں ایک روزہ ادبی کانفرنس کے اہتمام کے ساتھ ’’افسانہ نما‘‘ کا اجرأ نورالحسنین کے ہاتھوں اور معروف ناقد و شاعر ڈاکٹر ارتکاز افضل خان کی صدارت میں عمل میں آیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شائستہ یوسف، ڈاکٹر خواجہ غلام السیدین ربّانی ناگپور، ڈاکٹر سلیم محی الدین پربھنی، ڈاکٹر شکیل احمد خان جالنہ، ڈاکٹر عظیم راہی، احمد اقبال، رونق جمال( چھتیس گڑھ)،خالد سیف الدین، محمد وصیل، ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی اورمیزبان، ڈاکٹر شہاب افسر خان اور محمود شاہد موجود تھے۔

اس شاندار تقریب رونمائی کی نظامت خوش بیاں، خوش کلام اورخوش اندام ابوبکر رہبر نے کی۔ نظامت کیا تھی علم و عرفاں اور زبان و بیاںکی گُل افشاں ہورہی تھی۔

اورنگ آباد سے جاری ہونے والے ادبی رسائل ’’اردو‘‘ سے لیکر ’’فنون‘‘ تک

تمام ادبی رسائل کا ذکر افسانہ اور افسانچہ نگاروں کا تذکرہ اس نظامت کا حاصل تھے۔ محترمہ ڈاکٹر شائستہ یوسف نے کہا کہ جناب شاہد محمود نے دیا سلائی روشن کرکے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ اب اسکی روشنی کو عام کرنا اس سے چراغ جلانا یا اسے بجھادینا آپ کا کام ہے۔

محترمہ نے ٹرسٹ آف ایجوکیشن کاؤنسل بنگلور کی جانب سے ڈاکٹر شہاب افسر کا استقبال کیا اور کہا کہ ڈاکٹر شہاب افسر اور ان کا یہ پروگرام کی سنہری یادوں کا حصّہ رہے گا۔

اس پروگرام میں ڈاکٹر شائستہ یوسف کی موجودگی نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ محترمہ بین الاقوامی سطح کی شاعرہ اور نثر نگار ہیں۔ ان کی آمد نے اس ایک روزہ ادبی اجلاس کی شان دوبالا کردی۔ اس لیے کہ محترمہ بنگلور سے شائع ہونے والے ادبی مُجلّہ ’’سوغات‘‘ کی معاون مدیرہ بھی رہ چکی ہیں۔ اردو ساہتیہ اکادمی کرناٹک کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ یہ ایک متحرک شخصیت کی مالک ہیں۔ادب کا ستھرا ذوق رکھتی ہیں۔نظم کی عمدہ شاعرہ ہیں۔ایک ناول زیرِ تحریر ہے۔ اس کا کچھ حصّہ سُننے کا موقع ملا۔یہ ناول اصطلاحوں، تشبیہوںعلامات اور رمز کا پیکر ہے۔ تاریخ کے حوالے اشعار میں تلمیحات کی طرح شامل ہیں ایک ایک سطر خوشبوؤں میں ڈوبی ہوئی، ہر جملہ موتی کی طرح پرُویا ہُوا۔ تحریر ہے کہ نور و نکہت سے معطر ومعمور ہے۔ ان کے چہرے پر نظر پڑتی ہے تو قاضی سلیم یاد آنے لگتے ہیں،ڈاکٹر ثاقب انور اور پروفیسر عبدالوہاب جذب کا خیال آتے ہی ذہن ان پر بنائی ڈاکیومینٹری کی طرف متوجہ ہوگیا۔ سبحان اللہ! کیا خوب دستاویزی فلم بنائی گئی ہے ڈاکٹر ثاقب انورصاحب کی زندگی پر نہایت رواں و شستہ زبان،بلاغت و فصاحت کا مرقبع، لب و لہجہ کے نشیب و فراز ،آواز کا زیرو بم کسی رواں دواںآبجو کا سا جلترنگ پیدا کرتا ہے۔ جیسے بارش کی خوشگوار پھوار کے بعد دھنک نکل آئی ہو اور اسکے رنگوں سے قوس و قزاح کی دلفریبی ماحول کو دیدہ زیب بنارہی ہو۔ اس دستاویزی فلم میں ڈاکٹر ثاقب انور کی داستانِ حیات اور جدوجہد زیست کے اوراق کو مصّور کیا گیا ہے۔یہ دستاویزی فلم ایک روزہ ادبی کانفرنس کا حاصل ہے۔ یہ فلم ابوبکر رہبر نے بنائی ہے۔ اسکی اسکرپٹ بھی انہی کی لکھی ہوئی ہے اور آواز بھی ان ہی کی ہے۔ جو ڈاکٹر ثاقب انور کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ناظرین نے اس دستاویزی فلم کو کافی پسند کیا۔یہ فلم ڈاکٹر شہاب افسر خان کی ہدایت پر بنائی گئی ہے۔
’’افسانہ نما‘‘ کے اجرأ کا اعلان کرتے ہوئے نورالحسنین نے کہا کہ ’’قلم کو کاغذپررگڑنے کا نام افسانچہ لکھنا نہیں ہے ہر لکھی ہوئی تحریر افسانچہ نہیں ہوسکتی۔ اس کا کوئی معیار بھی ہونا چاہئے۔ اس بات کا خیال ’’افسانہ نما‘‘ کے ایڈیٹر کو رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے کہ آج افسانچہ کے نام پرکچھ بھی لکھا جارہا ہے اور اسے افسانچہ کہا جارہا ہے۔ ضرورت ہے کہ افسانچہ کے خد وخال طئے کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ منٹو کے بعد افسانچہ کو فروغ دینے کا کام جوگیندر پال نے اورنگ آباد ہی میںرہ کر کیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ارتکاز افضل نے کہا کہ ’’جس طرح غزل کا شعر یا غزل ہمارے تحت الشعور کا حصّہ بن چکی ہے اور وہ ہمیں یاد رہ جاتی ہے اسی طرح افسانچہ کوبھی ہمارے لاشعور کا حصّہ بننا چاہئے۔‘‘

ڈاکٹر سلیم محی الدین نے کہا کہ ’’افسانچہ اپنی شناخت اور اپنے میرؔ، ولیؔاور غالب کی تلاش میں ہے۔‘‘

’’افسانہ نما‘‘ کے ایڈیٹر محمود شاہد نے کہا کہ’’ تاریخ میں ایسے شہر کئی ملتے ہیںجن کو بادشاہوں نے آباد کیاہے۔ اورنگ آباد وہ شہر ہے جسے ادیبوں و شاعروں نے آباد کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’افسانہ نما‘‘ کا پہلا شمارہ 104؍صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ہم نے 100؍قلمکاروں کو شامل کیا ہے۔‘‘


ڈاکٹر شہاب افسر نے اپنے افتتاحی کلمات میں اورنگ آباد کے ادبی پس منظر پر روشنی ڈالی اور کہا کہ شہر کے ادبی ورثہ کی بناء پر اس رسالہ کا اجرأ اورنگ آباد سے کیا جارہا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ رسالہ بہت جلد اپنی شناخت بنالے گااور ادبی حلقوں میں پسند کیا جائے گا۔انہوں نے بیرون ِ شہر اور شہر سے پروگرام میں تشریف لائے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

پہلے سیشن کا آغاز حناء ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت جاری ونچسٹر انٹرنیشنل انگلش اسکول کے طالب ِ علم شیخ عزیرکی تلاوتِ قرآن سے ہُوا۔ شہاب افسر خان نے تمام مہمانوں کا فرداً فرداًاستقبال کیا۔ ’’ایک روزہ ادبی کانفرنس‘‘ کا پہلا سیشن شہر اور بیرونِ شہر کی ذ ی حشم شخصیات اور اہلِ علم و ادب کی شرکتوںسے معمور تھا۔ بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد ریسرچ سینٹر کا ہال علم و نور کا منظر پیش کررہا تھا جہاں آئے دن اس طرح کے علمی و ادبی اجلاس منعقدہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر شہاب افسر خان اس پروگرام میں کسی یونیورسیٹی کے وائس چانسلر ہی لگ رہے تھے۔ اہلیانِ اورنگ آباد ’’افسانہ نما‘‘ کے چیف ایڈیٹر بننے پر انھیں مبارکباد پیش کررہے تھے۔ دوسرا اجلاس ایک گھنٹہ کے وقفہ کے بعد تھا لیکن سامعین کے اصرار پر وقفہ ختم کرکے دوسرا اجلاس ڈاکٹر عظیم راہیؔ کی صدارت میں شروع کردیا گیا۔ دوسرا اجلاس ’’محفل افسانہ؍افسانچہ‘‘ تھا۔ جس کی صدارت افسانچہ کی دنیا کی معروف شخصیت ڈاکٹر عظیم راہی فرمارہے تھے۔

عظیم راہی مسندِ صدارت پر جلوہ افروز ہوئے تو ناظم اجلاس ابوبکر رہبر نے چھتیس گڑھ سے تشریف لائے مہمان رونق جمال، کڑپا سے تشریف لائے محمود شاہد، نورالحسنین، ڈاکٹر شہاب افسر خان، سلیم احمد، صباتحسین، ورنگل سے تشریف لائے اطہر اسلوبی، ناگپور سےتشریف لائے شیخ وحید، جلگاؤں سے تشریف لائے قیوم اثرکو اسٹیج پر مدعو کیا۔ ان حضرات میں سے صرف محمود شاہد اور رونق جمال نے افسانچے سُنائے اور بقیہ تمام حضرات اورایک خاتون نے افسانے اور کہانیاں سُنائیں۔

سب سے پہلے نورالحسنین نے اپنی کہانی’’بستی راج‘‘ سُنائی جس

کافی پسند کیا گیا۔ اسی طرح صبا انجم کی کہانی ’’رام راج‘‘ کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ یہ دونوںافسانے حالات ِحاضرہ پر مشتمل تھے۔ جبکہ ڈاکٹر شہاب افسر خان کا افسانہ ’’گُڑیا‘‘خالص گھریلواور خاندانی موضوع پر مشتمل کہانی تھی۔ باپ اور بیٹی کی محبت پر مشتمل اس کہانی نے تمام سامعین کا دل جیت لیاشہر کے تبدیلی نام کے موضوع پر سلیم احمد کا افسانہ ’’آدھا ٹکٹ‘‘ طویل ہونے کے باوجود پسند کیا گیا۔ رونق جمال کے افسانچے ’’اُردو کا زہر‘‘ بھی سامعین کے دلوں پر نقش کرگیا۔

اطہر اسلوبی کے نرالے اسلوب کو بھی کافی پسند کیا گیا۔جبکہ شیخ وحید کے افسانے ’’فریضہ‘‘کو سُنتے ہوئے سامعین کی سانسوں کا زیر و بم صاف محسوس کیاجاسکتا تھا۔قیوم اثر کو سفر درپیش تھا اس لیے وہ کچھ سُنائے بغیر اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔محمود شاہد کے مکالماتی افسانہ پر سامعین نے بے ساختہ داد پیش کی۔ محفلِ افسانہ میں سُنانے والوں کی تعداد 8؍تھی جبکہ اس نشست میں سامعین کی تعداد 150؍ سے زیادہ تھی۔ ابھی تک دیکھی بھالی افسانے کی نشستوں کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب ن

نشست تھی جس میں معتد بہ تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں۔

اس ایک روزہ ادبی کانفرنس کے انعقاد اور اس کی منصوبہ بندی میں وارثانِ حرف و قلم اور اس کے ذمہ داران خالدسیف الدین،محمد وصیل،محمد اختر خان، سید کامل، ڈاکٹر سلیم محی الدین اور ابوبکر رہبر کی مساعی ناقابلِ فراموش ہیں۔ دوسرے اجلاس محفلِ افسانہ کے مہمانانِ خصوصی میں معز ہاشمی، ڈاکٹر اسود گوہراور وجاہت قریشی شامل تھے۔ تمام افسانوں اور افسانچوں کی قرأت کے بعد ڈاکٹر عظیم راہیؔنے اپنے خطبۂ صدارت میں تمام افسانوں اور افسانچوں پر نہایت بصیرت افروز تبصرہ فرمایااور کہا کہ’’ اس یادگار اور تاریخی محفل افسانہ؍افسانچہ کی صدارت پر مجھے فخر ہے کہ انتہائی اہم اور بڑے قلمکاروں کی موجودگی میں مجھے صدارت سونپی گئی جس کے لیئے میں منتظمین کا ممنون و مشکور ہوں۔‘‘ساتھ ہی محمود شاہد کو ’’افسانہ نما‘‘ کے اجرأ پر اور ڈاکٹر شہاب افسر کو اس رسالہ کے چیف ایڈیٹر بننے پر مبارکبادیاں پیش کی جارہی تھیں۔ایک عجب سماں اور خوشی کا ماحول تھا۔ بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزادریسرچ سینٹر کا ہال اور اس کے خوبصورت نظارے رونقوں سے آباد تھے۔ لوگ کہانیوں اور افسانچوں پر بات کررہے تھے ۔ افسانچے کے مستقبل پرغور کررہے تھے۔ اس میں معنویت اور تہہ داری کی بات کی جارہی تھی۔ ڈاکٹر شائستہ یوسف، محمود شاہد اور غلام السیدین ربّانی شاداں و فرحاں ہر ایک کی فرمائش پر ان کے ساتھ تصویریں کھنچوارہے تھے۔ ڈاکٹر شہاب افسر تو ان سب کے درمیان گلاب کی طرح مہک بھی رہے تھے اور چہک بھی رہے تھے۔ ’’ایک روزہ ادبی کانفرنس‘‘ کا تیسرا اجلاس مشاعرہ پر مشتمل تھا۔ جس میں 27؍ شعرأنے اپنا کلام سُنایا۔ اس مشاعرہ کی صدارت معروف کہنہ مشق شاعر و محقق اسلم مرزا نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض ابوبکر رہبر نے ادا کئے۔ عام طور پر ابوبکر رہبر مشاعروں کی نظامت نہیں کرتے۔ لیکن کم وقت میں زیادہ شعرأ کو مشاعرہ پڑھوانے کا کام جو کسی کارنامہ سے کم نہیں ہے کوئی اور انجام نہیں دے سکتا تھا۔ جہاں نظامت میں ابوبکر رہبر کا نام آجائے وہاں مارشل لاء اپنے آپ نافذ ہوجاتا ہے اور سارے مقررین وشعرأ حدود اور نظم وضبط کاپوری طرح خیال رکھتے ہیں۔ سامعین میں شامل منچلے بھی قابو میں رہتے ہیں۔ اس لیے کہ ابوبکر رہبر کے الفاظ کے کوڑے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ سب کو قابو میں رہنا پڑتا ہے۔ ہال میں موجود لوگوں کی بھنبھناہٹ میں ابوبکر رہبرکی رعب دار آواز گوجنی خواتین وحضرات!السَّلام علیکم! میں صدرِ مشاعرہ عالی جناب اسلم مرزا صاحب کی اجازت سے مشاعرے کے آغاز کیلئے جناب ریاض الدین، صباؔ گنجوی کو آواز دے رہا ہوں کہ وہ بارگاہ رسالت میں نذرأنہ نعت پیش فرمائیں۔ صبا گنجوی نے بہت عمدہ نعت پیش کی ان کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے مزید نعت خوانی کیلئے پروفیسر سلیم محی الدین کو آواز دی۔پروفیسر سلیم محی الدین نے اپنی اچھوتی نعت بڑے انوکھے انداز میں پیش کی۔ابوبکر رہبر نے کہا کہ فاروق شمیم اور جاوید امان کے بعد ایک طویل عرصے تک اورنگ آباد کی سرزمین نئے شعرأ سے محروم رہی۔ لیکن آج اورنگ آباد کی زمین پر نئے شعرأ کی سرسبز وشاداب فصل لہرارہی ہے۔ آئیے ان ہی شعرأ سے مشاعرہ کی شروعات احمد وسیم راہیؔ سے کرتے ہیں۔ ان کے بعد عمران رضوی، طیب ظفر، صبا انجم، مصعب قادری، عبدالعظیم، انورہادی جنیدی (کڑپا)، میر محتشم علی، بلال انور، غزالہ پروین، احمد اورنگ آبادی، محمد اختر خان، لیاقت علی خان یاسرؔ، صبا گنجوی، اطہر اسلوبی(ورنگل)، شیخ وحید (ناگپور)، عبدالرحیم رضا جالنوی (اورنگ آباد)، ڈاکٹر سلیم محی الدین، خان شمیم، ڈاکٹر غلام السیدین ربّانی اور ڈاکٹر شائستہ یوسف نے اپنا کلام سُنایا آخر میں اسلم مرزا نے اپنا کلام سنایا۔ ان تمام شعرأ سے صرف ان کی ایک غزل یا ایک نظم ہی سُنی گئی اور اس پابندی کا اطلاق پوری سختی کے ساتھ ہر شاعرہ پر کیا گیا اور صرف 2؍گھنٹے میں 27؍ شعرأ کا کلام بشمول 2؍نعتوں کے سُنایا گیا۔ اس طرح مشاعرہ پر’’ ایک روزہ ادبی کانفرنس‘‘ کا اختتام بحسن و خوبی انجام پایا۔………

اس پروگرام سے متعلق خواجہ کوثر حیات کا رپوتاژ ہندوستان کے کئی موقر اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ جن کے تراشے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ