تعزیتی خبریں

راشد انور راشد جتنے اچھے ادیب تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے: پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی

 

GNK Urdu 23 April 2024

راشد انور راشد جتنے اچھے ادیب تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے: پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی

مظہر فاؤنڈیشن انڈیا (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام راشد انور راشد کی رحلت پر آن لائن تعزیتی نشست کا انعقاد

نئی دہلی(۲۲؍ اپریل): راشد انور راشد طویل عرصے تک مہلک مرض میں مبتلا رہے، لیکن اس بیماری نے کمزور کرنے کے بجائے مزید مردِ آہن بنا دیا۔ حتیٰ کہ اسپتال میں رہتے ہوئے بھی ایک ناول تحریر کرلیا تھا۔ وہ وقت کے پابند اور وضع دار شخصیت کے مالک تھے۔ راشد انور راشد جتنے اچھے ادیب تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔ ان خیالات کا اظہار مشہور ادیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر راشد انور راشد کی رحلت پر مظہر فاؤنڈیشن انڈیا (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن تعزیتی جلسے میں صدر شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی نے کیا۔ 

پروفیسر شہزاد انجم نے راشد انور راشد کے انتقال کو ایک اندوہناک حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کتابیں اس بات پر دال ہیں کہ وہ ادب کے لیے مکمل طور پر وقف تھے۔ راشد انور راشد کے گہرے دوست اور تعزیتی جلسے کے کوآرڈی نیٹر پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ راشد کا چلے جانا میرے لیے ذاتی نقصان ہے۔ وہ نہایت ہی صاف دل اور شگفتہ اندازمیں گفتگو کرتے تھے۔ انہیں کبھی غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ وہ ایک پُرگو شاعر اور اچھے نقاد بھی تھے۔ بہت حوصلے کے ساتھ وہ مہلک بیماری کا سامنا کرتے ہوئے اس دنیا سے چل بسے۔ ڈاکٹر مشتاق صدف نے مفصل اظہارِ تعزیت میں کہا کہ وہ بہت نرم گو تھے اور انہوں نے بہت صاف ستھری زندگی گزاری۔ ان سے میری دوستی اور مراسم کی ایک طویل داستان ہے۔ پروفیسر سرورالہدیٰ نے اپنی دیرینہ یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جے این یو میں ان کے ساتھ میرا خاصا وقت گزرا۔ وہ نہایت دل کش شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی علمی زندگی میں بھی ایک وقار پیدا کیا۔ اس میں ان کی اس اداسی کو بھی دخل ہے جو اداسی اپنے بہترین لمحات میں تخلیقی اور تعمیری بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر سرور ساجد نے کہا وہ سراپا محبت و شفقت تھے۔ غصے کا اظہار بھی کرتے تو بہت شائستگی کے ساتھ۔ ان کا قلم رواں تھا، قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ وہ خود کو شاعر کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔  ڈاکٹر زاہدالحق نے کہا کہ راشد بھائی کو پہلی مرتبہ کرکٹ کے میدان میں اپنے جوہرِ کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کی زبان نہایت خوب صورت تھی اور ان کا ترنم بھی بے حد جاذب تھا۔ وہ اپنے چھوٹوں کو بھی ہمیشہ آپ اور بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے کہاکہ انھوں نے کوثر مظہری صاحب کے گھر پر اپنی پہلی ملاقات میں ہماری نہایت حوصلہ افزائی کی تھی۔ ہم اس وقت بی اے کے طالب علم تھے۔ انہوں نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے جد و جہد کی روداد سناکر ہمیں بھی محنت و مشقت کے لیے مہمیز کیا۔ ڈاکٹر معید الرحمن نے کہا کہ وہ کم گو تھے اور ان کے دوستو کا حلقہ محدود تھا۔ علی گڑھ ان کی شخصیت میں تحلیل ہو گیا تھا۔ علی گڑھ کے باہر وہ علی گڑھ کے ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ تعزیتی جلسے کا اختتام دعائے مغفرت پر ہوا۔جلسے میں پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر عبدالسمیع، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر ابوظہیر ربانی، عادل رضا منصوری، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر علام الدین، آبشار انجم، سبزان راشد ، عظمت النساء، نسیم افضل، آرزو عالم، عبدالوارث، عبدالقاسم، محمد حسنین، محمد اجمل، طوبیٰ گوہرکے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu