خبریں یوم پیدائش

آج معروف شاعر اور ادیب حافظ کرناٹکی کا یوم پیدائش ہے۔ پیش کش سلمی صنم

جی این۔ کے اردو

آج 18 جون

کرناٹک سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، ادیب برائے اطفال، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ قلمکار اور سابق چیئرمین کرناٹک اردو اکادمی حافظ کرناٹکی کا یوم ولادت ہے

اصلی نام امجد حسین ہے۔قلمی نام حافظ کرناٹکی ہے۔18 جون 1964 کو شکاری پور ضلع شیموگا کرناٹک میں پیدا ہوئے ۔ ادب اطفال میں ایک معروف نام ہیں۔ تعلیم: ادیب فاضل ۔ایم اے اور بی ایڈ ہے ،گلبرکہ یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا ہے ۔ ایم ۔ یو گروپ آف ایجوکیشن کےبانی اور جنرل سکریڑی ہیں جس کے تحت کرناٹک میں نرسری سےلے کر ڈکری کالج تک کے کئی ادارے بہت کامیابی سے چل رہےاور یہ گروپ بچوں کے ادبی ذوق کی نشونما کے لئے بھی منظم طور پر کام کرتا ہے۔ بچوں کی نفسیات اور دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے حافظ کرناٹکی نے دینی ، سماجی اور تعلیمی موضوعات پرچالیس سے زیادہ نظموں اور کہانیوں کی کتابیں تصنیف کی ہیں ۔کرناٹک اردو اکادمی کے صدر رہ چکے ہیں ۔ملکی اور ریاستی سطح پر متعدد اعزازات سے نوازے گئے ہیں جن میں ساہتیہ اکادمی کا ادب اطفال بھی شامل ہے۔

پیشکش ۔۔سلمی صنم


معروف شاعر اور ادیب برائے اطفال حافظ کرناٹکی کے یوم ولادت پر پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام بطور خراج عقیدت
.
غزل

گھر آنگن میں پھیلی دھوپ

پیلے رنگ میں لپٹی دھوپ

روز کتابیں چومتی ہے

صبح کی اجلی اجلی دھوپ

ہم جب بھی اسکول گئے

ہم سے پہلے وہاں تھی دھوپ

ہم نہ رکیں گے منزل تک

کیسی بارش کیسی دھوپ

دھرتی سونا لگتی ہے

چمکائے یوں مٹی دھوپ

ڈھونڈا تھا ہم نے تو قلم

بستے میں سے نکلی دھوپ

کرنوں کی چھتری تھامے

حافظؔ چھت پر اتری دھوپ

غزل

یہ مہکتے ہوئے جذبات یہ اشعار کے پھول

کاش کام آئیں کسی کے مرے افکار کے پھول

میرے دل نے جو سجا رکھے ہیں زخموں کی طرح

کھل نہ پائے کسی گلشن میں وہ معیار کے پھول

سونگھتی ہیں انہیں خوش ہو کے بہشتی حوریں

سرفروشوں کے بدن پر ہیں جو تلوار کے پھول

یہ مرے اشک ندامت ہیں خدا کو محبوب

دنیا والوں کی نگاہوں میں ہیں بیکار کے پھول

مجھ کو تحفے میں عطا اس نے کئے ہیں حافظؔ

کبھی انکار کے کانٹے کبھی اقرار کے پھول

ادب اطفال

عقل مند شکاری

گاؤں میں شیر کا اک شکاری بھی تھا

کھاتا تھا دشت کی وہ ہمیشہ ہوا

شیر کو اس نے قبضے میں اک دن کیا

شام ہوتی گئی بڑھ گیا دھندلکا

بکریوں کو بھی وہ پالتا تھا سدا

گھاس بھی دشت سے ساتھ وہ لاتا تھا

گھاس اور بکری بھی اس کے ہم راہ تھے

شیر کے ساتھ دیکھو یہ دونوں چلے

راہ میں ان کی پل ایک حائل ہوا

دھندلکا گہرا ہونے لگا شام کا

پل کے رکھوالے نے اس کو روکا کہا

پار تم پل کو کر سکتے ہو برملا

صرف اک چیز کو ساتھ لے جاؤ گے

اپنی منزل کو پھر دیکھ لو پاؤ گے

تم جو چاہو تو واپس بھی آ سکتے ہو

ایک شے ساتھ اپنے بھی لا سکتے ہو

سوچ میں پڑ گیا اب شکاری بہت

شرط تھی واقعی آج بھاری بہت

گھاس کو ساتھ لے جانا مشکل ہی تھا

کیوں کہ خود شیر بکری کو کھا جائے گا

ہاں اگر شیر کو ساتھ لے جاؤں گا

بکری چارہ بنا ڈالے گی گھاس کا

کشمکش میں شکاری ابھی پڑ گیا

کیسے حل ہوگا ہے یہ بڑا مسئلہ

اب اسے کچھ سمجھ میں تو آیا نہیں

سوچتے سوچتے جھک گئی تھی جبیں

ایک ترکیب آخر کو سوجھی اسے

پل سے گزرا وہ اب بچو بکری لیے

پار بکری نے اے بچو پل جو کیا

گھاس کو شیر بس سونگھ کر رہ گیا

آیا واپس پلٹ کر شکاری ابھی

اس کی آنکھوں میں بچو چمک جاگ اٹھی

اس طرف شیر اور اس طرف بکری تھی

گھاس لے جانے کی باری اب آ گئی

گھاس کا گٹھا ساتھ اپنے وہ لے گیا

شیر بس منہ شکاری کا تکتا رہا

گھاس کو بکری کے پاس اس نے رکھا

اور بکری کو خود اس نے واپس لیا

اس طرف گھاس کا صرف گٹھا رہا

کیوں کہ خطرہ ملن شیر و بکری کا تھا

اس لیے شیر کو ساتھ لے کر چلا

شیر کو گھاس کے پاس چھوڑا گیا

سوچیے گھاس کو شیر کھائے گا کیا

گھاس کو شیر بس سونگھ کر رہ گیا

اب شکاری چلا بکری لانے کو ساتھ

اب کے بکری کی رسی پہ تھا اس کا ہاتھ

اب وہ بکری کے ہم راہ آ ہی گیا

شیر دل میں ہی خود غراتا رہا

ایک جانب تھی بکری تو اک سمت شیر

کی نہیں اب شکاری نے جانے میں دیر

گھاس کا گٹھا سر پر شکاری کے تھا

گاؤں کا اپنے اب اس نے رستہ لیا

یوں شکاری نے گتھی کو سلجھا لیا

ان کے جانے کا بھی مسئلہ حل ہوا

راکٹ

راکٹ وزنی ہوتا ہے

وزن خلا میں کھوتا ہے

منہ ہے نکیلا موٹی دم

ہوتا ہے یہ خلا میں گم

دم میں ہوتا ہے ایندھن

اس کا خلا سے ہے بندھن

پہلے ایندھن جلتا ہے

پھر وہ خلا میں اڑتا ہے

اپنے مدار میں اڑتا ہے

پھر یہ خلا میں مڑتا ہے

اک وہ کیمرا رکھتا ہے

تصویریں بھی لیتا ہے

حافظؔ مصنوعی راکٹ

لگتا ہے برقی سرکٹ

پیشکش سلمی صنم

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ