ادبی خبریں

چھٹی کے اوقات کو ادبی ذوق کی سیری میں لگائیں اور مطالعہ کو اپنا شعار بنائیں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی

جی۔این۔کے اردو

گلشن زبیدہ میں آکر دل سیرہوگیا۔ آنکھیں روشن ہوگئیں۔ اللہ اس گلشن کو ہمیشہ شادوآباد رکھے۔ ذبیح اللہ

آج بروز پیر ۶۲/فروری ۴۲۰۲ء؁ کو دوردرشن چندنا کے اردو پروڈیوسر جناب ذبیح اللہ صاحب کی آمد کے موقع سے گلشن زبیدہ کے بچوں کی ادبی و ثقافتی انجمن بزم حافظ نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔ مقصدیہ تھا کہ گلشن زبیدہ کی طالبات اپنی ادبی،ثقافتی اور گلوکاری کی تربیت کا مظاہرہ کریں اور جناب ذبیح اللہ صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کا اعزاز بھی کریں کہ انہوں نے ان طالبات کو دوردرشن سے اپنی لیاقت اور قابلیت کے مظاہرے کا موقع عنایت کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی صدارت میں ہوا۔ نظامت کے فرائض مولانا اظہرالدّین اظہر ندوی نے ادا کیے۔ شرکاء مجلس میں ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی، جناب انیس الرّحمان، انجنئر محمد شعیب، جناب حافظ ناصر صاحب، عبدالعزیز صاحب، ماسٹر محمد سہیل صاحب، جناب نذراللہ مڈی صاحب اور بہت سے دوسرے اساتذہ وطلبانے شرکت کی۔ اس پروگرام کی غرض و غایت اور کرناٹکا اردو چلڈرنس اکادمی کرناٹک کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے کہا کہ؛ گلشن زبیدہ واحد ایسا ادارہ ہے جہاں ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی سرپرستی میں بچوں کے ادبی ذوق کی عملی تربیت کی جاتی ہے۔ انہیں حمد و نعت، غزل وگیت، اور لوری وغیرہ گانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ انہیں افاعیل کی نزاکت، اس کے مزاج، لہجے اور اندازواسلوب سے آگاہ کیا جاتاہے۔ ظاہر ہے کہ وزن و بحر اور افاعیل کی نزاکتوں کے علم کے بغیر کسی بھی شاعری کو ترنم کے ساتھ خوب صورتی سے نہیں گایا جاسکتا ہے۔ اور نہ مختلف اوزان وبحور اور لب ولہجے کے گیت و نغمے کے لیے الگ الگ ٹون تیار کیے جاسکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ آج اردو دنیا میں ایسے فنکار بھی کم ہی رہ گئے ہیں جو شاعری کی فنی باریکیوں سے واقف ہوں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کا دم غنیمت ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ شاعری کی فنی باریکیوں پر گفتگو کرتے ہیں بلکہ بچیوں کو ان باریکیوں سے عملی طور پر آگاہ بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلشن زبیدہ کی بچیوں کا لب و لہجہ، ترنم، لحن، انداز، طرز تخاطب، لفظوں کی ادائیگی دوسرے اسکولوں کے بچوں اور بچیوں کی بہ نسبت ہمیشہ قابل ستائش ہوتا ہے۔جس کا عملی مظاہرہ ابھی ابھی آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ گلشن زبیدہ کی طالبہ عفیفہنے کہا کہ ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ گلشن زبیدہ ہماری مادری علمی بنی ہے۔ یہاں ہماری تربیت پر خاص دھیان دیاجاتاہے۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی اپنی کتابوں کے تحفے ہمیں پیش کرتے رہتے ہیں جن کے مطالعے سے ہمارے اندردوسری کتابوں کے مطالعے کا بھی ذوق پیداہوتا ہے اور ہم ادب اور زبان کے حسن سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں۔ انگریزی میڈیم کی طالبہشبنم.نے کہا ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نہ صرف یہ کہ اپنی کتابوں کے تحفے سے ہمیں نوازتے رہتے ہیں بلکہ وقفے وقفے سے ”ماہنامہ گل بوٹے“اور ”کھلونا“کی کاپیاں بھی تقسیم کرتے رہتے ہیں جس سے ہمارے ذوق کی تربیت ہوتی ہے۔ وہ صرف افاعیل کی نزاکت ہی بیان نہیں کرتے ہیں اس کی شناخت کے ساتھ اپنے سروں میں ڈھال کر ہمیں اس کی مشق بھی کراتے ہیں جس سے ہمارے اندر خود اعتمادی کی دولت پیداہوتی ہے۔ ہم سبھی ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کے ساتھ جناب ذبیح اللہ صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے دوردرشن سے ہمیں اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے کا موقع عنایت کیا۔

جناب ذبیح اللہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ؛میں سب سے پہلے گلشن زبیدہ کے طلبا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اعزاز کے قابل سمجھااور اپنے درمیان عزت سے بٹھایا۔ ہم نے بہت سارے پروگرام پیش کیے ہیں، مگر جس خود اعتمادی اور خوب صورتی سے گلشن زبیدہ کے طلبا و طالبات نے اپنا پروگرام پیش کیا اس نے بے حد متأثر کیا اور میرے دل میں خواہش جاگ اٹھی کے جس گلشن میں ان بچیوں کی تربیت ہوتی ہے اسے اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھنا چاہیے، اسی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں یہاں آیاہوں۔ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ جس گلشن کا مالی حافظؔ کرناٹکی جیسی شخصیت ہے وہ یقینا بے مثال ہوگا، مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا لطف ہی اور ہوتا ہے۔ سو یہاں آکر دل سیرہوگیا۔ آنکھیں روشن ہوگئیں۔ اللہ اس گلشن کو ہمیشہ شادوآباد رکھے۔ مولانا اظہر ندوی نے کہا کہ؛ جناب ذبیح اللہ صاحب کے پروگرام ہم شوق سے دیکھاکرتے تھے اور ان کی ادب دوستی اور اردو محبت کی داد دیاکرتے تھے۔ آج ہم ان سے براہ راست مل رہے ہیں، یہ استاد گرامی ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی صاحب کی شخصیت کا فیضان ہے کہ ہم آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک اہم شخصیات سے شرف ملاقات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ذبیح اللہ صاحب اسی طرح خدمات انجام دیتے رہیں گے۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے حسب روایت اپنے خطاب کے درمیان ہی کئی اوزان وبحورکاذکرکیا۔ ان کی نغمگی پرگفتگو کی، زحافات کی خوبیوں پر روشنی ڈالی۔ اور افاعیل کی دلکشی پر بھی بہت پرلطف گفتگو کی۔ یہ ان کا بڑا کمال ہے کہ وہ فی البدیہہ اشعار کی تقطیع اس خوب صورتی سے کرتے چلے جاتے ہیں کہ بچوں کو یہ سب ادبی کھیل معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے بچوں سے اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ زبان کے حسن کے ساتھ ساتھ شاعری کی نزاکت، اور ترنم و لحن کی شگفتگی کا احساس بہت ضروری ہے۔ جب تک اپنی زبان کی جمالیات کا احساس بچوں کے اندر زندہ رہتا ہے وہ اپنی مادری زبان سے محبت کا دم بھرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے طلبا و طالبات سے کہا کہ عنقریب چھٹی ہونیوالی ہے۔ چھٹی کے اوقات کو ادبی ذوق کی سیری میں لگائیں اور مطالعہ کو اپنا شعار بنائیں۔ یوٹیوب پر موجود حمدیں، نعتیں، غزلیں، جو شہرتیں بٹوررہی ہیں انہیں سنیں۔ پڑھیں اور اپنالب ولہجہ درست کریں، سر،تال اور افاعیل کی نزاکت پر توجہ کریں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنے خطاب میں جناب ذبیح اللہ صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اردو کی خدمات اور بچوں کے ادبی ذوق کی تربیت میں دلچسپی لی اور دوردرشن سے بچوں کی صلاحیت کو عوام تک پہونچایا۔ انہوں نے کہا کہ ذبیح اللہ صاحب کی یہ بڑی خدمات ہے کہ وہ ماہرین کی گفتگو سے اپنے پروگرام کو سجاتے ہیں۔ اور معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ صاحب اسی طرح خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس جلسے کا باضابطہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، قرأت کلام پاک. محمد حذیفہ.نے پیش کی۔ قرأت کے بعد نعت کانذرانہ.نیہاں.نے پیش کیا۔ یہ کامیاب پروگرام…حافظ ناصر صاحب.کے شکریہ کے ساتھ ساتھ اختتام کوپہونچا۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ