جی این کے اردو، 16/مارچ2023
گلشن زبیدہ شکاری پور میں اخبار و رسائل کے مطالعے کی اہمیت پر ایک نشست
تاریخ گواہ ہے کہ وہی لوگ زیادہ ذہین اور باصلاحیت بن کرابھرے ہیں جنہوں نے مطالعے کو اپنا
شعار بنایا ہے: حافظؔ کرناٹکی
آج بروز سنیچر ۱۱/مارچ ۳۲۰۲ء کو گلشن زبیدہ کے احاطے میں بچوں کے اندر ادبی رسائل اور اخبار کے مطالعے کے ذوق کی تربیت کے لیے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی صدارت میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع سے بچوں میں ادبی ذوق کی تربیت اور رسالوں کے مطالعے کی خومیں اضافہ کرنے کے لیے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے بچوں میں اپنے ہاتھوں سے ماہنامہ ”ہلال“ کی کاپیاں تقسیم کی۔ اس نشست میں گلشن زبیدہ کے نائب سرپرست جناب انیس الرّحمن، انجنیر محمد شعیب، ایچ کے فاؤنڈیشن کے صدر جناب فیاض احمد،زبیدہ ہائیر پرائمری اسکول کے میر معلم جناب عبدالعزیز مدرسہ مدینۃ العلوم کے مہتمم مولانا محمد اظہر الدّین ندوی کے علاوہ کئی اساتذہ، اور آفاق عالم صدیقی نے بھی شرکت کی۔ اس خصوصی موقع سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے کہا کہ؛
بچویہ وقت امتحان کا ہے۔ ایک تو تم لوگوں کے اسکول کا فائنل امتحان ہے، دوسرے یہ کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونیوالا ہے تو تمہارے صبر اور روزہ کی برکتوں کے حصول کا امتحان ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اپنی زبان اور ادب کے فروغ میں تمہارا کیا رول ہے۔ اور تم اضافی مطالعے میں کتنی دلچسپی لیتے ہو اس کا بھی امتحان ہے۔ تمہیں چاہیے کہ تم اپنے چوبیس گھنٹوں کا ٹائم ٹیبل بنالو۔ اس میں ایک گھنٹہ اضافی مطالعے کے لیے مقرر کرو اور اس میں اخبار اور رسائل کو شامل کرو۔ صرف نصابی کتابوں تک خود کو محدود نہ رکھو۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی بچے زیادہ ذہین اور باصلاحیت بن کر ابھرے ہیں جنہوں نے مطالعے کو اپنا شعار بنایا ہے۔
نصاب کا مواد محدود ہوتا ہے۔ اس کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے اضافی مطالعہ لازمی ہے۔ اردو کے ادبی رسائل اور اخبار پڑھنے کی عادت کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی ذہنی تفریح ہوجائے گی اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔ ادبی رسالوں اور اخباروں میں معلومات سے بھرپور مضامین، کہانیاں،انشائیے، سفرنامہ، سوانح، اور لطائف وغیرہ سبھی کچھ ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کے علاوہ غزلیں، نظمیں بھی ہوتی ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے جہاں آپ کی زبان درست ہوتی ہے، وہیں آپ کے اندر بولنے اور لکھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور جب آپ لکھنے کی طرف راغب ہوتے ہیں تو پھر آپ کے پڑھنے کی رفتار اپنے آپ بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے اخبار اور رسائل کو آپ اپنے مطالعے میں ضرور شامل کریں۔ اور اس کی خریداری کے لیے والدین کا بوجھ نہ بڑ ھا ئیں آپ اپنی ٹا فیوں پر جو خرچ کرتے ہیں اس میں بچت کریں عیدی کے نام پر جو پیسے ملتے ہیں ان میں سے رسالوں اور اخباروں کے لیے پیسے بچا ئیں خود سے خرچ کریں گے تو محبت زیادہ مضبوط ہوگی
ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے کہا کہ میں نے چوں کہ بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کیا ہے تو میں جانتا ہوں کہ بچوں کے اندر کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں اخبارو رسائل کس قدر اہم رول ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نصاب میں جو مواد شامل کیا جاتا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ آپ کے دل کی آواز بن جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مگر اخبار ورسائل میں ایسے مواد کی کوئی کمی نہیں ہے جسے پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں کہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ جب آپ اپنے دل کی آواز سن لیں گے تو پھر آپ کے لیے تعلیم اور امتحان کا ہر مرحلہ نہایت آسان ہوجائے گا۔ آپ چاہیں تو ”ہلال“، ”امنگ“،”بچوں کی دنیا“،”گلشن اطفال“، ”اچھا ساتھی“، ”حجاب“، ”بتول“، ”گل بوٹے“ وغیرہ میں سے کوئی بھی رسالہ اپنے نام جاری کروا کر اپنے مطالعے کے ذوق کی تسکین کرسکتے ہیں۔ آپ میں سے جو بچے بڑے ہیں وہ تہذیب الاخلاق بھی منگوا سکتے ہیں۔ آپ اس طرح کے رسالوں کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی نظروں کے سامنے لاعلمی کا جو پردہ پڑا تھا وہ غائب ہو چکا ہے۔ اور آپ علم و آگہی کی ایک روشن دنیا کے روبہ رو کھڑے ہیں۔ اس لیے اخبار و رسائل کے مطالعے کو اپنے معمول کا حصّہ بنائیں۔
مولانا اظہر ندوی نے کہا کہ ہمارے پاس بہت سارے رسائل آتے ہیں، جنہیں ہم آج بھی شوق سے پڑھتے ہیں۔ مجھے بچپن سے ہی رسالوں کے مطالعے کی عادت ہے۔ سچ کہوں تو میرے اندر پڑھنے لکھنے کی صلاحیتیں انہیں رسالوں کے مطالعے سے پیدا ہوئی۔ اور انہیں رسالوں میں بچوں کی شائع شدہ چیزوں کو دیکھ کر مجھ میں بھی رسالوں میں چھپنے کا ذوق پیدا ہوا۔ جسے میرے استاد محترم ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے جلابخشا اور وقفے وقفے سے میں بھی لکھنے اور چھپنے لگا۔ آپ کے پاس مواقع ہیں، آپ اپنی پسند کے موضوعات پر جو جی چاہے لکھیے، آپ کی اصلاح اور تربیت کے لیے استاد محترم ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی صاحب ہر وقت حاضر ہیں۔ اس کے علاوہ ہم لوگ بھی جہاں تک ممکن ہوگا آپ کا تعاون کریں گے۔
جناب عبدالعزیز نے کہا کہ آنیوالے اکیڈمک سال میں بچوں کے لیے رسالوں کے مطالعے کو یقینی بنانے کے لیے میں بچوں سے کسی بھی ایک رسالے کا سالانہ چندہ وصول کروں گا۔ اور وہ رسالہ اس بچے کے نام سے جاری کرواؤں گا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ بچوں میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ ان کے اندر پڑھنے اور لکھنے کا ذوق بھی ہے۔ مگر گھریلو ماحول میں ادبی مطالعے کا رنگ نہیں پایا جاتا ہے اس لیے ان کے ذوق کی تربیت نہیں ہوپاتی ہے۔ صدیقی صاحب نے جن رسالوں کے نام گنوائے ہیں ان میں سے جو رسالہ جو بچہ یا بچی پسند کرے گی وہ رسالہ اس کے نام جاری کرانے کی کوشش کروں گا۔ عزیز صاحب نے اساتذہ سے بھی مخاطب ہو کر کہا کہ ابتدا میں اساتذہ کو اضافی مطالعے کے سلسلے میں بچوں کا ساتھ دینا ہوگا جب بچوں کے مطالعے کی تربیت ہوجائے گی تو وہ خود ہی اپنے مطالعے کے لیے اپنا منصوبہ تیار کرلیں گے۔ بچوں میں لکھنے کی تربیت کے لیے ہمارے یہاں کئی اسکالرس موجود ہیں ہمیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔
جناب انیس الرّحمن نے کہا کہ مطالعے کا عمل دراصل اپنی ذات اور شخصیت کے ظرف کو بھرنے کا عمل ہے۔ جب کثرت مطالعہ سے ذہن و دل میں فرحت اورتازگی پیدا ہوتی ہے اور جوش و امنگ سے پڑھنے والا بھرجاتا ہے تو وہ اپنے آپ لکھنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اور جب کوئی لکھنے کی طرف راغب ہوجاتا ہے تو پھر اس کے اندر پڑھنے کی شدید خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ زندگی میں کبھی نہیں ہارتا ہے۔ اس لیے مطالعے کی عادت کو ابھارنے کی کوشش بہت ہی مبارک کوشش ہے۔
انجنیر محمد شعیب نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ جن لوگوں کو اخبار و رسائل کے مطالعے کی عادت ہوتی ہے ان کی ذہانت اور معلومات کا مقابلہ عام طلبہ اور اساتذہ نہیں کرپاتے ہیں۔ اخبار و رسائل کا مطالعہ معلوماتی اعتبار سے بچوں کو امیر بناتا ہے۔ اس لیے اس کی خو سبھی بچوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ یہ نشست ماسٹر محمدسہیل کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچی۔