کالم نگار

لڑکیوں کی تعلیم اور آب و ہوا کا بحران از تحریر: مظہر اقبال مظہر )لندن)

لڑکیوں کی تعلیم اور آب و ہوا کا بحران

تحریر: مظہر اقبال مظہر )لندن)

آب و ہوا کے بحران اور نوجوانوں کی تعلیم کو اکثرالگ الگ موضوعات کے طور پر دیکھا جاتا ہے،جبکہ یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے موضوعات ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں لاکھوں بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ جس کا براہ راست اثر ان کے ہنر مند اور کارآمد شہری بننے کے امکانات اور مواقع پر پڑتا ہے۔ خاص طور پر کم اوردرمیانی آمدنی والے ممالک کے بچے قدرتی آفات کے نتیجے میں تعلیمی عمل کے فقدان یاابتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیلاب، خشک سالی یا طاقتور طوفان جیسے شدید موسمی حالات سے تعلیمی سہولیات  اور سیکھنے کے عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

حکومت برطانیہ کے ایک ماتحت ادارے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس نے دسمبر 2022 میں ایک پالیسی پیپر شائع کیا ہے۔ جس کا موضوع لڑکیوں کی تعلیم کے ذریعے آب و ہوا، ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کے بحرانوں سے نمٹنا ہے۔ اس رپورٹ کے سرورق پر دی گئی تصویر میں سوڈان کے علاقے دارفر میں چھوٹی عمر کی  لڑکیاں سخت گرمی میں کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرتی دکھائی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کلاس روم جو بانس سے بنا ہوا تھا وہ طوفان کے دوران گر گیا تھا۔ اس پالیسی پیپر میں یہ بتایا گیا ہے کہ آج دنیا کو جن بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سے دوسرفہرست ہیں۔ایک ہمارے نوجوانوں کا مستقبل اور دوسرا ہمارے سیارے کا مستقبل کیا ہے۔ ان دونوں چیلنجز سے بچیوں کی بہتر تعلیم کے ذریعے نبٹا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور تین یا چار دہائیاں پہلے کے مقابلے میں یہ اضافہ تقریباً پانچ گنا زیادہ  ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس عمل کی وجہ سے سالانہ تقریباً چار کروڑبچوں کی تعلیم میں خلل پڑ رہا ہے۔اور نہ صرف یہ بلکہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی غربت اورعدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔ صفنی امتیاز بڑھتا ہے اور خاندانوں، آبادیوں اورخطوں کے قدرتی وسائل کی کمی تنازعات کو آگے بڑھاتی ہے۔

 شماریاتی اشاریے بتاتے ہیں کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں لڑکیاں اور پسماندہ طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔یہ اثرات براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح سے ہوتے ہیں۔ براہ راست نقصانات میں اسکولوں اور سیکھنے کے لیے مہیا  کیا گیا انفراسٹرکچر جیسے سکولوں کی عمارات اور ان کا فرنیچر اور ساز وسامان تباہ ہو جاتا ہے۔ قدرتی آفات اور طوفان جب لوگوں کو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں تو خاندان پر ٹوٹنے والی اس قیامت کا سب سے زیادہ اثر بچوں کی تعلیم پر پڑتا ہے۔ جو مکمل طور پر رک جاتی ہے یا اگر خوش قسمتی سے جاری بھی رہے تو اس کا معیار اور بچے پر اس کا امپکٹ انتہائی غیر تسلی بخش رہ جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں خشک سالی کے نتیجے میں بچوں کو پانی جمع کرنے یا جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے نکلنا پڑتا ہے، جس سے تعلیم کے لیے کم وقت دستیاب ہوتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ بستیوں کو طویل عرصہ تک نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں تعلیمی تعطل پیدا ہونا لازمی امر ہے۔

بچے جب انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں تعلیم جاری رکھتے بھی ہیں تو ماحولیاتی تبدیلیاں جیسے درجہ حرارت میں اضافہ اور آلودگی کی اعلیٰ سطح ان کے لیے سیکھنے کا عمل کو مشکل تر بنا دیتی ہیں۔جبکہ بچوں کی جسمانی و ذہنی صحت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ غریب اور کم آمدنی والے ممالک کے پسماندہ اور معاشرتی سطح پر انتہائی نچلے درجے پر موجود طبقات کے لیے قدرتی آفات کسی قیامت سے کم نہیں ہوتیں۔ معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی پابندیوں کے پروں پر سوار خاندانی وقار و نام نہاد آبرو  نسلوں پر پھیلی عدم مساوات کی صورت میں کمزور ترین طبقے یعنی لڑکیوں کی مساوی تعلیم میں پہلے ہی مانع ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر قدرتی آفات کی افتاد آن پڑے تو چھوٹی اور بڑی عمر کی لڑکیاں یکساں طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ یہ تحقیق بھی ہو چکی ہے کہ اس قسم کے ناموافق حالات میں لڑکیوں اور عورتوں کے مرنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔دستیاب ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بے گھر ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے اور اس کی وجہ سے تشدد اور استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پالیسی دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی جھٹکے آمدنی کو کم کرتے ہیں، خاص طور پر غریب ترین، لڑکیوں اور معذور بچوں کے لیے تعلیم کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو سکتے ہیں۔کیونکہ خاندانوں کے محدود وسائل کو سیکھنے کے بجائے زندہ رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لڑکیوں کو غربت، پسماندگی، اور کمزوری کے حالات میں  اسکول چھوڑنے، چائلڈ لیبر اور جبری اور کم عمری کی شادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ خاندان زندہ رہنے کے لیے اور مشکل مالی حالات سے نمٹنے کے کسی بھی قسم کی قربانی کے لیے دریغ نہیں کرتے۔

 آب و ہوا اور ماحولیاتی بحران ہمارے سیارے اور بالآخر نسل انسانی کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ آب و ہوا اور ماحولیاتی تبدیلی کی صف اول میں رہنے والی کمیونٹیز کے لیے، یہ خطرہ روز مرہ کی حقیقت ہے۔دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی زندگیوں اور معاش کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ آب و ہوا اور ماحولیاتی بحران  سے غریب ترین مقامات پر سب سے زیادہ پسماندہ لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے لڑنے کے لیے مالیاتی سرمائے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی سرمایہ ہمارا سب سے بڑا غیر استعمال شدہ وسیلہ ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان اپنی ذہانت،  طاقت اور صلاحیت کے بل بوتے پر چیزوں کو بہتر انداز سے بدل سکتے ہیں۔ جب انہیں درست مواقع میسر ہوں تو خواہ وہ  لڑکیاں ہوں یا  لڑکے، یہ سب لوگ غیر معمولی کام کرتے ہیں۔

ہم تعلیم کے بغیر ایک پائیدار مستقبل حاصل نہیں کر سکتے اور افسوس کی بات ہے کہ پائیدار مستقبل کے بغیر تعلیم ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ لوگوں کو تعلیم ہی  بااختیار بنا سکتی ہے۔ آب و ہوا اور ماحولیاتی بحران کوسمجھنے،  صحیح معلومات کی فراہمی اور بحران کی کوششوں کے حوالے سے بہتر تعلیم اور آگاہی ہی مدد کر سکتی ہے۔لڑکیوں کی تعلیم ایک انسانی حق ہے۔ انہیں یہ حق برابری کی سطح پر ملنا چاہیے۔ دنیا میں جہاں بھی آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے اقدامات کا تذکرہ ہو رہا ہے وہاں بچیوں کی تعلیم اور بہتری کے اقدامات کو براہ راست پبلک پالیسی کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ اس کی ایک مثال برطانیہ میں ہونے والی کاوشیں بھی ہیں۔ مذکورہ بالا پالیسی کے تحت برطانیہ کے محکمہ تعلیم نے بچوں کو تیار کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت تعلیم نصاب میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں مثال کے طور پر جی سی ایس ای کے طالب علموں کے لیے ایک نئے مضمون نیچرل ہسٹری کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں نیشنل ایجوکیشن نیچر پارک اسکیم کا اجرا کیا جائے گا۔ جبکہ 2023 میں ایک بین الاقوامی گرین سکلز کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ