جی این کے اردو
16 جنوری 2022
شکاری پور میں مدرسہ مدینۃ العلوم کی انجمن اصلاح البیان کا شاندار جلسہ
آج بروز اتوار۲/اکتوبر ۲۲۰۲ء کو مدرسہ مدینۃ العلوم شکاری پور کی مسجد میں مدرسہ کے طلباء کی انجمن اصلاح البیان کا ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت کے فرائض مدرسے کے سرپرست مشہور شاعر وادیب ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے ادا کیے، اس جلسے کی قیادت کے انعام یافتہ شاعر و ادیب، خطیب، مفتی، قاضی اور مہتمم مدرسہ مدینۃ العلوم شکاری پور حضرت مولانا محمد اظہر الدّین ازہر ندوی دامت برکاتہم نے اداکیے۔
اس جلسے میں مولانا محبوب الرّحمان صاحب ندوی، مولانا عبدالرّقیب صاحب ندوی، مولانا ایوب مظہر صاحب قاسمی، مولانا عرفان صاحب قاسمی، حافظ سہیل صاحب شاہی، حافظ عارف صاحب مدنی، مولانا یاسین صاحب مدنی، مولانا عطاء اللہ صاحب مدنی، مفتی شاہد صاحب مدنی، حافظ ریحان صاحب، مولانا ابراہیم صاحب، مولانا عبدالحفیظ صاحب، اور بھدراوتی سے حافظ سلطان صاحب بیگ، نرساپور سے مولانا ہدایت اللہ مظاہری صاحب، اور حافظ ابوبکر صاحب نے شرکت کی۔ جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس جلسے میں طلبا کے والدین اور سرپرستوں نے کافی تعداد میں شرکت کی۔ پروگرام اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ قرأت سے لے کر صدارت تک اور صدارت سے لے کر حمد ونعت، تقریر و مناظرہ، استقبالیہ، مکالمہ، تقاریر، احادیث سارے پروگرام بچوں نے ہی پیش کیے۔ اصلاح البیان کے اس خاص جلسے کی ایک اہم انفرادیت یہ بھی تھی کہ اس جلسے میں جہاں بچوں نے اردو، عربی، انگریزی میں تقریریں کیں، احادیث کے درس دیے، وہیں اخیر میں رباعیات بازی کا بھی پروگرام کیا۔ جس میں طلبا نے نہایت ذوق و شوق سے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی رباعیات سنائی، اور اپنے ادبی ذوق کا ثبوت پیش کیا۔ بچوں نے اپنی تقریری صلاحیتوں کے مظاہرے سے ثابت کردیاکہ انہیں بہت ہی اچھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور ان کی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتاہے۔ بچوں کی خود اعتمادی، زبان و بیان کی صحت و صفائی کسی بھی موضوع پر بولنے کی لیاقت و طاقت سب کچھ متأثر کن تھا۔
مدرسے کے طلبا، حسان، سیدریحان اور نور محمد نے مشترکہ طور پر استقبالیہ پیش کیا اور اپنے مدرسے کا تعارف کرتے ہوئے والدین سے کہا کہ آپ اور ہم سبھی طلبا خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایسے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، یہ ایسا ادارہ ہے جہاں نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ خارجی ضروریات پر بھی خوب توجہ کی جاتی ہے اور بچوں کی ہر طرح کی صلاحیتوں کو ابھارنے پر خلوص کے ساتھ محنت کی جاتی ہے۔ جس کی کچھ جھلکیاں آپ اس وقت خود ملاحظہ فرمائیں گے۔ اور سچ پوچھیے تو بچوں نے اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے سے حاضرین کو مبہوت کردیا۔ انہوں نے جس استدلالی انداز میں مناقشے پیش کیے جس خود اعتمادی کے ساتھ تقریریں کیں۔ جس خوب صورت انداز میں مکالمے ادا کیے اور جس دلکش انداز میں رباعیات بازی کا پروگرام پیش کیا وہ لائق ستائش تھا۔
اس جلسے کی قیادت کے فرائض ادا کرتے ہوئے اظہر ندوی نے کہا کہ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایک ایسے شجر سایہ دار کے سائے میں خدمات انجام دے رہے ہیں جن کی شہرت اور مقبولیت چار دانگ عالم میں ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ابتدا میں بھی اچھے اساتذہ ملے اور اخیر میں بھی۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے لے کر ندوہ تک اور اب شکاری پور تک ہمیں اللہ نے بہترین اساتذہ کی شفقت سے نوازا ہے۔ انہیں کا طفیل ہے کہ میں نے کچھ حاصل کیا ہے اور اپنی نیک نامی اور تعلیمی ترقی کی راہیں روشن کی ہیں۔ اور انہیں حضرات کی بدولت بچوں کو تربیت دینے کے گڑ سیکھے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مدرسے کے طلبا مناقشہ، مناظرہ، حمد خوانی، نعت خوانی، بیت بازی، احادیث، تفسیر، زبان دانی، قرأت، مکالمہ گوئی، تقریر، خطابت ہر میدان میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جنہیں والدین بہ چشم خود دیکھ رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم بچوں پر کتنی اور کس نوعیت کی محنتیں کرتے ہیں اور اپنے ادارے کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ بچوں کے روشن مستقبل کی فکر میں کس طرح ہم دن رات لگے ہوئے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے طلبا عالم باعمل بنیں۔
مولانا عبدالرزاق قاسمی امام و خطیب جامعہ مسجد شکاری پور نے اپنے تأثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نہ صرف یہ کہ ایک شاعر و ادیب ہیں بلکہ وہ ایک عالم با عمل انسان بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سرپرستی میں چلنے والا یہ مدرسہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پڑھنے والے طلبا پر ہر طرح محنت کی جاتی ہے۔ ان کے اوقات کو کام میں لانے کے لیے طرح طرح کے پروگرام کیے جاتے ہیں۔ اس طرح بچوں کی ہر طرح کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
حافظ سلطان بیگ امام و خطیب عائشہ مسجد بھدراوتی نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کا جلسہ دیکھ کر اور بچوں کی صلاحیتوں کو دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ اگر اسی طرح ہر مدارس میں طلبا کی تربیت پر توجہ کی جائے گی تو انشاء اللہ ہمارے بچوں کی صلاحیتوں میں خوب اضافہ ہوگا۔
مولانا محمد ابراہیم ندوی نے کہا کہ یہ مدرسہ حافظ کرناٹکی صاحب کے خوابوں کی تربیت گاہ ہے۔ وہ یہاں بچوں کی صرف نصابی تکمیل پر نہیں بلکہ ان کی ہمہ گیر صلاحیتوں کے فروغ پر توجہ کرتے ہیں۔ اسی لیے اس مدرسہ میں آنے کے بعد کندہ ئ ناتراش بھی ہیرے کی طرح دمک اٹھتا ہے۔ اللہ اس مدرسے کو اور اس کے سرپرست کو تادیر سلامت رکھے۔
مولانا حبیب اللہ نے کہا کہ مدرسہ میں طلبا کو تعلیم اور تربیت دونوں دی جاتی ہے تا کہ وہ جو کچھ پڑھیں ان پر عمل پیرا ہوسکیں۔ آج طلبا نے اپنی جن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور جس خوبصورتی سے کیا ہے وہ لائق ستائش ہے۔
ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ؛ میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھے اس ادارے کی خدمت کا موقع عنایت فرمایا۔ ادارے کی سرپرستی یوں بھی ایک آزمائش ہوتی ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ انہوں نے اچھے اساتذہ فراہم کردیے جن کی وجہ سے آزمائش کے مرحلے قدرے آسان ہوگئے۔ ان اساتذہ نے میری بہت ساری ذمہ داریوں کو کم کردیا ہے۔ یہ بچوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کے نصاب کی تکمیل کے ساتھ ان کے خارجی اوقات کو دوسرے علمی مشاغل میں صرف کرتے ہیں۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ انہیں احساس دلاتے ہیں کہ ایک دن ان کو قوم کی امامت کے فرائض ادا کرنے ہیں۔ اس لیے بچے بھی دل سے محنت کرتے ہیں۔ یہاں پوری کوشش کی جاتی ہے کہ بچے اچھے عالم، اچھے حافظ، بہترین قاری، امام، خطیب، اور اگر کسی میں صلاحیت اور ذوق ہے تو شاعر بھی بنیں۔
انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ضروری اور اہم یہ نہیں ہے کہ صرف نصاب کی تکمیل کرادی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں پر توجہ صرف کرکے انہیں قابل بنایا جائے، ان کے اندر جو صلاحیتیں پوشیدہ ہیں انہیں نمایاں کیا جائے۔ بچے قدرتی طور پر باصلاحیت ہوتے ہیں۔ بس ان پر تھوڑی محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے اخیر میں یہ بھی کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آج کے دور میں اردو زبان کی حفاظت اور اس کے فروغ کا ایک اہم مرکز مدارس ہی ہیں اس لیے اگر اب پہلے کی بہ نسبت مدارس میں اردو زبان و ادب پر تھوڑی زیادہ توجہ دی جائے تو یہ ہر طرح مفید مطلب ہوگا۔ انہوں نے یہ کہا کہ مدرسہ کے طلبا کی انجمن اصلاح البیان سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اردو زبان اور انشا پر وازی پر بھی اسی طرح توجہ صرف کرے گی جس طرح وہ عربی اور دوسرے موضوعات پر توجہ صرف کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مدرسے کو ہمہ گیر علمی صلاحیتوں کے فروغ کا مرکز بناسکیں تو اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہوگی۔ اللہ ہم سبھوں کو عمل کرنے کی طاقت و توفیق عطا کرے۔
یہ جلسہ مولانا محمد ابراہیم صاحب ندوی کے شکریہ کے ساتھ نہایت کامیابی سے اختتام کو پہونچا۔