غیر درجہ بند

آشوری بنی پال قوم اور آشوری تہذیب از ثوبیہ شاہ

سائنس و ادب، طب و علم نجوم میں جو کچھ وہاں نظر آتا ہے بابلیوں سے ماخوذ ہیں۔ آشور بنی پال ایک روشن خیال، بیدار مغز اور تعلیم یافتہ حکمران تھا۔ وہ علم و فن کا قدردان اور مزہبی تھا۔اس کے کتب خانے میں دو لاکھ بیس ہزار تختیاں موجود تھیں۔ جن میں بابل کی بڑی بڑی کتابوں کے ترجمے شامل تھے۔ یہ تختیاں ادب، سائنس، مزہبات اور تاریخ کے خزینے ہیں۔یہ چند تختیاں برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔ یہ لوگ سنگ تراشی میں بھی ماہر تھے۔ جس کو آشوریوں نے خاص طور پر ترقی دی وہ سنگ تراشی ہے۔ اس فن میں وہ مصریوں غ مدمقابل تھے۔ان کے سنگ تراشی کے نمونے بکثرت سے دستیاب ہوئے۔ بادشاہوں کے جنگی کارنامے وسیع سنگی تصاویر کے ذریعے دیکھائے گے ہیں تصاویر الباسٹر پر کنندہ ہیں۔ اور محل کی دیواروں کے سامنے قطار در قطار نصب کی گئی ہیں۔ دوسرے نمونوں میں جنگی رتھ،جانوروں اور انسانوں کے مجسمے جنگ اور شکار کے مناظر شامل ہیں۔ جانوروں میں شیر، گھوڑے، کتے، ہرن،اور پرندوں کے مجسمے اور تصاویر ملتی ہیں۔ نقوش کے اندر انسانی شکلیں اتنی کامیاب نہیں ہیں۔ دستکاری و ہنر آشوری اہل بابل سے پیچھے نہیں رہے۔ آشوریہ میں بڑے بڑے کاریگر کا دیگر، صناع اور اہل ہنر موجود تھے۔ وہ اینٹوں اور ضروف پر پالش کرنا، جلا دینا اور رنگ چڑھانا جانتے تھے۔ آبنوس اور ہاتھی دانت کے سامان تیار کرتے تھے۔ اس نوعیت کا فن انھوں نے مصریوں سے سیکھا تھا۔ آشوریہ لوگ صنعت و زراعت میں بھی ماہر تھے۔ آشوریہ میں دھات اور کپڑے کے بڑے بڑے کارخانے تھے۔وہ صرف پیتل اور تانبے سے بھی واقف تھے اور اسی کے ضروف اور اوزار استعمال کرتے تھے بعد میں تقریباً 007 ق م میں انھوں نے لوہا دریافت کیا جو خود ان کے ملک میں پایا جاتا تھا۔اس کی دریافت نے ان کی صنعت پر گہرا اثر ڈالا۔ پیتل، تانبے اور لوہے کے مجسمے اور اوزار بھی تیار کرتے تھے۔ آ شوریہ نے روئی کے پودے ہندوستان سے درآمدات کیے اور پھر اپنے ملک میں روئی کاشت کی اور روئی کے بہت بڑے کارخانے لگائے۔ جس سے ان کی تجارت میں مزید اضافہ ہوا۔ آشوریہ کے دوسرے ملکوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔زراعت اور صنعت کی ترقی سے قدرتی طور پر تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ آشورہ اور نینواہ تجارت کے مرکز تھے۔ کپڑے، غلے، اسلحے اور چوبی سامان برآمد کیے جاتے تھے اور ان کے بدلے جواہرات، خوشبوئیں ،قیمتی لکڑیاں اور دوسرے آرائشی سامان درآمد کیے جاتے تھے۔تجارت دوسرے ملکوں کے ساتھ سمندری اور خشکی دونوں راستوں سے کی جاتی تھی۔ بابلی شہروں کی طرح آشوری شہروں میں تجارتی کمپنیاں تھی جو بڑے پیمانے پر کاروبار کیا کرتی تھی۔ آشوریوں نے چار بڑے شہر آباد کیے تھے۔ اربیلا، کلاخ آشور اور نینواہ۔ان میں آ شور اور نینواہ کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آشوریوں کی حکومت کو زوال آنا شروع ھو گیا۔وجہ اس دور میں جو ساتھ عالمی طاقتیں تھی ان میں بغاوت شروع ہو گئی اور عوام و فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ چنانچہ بارہ سال کے بعد اس نے میدیوں، پارسیوں اور ستھیوں کی مدد حاصل کر کے نینواہ پر حملہ کیا۔ آشوری لوگ اپنے درالحکومت کو نہیں بچا سکے۔ تمام شہر مٹی کے ڈھیر بن گے۔ اس سانحہ کے بعد آشوری سر نہیں اٹھا سکے اور ان کا ستارہ (605 ق م) میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ اس وقت آشوریوں کی لائبریوں کو بہت بری طرح تباہ کیا گیا۔ آشوریوں کا کتب خانہقدیم کتب خانوں کی باقاعدہ تاریخ کا آغاز آشور بنی پال کے کتب خانے سے ہوتا ہے۔ یہ کتب خانہ اپنے عہد کا ایک ترقی یافتہ کتب خانہ تھا اور اپنی تحریری سرمایہ کی وجہ سے آج بھی اس سے عہد گزشتہ کے بہت سے گوشے وا ہوتے رہتے ہیں۔یہ شاہی کتب خانہ سلطنت آپشوریہ کے نامور فرمانروا آشور بنی پال نے نینواہ میں قائم کیا تھا۔1850ء میں ماہرین ارضیات نے نینواہ کے مقام سے آشور بنی پال کے محل کے کھنڈر سے ایسی دس ہزار الواح سفالی (مٹی کی تختیاں) دریافت کیں جن کو خط میخی میں تحریر کیا گیا تھا۔ ان کے الواح کی لمبائی 11 سے 12 مربع انچ تک ہے۔ اس کتب خانے کے سرمایہ علمی کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں الواح کی تعداد دس سے پچیس ہزار کے درمیان تھی جو زیادہ تر بورسپا کے کتب خانے کی تختیوں کے مندرجات کی نقل پر مشتمل تھیں۔شاہی کاتبوں نے بعینہ مزہبی احکامات اور شاہی فرامین کے علاوہ، رجزیہ نظموں، موسیقی، قوانین، فلکیات، جادو اور لوک داستانوں کو ان پر درج کیا ہے۔اس کتب خانے کی بہت سی تختیاں جن کی تعداد 2072 ہے، آج برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ اس کتب خانے میں فراہمی مواد کے لیے شاہی احکامات جاری کیے گئے تھے۔ مسودات کے حصول کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ سب سے پہلے شاہی کاتب یا نقل نویس آشوریہ اور بابل کے دور دراز علاقوں کا سفر کرتے جو کچھ مواد ہاتھ آتا اس کی نقول اور تراجم کر کے ذخیرہ میں شامل کر لیتے۔ زیادہ تر مسودات پر نہ صرف شاہی مہر ثبت تھی بلکہ اکثر مسودات پر اس کی وضاحت ہوتی کہ یہ مسودہ بادشاہ کا مرتب شدہ ہے۔ شدہ ہے۔ کتب خانے میں موجود مواد کی ترتیب مضامین کے اعتبار سے کی گئی تھی اور یہاں پر کیٹلاگ سازی کا باضابطہ نظام رائج تھا۔جس میں موضوع کے علاؤہ کتاب کے مقام اور مآخذ کی معلومات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کتب خانے کا ایک جامع کیٹلاگ مندرجات کے ساتھ کتب خانے کے داخلی دروازے پر آویزاں تھا۔اس علمی مرکز میں مختلف ماہرین کی نگرانی میں الگ الگ شعبے موجود تھے۔ جہاں پر تراجم، تصنیف و تالیف اور نقل نویسی کا خاطر خواہ انتظام موجود تھا۔ اس کے علاؤہ شعبہ حصول مواد بھی تھا۔ شاہی متہم کی نگرانی میں بہت سے کاتب اور منشی الواح کی ترتیب و نگرانی پر مامور تھے۔کچھ کے ذمے تاریخی حالات و واقعات کو قلمبند کرنا تھا۔جبکہ کچھ کارکن سرکاری حساب کتاب درج کرنے پر مامور تھے۔ اس کے علاوہ دارالترجمہ و تالیف میں مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف کا کام دن رات جاری رہتا تھا۔ حوالہ جات کے لیے قدیم زبانوں کی لغات سینکڑوں برس پرانی تختیوں کی نقلیں ترجمہ کے لیے وہاں پر موجود تمام عملہ کی معقول تنخواہیں خزانہ شاہی سے مقرر تھیں۔

حوالہ جات1۔ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق، جلد اول

۔2۔polastron,lucienx.: “Book to son fire”The thumultuous story of the world,s Great Libraries”2007,pages 2-3Thames& Hudson London,Ltd

.3۔Menant, joachim:”Labibliotheque du palais de ninive”1880,paris:E. Leroux

4۔ گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی:https://www.enci اخز شدہ۔clopedia cat/-gec-0005808.xm Gran[عنوان -2021اکتوبر 14 : بتاریخ

5۔http://ur.m.wikibooks.org

کالم نگار

ثوبیہ شاہ فیصل آ باد

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu