مذہبی مضامین

معراجِ داعی اعظمﷺ کا راتوں رات کا سفر از بلال احمد پرے

جی این کے اردو ڈیسک

28فروری 2022

معراج ۔ داعی اعظمﷺ کا راتوں رات کا سفر 

تحریر: بلال احمد پرے
ہاری پاری گام ترال
9858109109

امام الانبیاء سرور کونین رحمت للعالمین خیرا الانام حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سب سے بڑا زندہ و دائمی معجزہ تو قرآنِ حکیم عطا ہوا ہے۔ بلکہ قرآن کے علاوہ مناسب موقعوں پر آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے بے شمار معجزات کا ظہور ہوا ہیں۔ ان میں سے شق القمر اور معراج بہت ہی اہم اور اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔

معراج کا لفظی معنی اوپر چڑھنے کے ہیں چونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے ایک آسمانی سفر کے بارے میں یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔ قرآن نے اس کو اِسراء ( The journey of Night ) کا نام دیا یعنی راتوں رات کا سفر ۔ اس مقدس سفر سے دراصل بے شمار حقیقتوں سے پردہ اٹھانا مطلوب تھا اور اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب نبی ﷺ سے ہم کلام ہونا تھا۔ معراج مکہ کی گیارہ سالہ گھٹن بھری زندگی، تنگ، پریشان، تکلیف دہ اور جہالت سے آزادی کی نوید تھا ۔ کعبۃ اللہ کو دستِ غاصب سے رہا کرانے کا پیغام تھا ۔ القدس کی پامال تقدیس کو بحال کرنے کی بشارت تھی ۔ یہ مومنین کی مغفرت کی خوشخبری سنانے والا پیغام تھا ۔ یہ تحفہ نماز حاصل کرنے کا سبب تھا ۔ یہاں خالق ارضِ و سماں میزبان اور محبوب نبی آخرالزمان رحمت للعالمین ﷺ مہمان تھے ۔ یہ کائنات کے وقت کی روح بند کرنے (time dilation) کا مقدس سفر تھا ۔ یہ داعی اعظم ﷺ کو حقیقتوں سے پردہ اٹھا کر مشاہدہ کرانا مطلوب تھا ۔ معراج سے امام الانبیاء کا سرفراز عطا کرنا تھا ۔
معراج کے دوران اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب رسولﷺ کو کئیں حقیقتیں عیاں رکھ دیں جن پر ایک مومن کو بِنا دیکھے آپ ﷺ کے فرمان پر یقین کر لینا ہے تاکہ اس سے ایمان کی دولت نصیب ہو گی ۔ آپﷺ نے دنیا کے سامنے پوری قوت اور زور سے یہ بات واضع فرما دی کہ آپﷺ جن حقیقتوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں اُن کا آپﷺ مشاہدہ کر کے آئے ہیں ۔
قرآن کریم نے اِسراء جیسے آسمانی سفر کا نقشہ یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’ پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے (حضرت محمد ﷺ ) کو رات ہی رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینآ اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے‘‘۔ ( بنی اسرائیل : ۱ )
مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے جانے کو اِسراء کہتے ہیں اور آگے آسمانوں پر جانے کو معراج کہتے ہیں – مسجد اقصیٰ ملک شام میں واقع ہے جہاں دینی برکتیں یہ ہے کہ وہاں بکثرت انبیاء علیم السلام مدفون ہیں اور دنیاوی برکتیں یہ ہے کہ وہاں اشجار، انہار اور پیداوار کی کثرت ہیں ۔
تاریخ معراج کا واقع قرآن نازل ہونے کے دس سال بعد اور ہجرتِ مدینہ سے تقریباً سال ڈیڑھ سال پہلے پیش آیا ہے ۔ اس واقعہ کے بارے میں صحیح البخاری و کتاب المسلم کی روایات کو سامنے رکھنے کے بعد یہی مجموعی تفصیل سامنے آتی ہے کہ ’’ اللہ کے نبیﷺ نے ایک صبح کو ارشاد فرمایا کہ گذشتہ رات میرے رب نے مجھے بڑی عزت اور اعلیٰ مقام بخشا ہے۔ آپ ﷺ سویے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر جگایا اور حرم کعبہ میں اٹھا لائے ۔ یہاں سینہ مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا گیا۔ پھر ایمان و حکمت سے بھر کر بند کر دیا گیا ۔ اس کے بعد سواری کے لیے بُراق ایک جانور جو خچر سے چھوٹا اور سفید رنگ کا تھا پیش کیا گیا – نبیﷺ اس پر سوار ہوئے کہ بیتُ المقدس جا پہنچے ۔ بُراق کو مسجد کے دروازے پر باندھ دیا گیا اور آپﷺ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے ۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کی گئی۔ اب جبرئیل علیہ السلام نے شراب اور دودھ سے بھرے دو پیالے پیش کئے ہیں۔ حضرت نبی اکرم ﷺ نے دودھ کا پیالہ قبول کرکے دینِ فطرت کو اختیار کیا۔
اس کے بعد آسمان کا سفر شروع ہوا۔ پہلے آسمان کے نگہباں فرشتے نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ جبریلؑ نے بتایا ’’یہ محمد ﷺ ہیں‘‘۔ فرشتے نے پھر پوچھا ’’کیا یہ بلائے گئے ہیں؟‘‘۔ جبریلؑ نے بتایا ’’ہاں‘‘۔ یہ سن کر نگہبان فرشتے نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ’’ایسی ہستی کا آنا مبارک ہو‘‘۔ وہاں آپﷺ حضرت آدمؑ سے ملاقات ہوئے ۔ اسی طرح باقی آسمانوں پر فرشتوں نے سوال کیے ۔ دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسٰی ؑ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، پھر تیسرے آسمان پر حضرت یوسفؑ سے، چوتھے پر حضرت ادریسؑ سے، پانچویں پر حضرت ہارونؑ ، چھٹے پر حضرت موسیٰؑ اور ساتویں پر حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوتے ہو گئے ۔ سبھی انبیاء کرام علیہم السلام نے سلام کے جواب میں ’’ خوش آمدید اے صالح نبی‘‘ فرمایا- پھر آپﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ جو ایک بیری کا پیڑ انتہا پر ہے تک پہنچایا گیا ۔ اس پر بے شمار ملائکہ جگنوں کی طرح چمک رہے تھے ۔ یہاں آپﷺ نے بے شمار حقیقتوں کا مشاہدہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔
بارگاہِ خداوندی سے دن رات میں پچاس نمازیں جو بعد میں کم کرتے کرتے پانچ کر دی گئیں بطور خاص تحفہ امت مسلمہ کے لیے مرحمت فرمائیں گئیں ہیں ۔ نماز کے علاوہ بارگاہِ الٰہی سے دو تحائف اور بھی مرحمت ہوئے ایک تو سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں جن میں اسلام کے عقائد اور ایمان کی تکمیل کا بیان ہے اور یہ بشارت ہے کہ اب مصیبتوں کا دور ختم ہونے والا ہے ۔ دوسری خوش خبری یہ بھی دی گئی کہ اُمتِ محمدیﷺ میں سے جو کوئی شرک سے بچا رہے گا اس کی مغفرت ہوجائے گی ۔
آپﷺ نے جنت و دوزخ کا بھی مشاہدہ کیا اور مرنے کے بعد اعمال کے لحاظ سے جس جس قسم کے حالات سے لوگوں کو گزرنا ہے اس کے بھی چند مناظر آپﷺ کے سامنے پیش کئے گئے۔ آسمانوں سے واپس ہونے کے بعد جب آپﷺ پھر بیت المقدس تشریف لائے تو دیکھا کہ یہاں انبیاء علیہم السلام کا مجمع کھڑا ہیں- آپﷺ نے دو رکعت نماز (نفل) پڑھائی اور سب نے آپﷺ کے مقتدی بن کر نماز ادا کی۔ اس طرح آپﷺ امام الانبیاء سے سرفراز ہوئے ہیں۔
اس کے بعد آپﷺ اپنے مقامِ آرام پر واپس تشریف لے آئے اور صبح کو اسی مقام سے بیدار ہوئے۔ آپﷺ نے جب صبح کے وقت یہ واقعہ بیان فرمایا تو قریش کے کفار میں جو لوگ مخالف تھے انہوں نے آپﷺ کا نہ صرف مذاق اڑانا شروع کیا بلکہ بیتُ المقدس کے بارے میں معلومات کا امتحان کرنے کا فیصلہ بھی کیا- اور جن لوگوں کے دلوں میں آپﷺ کی سچائی اور صداقت کا یقین راسخ کر چکی تھی انہوں نے حرف بہ حرف تصدیق کی- یہ واقع سنتے ہی کئی کافر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ آج آپ کا دوست یوں فرماتا ہے۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ اگر واقعی طور پر میرے نبیﷺ نے فرمایا ہے تو یہ سب درست ہوگا، جس میں ذرا بھی شک نہیں ۔ اس طرح یہ کافر رسوا ہو کر لوٹ آئیں –
حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ” جب قریش کے لوگوں نے مجھ پر یقین نہیں کیا کہ میں معراج کرکے آیا ہوں تو میں الحجر میں کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو میرے سامنے لاکھڑا کردیا اور میں اُن لوگوں کو وضاحت کرتا رہا جب کہ میں اُس کی طرف دیکھ رہا تھا‘‘۔  (صحیح البخاری ؛ 3886)۔
معراج کا واقعہ ایک طرف تو لوگوں کے ایمان و رسالت کی تصدیق کا امتحان تھا تو دوسری طرف خود آپﷺ کو غیب کے بے شمار حقیقتوں کے مشاہدے کا سبب تھا – ساتھ ہی ساتھ یہ اُس رونما ہونے والے انقلاب کے لیے ایک اشارہ بھی تھا۔ جس سے اسلامی تحریک کو جلد ہی دوچار ہونا تھا۔ جو قرآن پاک کی سورۃ بنی اسرائیل میں ملتی ہیں ۔
لہٰذا معراج یا اسراء کا پیغام یہی ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے پسندیدہ تحائف کو اپنی زندگی میں لائیں اور اللہ کے محبوب نبی ﷺ کی خوشنودی حاصل کرکے دنیا و آخرت میں فلاح پائیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے ارشادات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مصنف کے بارے میں

Bilal Ahmad Paray

ایک تبصرہ چھ