طارق شبنم کا افسانوی مجموعہ – بے سمت قافلے۔۔۔
جموں و کشمیر کا ضلع بانڈی پورہ جہاں اپنی بے پناہ خوبصورتی اور قدرتی حسن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے وہیں یہ ضلع علم، ادب اور آب کی وجہ سے بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس ضلع کی خاک ارجمند بہت ہی زرخیز مانی جاتی ہے کیونکہ اس سرزمین نے بہت سے ادباء، مفکرین، علماء اور اسکالروں کو جنم دیا ہے۔ طارق شبنم جو کہ ایک جواں سال افسانہ نگار ہے بھی اسی ضلعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اجس گاؤں میں انہوں نے جنم لیا ہے۔ موصوف کئی برسوں سے مسلسل افسانے تحریر کررہے ہیں اور ان کے شبنمی افسانوں کو ادبی حلقوں کے زریعے کافی سراہانا ملتی رہتی ہے۔ ان کے افسانے وادی کشمیر کے متعدد اور نامور اردو روزناموں و رسالوں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ گمشدہ دولت چند سال پہلے منظر عام پر آچکا ہے جس پر نامور محققین اور ناقدین نے تبصرے لکھے ہیں اور اس مجموعہ نے ادبی حلقوں سے پزیرائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بے سمت قافلے طارق شبنم کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے جس میں کل چوالیس افسانے ہیں اور جو 282 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ جی این کے پبلیکیشنز کے زریعے شائع کیا گیا ہے اور اس کا سر ورق بہت ہی خوبصورت و قابل دید ہے۔ یہ مجموعہ مصنف نے اپنے والدین کے نام کیا ہے۔
اپنی بات میں موصوف بالکل عاجزی و انکساری سے یہ بات دوہرا رہے ہیں کہ موصوف کوئی بڑا یا عظیم افسانہ نگار تو نہیں ہے مگر سماجی زندگی میں جو بھی تجربہ حاصل کیا ہے اسے صفحہ قرطاس پر لانے کی کوشش کرتا ہوں۔عالمی شہرت یافتہ ناقد ڈاکٹر ریاض توحیدی کا ماننا ہے کہ طارق شبنم فکری اور عملی طور پر ادب سے جڑے ہوئے ہیں اور اردو زبان و ادب سے محبت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر فریدہ تبسم نے اس مجموعہ پر ایک تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ طارق شبنم کے یہاں موضوعات اطراف و اکناف سے اخز کیے گئے ہیں اور زیادہ تر موضوعات میں اصلاح معاشرہ اور امن و امان اور خوشحال زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ نامور محقق ڈاکٹر غلام نبی کمار اس مجموعہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ طارق شبنم کے اکثر افسانوں کے موضوعات سماج کے درماندہ اور پسماندہ لوگوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں ان میں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے اور انسانی نفرتوں کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ ٹھنڈا جہنم، یہ اس مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے جو دو ملکوں کی ابتر سیاسی صورتحال کو بیان کرتا ہے جو انتہائی سرد ترین گلیشیر علاقوں پر بھی اپنی فوجیوں کو تعنات اس غرض سے کرتا ہے کہ مخالف ملک کی فوج برفیلی علاقہ جہاں انسانوں کا کیا جانوروں کا رہنا بھی دشوار اور ناممکن ہے اپنی قبضہ میں نہ لے۔ سرسوں کے پھول، طارق شبنم کا یہ افسانہ ایک منفرد افسانہ اس لیے قرار دیا جائے گا کیونکہ اس افسانے میں سرحدوں کے نزدیک رہ رہے لوگ کس طرح کی ستم ظریفی کا سامنا کررہے ہیں نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ سرحدی علاقوں کی عام زندگی ہی نہیں بلکہ خوبصورت دل اور چہروں والے نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کو بھی شادی کے بندھن میں بندھنے نہیں دیتی جیسا کہ اس کہانی میں گل افروز اور سلمان کے ساتھ ہوا ہے۔ آئینہ فروش، یہ افسانہ جدید دور کے بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جس میں قومیں نیوکلیائی ہتھیاروں کو جمع کرانے کی دوڑ میں آگے بڑھ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے رہی ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کے منفی اثرات کیسے ہوں گے۔ شکور بھنگی، میں وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت کم ادیب ایسے افسانے تخلیق کر سکتے ہیں۔ الفاظ کا مناسب استعمال اور ماہرانہ انداز میں لکھا گیا یہ افسانہ سماج کے اہم مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک طرف جہاں مفلس اور غریب گھرانوں کی زندگیاں مشکل ترین بنتی جا رہی ہیں وہیں دوسری طرف سماج کے درندہ صفت اشخاص بیوہ اور یتیم عورتوں کو اپنی ہوس کا شکار بنا رہے ہیں۔ لوگ شکور کو بھنگی نام سے پکارتے تھے لیکن جو مومنانہ فعل شکور انجام دیتا تھا قلیل افراد کا دھیان اس طرف جاتا ہے۔ پریم نگر، یہ افسانہ گرچہ طویل نہیں بلکہ مختصر ہی ہے لیکن سبق آموز ضرور ہے۔ بابا سائیں، اپنی نوعیت کا یہ ایک منفرد افسانہ ہے جس میں بابا سائیں جیسے لوگوں کی خدمت خلق کے جزبے کو سراہا گیا ہے اور کس طرح وہ مجبور اور مشکلات میں پھنسے لوگوں کی مدد کرتا ہے خوب دکھایا گیا ہے۔
طارق شبنم ایسے افسانے تحریر کرنے میں ماہر نظر آتے ہیں۔ ہمارا سماج جہاں نااہل اور کنجوس افراد سے بھرا پڑا ہے وہیں بابا سائیں جیسے لوگ تنگدست افراد کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ میٹھا زہر – بانجھ پن کی شکار عورتوں کو سماج میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے، کالا جادو کرنا اور کسی بے قصور اور سیدھی سادھی عورت پر تہمت لگانا اور مختلف میووں کے رنگ چڑھانے، ان کی پیداوار بڑانے کے لیے کتنی زہریلی ادویات و انجیکشنوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اس افسانے میں نہایت ہی عمدہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ بے سمت قافلے- یہ افسانہ ایک درد بھری کہانی سنا رہا ہے ان لوگوں کی جن کو خوامخواہ اپنے ہی وطن سے نکالا جاتا ہے اور دوسرے ملکوں یا شہروں میں مہاجر بن کر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ طاقت کے نشے میں حکمران انسانی حقوق و ہمدردی کو بالاےطاق رکھ کر بچوں، عمررسیدہ افراد اور نوجوانوں کو طرح طرح کی ازیتیں پہنچانے میں شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ واضح رہے یہ افسانہ اس مجموعہ کی ٹائٹل سٹوری بھی ہے۔ بکھری کہانیاں، طارق شبنم کا یہ افسانہ ایک اہم عنوان اور موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سماج کے انتہائی غریب اور مفلوک الحال لوگ کس طرح کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کس طرح ان کے اردگرد کے لوگوں سمیت رشتہ دار بھی منہ موڑ لیتے ہیں افسانے میں بہترین طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ بےروزگاری اور غریبی واقعی سماج کے کمزور طبقوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیتی ہے۔ ان کا چولہا مشکل سے ہی جلتا ہے اور زندگی بخش دینے والی ادویات کا خریدنا ان کے لیے دن بہ دن محال ہوتا جارہا ہے۔ کالا قلعہ، یہ افسانہ پڑھ کر قاری کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ایک تو وادی کشمیر اردو افسانے میں کسی سے پیچھے نہیں دوم طارق شبنم کا منفرد لہجہ اور الفاظ کا صحیح استعمال قاری کو نیا سیکھنے کا بہترین سامان و موقع فراہم کرتا ہے۔ اس افسانے میں شیطانی صفات بمقابلہ خدا کے کلمات کا طاقت بخوبی دکھایا گیا ہے جن کے آگے شیطانی کارستانیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ کالی ناگن، موجودہ حالات کی صحیح عکاسی کرتے ہوئے مصنف نے اس کہانی کے زریعے آۓ روز ہمارے اسپتالوں میں پیش آنے والے واقعات جن میں زچہ عورتوں سے نوزاید شگوفوں کو چرا لیا جاتا ہے، سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں کے نظام کار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حی علی الفلاح، کبھی کبھی ایک مغرور اور فراموش انسان کو وعظ و نصیحت سے بھی راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا ہے مگر جب ایسے افراد کا سامنا غریب اور ناتواں لوگوں کے ساتھ ہوجاتا ہے تو ان کے کردار و اخلاق انہیں متاثر کر ہی دیتے ہیں اور وہ صحیح راستے پر چلنا شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ طارق شبنم موجود دور کے نمائندہ قلمکاروں میں شمار کیے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کی تحاریر سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ موصوف کو زندگی کا اچھا خاصا تجربہ حاصل ہے اور اس تجربے کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں بھی وہ اچھی مہارت رکھتے ہیں۔ اسی لگن اور ولولہ سے اگر افسانے تخلیق کرتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں جب وہ ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
رئیس احمد کمار قاضی گنڈ کشمیر