جی این کے اردو
۱۹ جنوری ۲۰۲۲
نئی نسل کی تربیت گاہ: متین اچل پوری
ازقلم : خواجہ کوثر حیات ۔اورنگ آباد ۔دکن
متین اچل پوری صاحب کے سانحہ ارتحال کی خبر سن کر بے اختیار مفتی شرف الدین عظیم قاسمی صاحب کے ایک مضمون کے یہ جملے ذہن میں ابھر آئی۔
“مسلسل فنا کی طرف جانے والے ہست وبود کے قافلوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے وجود سے ارد گرد کی دنیا روشن ہوجاتی ہے. ”
بیشک متین اچل پوری ایسی بے لوث شخصیت کے مالک تھے جن کی بصیرت انگیزی، فکری جہت اور بنیادی افکا ر ادب کے صفحہ قرطاس پر ہمیشہ درخشاں ستاروں کی مانند چمکتے رہیں گے۔
ادب کا سفر میرے لئے طویل نہیں مگر اس سفر میں جن شخصیات کے ربط نے میری ذہنی آبیاری کی ان میں متین اچل پوری صاحب کا نام اہمیت کا حامل ہے جو نہ صرف ناچیز کی ناتواں و کمزور تحروں کو پڑھتے بلکہ ان کے فنی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہمت افزائی بھی کرتے۔
میں بچپن گروپ کے بانی و سرپرست محترم سراج عظیم صاحب کی تہہ دل سے مشکور ہوں کہ متین صاحب سے میرا رابطہ ادب اطفال کے متحرک گروپ بچپن کے ذریعہ ہوا۔ متین صاحب کے ارتحال کا سانحہ جتنا بڑا ادب اطفال کا نقصان ہے اتنا ہی میں اپنا ذاتی نقصان بھی مانتی ہوں۔ کیونکہ ایک بلند مقام پر پہنچ کر کسی کی ہمت افزائی،پذیرائی وسیع القلب ہونے کے ساتھ ادب کی آبیاری میں ناقابل فراموش تعاون ہوتا ہے۔ شہر اچل پور سے نسبت سے محترم سے ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا بلکہ میری خوش نصیبی رہی کہ انہوں نے اپنی کتاب ”متین اچل پوری کی شعری و نثری جہات“ کی ترتیب کی خواہش ظاہر کی ساتھ ہی مقدمہ بھی تحریر کرنے کا کہا جو میرے لئے کسی چیلنج سے کم نہ تھا کیونکہ متین صاحب کی شخصیت ہمہ گیر فنی محاسن و محاکات کا احاطہ کرتی ہے اور ان کے نایاب فن پاروں پر خامہ فرسائی کرنا جوئے شیر لانے کے مصداق تھا مگر دو مہینوں کی طویل عرق ریزی سے بحرحال تقریباً 600 صفحات پر مبنی کتاب متین صاحب کی رہنمائی میں ترتیب پائی۔ اس ضمن میں گاہے بگاہے ان سے بات چیت بھی ہوتی اور مختلف اصناف پر سیر حاصل بات بھی۔ مختلف اصناف میں کی گئی متین اچل پوری کی طبع آزمائی پر مبنی آخری کاوش قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کو بھیجی گئی۔ میری یہ کوشش رہے گی کہ متین صاحب کے فنی اثاثہ کو کتابی شکل میں منظر عام پر لاکر ان کی بے لوث ادبی خدمات خصوصاً ادب اطفال میں ان کے بیش بہا تعاون کو ارباب ادب کے روبرو پیش کر سکوں۔
انسان فنا نہیں ہوتا انسان کا عمل، سوچ نسلوں میں منتقل ہوکر رقم ہوتی رہتی ہے یقینا متین صاحب کی طویل ادبی ریاضت نسلوں میں منتقل ہو گی۔
ان پر لکھے مختصر مضمون ” نئی نسل کی تربیت گاہ: متین اچل پوری“ بطور خراج عقیدت پیش کررہی ہوں۔
سر زمین برار علم و ادب کی آبیاری میں اپنی منفرد شناخت رکھتی ہے۔اہل علم کی اس سرزمین سے علم کی ترویج کا آبشار طویل عرصے سے رواں دواں ہے۔ خوش نصیبی ہے کہ راقم کا تعلق بھی برار سے ہے۔ اسی سرزمین کی ایک ادبی شخصیت جس نے علاقہ برارکا نام روشن کیا جنہیں ہم متین اچل پوری کے نام سے جانتے ہیں جن کا اصل نام محمد متین ابن شیخ محمد ہے۔ آپ 18/جنوری 1950ء کو اچل پور، ضلع امراوتی میں پیدا ہوئے۔آپ پیشہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ آپ کی اب تک 16/ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔آپ نے پوری زندگی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے گزاری۔ساتھ ہی آپ نے بچوں کو قدرت اور فطرت سے جوڑے رکھنے کی سعی کی۔ آپ نے فطرت کے مظاہر پر نظمیں لکھی جس میں آپ کے ذاتی تجربے کا رنگ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ آپ بچوں کی نفسیات اور ان کی دلچسپیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی تعلیم و ہمہ جہت تربیت کے انداز سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں اور اس کا آپ نے بدرجہ اتم اپنی نظموں اورکہانیوں میں استعمال بھی کیا ہے۔
تعلیم وتربیت اور ادب کے لیے آپ کی ان بے لوث خدمات کے اعزاز میں حکومت ہند نے صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں آپ کو 1990ء میں مثالی مدرس کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا۔
متین اچل پوری نے بچوں کو اپنی نظموں کے ذریعہ کبھی حفظان صحت کی تعلیم دی تو کبھی انھیں بہت پیار سے شجرکاری کی اہمیت سے اور کبھی گلوبل وارمنگ کی ضرررسانی سے واقفیت کروائی. ساتھ ہی سورج کی افادیت کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا۔ شہاب ثاقب سے وقوع پذیر لونار جھیل کی منظر کشی بہت ہی دلکش انداز میں کی۔انہوں نے اپنے قلم سے گاؤں کی زندگی، مٹی کی خوشبو، مٹکے کا پانی ، نابینا لوگوں کی زبان، وادی کے پھول، راہوں کے درخت اور آگ کا سفر جیسی نظمیں بڑی چابکدستی سے پپش کی ہیں. اسی طرح جاڑے کی دھوپ اور دھند کی کیفیتیں بڑے دلآویز انداز میں بیان کیا ہے ۔ متین اچل پوری ماحول کے توازن اور بقاء کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لئے وہ اس ترکیب سے کچرے کی احتیاط اور پالی تھن بیگ کے نقصانات و گاڑیوں کے دھویں سے فضاء پر ہونے والے مضر اثرات،غرض زندگی کی تمام نعمتوں اور اس کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے شفقت و محبت سے اپنی نظموں اور کہانیوں کے ذریعہ بچوں کو آگاہ کروایا تاکہ بچے آسانی سے ان کو سمجھ سکیں۔ نظم ’درخت راہوں کے‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
درخت راہوں میں جو کھڑے ہیں
مسافرو! قدر داں بڑے ہیں
یہ پیڑ فطرت کے ہم زباں ہیں
یہ پیڑ صدیوں سے میزباں ہیں
دھند کو بہترین انداز میں بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی دیکھئے نظم ’دھند‘ کے اشعار پر ایک نظر ڈالتے ہیں ؎
دھواں سا سلسلہ در سلسلہ ہے
ہر ایک شے پر کوئی پردہ پڑا ہے
جدھر دیکھو ادھر یہ برف زادی
ہوئی روپوش پیاری پیاری وادی
فضا لگتی ہے جاسوسی کہانی
کرو گے کھوج تو پاؤ گے پانی
سائنسی معلومات، صحت مندجسم کے ساتھ بچوں کی کردار سازی اور شخصی نشوونما بھی ازحد ضروری ہیں۔اس کیلئے بھی متین صاحب کوشاں نظر آتے ہیں. ۔ افادیت سے بھرپور ترکاریاں کھانا کیوں ضروری ہے، دل میں یہ بات بٹھادی۔ بچوں کے دل میں علم کی جوت جلائی،ارادوں کو پختہ اور نیک رکھنے کی تلقین کی۔ ماں باپ کا احترام لازمی بتایا اور دوست کی دوستی کی اہمیت بھی بتلائی۔ سچ اور جھوٹ کا فرق خوب ترکیب سے سکھایا، عید کی رونقوں کے جگنو چمکائے،وطن سے محبت کے جذبہ کو ابھارنے کے لیے آزادی کاجشن بھی بڑے تزک و اہتمام سے منایا۔
اپنی کہانیوں سے بھائی چارگی اور ایثار کا جذبہ پروان چڑھایا۔ نظموں کی پر ترنم بندش میں بچوں کو گھر اور باہر کی سیکھ دی۔ ذہنی و اخلاقی تربیت کے لوازمات اور انسانی اقدار کے رنگوں میں رچی بسی کہانیاں بہادر اور نڈر ہوکر با مقصد زندگی گزارنے کی خواہش کا فنکارانہ اظہار ہے. یہ مستحسن فریضہ آپ کی ساری ادبی سرگرمیوں کا محور ہے۔آپ کے تعلق سے پروفیسر عبدالحق رقمطراز ہے کہ؛
”آپ کے چار شعری مجموعے موصول ہوئے۔ کئی نظموں نے دل میں اضطراب پیدا کیا کیونکہ ان میں زباں و بیان کی سادگی کے ساتھ فکر کی عظمت بھی موجود ہے۔ یہی خیال افروزی کے نکات ہیں جو تعمیر زندگی کو طلوع فکر کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔“
نظم کے علاوہ آپ نثر نگاری میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ آپ کی کہانیوں سے متعلق نورالحسنین کہتے ہیں کہ
”وہ نہایت خوبی کے ساتھ کہانی شروع کرتے ہیں۔ ان کے مزاج کی نفسیات سے کھیلتے ہیں۔ کہانی تمام تر دلچسپیوں کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی بھی کہانی پڑھنے کے بعد اس کا تاثر دیر تک بچہ اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہے۔“
متین اچل پوری نے اپنی تحاریر سے نئی نسل کی فکری و اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ فطرت سے بچوں کے معصوم ذہنوں کا ناتا جوڑتے ہوئے مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سطحوں پر ہمہ جہت ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کا احساس بڑی درد مندی کے ساتھ جگایا ہے.
ان اعلیٰ مقاصد کی حصولیابی کے لیے بڑے دلآویز انداز میں قلم اٹھانے کے ساتھ قدم اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔جس کے لیے متین اچل پوری قابل ستائش ہیں۔ماحول کو پالی تھِن یعنی پلاسٹک کی تھیلیوں سے بڑانقصان ہورہا ہے۔ پالی تھِن بھی ماحولیاتی آلودگی کا ایک حصہ ہے۔ اس سے بچوں کو دور رکھنے کے لئے وہ اپنی نظم میں بچوں سے مخاطب ہے اور کہتے ہیں کہ
دلّی ہو یا ہو برلن
گھاتک ہے یہ پالی تھن
شہر ہیں اس کے اس کے گاوں
لیکن میں اس سے گھبراؤں
اس سے مجھے آتی ہے گھن
گھاتک ہے یہ پالی تھن
بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھ کر وہ بچوں کو حضور ﷺ کی نصیحت ’توشہ‘ کے ان اشعار کے ذریعے کرتے ہیں ؎
صفائی ہے کیا، نصف ایمان ہے
نصیحت یہ فرما رہے ہیں نبیؐ
فضاؤ ں کو آلودگی سے بچائیں
حفاظت کریں ہم بھی ماحول کی
بیشک متین اچل پوری ادب اطفال کا ایک بڑا نام ہے جو مسلسل اپنی کاوشوں کو کبھی نظم کی نغمگی میں پروکر تو کبھی دلچسپ کہانی کے پیرائے میں بچوں کے روبرو اس طرح لاتے ہیں کہ بچہ نہ صرف اس کے مافی الضمیرتک پہنچ جاتا ہے بلکہ اس پر عملی زندگی میں بھی خوشی خوشی کاربند ہوجاتا ہے۔ بیشک یہ کتابیں بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاق کی ضامن اور نئے ادراک روشناس کرنے والی ہیں۔ جناب عبدالاحد ساز صاحب متین اچل پوری کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہیں کہ؛
”میرا خیال ہے کہ بچوں کے ذہن تک رسائی اس قدر مشکل مرحلہ نہ ہو، لیکن ان کے دل تک رسائی ایک بالکل جداگانہ معاملہ ہے۔ اور آپ کے کلام میں یہ معاملہ کچھ از خود ہی بن سا جاتا ہے۔“
یہی نہیں آپ کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود شیخ، جبل پور رقمطراز ہے کہ؛
”متین اچل پوری کے تخلیقی وژن اور موضوعات میں بچوں کی سی معصومیت بھی ہے اور سادگی اور سچائی بھی جو انہیں ہم عصر نثر نگاروں سے ممتاز بناتی ہے۔ انہیں قصہ گوئی کے فن پر عبور حاصل ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی واقعہ کو اس کی تمام جزئیات کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ قاری حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔ اور یہی استعجاب ان کی کامیابی کی دلیل بھی ہے۔“
جناب متین اچل پوری نے اپنے تخلیق کردہ ادب اطفال میں زندگی کے بدلتے رنگ اور عصری ادب کے آہنگ کو ملحوظ ِ خاطر رکھا ہے بچوں کی تربیت و تعلیم کی تڑپ اور ان بیش بہا کتابوں کی شکل میں کی گئی کاوشوں سے یقینا نسل نو کو بہت فائدہ ہوگا اور یہ اثاثہ ادب اطفال میں اضافہ کا باعث بنے گا۔
متین اچل پوری تخلیقی شعور رکھنے والے فنکار تھے جن کے پاس شعور کے ساتھ ادراک کی آگہی بھی بدرجہ اتم تھی ۔
آپ کے کلام اور تحاریر میں گنجلک کا کہی بھی شائبہ تک نہیں ملتا بلکہ صحت مند زبان اقدار وروایات کی پاسداری کرتی ہوئی جس میں متین صاحب کی زبان و بیان پر مضبوط گرفت نظر آتی ہے ساتھ ہی ایجاز و اختصار کا خصوصی وصف ان کی تحریر کا خاصہ رہا ۔
قادرالکلامی سے تحریر کردہ مضامین جس میں ضخیم عنوانات پر مختصر انداز میں جامع بامقصد بات کی گئی ہے ۔مختصر یہ کہ مسلسل محنت و مشقّت گہری لگن اور جانفشانی متین اچل پوری کی زندگی کے لازمی جز تھے ۔
زندگی کی صعوبتوں کو بارگراں جان کر موصوف نےکبھی دل کو مکدر اور حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا ۔ دھنک رنگ تخیلات کے رنگ ، نوک قلم کے توسط سے ورق ورق بکھیرتے رہے. ہمہ وقت غورو فکر اور مسلسل اکتساب علم من پسند شیوہ رہا. انہی اوصاف کے سبب ان کی شخصیت تہہ دار ہوتی چلی گئ جس کی دلآویزعکاسی ان کے ادب کا شیش محل شب و روز بطریق احسن کرتا رہا.
رب کائنات سے دعاگو ہوں کہ متین صاحب کو ادب میں کئے گئے گرانقدر اضافہ کا بہترین اجر عظیم عطا فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے ان کے حسنات ان کے وارثان کے لئے فلاح کا باعث بنے ۔