غیر درجہ بند

غلام نبی آزاد اور کانگریس پارٹی از محمد ہاشم القاسمی

جی این کے اردو

غلام نبی آزاد اور کانگریس پارٹی

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی) 

فون نمبر :=9933598528 کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے سیاست میں اپنے کیریئر کا آغاز 1973 میں کانگریس کمیٹی کے بلاک سکریٹری کے طور پر کیا۔ 1975 میں انہیں جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کا صدر ان کی فعال کارکردگی کی وجہ سے مقرر کیا گیا۔1980 میں انہیں یوتھ کانگریس کے آل انڈیا صدر کے طور پر ترقی دی گئی۔1980 میں وہ میں مہاراشٹر کے واشم حلقے سے الیکشن جیت کر لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر، آزاد کو پہلے مرکزی نائب وزیر برائے قانون، انصاف اور کمپنی کے امور اور پھر مرکزی نائب وزیر برائے اطلاعات و نشریات کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔1984 وہ میں رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے اور 1990 سے 1996 کے درمیان راجیہ سبھا کے رکن رہے۔1984-89 میں، وہ لوک سبھا کے لیے دوسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ انہیں دسمبر 1984 سے مئی 1986 تک پارلیمانی امور کی وزارت میں مرکزی وزیر مملکت بنایا گیا۔ مئی 1986 – اکتوبر 1986 مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ امور، اکتوبر 1986 – ستمبر 1987 مرکزی وزیر مملکت خوراک اور سول سپلائیز1990 میں وہ پہلی دفعہ راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ اپنی پہلی مدت کے دوران، 1991 میں، انہیں پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ 1993 میں انہیں شہری ہوا بازی اور سیاحت کے مرکزی وزیر کا چارج دیا گیا۔1996 میں آزاد کو ایوان بالا میں دوسری مدت ملی۔ اس مدت میں انہیں توانائی کی اسٹینڈنگ کمیٹی، ٹرانسپورٹ، سیاحت اور ثقافت کی اسٹنڈنگ کمیٹی اور وقف بورڈ کے کام کاج سے متعلق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں بطور رکن مقرر کیا گیا۔2002 میں، وہ تیسری مرتبہ راجیہ سبھا کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے جس کے دوران وہ پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر اور شہری ترقی کے وزیر کے طور پر منتخب ہوئے۔2005 میں آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔2006 میں ریاست کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔2008 بھدرواہ سے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے۔ دیا کرشنا کو 29936 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔2008 میں غلام نبی آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے۔2009 میں، وہ چوتھی مدت کے لیے راجیہ سبھا میں واپس آئے اور انہیں صحت اور خاندانی بہبود کی مرکزی وزارت کا انچارج بنایا گیا۔2014 میں، وہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اپوزیشن کے رہنما بن گئے۔2015 میں آزاد راجیہ سبھا کے لیے پانچویں مدت کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ انہیں 2015 میں ہی بہترین پارلیمنٹیرین کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔فروری 2021 میں غلام نبی آزاد راجیہ سبھا سے سبکدوش ہوگئے۔26 اگست 2022 میں کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔

 کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما و سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کے کانگریس چھوڑنے کے بعد قومی سطح کی سیاست میں ہلچل سی پیدا ہو گئی ہے، پارٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی کو پانچ صفحات پر مشتمل اپنے استعفیٰ نامہ میں غلام نبی آزاد نے اچھے دنوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ موجودہ وقت میں کانگریس قیادت سے اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ کی وجہ بتائی ہے، انہوں نے بغیر نام لئے راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کانگریس پارٹی غیر مستحکم ہوئی ہے، اور پارٹی انتخابات میں ناقص مظاہرہ کررہی ہے۔

  بیرون ممالک کا دورہ غلام نبی آزاد نے 1982 سے وزیر اور پارٹی جنرل سکریٹری کے طور پر مختلف شعبوں کے تحت میں دنیا کے 80 سے زائد ممالک کا وسیع پیمانے پر سفر کیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں 80 سے زائد سرکاری وفود کی قیادت کی۔ ستمبر 2011 میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے غیر متعدی امراض کی روک تھام اور کنٹرول پر نیویارک میں ‘یو این جنرل اسمبلی’ سے خطاب کیا۔ مئی 2013 میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں 66 ویں عالمی صحت اسمبلی سے خطاب کیا۔

  غلام نبی آزاد، راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے سابق لیڈر اور جی 23 کے ناراض لیڈروں کے ایک سرکردہ رکن ہیں جو کانگریس میں تنظیمی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی وجہ سے انھیں پارٹی کے اندر سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایوان بالا میں کانگریس لیڈر کے لئے اپنی الوداعی تقریر کے دوران آزاد کی تعریف کی تھی اور اس دوران وہ جذباتی بھی ہوگئے تھے۔

غلام نبی آزاد کو کانگریس نے چند روز قبل جموں و کشمیر میں انتخابی مہم کا انچارج بنائے جانے کے پارٹی کے فیصلے کو قبول کرنے سے معزرت کا اظہار کیا تھا لیکن اسوقت انہوں نے یہ عندیہ نہیں دیا تھا کہ وہ کانگریس کے سبھی عہدوں سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں ۔

غلام نبی آزاد نے سونیا گاندھی کو لکھے اپنے استعفے کے خط میں اعتراف کیا ہے کہ کانگریس زوال کے اس نچلے پائیدان پر پہنچی ہے جس سے واپسی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔انہوں نے اس صورتحال کیلئے کانگریہس کے سابق صدر اور سونیا گاندھی کے فرزند راہل گاندھی کو مؤرد الزام ٹھہرایا ہے۔آزاد نے اپنے خط میں کہا ہے کہ راہل گاندھی نے مشاورت کا نظام مکمل طور ختم کیا۔انہوں نے راہل گاندھی کو طفلانہ اور غیر سنجیدہ بھی کہا ہے۔آزاد نے سونیا گاندھی کو لکھا ہے کہ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو دو لوک سبھا انتخابات میں شکست فاش ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ریموٹ کنٹرول کا نظام قائم کیا گیا جس سے پارٹی کی سالمیت متاثر ہوگئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ درحقیقت، بھارت جوڈو یاترا شروع کرنے سے پہلے کانگریس قیادت کو ملک بھر میں کانگریس جوڑو یاترا شروع کرنی چاہیے تھی۔

واضح رہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے تقریباً پانچ دہائی کے بعد جمعہ کو پارٹی کو الوداع کہہ دیا اور دعویٰ کیا کہ ملک کی سب سے پرانی جماعت اب ‘مکمل طور پر برباد ہوچکی ہے‘ اور اس کی قیادت داخلی انتخابات کے نام پر ’دھوکہ‘ دے رہی ہے۔

انہوں نے پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی پر ‘نادان اور بچکانہ رویہ‘ کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ اب سونیا گاندھی صرف برائے نام لیڈر رہ گئی ہیں کیونکہ فیصلے راہل گاندھی کے ‘سیکورٹی گارڈ اور ذاتی اسٹاف‘ کرتے ہیں۔ غلام نبی آزاد نے اپنے استعفیٰ نامہ میں کئی بڑی باتیں کہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی باتیں بھی تھیں جس کی بنیاد پر یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ وہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کی طرح نئی پارٹی بناسکتے ہیں. 

ان کے استعفیٰ کو لے کر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس لیڈر اجے ماکن نے کہا کہ “غلام نبی آزاد کے یوں اچانک کانگریس پارٹی کو خیرباد کہنے پر پارٹی نے سخت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ غلام نبی آزاد کانگریس پارٹی کے ایک قابل احترام لیڈر تھے اور وہ مختلف اوقات میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غلام نبی آزاد نے ایسے وقت میں پارٹی سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا جب کانگریس پارٹی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مودی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ ایسے وقت میں غلام نبی آزاد کو پارٹی اور عوام کی آواز بننا چاہئے تھا، یہ انتہائی تکلیف دہ ہے”

کانگریس کے سینئر رہنما و سابق مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ ڈاکٹر شکیل احمد نے کہا کہ” غلام نبی آزاد کا پارٹی سے جانا یقیناً افسوسناک ہے، حالانکہ پارٹی نے انہیں وہ سب عہدے دیے جس کے وہ حقدار تھے، اگر کانگریس چھوڑنے کے بعد وہ کسی سیاسی میدان میں قدم نہ رکھتے تو ان کا وہی مقام ہوتا جو آج سے پہلے تھا، مگر انہوں نے پارٹی چھوڑنے کے کچھ دیر بعد ہی کشمیر میں ایک نئی پارٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ طے شدہ منصوبہ کے تحت لیا ہے۔ چونکہ انہیں پارٹی چھوڑنا تھا اس لئے اپنے خط میں کئی ایسے الزامات عائد کئے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر شکیل احمد نے کہا کہ سیاسی میدان میں لوگوں کی آمد و رفت کی روایت قدیم رہی ہے، اور کسی کے جانے سے پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، چونکہ پارٹی فرد واحد سے نہیں بلکہ کارکنان اور رہنماؤں کی مجموعی کاوشوں سے تشکیل پاتی ہے”۔

  کانگریس رہنما پرتھوی راج چوہان، آنند شرما اور بھوپیندر ہڈا نے دہلی میں کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ تینوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ کانگریس سے استعفیٰ دینے کے بعد جہاں پارٹی کے باقی رہنما غلام نبی آزاد کو نشانہ بنا رہے ہیں وہیں ان کے پرانے ساتھی بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔غلام نبی آزاد 4 ستمبر کو صبح 11 بجے سینک کالونی جموں میں ایک جلسہ عام کریں گے۔ کانگریس چھوڑنے کے بعد یہ ان کا پہلا جلسہ عام ہوگا۔

اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا کہ غلام نبی آزاد کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مہرا کے طور پر استعمال کئے جانے کے لئے ایک بڑا مسلم چہرہ ہاتھ لگ گیا ہے جسے ہر ممکن بھنایا جائے گا. 

 کانگریس پارٹی کا قیام 28 ؍ دسمبر 1885میں ایک انگریز ’’ ایلن اوکٹوین ہیوم‘‘ نے 72لوگوں کو ساتھ لے کر کیا تھا،اوکٹوین ہیوم اسکاٹ لینڈ کے ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر تھے، کانگریس کا سب سے پہلا چار روزہ اجلاس ممبئی میں منعقد ہوا تھا،جس میں سماجی کارکنان، صحافی، ایڈویکٹس، سمیت ملک کے مختلف حلقوں اور شعبہ جات کے معروف افراد شامل ہوئے تھے،اس کے پہلے صدر ’’ بیرسٹر بیومش چندر بنرجی ‘‘ تھے،پارٹی کا دوسرا اجلاس ٹھیک ایک سال بعد 27؍ دسمبر 1886کو کولکاتا مین دادا نھائی نورو جی کی صدارت میں ہوا ۔

  انڈین نیشنل کانگریس کو گرچہ ایک انگریز نے قائم کیا تھا ،مگر ہندوستان کی جنگ آزادی کی لڑائی میں یہ ایک مضبوط تنظیم و سیاسی پارٹی بن گئی ،تحریک آزادی کے دوران اس کے تقریباََ ڈیڑھ کروڑ ممبران تھے،بانئی پاکستان ،محمد علی جناح ، سبھاش بوس ، مدن موہن مالویہ،مہاتما گاندھی،موتی لال ، نہرو جیسے قد آور رہنماء کانگریس میں شامل تھے ۔

  آزادی سے پہلے کانگریس کا مقصد عوامی تحریک تھی،مگر وقت کے ساتھ اس کا رنگ و روپ بدلتا گیا،اوراب ایک مضبوط سیاسی پارٹی کے طور پر قائم ہے ۔

 آزادی کے کے بعد کانگریس نے جواہر لال نہرو کی قیادت میں ملک کی حکومت سنبھالی اور ملک میں طویل عرصے تک حکومت کرنے والی پہلی پارٹی ہے ، ایک انگریز کے ذریعہ قائم کردہ کانگریس پارٹی آج گاندھی پریوار ( نہرو خاندان) کی شناخت بن چکی ہے۔( صدائے وقت)

  آزادی کے بعد کانگریس کے پہلے صدر آچاریہ کر پلانی تھے،اس کے علاوہ مولانا ابو الکلام آزاد، مہاتما گاندھی ،موتی لال ، جواہر لال نہرو جیسے قد آور اور انقلابی رہنماء کانگریس کے صدر کا عہدہ سنبھال چکے ہیں ۔

  آزادی کے بعد سے لیکر اب تک کانگریس پارٹی کے صدور میں 16؍صدور گاندھی یا نہرو خاندان سے نہیں تھے ،سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی الگ الگ مدت کار میں 7؍ سال تک کانگریس کی صدر رہ چکی ہیں ،من موہن سنگھ اور لال بہادر شاستری دو ایسے وزیر اعظم تھے جو وزیر اعظم تو تھے مگر پارٹی صدر کا عہدہ ان کو نہیں ملا۔

   سونیا گاندھی سب سے طویل عرصہ تک اس پارٹی کی صدر رہ چکی ہیں انہوں نے ۱۹؍ سال تک اس عہدے کو سنبھالا جب کہ موجودہ حالات میں راہل گاندھی کے صدرکے عہدہ سے استعفیٰ دینے کے بعدتقریباََ دو سال سے وہ کارگزار صدر کی حیثیت سے کانگریس پارٹی کا فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔

   پارٹی کی حیثیت سے تحریک آزادی میں صرف کانگریس پارٹی ہی کا حصہ رہا ،کوئی دوسری پارٹی یا نظریہ کام نہیں کر رہا تھا ،اکیلی کانگریس سیاسی میدان مین اپنے کر تب دکھاتے ہوئے ۷۰ ؍ سال تک جمہوری ہندوستان پر حکمرانی کر تی رہی ،رواداری، تحمل پسندی کانگریس کی وسیع تر پالیسی کے خصوصیت تھی لیکن ملک میں زمانہ قدیم سے ایک ایسا طبقہ بھی موجود تھا جو رواداری اور وسعت پسندی کی سخت مخالفت کرتا تھا ۔

   1984 میں قومی رہنما ء اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ان دونوں نظریات کا ٹکراؤ واضح ہوگیا ۔ہندوتوا کی حامی آر ایس ایس جو لومڑی کی طرح کسی شکار کے فراق میں تاک لگائے بیٹھی تھی اسے سنہرا موقع ہاتھ آگیا اور وہ ایک دم سے ہندوستان سطح پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا ۔کانگریس پارتی کی خوش بختی تھی کہ اسے بہترین قومی سطح کے لیڈرس ملے، لیڈر اور پارٹی دونوں معاملوں میں کانگریس واحد جماعت رہی، جو حکومت سازی اور حکمرانی کی حقدار رہی ہے،البتہ کانگریس اس حقیقت کو نظر انداز کر تی رہی کہ ملک میںفرقہ پرست جماعتیں اور عناصر بھی ہیں ،ان کو نظر انداز کر تے ہوئے کانگریس پارٹی اپنے نظریہ اور سیاسی فکر کو مضبوط و مستحکم نہیں کر سکی ،اسی غفلت نے فرقہ فرست طاقتوں کو موقع فراہم کیا اور وہ آہستہ آہستہ عروج حاصل کر تی چلی گئیں ۔ان فرقہ پرست عناصر کی طاقتوں کا یہ عروج کوئی اچانک حاصل ہونے والا عروج نہیں تھا بلکہ با قاعدہ طور پر ان طا قتوں نے یکے بعد دیگرے مختلف سیاسی مورچوں پر معقول اور مؤثر انداز میں حملے شروع کر دیئے ، پھر بھی کانگریس پارٹی اپنی حکمرانی کی نشا میں ان کو بھی نظر انداز کرتی رہی ، نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے 75سال بعد آج فرقہ پرست طاقتیں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں ، پانچ ریاست کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی چار ریاست میں شاندار کامیابی اور پنجاب میں آر ایس ایس کی نومولود ’’عام آدمی پارٹی ‘‘کی کامیابی پر ملک کی مین اسٹریم میڈیا اور تجزیہ کاروں کے قلم اس پرانی اور بڑی سیاسی پارٹی کی مرثیہ گاتے ، اور تعزیتیں لکھنے میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں، جس نے آزادی کے بعد کے عرصے میں سب سے زیادہ مدت تک ہندوستان پر حکومت کی ہے ، لیکن ابھی جو کچھ بھی کانگریس کے بارے بولا یا لکھا جا رہا ہے ،اس میں زیادہ ترباتیں قبل از وقت ہے۔ پنجاب میں کیجریوال کیوں جیتا ؟اس پر مولانا احمد بیگ ندوی ، سابق استاذ دارالعلوم ند وۃ العلماء لکھنئو نے چونکادینے والا انکشاف کیا ہے ، وہ رقمطراز ہیں ’’ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی کیجریوال کی کرشماتی شخصیت کا نتیجہ ہے نا ہی اس کے مثبت و ترقیاتی ایجنڈے کا ، بلکہ آر ایس ایس کے ڈبل اسٹنڈرڈ رویے کا نتیجہ ہے، بہت سے لوگ کیجریوال کو ترقیات کا مہا پرش تصور کرتے ہیں ،مگر سچ میں وہ ایسا نہیں ہے،اس کی کامیابی کے پس پر دہ سنگھ پریوار ہے، آر ایس ایس کانگریس کو نیشنل سطح سے کھرچ کر پھینک دینا چاہتی ہے ،اس لئے اس نے اپنی پسند اور اپنے نظریئے کے لوگوں کو دوسرے نام سے نیشنل سطح پر لانے کا منصوبہ بہت خوبصورتی کے ساتھ تیار کیا، پہلے سنگھ نے اس کو دہلی میں آزمایا کامیابی ملی، اور 70؍ میں سے 67؍ ملیں یہ کیجریوال کے بس کا روگ نہیں تھا ،یہ سنگھ کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا،ابھی وہی فارمولہ پنجاب میں اختیار کیا ڈائیرکٹ بی جے پی کو پنجاب کے عوام قبول نہیں کر تے اس لئے سنگھ کی پوری مشینری کو پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے لئے سر گرم ہو گئی، اور کانگریس کو پنجاب سے اکھاڑ کر پھینک دیا،آنے والے دنوں میں مختلف صوبوں میں بوقت ضرورت یہ فارمولہ اپنا یا جائے گا،سنگھ کا یہ فارمولہ یہودی مفکر ’’ ہیگل ‘‘ کے نظریئے پر مبنی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے حویوی دشمنوں کو نیست و نابود کر نے کے لئے اپنے فرضی دشمنوں کو میدان میں اتارو ، جو ایک محدود دائرے میں رہ کر انڈر اسٹنیڈنگ کے ساتھ دشمن کا راگ الاپیں گے ، کیا کیجریوال کا دور حکومت اور بی جے پی کے خلاف اس کی نورا کشتی اس کی واضح مثاسل نہیں ہے؟ دہلی کی حیثیت ایک اسٹیٹ کی تھی، مگر کیجریوال کے سائے میں کتنی آسانی کے ساتھ اس کے اختیارات چھین کر اس کو انڈین ٹیروٹری کا حصہ بنا دیا گیا، کیجریوال نے مصنوعی چیخ و پکار کی تا کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔

  ہماری قوک کی نا آشنا ئے راز کیجریوال کو ترقیاتی فرشتہ خیال کرتے ہیں ، مگر یہ نہیں جانتے کہ وہ آر ایس ایس کا ایک کیڈر ہے، اس کے رگ و ریشے میں وہ تمام زہر موجود ہے جو اس انسان و ملک دشمن تنظیم کی خاصیت ہے، دہلی دنگے میں اس کی مسلم دشمنی ، اسی طرح کرونا کال میں دہلی مرکز پر پابندی اسی بد بختی کا شاخسانہ ہے۔ابھی پنجاب میں کامیابی کے بعد اس کے منہ سے نکلے ہوئے یہ جملے کیا بول رہے ہیں ؟ ’’ یوپی میں انقلاب تھا ، اب پنجاب میں بھی انقلاب آگیا‘‘ یوپی میں بقول اس کے انقلاب کا سر چشمہ کون ہے پچھلا پانچ سالہ دور ،مظالم کا دور ہے، قتل و دہشت اور قانون کی پا مالی کا دور ہے ۔اس لئے خوش فہمی کے گنبد سے نکل کر حقائق کی دنیا میں جینا سیکھئے ،اور سنگھ کی چالوں کو پہچانئے ، اور کیجریوال کے کمزور ترقیاتی ماڈل کے فریب میں مت پھنسئے ۔‘‘ 

    کانگریس کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کانگریس کے زوال اور ختم ہونے کے بارے میں بو لا یا لکھا جا رہا ہو ،اور پہلے بھی ایسے ڈیبیٹ اور تحریریں ردی کی ٹوکری کی نظر ہو چکی ہیں۔

   اس سے پہلے کانگریس کم از کم دو بار مر دہ قرار دی جا چکی ہے، پہلی بار یہ موت تب سامنے آئی تھی جب وزیر اعظم اندرا گاندھی کو دو سال تک ایمر جنسی لگانے کے بعد وزارت عظمیٰ کا دفتر خالی کر نا پڑا تھا ، لیکن تین سال بعد ہی کانگریس 70فیصد نششتیں لے کر واپس اقتدار میں آگئی اور تب تک یہ کانگریس کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔

   کانگریس کی دوسری موت کا اعلان 1999میں اس وقت ہوا جب کانگریس کے مقتول وزیر اعظم راجیو گاندھی کی بیوہ راہل گاندھی کی والدہ سونیا گاندھی نے ہچکچاتے ہوئے قیادت کی باگ دور سنبھالی تھی۔اسی سال ہونے والے لوک سبھا الکشن میں پارٹی کو بڑی شکست کا سامنا کر نا پڑا، اور 543لوک سبھا کے سیٹوں میں کانگریس کو صرف 114نششتیں ہی مل سکیں ، لیکن 2004نے زوال کا رخ عروج کی طرف موڑ دیا اور کانگریس نے ایک نہیں بلکہ دو مدتوں کے لئے مسلسل کامیابی حاصل کی۔

    اس کے بعد سے کانگریس پارٹی کی لگاتار نا کامی اور شکست نے پارٹی کاشیرازہ یقیناََ بکھیر دیا ہے ،اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حالیہ انتخابات اتر پردیس، اترا کھنڈ، پنجاب، گوااور منی پور میں کانگریس کی شرمناک شکست کی وجہ سے اپنے زوال کی اس سطح پر جا گری ہے جو اس سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھنا پڑا تھا ۔ 

   اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارتیہ جتنا پارٹی کی کوشش ہے کہ ہندوستان سے کانگریس پارٹی کا وجود ختم ہو جائے ، آپ کو یاد ہوگا 2014کے الکشن کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اپنی ریلی میں کھلے عام کہا تھا ’’ ہمیں کانگریس مکت بھارت چاہئے ‘‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملک کے دیگر پارٹیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے ، اس لئے کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس ملک سے سیکولزم اور جمہوریت کو ختم کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ اور اڑچن ہے تو بس یہی ایک مضبوط کانگریس پارٹی ہے ،اور کانگریس پارٹی کے رہتے ہوئے وہ اپنے اہم منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے ،اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوری توانائی کانگریس پارٹی کو ختم کرنے پر لگی ہو ئی ہے ، یہی نہیں بلکہ اس کی توجہ ان پارٹیوں پر بھی ہے ،جو کانگریس پارٹی کی ساخت کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ،جیسے عام آدمی پارٹی ، بی ایس پی، ایس پی اور ترنمول کانگریس وغیرہ ۔

    حالیہ انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی کی شاندار جیت کے بعد پارٹی کو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ آئندہ 2024کا لوک سبھا الکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کی راہ آسان ہوگئی ہے ،یہی وجہ ہے نتائج ظاہر ہونے کے فوراََ بعد گجرات میں وزیر اعظم کا روڈ شو کی تقریب منعقد کرنا اس کا صاف اور واضح اشارہ ہے۔ مگر انتخابی صلاح کار معروف شخصیت پرشانت کشور کے بیان نے جہاں کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے مردہ تن میں جان پھونک دی ہے، وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو تذبذب میں ڈال دیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ’’ پانچ صوبوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اثرات آئندہ 2024کے لوک سبھا الکشن میں نہیں پڑنے والا ہے ،انہوں نے کہا یہ بات وزیر اعظم بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسمبلی انتخابات میں مدے الگ ہوتے اور لوک سبھا کے الکشن میں مدے اس سے بالکل الگ ہوتے ہیں ،اور کسی بھی پارٹی کی کامیابی مدوں کے آدھار پر ہوا کرتی ہے، اس لئے بی جے پی کو بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور دیگر پارٹی کو بھی اس سے مایوس نہیں ہونی چاہئے‘‘نتائج سے قطع نظر کانگریس پارٹی نے ان انتخابات میں عوامی سطح کے مدو ں کو سامنے کیا اور لوگوں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہی ، کانگریس کو امید تھی اور تبصرہ اور تجزیہ کاروں کا کہنا بھی تھا کہ یوپی میں پرینکا گاندھی کی جد و جہد اور ان کی ریلیوں میں عوامی بھیڑ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے پرانے لوگ اب کانگریس کی طرف مائل ہو رہے ہیں ، ان کا نعرہ ’’ لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں ، خواتین کو چالیس فیصد ٹکٹ دیکر میدان میں اتارنا، کاشگنج ، اناؤ، لکھیم پور کھیری وغیرہ کے مدوں کو لیکر سرکار کو کٹگھرے میں لانا وغیرہ بہت کامیاب کوشش تھی، جس سے پارٹی کو مضبوطی ملتی دکھائی دے رہی تھی ،اس لئے امید کی جا رہی تھی کہ یوپی میں کانگریس کی ووٹ شیر میں اضافہ ہوگا ، مگر ایسا نہیں ہوا ،اترا کھنڈ میں بھی کانگریس کو بہت اچھا کرنے کی امید تھی ،منی پور اور گوا میں بھی حکومت سازی کی دعویدار تھی اور پنجاب کے بارے تو کوئی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہاں وہ واپسی نہیں کر پائے گی ۔کانگریس کو ہمیشہ اپنے گھر سے نقصان ہوا اس کی ایک دو نہیں سیکڑوں نظیریں ہیں ۔

   کانگریس پارٹی ملک کی سب سے پرانی پارٹی ہے ،ملک کی آزادی میں جس کی بے شمار قربانیاں ہیں ،کانگریس پارٹی آزادی کے بعد سے ملک کی ترقی اور پوری دنیا میں ہندوستان کو سب سے بڑا جمہوری ملک شمار کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، کانگریس کی قیادت میں ملک نے سوئی سے لے کر ملک کی دفاع کے لئے ایٹمی طاقت حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے ،کانگریس ہندوستان کی آئین کے دائرہ میں رہ کر اس ملک کی ترقی پر یقین رکھتی ہے ،اس لئے بھی کانگریس کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنا چاہئے ،اور پورے عزم اور حوصلہ کے ساتھ بلا کسی لومۃ لائم اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

“بھارت جوڑو یاترا “یہ خوش آئند پروگرام ہے جو 7/ ستمبر سے تمل ناڈو کے کنیا کماری سےکشمیر تک تقریباً 3,500 کلومیٹر کی پد یاترا شروع کی جا چکی ہے جسے 150 دن میں پورا کیا جائے گا۔ یاترا ملک کے مختلف حصوں سے ہو کر گزرے گی۔

 کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ پارٹی کا مقصد بی جے پی کے ’بھارت بانٹو‘ کے خلاف بھارت جوڑنے

کا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ یہ کانگریس کی سب سے بڑی سیاسی عوامی رابطہ مہم ہے اور راہل گاندھی سماجی صف بندی، اقتصادی عدم مساوات اور مرکز میں اختیارات کے مرتکز جیسے موضوعات پر پد یاترا کریں گے۔

 عبدالماجد نظامی اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں “کنیا کماری سے شروع ہوکر کشمیر تک پہنچنے والا محبت کا یہ قافلہ تین ہزار پانچ سو ستر کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گا۔ یہ قافلہ جس میں راہل گاندھی کے ساتھ کانگریس کے دیگر 118 سینئر لیڈران بھی شامل ہیں، ملک کی 12 ریاستوں اور دو یونین ٹیریٹریز سے گزرے گا۔ یہ قافلہ روزانہ اوسطاً 22 سے 25 کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گا۔ کسی ہوٹل میں قیام کے بجائے کنٹینر اور خیموں میں ٹھہرے گا اور عوام سے ملاقات کرکے انہیں مودی سرکار اور بی جے پی کی سماج کو تقسیم کرنے والی سیاست اور ایجنڈہ سے آگاہ کرے گا۔ ساتھ ہی 2024 کے عام انتخاب سے قبل ملک کے لوگوں کو بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل اور ان کے اسباب سے بھی واقف کرانے کا کام کرے گا۔

امید کی جاتی ہے کہ اس پروگرام سے کانگریس کے اندر جمود کو حرکت ملے گی اور عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی ***

 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ