جی این کے اردو
حاجی صاحب
محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل نمبر :=9933598528 حج یہ ایک ایسا عمل ہے کہ ۱۰۰؍سالہ بوڑھا ایک بچہ بن کر واپس ہوتا ہے، یہ حج کا دنیوی بدلہ اور اجر ہے۔ اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ،یہ حج کا اخروی بدلہ اور اجر ہے۔
جب حج نوجوان اور بوڑھے مرد اور عورت کو بچہ اور جنتی بنانے والا عمل ہے، تو پھر حج کرنے کے ما بعد حاجی ایک معصوم بچہ اور جنتی بن کر لوٹتے ہیں، اس لئے اب حاجی صاحب کی سیرت اور ان کی بقیہ زندگی میں کردار بھی یہیں سے متعین ہو جاتا ہے۔
بچہ خود مختار نہیں ہوتا، بلکہ مادر وپدر کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر خواہش میں والدین کے تابع اور فرمابردار ہوتا ہے۔ حاجی بچہ (گناہوں سے پاک) آئندہ کی زندگی میں اللہ اور رسول کا مطیع بندہ ہونا چاہئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا میں جنتی کسے فرمایا؟ جس کا رشتہ اللہ سے بھی جڑا ہوا ہو اور اپنے ارحام واقرباء سے بھی۔ وہ بندوں کو جوڑنے والا ہو، توڑنے والا نہ ہو، اللہ کا مہمان جب اللہ کا سفیر بنا تو اللہ کیلئے سفارتکاری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر سے جو عالمین کیلئے ہدایت کا منبع ہے، وہ جہاں سے لوٹ کر آئے ہیں ۔ وہ جہاں جہاں جائے، وہاں پر اسی ہدایت کو پھیلانے والے ہوں ۔ حج تو آئندہ کیلئے خالقِ کائنات کی اطاعت کا معاہدہ ہے۔ یہی تو ہے جو حاجی اللہ کے گھر میں آکر کرتے ہیں ۔ ما بعد حج تمام عمر اس عہد کی وفاداری ہی حاجی کا شعار ہونا چاہئے ۔
یہی حج کے وہ عظیم منافع ہیں جنہیں تقسیم کرنے کی خاطر اللہ نے اپنے بندوں کو یہاں پر بلایا اور انہیں اپنا مہمان بنا کر اعزاز بخشا۔
حضرت انسان جو ظاہر اور باطن سے مرکب مخلوق ہے اور اپنا قلب اور قالب دو جہتی وجود رکھتا ہے، اس کی اصلاح کے دونوں پہلوؤں کو جب تک مد نظر نہ رکھا جائے اور اس کیلئے مناسب ہدایت نہ کی جائے اس کی اصلاح ممکن نہیں۔
حج کا عمل اور اس کے مختلف مراحل حضرت انسان کے ظاہر وباطن، اس کے قلب وقالب کی اصلاح کیلئے ایسا کامل اور جامع درسگاہ ہے جس کے مختلف مراحل سے گزر کر حضرت انسان ، انسانِ کامل، انسانِ صالح، انسانِ نافع، اپنی امت مسلمہ کیلئے عموماً اور اپنے اپنے معاشروں، سو سائٹوں اور علاقوں اور ملکوں کیلئے خصوصاً حاجی ایک نفع بخش، باکردار انسان بن کر حج کے درسگاہ سے فارغ التحصیل ہوکر لوٹ سکتے ہیں.
لہذا حج سے متعلقہ افراد اور اداروں کے مذکورہ اہداف کو اپنا مطمح نظر بناکر اس کے حصول کی محنت کرنے کی ضروت ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے حج کیا اور اس نے (اس دوران) کوئی فحش کلامی اور گناہ نہیں کیا تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہو کر اپنے گھر اس طرح) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا“۔ ( متفق علیہ)
حج ختم ہوگیا، ارکان و اعمال حج ختم ہوگئے، طواف ہوچکا، عرفات میں حاضری ہولی، مزدلفہ میں رات کو رہ لیے، منیٰ میں کنکریاں پھینک چکے، قربانی کرچکے سر منڈاچکے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرلی، احرام پہن چکے جو حاجی نہ تھے، وہ اب حاجی ہوگئے۔۔۔۔۔کیا واقعتاً حج ہوگیا؟ کیا حقیقتاً اعمال حج ادا ہوچکے؟ رسماً صورۃً نہیں، معناً و حقیقتاً طواف و وقوف سعی و رمی، تلبیہ و قربانی کے فرائض و واجبات سے سبکدوشی ہو چکی؟ کیا جس کو دوستوں اور عزیزوں نے ”حاجی“ کہہ کر پکارنا شروع کردیا، وہ اللہ کے رجسٹر میں بھی ”حاجی“ لکھ لیا گیا؟ فرشتوں کی زبان پر بھی ”حاجی“ کے لقب سے موسوم ہوگیا؟ جس نے بار بار کسی کو پکارا، اس کے کان میں ادھر سے بھی کوئی آواز آئی؟ جس کا جسم مکے اور مدینے کی گلیوں میں چلتا پھرتا رہا، اس کا دل بھی وہیں رہا؟ جو گونگا اور بہرہ، اور اندھا سفر کو چلا تھا، وہ واپسی کے وقت کچھ بھی گویائی اور شنوائی اور بینائی کی قوتیں لےکر چلا؟ جواب کون دے؟ اور کس زبان سے دے” !۔(سفر حجاز مولانا عبد الماجد دریا آبادی)
حج کو زندگی بھر کی عبادات کا حاصل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو دنیا کے ایک فیصد سے بھی کم مسلمانوں پر فرض ہے۔ وہ خوش قسمت جو حج کر آتے ہیں، چاہیے کہ ان کی زندگی باقی لوگوں کے لیے نمونہ ہو۔
حج کی اصل کمائی یہی ہے کہ حاجی کا رخ مال سے اعمال کی طرف اور اسباب سے رب الاسباب کی طرف پھر جائے۔ اس گن کو حاصل کرنے کے لیے بدن اور روح کو اعمالِ دین والے ماحول کا عادی بنانا ضروری ہے۔ آئیے اس کام کے لیے کچھ قابلِ عمل باتیں کرلیں۔
سب سے پہلی قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے جب کہ نماز روزانہ پانچ بار فرض ہے۔ الحمدللہ آپ نے حج کرلیا۔ اب سے طے کر لیجیے کہ نماز کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ بدن کو نماز کی مشقت کا عادی اور پابند بنائیں کوشش کی جائے کہ ساری نمازیں مسجد میں پڑھی جائیں۔ لیکن اگر فوری طور پر اس کی پابندی مشکل لگ رہی ہے تو کم سے کم دو تین نمازیں تو ضرور ہی مسجد میں پڑھی جائیں۔ خدا چاہے تو رفتہ پانچ کی پانچ نمازیں مسجد میں پڑھنے کی توفیق مل جائے گی۔
عبادت صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو کل عبادت کا ایک چوتھائی ہے، علماء کرام فرماتے ہیں کہ فقہ حنفی کی معروف کتاب “ہدایہ” جو چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اس کتاب میں صرف پہلی جلد ہی میں یہ چاروں عبادات کے مسائل بیان کر دئیے گئے ہیں جبکہ بقیہ تین جلدوں میں معاملات، تجارت، معاشرت، آداب و اخلاق کے بیانات ہیں اور وہ اہم عبادات کے شعبے ہیں، اس لئے اگر ہمارا عمل حج ادا کرنے سے پہلے کے معاملات، تجارت، معاشرت، آداب و اخلاق وغیرہ میں فرق نظر آنا چاہیے.
اس دورکا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی فرض کی ادائیگی کے لئے خشوع وخضوع ،انابت الی اللہ ، تقویٰ وبندگی اوررجوعِ الٰہی کی صفات حسنہ سے دور رَہ کر محض ارکان کی ادائیگی پر ہمارا زیادہ تر انحصار اور مدار رہ گیا ہے، ریا نے خلوص کی جگہ پر قبضہ کرلیا ،نفاق جڑ پکڑ گیا،
خوف وخشیت کو ہم نے سلام کرلیا، نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی عبادات پر عُجب ،غرور ، تکبر اور دکھاوا جیسی بری صفات پیدا ہو گئیں، ایک آدمی زندگی بھرنماز پڑھتا رہے پھر بھی اس کو ’’نماز ی‘‘کہہ کر نہیں پکارا جاتا، ایک آدمی تاحیات روزہ رکھتا رہے پھر بھی اس کو’’روزہ دار‘‘ نہیں کہاجاتا ، ایک شخص ہمیشہ زکوۃ اداکرتے رہے مگر اسے کبھی’’زکوتی‘‘ نہیں کہا جاتا لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک بارحج کرلے تو اسے’’ الحاج‘‘ ’’زائر حرم‘‘ اور’’حاجی صاحب ‘‘جیسے القاب دے دئے جاتے ہیں. حالانکہ شریعت میں حج سے زیادہ نماز کی تاکید اور اس کو ادا نہ کرنے پر سخت ترین وعیدیں سنائی گئی ہیں ،لیکن لوگوں نے اپنے قول وعمل سے حج ہی کو اشرف العبادات بنادیا ہے ! فیا للعجب ۔
تلاوت قرآن سے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے’’اقرأوا القرآن وحرکوابہ القلوب لایکون ہم احدکم آخرالسورۃ”
قرآن پڑھو اوراپنے دلوں میں حرکت پیدا کرو، تمہارا مقصد سورۃ ختم کرنا نہ ہو‘‘
ایک بار ارشاد فرمایا کہ” انزل القرآن لیعمل بہ فاتخذ الناس تلاوتہ عملاً”
قرآن کریم عمل کے واسطے اتا را گیا ہے لیکن لوگوں نے اس کے پڑھنے کو عمل سمجھ لیا ہے.
یہی حال ہماری سب عبادتوں کا ہوگیا ہے ،نماز ہو یا روزہ ،زکوۃ ہو یا حج ،تلاوت ہو یا صدقہ وخیرات ،نفاق کے جراثیم ہر جگہ پائے جانے لگے ہیں. اورجب تک ہم اپنی عبادات کو ایسی آلائشوں سے پاک نہیں کرتے ، ہماری عبادتیں قبول نہیں ہوسکتیں ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے ،آپ نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ عرض کیا’’حج سے واپس آرہا ہوں ‘‘پوچھا حج کرچکے؟ عرض کیا ’’کرچکا‘‘ فرمایاجس وقت گھر سے روانہ ہوئے اور عزیزوں سے جدا ہوئے تھے ،اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی؟ کہا ’’نہیں یہ تو نہیں کیا تھا ‘‘ فرمایابس پھرتم سفر حج پر روانہ ہی نہیں ہوئے پھرفرمایا کہ راہ ِ حق میں جوں جوں تمہاراجسم منزلیں طے کررہا تھا تمہارا قلب بھی قرب حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟ جواب دیا کہ’’یہ تو نہیں ہوا” ارشاد ہوا کہ پھر تم نے سفر حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں،پھر پوچھا کہ جس وقت احرام کے لئے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتاراتھا؟ کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں ہوا تھا” ارشاد ہوا پھر تم نے احرام ہی نہیں باندھا، پھر پوچھا عرفات میں وقوف کیا تو کچھ معرفت بھی حاصل ہوئی؟ کہا ’’نہیں!یہ تو نہیں ہوا‘‘ارشاد ہوا پھر عرفات میں وقوف ہی نہیں کیا پھر پوچھا کہ جب مزدلفہ میں اپنی مرا د کو پہنچ چکے تو اپنی ہر مراد نفسانی کے ترک کا بھی عہد کیا تھا؟ کہا ’’نہیں! یہ تو نہیں کیاتھا‘‘ارشاد ہوا کہ پھر طواف ہی نہیں ہوا ،پھر جب پوچھا کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو مقام صفا اور درجۂ مروہ کا بھی کچھ ادراک ہوا تھا؟ کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں ہوا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر تم نے سعی بھی نہ کی، پھر پوچھا کہ جب منیٰ آئے تو اپنی ساری آرزؤں کو تم نے فنا کیا؟ کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں کیا تھا‘‘ارشاد ہو ا کہ پھر تمہارا منیٰ جانا لا حاصل رہا ،پھر پوچھا کہ قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پر بھی چھری چلائی تھی؟ کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں کیا تھا‘‘ ارشاد ہوا کہ پھر تم نے قربانی ہی نہیں کی، پھر پوچھا کہ جب کنکریاں ماری تھیں تو اپنے جہل ونفسانیت پربھی ماری تھیں؟ کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں کیاتھا‘‘ ارشاد ہو اکہ پھر تم نے رمی بھی نہ کی اوراس ساری گفتگو کے بعد آخر میں فرمایا کہ تمہارا حج کرنا نہ کرنا برابر رہا اب پھر جاؤ ، صحیح طریقہ پر حج کرو.
شیخ سعدی شیرازی رحمۃاللہ علیہ نے شاید اسی تناظر میں اپنی معروف کتاب گلستان سعدی میں لکھا ہے “خر عیسیٰ اگر بہ مکّہ ردو چوں بیاید ہنوز خرش باشد”. (گلستان سعدی)
طاؤس الفقراء الشیخ ابونصر سراج رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب اللمع میں اس طرح کی بہت ساری حکایات درج کرکے لکھتے ہیں کہ “ان اللہ والوں کے آداب حج یہ ہیں کہ جب یہ میقات پر پہنچ کرغسل کرتے ہیں تو اپنے جسم کو پانی سے دھونے کے ساتھ ہی اپنے قلب کو توبہ میں غسل دیتے ہیں، جب احرام پہننے کے لئے اپنے جسم سے لباس اتارتے ہیں تو قلب سے بھی لباس محبت دنیا اتار ڈالتے ہیں ، جب زبان سے لبیک لا شریک لک لبیک کہنا شروع کردیتے ہیں تو حق کو پکار نے کے بعد شیطان ونفس کی پکارپر جواب دینا اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں ، جب خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگتے ہیں تو آیت کریمہ وتری الملئکۃ حافین من حول العرش کو یاد کرکے عرش الٰہی کے گرد طواف کرنے والے فرشتوں کا تصور جماتے ہیں، جب حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں گویا اس وقت حق تعالیٰ کے ہاتھ پر اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہیں، اوراس کے بعد اپنے ہاتھ کا کسی خواہش کی طرف بڑھانا گناہ سمجھنے لگتے ہیں ، جب صفا پر چڑھتے ہیں تو اپنے قلب کی کدورت کو بھی صفائی سے بدل لیتے ہیں ،جب سعی کرنے میں تیز دوڑتے ہیں تو گویا شیطان سے بھاگتے ہوتے ہیں ،جب عرفات میں حاضر ہوتے ہیں، تو تصورکے سامنے میدان حشر کا نقشہ جماتے ہیں، جب مزدلفہ میں آتے ہیں، تو ان کے قلب ہیبت وعظمت حق تعالیٰ سے لبریز ہوتے ہیں ،جب کنکری پھینکتے ہیں، تو اپنے اعمال وافعال یاد کرتے جاتے ہیں ،جب سر منڈاتے ہیں، تو ساتھ ہی اپنے نفسوں پر چھری چلاتے رہتے ہیں … جنہوں نے یہ آداب حج اپنی کتابوں میں لکھے اورجو انہیں عمل میں لائے وہ نور کے بنے ہوئے اور آسمانوں پر اڑنے والے فرشتے نہ تھے، بلکہ ہماری آپ کی طرح مٹی کے پتلے اور اسی مادی زمین پر چلنے پھرنے والے انسان ہی تھے‘‘۔(سیاحت ماجدی )
حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوری رحمۃاللہ علیہ اس مقدس طائفہ کومخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ ’’حجاج کرام !آپ خوب سمجھ لیں کہ اگر حج وزیارت کی برکتوں سے اپنے دامن کو بھر کرآئے ہیں اوریقینا آئے ہیں، تو آپ بہت ہی خوش نصیب ہیں ،آپ کا یہ مقدس سفر ہر طرح کامیاب ہے، اور وطن کی مراجعت مسعود ومبارک ہے ،اگر آپ کے اندرحج وزیارت نے ایمان کی حرارت بھردی ہے، اورآپکی روح ونظر حرمین شریفین کے مصفیٰ اور پاک جلوو ں سے معمور ہوگئی ہے، تو آپ اپنے گھر رہ کر حرمین شریفین سے قریب ہیں، اورآپ کاتعلق ان سے بہت گہرا ہے، مگراس کیلئے شرط یہی ہے کہ آپ جس حالت میں آئے ہیں، اسی حالت پر اپنی زندگی بسر کریں”۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ایسے حج نصیب فرمائے آمین. ***