غیر درجہ بند

#اُردوزبان وادب کے_سفیر غلام نبی کمار کی کتاب “قدیم و جدید ادبیات” پر ایک نظر

جی این کے اردو

3/ اگست 2022


#اُردوزبان وادب کے_سفیر
غلام نبی کمار کی کتاب “قدیم و جدید ادبیات” پر ایک نظر

بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کسی طمع و لالچ کے بغیر فروغِ اردو کے لیے کوشاں رہتی ہیں اُن کی وجہ سے اردو کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوتی ہے اور اردو ایسی بستیوںمیں پنپنے لگتی ہے جہاں اس کی نشوونما کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ ایسی شخصیات میں غلام نبی کمار کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے اردو سے محبت کا جو رشتہ ابتدائی جماعتوں میںاستوار کیاوہ آج بھی قائم و دائم ہے ۔ انھوں نے اُردو میں ایم اے کرنے کے بعد ایم فل اردو کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور پھر آج کل پی ایچ ڈی کے لیے سرگرداں ہیں ۔وہ عالمی سطح کے کئی رسائل وجرائد کی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ روزنامہ ’’لازوال ‘‘ ( جموں ) کے’’ ادب نامہ‘‘ کے معاون مدیر کی حیثیت سے صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا ’’ادب نامہ ‘‘سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر میں پڑھا جا رہا ہے ۔ وہ روزنامہ ’’ لازوال ‘‘ کے ادب نامہ کو فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعے ان ممالک میںروزنامہ ’’ لازوال‘‘ کولازوال بنا رہے ہیں ۔ ان کی ادب کے ساتھ وابستگی کے جذبے کو داد دینا پڑتی ہے ۔ وہ ہمہ وقت مصروف عمل ہیں ۔ سہ ماہی ’’پنج آب‘‘ مالیر کوٹلہ(پنجاب) کے مدیر کی حیثیت سے ادبی صحافت میں اپنا ایک الگ مقام و مرتبہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔اس ادبی رسالہ نے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں شہرت پائی ہے، اس میں چھپنے والے مضامین انتہائی معیاری اور تحقیقی ہوتے ہیں ۔ یہ رسالہ اپنے معیار کی وجہ سے ادب کے سنجیدہ حلقوں میں اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ اسی طرح سہ ماہی ’’ دربھنگہ ٹائمز ‘‘ دربھنگہ ( بہار ) اورسہ ماہی ’’ تحقیق ‘‘ دربھنگہ کے معاون مدیر کی حیثیت سے ان کی خدمات قابل تعریف ہیں ۔ روزنامہ

’’نیا نظریہ ‘‘ کا ادبی صفحہ ’’ادب نامہ ‘‘ بھی نہایت خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں۔ واٹس اپ کے ذریعے ’’نیا نظریہ ‘‘ اردو کی نئی بستیوں میں پہنچ رہا ہے ۔ غلام نبی کمار کی
محنتِ شاقہ کی تعریف کرنا پڑتی ہے ۔ غلام نبی کمار دنیا بھر کے ادباء و شعرا سے رابطہ میں رہتے ہیں ۔ اچھے اور معیاری مضامین حاصل کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔ وہ اپنے اخبارات اور رسائل کے لیے دنیا بھر سے نگارشات حاصل کر لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان رسائل کا معیار بھی عالمی سطح کا بن گیا ہے ۔ ا سی طرح غلام نبی کمار ماہ نامہ
’’ سبقِ اردو ‘‘ الہ آباد کے ایڈوائزری بورڈ کے ممبر ہیں وہ ’’اردو ورلڈ سرینگر ( غیر سرکاری چینل ) کے چیف ایڈیٹرکی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی ، جموں و کشمیر کے صدر کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ ان کی سربراہی میں اس سوسائٹی نے لاتعداد کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کی ہیں ۔ مرکزی عالمی اردو مجلس ، دہلی کے جنرل سیکرٹری ہیں ۔غلام نبی کمار نے مختلف شعبہ جات میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ کوئی کام بھی مشکل نہیں ہوتا انسان کو بس ہمت سے کام لینا چاہیے ۔ وہ ادب اور صحافت کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں جن کو دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے او رمسرت بھی … اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
غلام نبی کمار ۱۴ مارچ ۱۹۸۷ء کو غلام احمد کمار کے ہاں چرار شریف (بڈگام ، کشمیر)میں پیداہوئے ۔ میڑک کے بعد بائز ہائر سیکنڈری اسکول ، چرار شریف سے
انٹر میڈیٹ کے امتحان۲۰۰۴ء میں پاس کیا ۔ گورنمنٹ امر سنگھ کالج ، سرینگر سے۲۰۰۷ء میں گریجوکیشن مکمل کی جبکہ یونیورسٹی آف کشمیر سے ۲۰۱۰ء میں ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی ۔ بی ایڈمولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی سرینگر کیمپس حیدر آباد سے ۲۰۱۱ ء میں پاس کیا ۔ اسی یونی ورسٹی سے ۲۰۱۴ ء میں انھوں نے ایم ایڈ کی ڈگر ی حاصل کی۔انھوں نے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے یونی ورسٹی آف دہلی ، نئی دہلی سے ۲۰۱۶ء میں ایم فل اردو کا امتحان پاس کیا ۔ آج کل پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے زبیر رضوی کے فکر و فن او رخدمات پر تحقیق کررہے ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اس امتحان میں بھی کامیاب و سرخرو ٹھہریں اور جلد ’’ڈاکٹر ‘‘ کا لفظ ان کے نام کا حصہ بن سکے ۔ و ہ جہاں کچھ سیکھنے کا موقع ملے ،کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔یہی وجہ ہے کہ غلام نبی کمار انڈیا میں ہونے والی علمی وا دبی کانفرنسوں ، مجلسوں اور مذاکروں میں شریک ہوتے رہتے ہیںاور اپنی علمی تشنگی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ دوستوں کو متعارف کروانے میں بڑے فراخ دل ثابت ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگ دوسروں کی خوشی میںاپنی خوشی تلاشتے ہیں ۔ زمانے کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہوں ۔ غلام نبی کمار اپنے دوستوں سے رابطہ میں رہتے ہیں یہی ان کی خوبی دلوں کو تسخیر کر رہی ہے ۔ آئے دن ان کا حلقہ احباب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے ۔ان کی اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘ (۲۰۱۸ء) ، ’’ قدیم و جدید ادبیات ‘‘ ( ۲۰۱۹ء) اور ’’ شب فراق کا جاگا ہوا ‘‘ ( انتخاب کلام بشیر چراغ ۔۲۰۲۰ ء )شامل ہیں۔ ان کی تینوں کتب اپنے معیار اور موضوع کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں ۔یہ تینوں کتابیں انڈیا کے علاوہ پاکستان میں بک ٹاک پبلشرز لاہورنے بھی شائع کر دیں ہیں ۔جن کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں ان کی ایک کتاب ’’ قدیم و جدید ادبیات ‘‘ کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔
غلام نبی کمار کی کتاب ’’ قدیم و جدید ادبیات ‘‘ ۲۰۱۹ء کو انڈیا کے معروف اشاعتی ادارہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۶ نے نہایت عمدگی سے زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے جس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کا مالی تعاون بھی شاملِ حال ہے ۔ اس کتاب میں غلام نبی کمار کے ۲۱ تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔ تمام مضمون نہایت اہم ہیں ۔ کتاب میں پہلا مضمون ’’ امیر خسرو کی غزلیہ شاعری ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ امیر خسرو اردو شاعری میں ممتاز مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ان کی نظمیں ، کہہ مکرنیاں ، پہیلیاں، دوہے ا ور دیگر اصناف کے تذکرے اکثر کتابوں میں ملتے رہتے ہیں ۔ان کی غزل کے بارے میں بہت کم پڑھنے کو ملا ہے ۔ غلام نبی کمار نے ان کی غزل کو موضوع بنایا ہے اور ان کی غزلوں کے باطن میں اُتر کر ان پر بحث کی ہے جو بہت عمدہ اور معیاری ہے۔ سرسری مطالعہ اور چیز ہوتی ہے جب کہ کسی فن پارے کے اندر ڈوب کر اس کی زیریں سطح کو مس کرنا اور بات ہوتی ہے ۔ غلام نبی کمار نے امیر خسرو کو سرسری نہیں پڑھا بل کہ اس کی زیریں سطح کو بھی مَس کیا ہے ۔ جیسے سمندر کی گہرائی کا اندازہ کنارے پر بیٹھ کر نہیں کیا سکتا بلکہ اس کے پانی میں اتر نا پڑتاہے ۔ وہ امیر خسرو کے کلام کے قلزم میں پوری طرح اترے ہیں ۔ مختلف ناقدین کی آراء کو بھی مضمون کا حصہ بنا کر امیر خسرو کی قدرو منزلت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ امیر خسرو کے اسلوب اور لفظیات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے ۔ غلام نبی کمار نے امیر خسرو کے دوہوں میں بھی غزلیہ رنگ تلاش کیا ہے ۔ اردو کلام کے ساتھ ساتھ انھوں نے فارسی غزلیات کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ فارسی مصرعوں کے ساتھ اردو ترجمہ لکھ کر قارئین کے لیے آسانی فراہم کر دی ہے ۔ بعض غزلوں او رشعروں کا پس منظر بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ غلام نبی کمار نے ایک نہایت اہم موضوع کی عقدہ کشائی کر دی ہے ۔ آنے والے محققین اس حوالے سے امیر خسرو پر تحقیق کر سکتے ہیں ۔
دوسرا مضمون مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری کے متعلق ہے ۔ مولانا مملوک العلی دلی کالج ہندوستان کے ابتدائی اساتذہ میں سے ہیں جنھوں نے اس کالج کو اپنی تدریسی خدمات کی وجہ سے بام عروج پر پہنچایا ۔ ان کی مکتوب نگاری پر سیر حاصل بحث شامل ہے ۔ مولانا مملوک العلی کے بارے میں سرسید احمد خان نے ’’ آثار الصنادید ‘‘ میں بھی تذکرہ کیا ہے جس میں سرسید احمد خان نے ان کے رشحات قلم کی تعریف کی ہے کہ اگر سنجیدگی سے قرطاس و قلم سے رشتہ جوڑے رکھتے تھے وہ بلند پایہ انشا پردازوں میں شمار ہوتے ۔ غلام نبی کمار نے دلی کالج کے بانی اساتذہ میں مولانا مملوک العلی کا تذکرہ کر کے ایسے ہیرے سے متعارف کروایا ہے جو امتدادِ زمانہ کا شکار ہو رہے تھے ۔ غلام نبی کمار نے اس کے دس خطوط اور ایک عربی خط کو مکتوب نگاری میں اعلیٰ اور مفید قرار دیا ہے ۔
کتاب کا تیسرا مضمون بعنوان’’ اردو مین مومن شناسی کی روایت ‘‘ بھی نہایت اہم ہے ۔ اس مضمون میں غلام نبی کمار نے اردو ادب کے ممتاز شاعر مومن خان مومن کی قدر و منزلت اور ان کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے نہایت اہم معلومات فراہم کی ہیں ۔ ان پر تحقیقی کام کرنے والوں کا تذکرہ بھی کیا ہے اور مومن کے فکر و فن پر چند اہم کتابوں کا ذکر بھی کیا ہے ۔ مومن شناسی میں یہ مضمون نہایت اہم ہے ۔ چوتھا مضمون ’’سرسید کے سماجی افکار کی عصری معنویت ‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اس میں سرسید احمد خان کی اعلیٰ سوچ اور عصری تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھنے کو سراہا ہے ۔ سرسید احمد خان نے ہندوستان کے مسلمانوں کو جدید علوم کی طرف راغب کرنے میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک مسیحا تھے جنھوں نے ان کی ترقی و عروج کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھا او رپھر اسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کیا ۔ یہ سارا مضمون سرسید کی کوششوں اور ان کے علمی کارناموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ سرسید احمد خان کے بارے میں غلام نبی کمار لکھتے ہیں :
’’روشن خیالی ، وسیع النظری ، اولوالعزمی او رعلم و عمل میں سرسید احمد خان کا کوئی ثانی نہیں ۔ وہ ایک بڑے مصلح او رسماجی مفکر تھے ۔ جنھوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستانی قوم وملت کی سماجی فلاح و بہبودی کے لیے وقف کر دی ۔ سرسید کے تعلیمی افکار ہوں یا سیاسی افکار ، مذہبی افکار ہوں یا سماجی افکار ، سے نہ صرف ان کے عہد میں انقلاب رونما ہوا بلکہ موجودہ عہد بھی ان کے بالغ نظر افکار کی معنویت سے متاثر نظر آتا ہے ۔‘‘ ( قدیم و جدید ادبیات ، ص ۶۱)
’’ قدیم و جدید ادبیات ‘‘میں پانچواں مضمون ’’داغ کی مثنوی نگاری : فریاد داغ کی روشنی میں ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ استاد داغ دہلوی اردو شاعری کا ایک ایسا روشن چراغ ہے جس کی روشنی ایوان ادب کو منور کر رہی ہے ۔ ان کی ایک مثنوی ’’فریاد داغ ‘‘ کے بارے میں غلام نبی نے نہایت اہم معلومات فراہم کی ہیں ۔ یہ ان کی اعلیٰ تحقیق اور کھوج کا نتیجہ ہے ۔ غلام نبی کاکمال یہ ہے کہ وہ ایسے فن پاروں کو زیر بحث لاتے ہیں جن کا تذکرہ خال خال ہی سامنے آتا ہے ۔ مثنوی ’’فریاد داغ ‘‘ بھی ایک ایسی مثنوی ہے جس کا تذکرہ بہت کم ہوا ہے ۔ اس بارے میں ان کی تحقیق کو داد دینا پڑتی ہے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ داغ کی ایک واحد مشہور مثنوی ’’فریاد داغ ‘‘ ہے جو کہ ۸۳۸اشعار پر مشتمل ہے جو کلکتہ سے واپسی کے بعد جولائی ۱۸۸۲ء میں لکھی گئی ہے اور ۱۸۸۳ء میں شائع ہوئی ۔ اس مثنوی میں داغ نے مُنی بائی حجاب سے اپنے عشق کی داستان رقم کی ہے ۔ ‘‘
(قدیم و جدید ادبیات ، ص ۶۷)
چھٹا مضمون ’’ رباعیاتِ حالی میں قومی اصلاح ‘‘ ایک اہم مضمون ہے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی کی تمام شاعری میں ہی اصلاح کا پہلو کار فرما رہا ہے ۔ان کی غزل ہو یا نظم ، بچوں کے لیے کہی گئی نظمیں ہوں یا رباعیات ان سب میں قومی اصلاح کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ وہ معاشرے میں اصلاح کے مبلغ تھے انھوں نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے قومی جذبے کو ابھارا ہے ۔ ان کی مشہور زمانہ مسدس مدوجزر اسلام المعروف ’’ مسدس حالی ‘‘ بھی اسی جذبے کی عکاس ہے ۔ غلام نبی کمار ان کی رباعیات کو زیر بحث لائے ہیں اور ان میں قومی اصلاح کے پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ساتواں مضمون ’’ افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فن کار : بلونت سنگھ ‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ بلونت سنگھ اردو افسانے کا ایک بڑا نام ہے جو امتداد زمانہ کا شکار ہے ۔ غلام نبی کمار نے ان پر پڑی گرد کو جھاڑ کر انھیں عصر حاضر کے قارئین کے لیے پیش کیا ہے ۔ یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ موجود عہد کے قارئین کو ایک ممتاز افسانہ نگار سے ملاقات کرائی اور ان کے فکر و فن سے آگاہی فراہم کی ۔
اسی طرح انھوں نے ظہیر احمد صدیقی ، پر وفیسر محمد ابراہیم ڈار ، شوکت پردیسی، نور شاہ اور زبیر رضوی کے فکر و فن پر بھی نہایت عمدہ بحثیں شامل ہیں ۔ان سب پر ایک ایک بھرپور مضمون کتاب میں شامل ہے ۔ زبیر رضوی ان کا پسندیدہ موضوع ہے اس لیے کہ موصوف اسی پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی اسی پر لکھ رہے ہیں ۔ زبیر رضوی کے دس شعری مجموعے ’’لہر لہر ندیاں گہری ‘‘ ، ’’خشت دیوار ‘‘ ، ’’ مسافت شب ‘‘، ’’ پرانی بات ہے ‘‘ ، ’’ دامن ‘‘ ، ’’ دھوپ کا سائباں ‘‘ ، ’’ انگلیاں فگار اپنی ‘‘ ، ’’ پورے قدکا آئینہ
( کلیات ) ، ’’ سبزہ ٔ ساحل ‘‘ ،اور ’’سنگ صدا ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں جب کہ ان کا کلیات بھی منصہ شہود پر آچکا ہے ۔ دیگر نثری کتابوں میں ’’گردش پا ‘‘ ( سوانحی یادداشتیں ) ، ’’ اردو اور فنون ادب ‘‘ ( تنقید ) ، ’’ غالب اور فنون لطیفہ ( تنقید )’’ ہندوستانی سنیما :سو برسوں کا سفر ‘‘ ،’’عصر عالمی ادب کے ستون ‘‘ ، ترقی پسند اور ان کے معاصر پینٹر ‘‘ شامل ہیں ۔زبیر رضوی کی مرتبہ کتابوں کی تعداد بھی گیارہ ہے دو کتابیں تراجم کے حوالے سے ہیں ۔ کل ۲۹ کتابیں ہیں ۔پورے قدکے آئینے میں زبیر رضوی کو تلاش کر کے ان کے کام کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ کتاب میں ایک نہایت اہم مضمون ’’۱۹۶۰ کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ یہ مضمون اپنے موضوع کے اعتبار بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں انھوںنے ابتدائی شعرا کا بھی تذکرہ کیا ہے جنھوں نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو اپنی نظموں کا حصہ بنایا ان میں اکبر الہ آبادی ، چکبست نرائن ، ظور علی خاں ، درگاہیء سرور ، علامہ محمد اقبال ، تلوک چندمحروم ، جوش ملیح آبادی ، احسان دانش اور ساغرصدیقی شامل ہیں ، جنھوں نے اپنی نظموں میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کو نہایت خوبصورت انداز میں عکاسی کی ہے جب کہ اس کے آگے ضیاہانی ، کمار پاشی ، نازش پرتاب گڑھی ، نیاز حید ر، مظہر امام ، مخمور سعیدی ، زبیر رضوی ، بلراج کومل سلام مچھلی شہری ، اجمل اجملی ، جواد زیدی ، گوپال متل ، عنبر بہرائچی، معین احسن جذبی ، جگن ناتھ آزاد، انور جلالپوری ، ریاضت علی شائق اور مظفر حنفی کے اسمائے قابل ذکر ہیں جنھوں نے ۱۹۶۰ ء کے بعد ہندوستانی کی قومی یکجہتی ، حب الوطنی ، مذہبی رواداری ، سیاسی میراث جیسے موضوعات پر نظمیں کہیں اور شعر و ادب میں اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے ۔
’’دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعراء‘‘ اور ’’جموں و کشمیر کی معاصر اردو شاعری ‘‘ دو نہایت اہمیت کے حامل مضمون ہیں ۔ یہ مضمون تذکرہ نویسی کے ذیل میں آتے ہیں مگر غلام نبی کمار نے انہیں تحقیقی و تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے اس لیے وہ تذکرہ نویسی کی اقلیم کو عبور کر کے تحقیق اور تنقید کی وادی تک جا پہنچے ہیں ۔ غلام نبی کمار نے نہایت خوبصورت اور محققانہ زبان استعمال کرتے ہوئے ان دو مضامین کو لکھا ہے ۔ دونوں مضمون اپنی اہمیت اور افادیت کے لحاظ خاصے کی چیزیں ہیں ۔ کتاب کا ایک مضمون ’’ بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گو شعرا ‘‘ ہے ۔ غزل اور بچے دو الگ الگ موضوع ہیں کیونکہ غزل بچوں کے لیے نہیں ہوتی ۔مگر امجد حسین حافظ کرناٹکی نے ’’بچوں کی غزلیں ‘‘ کتاب شائع کر کے سب کو متحیر کر دیا انھوں نے بچوں کے لیے غزلیں کہی ہیں جن پر غلام نبی کمار نے نہایت عمدگی تبصرہ کیا ہے ۔ اسی طرح انھوں نے اس مضمون میں ساحل مرتضیٰ تسلیمی ، نذیر فتح پوری ، عزم سہریاوی او رظفر کمالی کا اطفال ادب کے لیے لکھے گئے کلام کو موضوع بنایا ہے ۔ نذیر فتح پوری بڑے باکمال شاعر ہیں ۔وہ بہت قادرلکلام شاعر ہیں انھوں نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے ۔ ان کا ایک اردو ماہیوں کا مجموعہ ’’ ریگ رواں‘‘ کے نام سے بھی شائع ہواجس پر ڈاکٹر وزیر آغا نے مجھ ناچیز سے تبصرہ کروایا اور وہ تبصرہ ’’اوراق ‘‘ ایسے جریدے کی زینت بنا تھا ۔ انھوں نے ’’ چند مٹھی بھر ماہیے وزیر آغا کے لیے ‘‘ بھی شائع کیے تھے ۔ غلام نبی کمار نے ان کی بچوں کے حوالے سے خدمات کو سراہا ہے ۔ ’’مشرقی پنجابی میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ ‘‘ اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں انھوں نے اردو نظم کے چند معاصر نظم گو شعرا کا تذکرہ نہایت اختصار سے پیش کیا ہے ۔ ’’ کتاب نما‘‘ او ربعض اہم خصوصی شمارے ‘‘ میں رسائل و جرائد(پاکستان اور ہندوستان ) کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے غلام نبی کمار نے ہندوستان سے جاری ایک اہم رسالہ ’’ کتاب نما ‘‘ کامختصرا ً تعارف کراتے ہوئے اس کی اہم اشاعتوں یعنی خصوصی شماروں کا تذکرہ کیا ہے ۔کسی بھی رسالے کے خصوصی شمارے بڑی اہمیت کے حامل اور یادگار ہوتے ہیں ۔’’کتاب نما ‘‘ کے خصوصی شماروں کا تذکرہ اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ’’ ذہن جدید اور زبیر رضوی ‘‘ بھی عمدہ مضمون ہے ۔ زبیر رضوی کے حوالے سے یہ دوسرا جب کہ دو دیگر مضامین میں ذیلی ذکر بھی آیا ہے ۔ ’’ذہن جدید ‘‘ اردو ادب کا ایک اہم اور نمایاں ادبی رسالہ ہے جسے انڈیا سے زبیر رضوی نے جاری کیا ۔ غلام نبی کمار نے ’’ ذہن جدید ‘‘ کا بھرپور تعارف اور اس کی ادبی خدمات پر تفصیل سے لکھا ہے ۔ زبیر رضوی کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ کا کردار بھی نہایت اہم ہے جنھوں نے ’’ ذہن جدید‘‘ کو جاری رکھا اور اس کی سرپرستی فرمائی ۔ کتاب کا آخری مضمون ’’ خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ ‘‘ ایک نہایت اہم مضمون ہے ۔ جس میں غلام نبی کمار نے حقانی القاسمی کی زیر ادارت چھپنے والے ادبی رسالے ’’ انداز بیاں ‘‘ کاتذکرہ کیا ہے اور اس کے ایک خصوصی شمارے جو ’’ خواتین کی خودنوشتوں کے جائزے پر محیط ‘‘ ہے ، خصوصی تذکرہ کیا ہے ۔ حقانی القاسمی نے یہ پرچہ ’’ صلاح الدین پرویز کی یاد میں جاری کیا تھا ۔ ’’انداز بیاں ‘‘ کے اس خصوصی شمارے پر نہایت جامع اور وقیع تجزیہ غلام نبی نے لکھا ہے اور ایسی خواتین اور ان کی خود نوشتوں کا تذکرہ کیا ہے جن پر پہلے تجزیے کیے جا چکے ہیں انھوں نے ان تجزیوں پر ایک تنقیدی و تحقیقی نگاہ ڈالی ہے ۔
غلام نبی کمار ایسے محقق او رنقاد ہیں جنھوںنے ’’قدیم و جدید ادبیات ‘‘ میں قاری کی بھرپور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہوئے ہیں ۔ یہ کتاب ذہن کے کئی در کھولتی اور قاری کو حیرت کے اَن دیکھے جہاں میں لے جاتی ہے جہاں وہ حیرت او رمسرت کے ملے جلے تاثرات لیے مسکرا رہا ہوتا ہے ۔ اس کا ذہن کلاسیک اور جدید ادبیات کے سنگم پر ایستادہ رہتا ہے ۔ وہ یہاں سے ایک نظر قدیم اور دوسری نظر جدید ادبیات پرڈال سکتا ہے ۔ غلام نبی کمار نے کمال محبت اور لگن سے اس کتاب کو تصنیف کیا ہے ۔ اس کتاب کی مہک سے تادیر مشام جاں معطر رہے گا ۔

ذوالفقار احسن
0334-0755102
zulfiqarahsen@yahoo.com

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ