جی این کے اردو
4/ اگست 2022
ڈاکٹراحسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول
رحم خاں، دربھنگہ
موبائل:9431414808
غلام نبی کمار کی تخلیق”قدیم و جدید ادبیات“۔ایک جائزہ
غلام نبی کمار اس نوجوان ادیب کا نام ہے جس کا تعلق ہندوستان کی خوبصورت سرزمین کشمیر سے ہے۔ یونیورسٹی آف کشمیر سے اردو میں ایم۔اے کرنے کے بعد دہلی یونیورسیٹی تشریف لائے۔ وہاں سے انہوں نے ۶۱۰۲ میں ایم فل کیا اور فی الحال ان کی پی ایچ۔ڈی کا سلسلہ جاری ہے۔ ۴۱/مارچ ۷۸۹۱ ء کو ان کی پیدائش ہوئی۔ اس لحاظ سے صرف ۲۳ سالہ نوجوان نے کئی اہم کارنامے انجام دیئے ہیں۔ کئی اداروں سے ان کی وابستگی ہے اور کئی اداروں نے انہیں انعامات و اعزازات سے نوازا ہے۔
چند ماہ قبل غلام نبی کمار کی ایک کتاب ”اردو کی عصری صدائیں“ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ اس کتاب نے قارئین اور شائقین اردو سے داد و تحسین وصول کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ ابھی داد و تحسین کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ان کی دوسری تخلیق ”قدیم وجدید ادبیات“ سامنے آگئی۔ یہ کتاب تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
کتاب کا انتساب بھی انہوں نے اردو ادب کے تین درخشندہ ستاروں کے نام کیا ہے۔ وہ معتبر نام محترم نور شاہ، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی اور حافظ کرناٹکی صاحبان کے نام ہے۔
پیش نظر کتاب ”قدیم و جدید ادبیات“ ۴۸۳ صفحات پر محیط ہیں اور اس میں کل بیس مضامین شامل ہیں۔ کتاب میں کچھ قدیم یادوں کے حوالے مضامین شامل ہیں تو دوسری جانب نئی نسل کے حوالے سے بھی کچھ مضامین ہیں۔ لہٰذا کتاب کا نام قدیم وجدید ادبیات موضوع اور عنوانات کے لحاظ سے اسم با سمی ہے۔ اپنی کتاب کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے غلام نبی کمار لکھتے ہیں:
”قدیم و جدید ادبیات“ میرے تحقیقی و تنقیدی مضامین کی پہلی کتاب ہے۔ جس میں مختلف موضوعات کے تحت ۰۲ مضامین شامل کیے گئے ہیں جو نہ کسی کی ستائش میں لکھے گئے ہیں اور نہ ہی کسی کی فرمائش پر، بلکہ ان موضوعات کے ساتھ میری ذاتی انسیت رہی ہے۔ یہ مضامین میری ادنیٰ کوشش ہے اس لیے ان میں کمیاں بھی رہی ہوں گی۔ میں انہیں سیمیناروں میں شریک ہوتا ہو ں جن میں میری دلچسپی کے موضوعات رہتے ہیں یا جن پر میں بہتر لکھ سکتا ہوں۔ اس کتاب میں بھی چند مضامین ایسے ہیں جو مختلف سیمیناروں میں پڑھنے کی غرض و غایت سے لکھے گئے ہیں۔“
کتاب کے پہلے فلیپ پر اردو فکشن کے روشن ستارہ نور شاہ کی رائے ہے۔ اس میں موصوف نے غلام نبی کمار اور کتاب سے متعلق تحریریں رقم کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”قدیم و جدید ادبیات“ کے مضامین سے موصوف (غلام نبی کمار) کی گہرائی اور بالیدگی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ غلام نبی کمار نے جن موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے وہ یقینا قابل تحسین ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے قلم میں جو روانی اور شائستگی ہے وہ ان کے ہم عمر قلم کاروں کو بہت کم نصیب ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب اردوکے وسیع حلقے کو اپنا گرویدہ بنالے گی۔“
ڈاکٹر مغیث احمد (استاذ شعبہئ فارسی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے کتاب کے دوسرے فلیپ پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ غلام نبی کمار کی ادبی خوبیوں کو ا س انداز میں بیان کرتے ہیں:
”غلام نبی کمار کے مضامین اور ان کے موضوعات کو دیکھ کر ذہن میں اردو ادب کے ایک ایسے سپاہی کا ہیولیٰ متصور ہوتا ہے جو محنتی و مخلص ہونے کے ساتھ ہر طرح کی ادبی لابیوں سے دور، مفاد پرستی سے ماورا اور تنازعات سے دور رہ کر سرگرم عمل ہے۔ غلام نبی کمار کی اس غیر معمولی علمی پیش رفت میں یقینا ان کی غیر متازع شخصیت اور ان کے مخلص اساتذہ کے زرّیں اصول و دعائیں کارفرما ہیں جو مستقبل میں ان کی کامیابی کا ضامن بن سکتے ہیں۔“
کتاب کے بیک کور پر پروفیسر ارتضی کریم (صدر شعبہئ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی) کی بہت مختصر لیکن جامع تحریر در ج ہے۔
”قدیم و جدید ادبیات“ میں شامل مضامین ”امیر خسرو کی غزلیہ شاعری، مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری، اردو میں مومن شناسی کی روایت، سرسید کے سماجی افکارکی عصری معنویت، داغ کی مثنوی نگاری:فریاد داغ کی روشنی میں، رباعیات حالی میں قومی اصلاح، افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فنکار: بلونت سنگھ، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی:حیات و خدمات، مقالات پروفیسر محمد ابراہیم ڈار: ایک تجزیاتی مطالعہ، شوکت پردیسی:شخصیت اور شاعری، زیر رضوی کی ادبی خدمات، نور شاہ۔ فکر اور فکشن:ایک تجزیاتی مطالعہ، ۰۶۹۱ کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب، دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعرا، جموں و کشمیر کی معاصر اردو شاعری، بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گو شعرا، مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ، اردو زبان میں سائنسی خدمات، کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے، ذہن جدید اور زبیر رضوی اور خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ“ہیں۔
کتاب کا پہلا مضمون ”امیر خسروؔ کی غزلیہ شاعری“ کے عنوان سے ہے۔ امیر خسرو ہندوستان کے ایک ذہین فارسی شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ جب ہم خسرو کی غزلوں کو پڑھتے ہیں تب اس سے ان کی قادرالکلامی اورفنی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ فارسی کے ساتھ انہوں نے ہندی کا استعمال بھی اپنی غزلوں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ ہندی، اردو اور فارسی کی آمیزش امیر خسرو کس خوبصورتی سے کرتے ہیں، ان کے اشعار میں تلاش کریں:
زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
”سرسید کے سماجی افکار کی عصری معنویت“ کے عنوان سے ایک مضمون میں اس کتاب میں شامل ہے۔ سرسید احمد خاں ایک بڑے مصلح اور سماجی مفکر تھے جنہیں پوری دنیا جانتی ہے۔ سر سید صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک تھے جس نے اپنے تعلیمی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، مذہبی اور معاشی افکار و خیالات سے سرزمین ہند میں سنسنی پید ا کردی تھی۔ ایسی عظیم شخصیت پر غلام نبی کمار نے قلم اٹھاکر ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ سرسید کے سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں:
”سرسید احمد خاں کا ذہن پہلے سے بیدار تھا۔ انہوں نے کم عمری میں ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ تاہم انگلستان جانے کے بعد ان کے خیالات میں جدت آگئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مغربی ممالک کی خوشحالی کا راز دراصل تعلیمی بیداری، سائنس و ٹکنالوجی اور اقتصادی ترقی میں مضمر ہے۔ انگلستان سے لوٹنے کے بعد انہوں نے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔“
”رباعیات حالیؔ میں قومی اصلاح“ کے عنوان سے ایک طویل مضمون اس کتاب کی زینت بنا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی ؔ اردو ادب کا ایک معتبر اور توانا نام ہے۔ انہیں کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ غزل، نظم، مثنوی،مرثیہ، قصیدہ قطعہئ تاریخ، رباعی، ترکیب بند، مسد س، تنقید، تحقیق، سوانح نگاری، سیرت نگاری، مضمون نگاری، مقالہ نگاری، صحافت نگاری، تبصرہ نگاری جیسے اصناف پر انہیں مہارت حاصل تھی۔ لیکن اس مضمون میں غلام نبی کمار نے حالی کی رباعیات کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”مولانا حالی کے ادبی، اخلاقی اور اصلاحی کارناموں کا جائزہ لینا ہو تو رباعی کا ذکرکیے بغیر یہ جائزہ مکمل نہ ہوگا۔ حالی نے ہر قسم کی رباعیاں کہی ہیں جس میں تعلیمی، ادبی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور فلسفہ و حکمت وغیرہ ہر رنگ کی رباعیاں شامل ہیں۔ مولانا حالیؔ، میر انیسؔ سے بڑی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بھی انیس کی طرح رباعی میں ہر قسم کے اخلاقی مضامین ادا کئے ہیں۔“
غلام نبی کمار نے ”زبیر رضوی کی ادبی خدمات“ کے عنوان سے ایک مضمون اپنی کتاب ”قدیم و جدید ادبیات“ میں شامل کیا ہے۔ زبیر رضوی کا تعلق اتر پردیش کے امروہہ سے ہے۔ بچپن سے ہی ان میں شعر و شاعری کا شوق تھا۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی غزل کہی۔ ان کی غزلوں میں ایک خا ص فکر نظر آتی ہے۔ غزلوں کے علاوہ انہوں نے بہت سی نظمیں بھی لکھیں۔ نظموں کے بھی کئی مجموعے منظر عام پر آئے۔
غلام نبی کمار کا تعلق سرزمین کشمیر سے ہے۔ فکشن کا روشن ستارہ جن کا تعلق بھی کشمیر سے ہے میری مراد نور شاہ سے ہے پر قلم نہ اٹھے یہ ممکن نہیں۔ نور شاہ پر ایک جامع اور مفصل مضمون لکھ کر غلام نبی کمار نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ نور شاہ کی ادبی صلاحیتوں کے اعتراف میں مصنف لکھتے ہیں:
”نور شاہ کی ادبی خدمات کا اعتراف برصغیر کے ہر بڑے قلم کار نے کیا ہے۔ بعض لوگ ان کو اپنا استاد مانتے ہیں اور بعض ان کی ادبی تحریروں سے حظ اٹھاکر اپنی علمی استعداد میں اضافہ کرتے ہیں۔ نور شاہ کے مداحوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ان کی تخلیقات ملک و بیرون ملک کے مؤقر و مقتدر رسائل و جرائد میں متواتر شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ملک کی کئی اہم دانش گاہوں میں ان پر تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔“
”بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گو شعرا“ کے عنوان سے ایک اہم مضمون نے کتاب کی معنویت میں کافی اضافہ کیا ہے۔ بچوں کے ادب میں نظم اور کہانی دو ایسی صنفیں ہیں جن میں بہت سے ادیبوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں مثلاً میرؔ، غالبؔ، دردؔ، مومنؔ، ذوقؔ، سوداؔ، داغؔ، فانیؔ شادؔ وغیرہ نے بچوں کے لئے غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں۔ غلام نبی کمار اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
”عہد حاضر کے بچوں میں پروازِ تخیل کے لیے غزلیہ تخلیقات بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی نظمیہ شاعری اور کہانیاں۔ موجود دور کے بچوں کی ذہنی انفرادیت، فکری شعور اور قوت ادراکیہ میں حیران کن تجربے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی فکری وسعت اور ذہنی پختگی کو زیر غور رکھتے ہوئے غزل کے ساتھ ان کے رشتے کو استوار کرنا بھی دلچسپ ثابت ہوسکتاہے۔“
مختصرطور پر یہ عرض کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ پیش نظر کتاب ”قدیم وجدید ادبیات“پر میں نے ایک مختصر تاثراتی مضمون قلمبند کیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مضامین کا جائزہ لیا ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں نے جن مضامین کا جائزہ لیا ہے صرف وہی بہتر ہیں یا مجھے پسند ہیں۔ کتاب میں شامل سبھی بیس مضامین بہتر، معلوماتی، مطالعہ طلب ہیں۔ چند مضامین کا جائزہ میں نے صرف مثال کے طور پر پیش کرنے کے لئے کیا ہے۔ امید ہے یہ کتاب غلام نبی کمار کو اور زیادہ مشہور و معروف کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ کتاب کی اشاعت پر انہیں میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭