غیر درجہ بند

ناصر عباس نیر کی سرسید شناسی از مجاہد حسین

جی این کے اردو

31/ جولائی2022

” ناصر عباس نیر کی سرسید شناسی”


از : مجاہد حسین

اردو میں انتقاد سرسید کی روایت کا آغاز سر سید عہد میں ہی ہوگیا تھا۔فکری منہاج ،نظریاتی معاملات ، مذہبی عقائد ،سیاسی تفکر،سماجی فکر،تعلیمی نظریات اور ادبی خدمات کے حوالے سے سر سید شناسوں کے تین رویے سامنے آتے ہیں۔

1.توصیفی و تحسینی رویہ
2.معاندانہ رویہ
3.معتدل رویہ (غیر جانبدارنہ)
توصیفی و تحسینی رویہ ان ناقدین کے ہاں ابھرا جو سرسید کی محض مدح سرائی کرتے رہے ہیں۔انھوں نے سر سید کے نظریات،شخصیت اور مذہبی عقائد کو اس عہد اور مذہبی حوالوں سے سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا۔یہ ناقدین سر سید سے متاثر نظر آتے ہیں ۔
معاندانہ رویہ اختیار کرنے والے ناقدین سر سید کے مذہبی نظریات اور استعمار معاون رجحانات سے اختلاف کے باعث ان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔یہ ناقدین ان کے اچھے کارناموں سے نظر چرا لیتے ہیں اور انصاف نہیں کر پاتے۔
معتدل رویہ کے حامل اردو ناقدین سر سید کی جملہ ادبی خدمات،ان کے کارناموں کو مدنظر رکھ کر توصیفی جب کہ ان کے مذہبی عقائد و نظریات اور استعماری حمایت کے رویے کو نا مناسب خیال کرتے ہوئے معتدل رویہ اختیار کرتے ہیں۔ان ناقدین کے ہاں سر سید کی تصویر مذکورہ دونوں رویوں کے حامل ناقدین سے قدرے بہتر انداز سے واضح ہوتی ہے۔
اردو تنقید میں سر سیدشناسی کی روایت انھی تین خطوط پر استوار رہی ہے۔تاہم ان سب کا تنقیدی اسلوب گہرے تجزیاتی مطالعے سے عاری رہا ہے۔
سرسید احمد خاں پر ناصر عباس نیّر نے دو مفصّل مقالے قلم بند کیے ہیں۔
1.دہرے شعور کی کش مکش:سرسید کی جدیدیت اور اکبر کی رد استعماریت
2.نو آبادیاتی جدیدیت کی صبح اور مشرقی علوم کی شام (مشرقی علوم پر سر سید کی تنقید کا مطالعہ)
ناصر عباس نیّر نے دہرے شعور کے تناظر میں سر سید کی جدیدیت اور اکبر کی رد استعماریت کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔وہ سر سید کی جدیدیت (مغرب پسندی و استعمار معاون رویہ)اور اکبر کی رد استعماریت (استعمار مخالف رجحان) دونوں کو دوہرے شعور کی پیداوار سمجھتے ہیں۔دوہرے شعور اور دو جذبیت میں گہرے روابط کا ذکر کرتے ہیں۔اردو تنقید میں سر سید اور اکبر کاپہلی بار انھوں نے موازنہ اس انداز سے کیا ہے کہ ان کی فکریات کے کل کا خلاصہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں کا طرزِ عمل سادہ نہیں،تضادات سے لبریز ہے۔وہ لکھتے ہیں:
“سرسید جدید ادب کے پرومیتھیس اور اکبر الہ آبادی ایپامیتھیس ہیں۔دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ایک کا رخ مستقبل کی طرف ہے اور دوسرے کی سمت ماضی کی جانب ہے۔دونوں اردو ادب کی نئی دنیا خلق کرتے ہیں۔اس اعتبار سے ایک دوسرے کے فکری خلیف ہیں(اگر چہ دونوں کا مرتبہ یکساں نہیں)محض مستقبل کی فکر سے حیات میں جس افادیت پسندی کا غلبہ قائم ہوجاناہے۔اس کا ادراک ماضی و روایت کے شعور سے ہوتا ہے۔مستقبل غیر یقینی مگر امید افزا ہے۔جب کہ ماضی یقینی اوراطمینان افزاہوتاہے۔مستقبل کی غیر یقینیت جن اندیشوں کی حامل ہوتی ہے،ان کا خیال ہی نئے،اجنبی خیالات قبول کرنے کی بنیاد بنتا ہے۔اس کے مقابلے میں ماضی کی یقینیت ،نئے خیالات کی افزائش کی ضرورت سے عموما بے نیازی کا رویہ پیدا کرتی ہے،چناں چہ مستقبل بینی،نئے مشکل،اجنبی خیالات سے جلد مطابقت قائم کر لیتی،یا کم از کم اس کےلیے حقیقی کوششوں کا آغاز کر دیتی ہے،اور ماضی بینی طے شدہ تصورات،عقائد،روایات کے تحفظ کو حرزجاں بناتی ہے،اور جن قوتوں سے انھیں اندیشہ لاحق ہوتا ہے،انھیں تنقید و تمسخر کا نشانہ بناتی ہے۔ ہمارا پرومیتھیس نئی شےکی خاطر دیوتاؤں سے قربت اختیار کرتا ہے،اور ایپامیتھیس قدیم کی تقدیس کو ایمان بنا لیتا ہے۔تاہم دونوں کا طرز عمل سادہ نہیں ہوتا،تضادات سے لبریز ہوتا ہے۔”
تقابلی مطالعہ جس قدر آسان محسوس ہوتا ہے یہ اس قدر پچیدہ،وسعت مطالعہ اور تجزیاتی فہم کا متقاضی ہوتا ہے ۔ناصر عباس نیّر نے سر سید کی جس فکری منہاج کو اکبر کے مقابل رکھ کر پیش کیا ہے اُردو تنقید میں اس کی مثال نہیں ہے۔سرسید نے استعماری حکمرانوں سے قربت اختیار کی۔اپنے اس عمل کو سرسید اجتماع کے لیے مفید سمجھتے تھے اسے ناصر عباس نیّر تحسینی انداز سے پیش کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ سر سید یورپی تہذیب کی روح سے مستفید ہونے کی تو آرزو کرتے ہیں تاہم مغربی تہذیب کے چابکوں (وہ تمام اثرات مشرقییت کے لیے نقصان دہ ہیں)سے محفوظ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔یہ نکتہ واضح ہو جاتاہے کہ سر سید کی مغربی تہذیب سے مستفید ہونے کی آرزو اور استعمار کاروں سے دوستانہ (ظاہر ہے یہ رویہ بھی ان کے سامنے جھکنے کانہیں بل کہ برابر آنے کا ہے)تعلق رکھنے کی چاہت نے جو مقامیوں کوفکری و سیاسی سطح پر نقصان پہنچایا وہ مقامیوں کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوا۔اس مضمون میں وہ سر سید کی فکر کے تضادات کی نشان دہی خالص علمی بنیادوں پر کرتے ہیں اور ان کے عملیت پسند رویے کو تحسینی انداز میں دیکھتے ہیں۔
ناصر عباس نیّر کا دوسرا سرسید پر مضمون “نوآبادیاتی جدیدیت کی صبح اور مشرقی علوم کی شام”کے عنوان سےہے۔یہ وقیع مقالہ دراصل سر سید کی مشرقی علوم پر تنقید کے مطالعے پر مشتمل ہے۔یہ مقالہ تین ذیلی عنوانات میں منقسم ہے۔جس میں نوآبادیاتی جدیدیت ,مشرق اور مشرقی علوم اور سر سید کی مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں بارے رائے شامل ہیں۔
نوآبادیاتی جدیدیت کے مفہوم کوواضح کرنےاورمشرق و مشرقی علوم پر روشنی ڈالنے کے بعد وہ سر سید اور مشرقی علوم کے مباحث کی طرف آتے ہیں۔انھوں نے سر سید کی شخصی تشکیل کے سیاق میں موجود خاندانی پس منظر کا ذکر کیا ہے۔وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا سرسید نے مشرقی علوم سے مراد یہی کچھ لیا ہے جو شرق شناسوں کے ہاں تصور موجود تھا اس سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:
“سید احمد نے مشرقی علوم کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کچھ باتوں میں شرق شناسوں کے تصورسے مماثل تھا اور کچھ میں مختلف تھا۔مثلا وہ شرق شناسوں کی مانند مشرقی علوم کو یورپی علوم کے مقابل رکھ کر دیکھتے ہیں۔انھی افادی نظر سے دیکھنے میں بھی وہ شرق شناسوں کے تصورسے متفق تھے۔البتہ سید احمد مشرقی زبانوں اور مشرقی علوم کو الگ الگ دیکھتے ہیں اور دونوں کے بارے الگ الگ رائے قائم کرتے تھے۔وہ مشرقی زبانوں میں عربی فارسی اور سنسکرت کو شامل کرتے ہیں تاہم مشرقی علوم سے مراد وہ عام طور پر مسلمانوں کے علوم لیتے ہیں۔البتہ ہندوستان کی قدیم عظمت کا ذکرکرتے ہوئے وہ ہندوؤں کی سائنس،فلسفہ،ریاضی اور لسانیات میں خدمات کی تحسین ضرور کرتے ہیں۔وہ مشرقی زبانوں کی تعلیم چاہتے تھے مشرقی علوم کی نہیں۔ “
یہ نکتہ بنیادی نوعیت کا حامل ہے جو سرسید کی فکر کو سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے کہ وہ مشرقی زبانوں کی تعلیم چاہتے تھےمگر مشرقی علوم کی نہیں۔وہ ہندوستانی طلبا(بالخصوص مسلمانوں)کو مذہب سے جڑا رہنے کی بھی تلقین کرتے ہیں،جس کے لیے وہ عربی زبان کی تعلیم لازمی قرار دیتے ہیں۔اس کے ساتھ مہذب انسان بننے کے لیے انگریزی اور یورپی علوم سے واقفیت کو ناگزیر قرار دیتے ہیں یہاں ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ سرسید کے نزدیک عربی اور مشرقی علوم سیکھنے اور پڑھنے سےمہذب نہیں بنا جا سکتا اور انگریزی و مغربی علوم کے حصول سے بندہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔اس الجھن کے خاتمے کے لیے انھوں نے موجودہ زمانے کے سائنس وفلسفہ کوقدیم مشرقی علوم وفنون پر مقدم جانا۔سرسیدکی جدیدیت کی اساس ان کا یہی طرز فکر ہے۔ناصرعباس نیّر کے بقول سید احمد مشرقی علوم اور مشرقی ادبیات کویادداشت سے محو کرنے کے حق میں تھے۔اس فرق کے ساتھ کہ مشرقی ادبیات کی اصلاح کی جا سکتی ہے مشرقی علوم کی نہیں۔سرسیداصل میں ہندوستانیوں کو آگے بڑھانے کی تلقین کرتے رہے ہیں،وہ انھیں مہذب دیکھنا چاہتے ہیں،اس کے لیے وہ مشرقی علوم کا نہیں مغربی علوم وتہذیب کا سہارا لیتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ استعمار معاون اور مسلمانوں کی ترقی و وقار کے آرزو مند تھے۔
ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں:
“وہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسی ”جدیدیت’کےخواہاں تھے جس سے گورنمنٹ انگریزی میں ان کے لیے باوقار مواقع پیدا ہوں اور گورنمنٹ انگریزی کو استحکام حاصل رہے”
مذکورہ دونوں مضامین میں ناصر عباس نیّر نے جن علمی بنیادوں پر سرسید کی فکریات کامطالعہ کر کے نتائج برآمد کیے ہیں۔یہ تنقیدی محاکمہ” معتدل رویہ”کا حامل ہے۔تاہم ان کا تنقیدی انداز غیر جانبدارانہ رہا ہے۔انھوں نےسرسید کی تصویر مسخ نہیں ہونے دی اور مذہبی سرسید کے نظریات اور مؤقف سے مبہم رکھا ہے۔سرسید شناسی کی پوری روایت کا دامن ایسے گہرے مطالعے اور تجزیے سے محروم ہے۔

30 جولائی 2022ء
(لاہور)

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ