جی این کے اردو
31/ جولائی 2022
خاموشی اور خواب سے آواز بنانے والا شاعر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری کوئی ریاضی کا عمل نہیں جہاں ہمیشہ دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں ، موجودہ عہد میں شاعری دراصل فنونِ لطیفہ کی ایک ایسی شاخ ہے جس میں زندگی اور جزیاتِ زندگی کو نئے زاویوں اور نئی دشاﺅں میں منعکس کر کے انسانی اقدار، فرد اور معاشرے کے درمیان ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کے علاوہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی اور تہذیبی صورتِ حال کے مشاہدے اور مطالعے کے نتیجے میں پیدا فکری اور تخلیقی مواد پیش کیا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ شاعری طے شدہ راستوں پر چلنے کا نام نہیں بلکہ احساسات اور تجربات کے سمندر منتھن سے حاصل ہونے والا وہ امرت ہے جس سے شاعر اور قاری دونوں کوذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ میرے نزدیک شاعری زخموں سے روشنی کشید کرنے کا عمل ہے اور روشنی کشید کرنے کا ہنر ہر شاعر کے حصے میں نہیں ۔
عادل رضا منصوری نوجوان ہیں اور موجودہ عہد کی تیز رفتار زندگی اور سائبر عہد میں تغیر پزیر انسانی قدروں اور ناہموار اور تہذیبی قدروں کے زوال کے درمیان زندگی کا مثبت رویہ اور وسیع وژن رکھتے ہیں ۔ان کے یہاں شاعری اپنی اصل تعریف اور اپنے مروجہ اصولوں سے الگ ایک نیا شعری اور تخلیقی منظر نامہ مرتب کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔میرے نزدیک یہ ایک ایسی انفرادیت ہے جو بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے۔”سناٹے کی پرچھائیں “،عادل رضا منصوری کا اولین شعری اظہارہے جو ان کی غزلوں اور نثری نظموں پر مشتمل ہے ، ان کی شاعری سے گزرتے ہوئے میرا یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ ان کے یہاں لفظوں کو زندہ کرنے اور ان سے زندگی کے کینوس پر تصویر کرنے کی ہنر مندی موجود ہے ۔یکسانیت اور عمومیت سے الگ ،اپنے ڈکشن کی سادگی کے ذریعہ اپنے اشعار کے باطن میں معانی اور مفہوم کی وسعت پیدا کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔
شافع قدوائی نے عادل رضا منصوری کے مجموعے ” سناٹے کی پرچھائیں “ کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آوازاظہار کا نہیں بلکہ اخفا کا مؤثر ترین وسیلہ ہے اور خاموشی اکثر اظہار کا سب سے طاقتور میڈیم بن جاتی ہے ۔مستقل محوِ کلام رہنا دراصل چھپانے کا عمل ہے کہ اگر انسان چپ ہوجائے تو اس کے سارے راز افشا ہو جاتے ہیں ۔شافع قدوائی کی اس رائے سے اگرچہ اختلاف کی گنجائش کم کم ہی ہے مگر شاعری میں مستقل محوِ کلام رہنے کا عمل بھی اکثر شاعر کی تخلیقی فکر پر منفی اثرات مرتب کر نے کا سبب بنتا ہے۔میرے نزدیک عادل رضا منصوری کی شاعری میں آوازوں کا شور نہیں بلکہ سنجیدہ خاموشی کے بیکراں سکوت کی شدت سے پیدا ہونے والی وسیع اور معنی خیز گہرائی ہے جو سناٹے کے بطن سے پھوٹ کر طرف طرف گونجتی ہے ۔ان کی شاعری کے بارے میں اگر یوں کہا جائے کہ وہ تخلیقی فکر کی زمین میں خاموشی کے بیج بو کر آوازوں کی فصل کاٹنے کا ہنر جانتے ہیں ،تو نا مناسب نہ ہوگا۔گمبھیر اور خاموش تاریکی ، سناٹے اور تنہائی میں خود سے محوِ گفتگو رہنادرا صل انسان کو اپنے گردو پیش سے بے خبر کردیتا ہے مگریہی بے خبری اس کے باطن کی وسعت میں کراں تا کراں پھیل کر شا عری کے نئے موسموں کی خبر لاتی ہے ۔شاید اسی موقع کی مناسبت سے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی،میرے خیال میں عادل رضا منصوری کے یہاں یہی کیفیت پائی جاتی ہے وہ اپنے اندر ڈوب کر آب دار موتی اور گہر برآمد کرتے ہیں ۔اپنے بدن کے چاروں طرف گہرے سکوت کا حصار کھینچ کر اندر کی صداﺅں کو شعر کرنے کا عمل ہی دراصل انہیں ان کے ہم عصروں کے مقابلے ممتاز کرتا ہے۔
ہر طرف میرے ہو کا عالم تھا
تیری آواز کب سنی میں نے
بدن ہی میں کہیں سمٹا ہوا تھا
یہ جنگل جا بہ جا ہونے سے پہلے
بھٹکنے والے کو میرا کوئی پتہ دے دے
مرا قیام ابھی جسم کی سرا میں ہے
عادل رضا منصوری کے شعری سفر میں اگرچہ ریت،خواب، دشت، شجر ،نیند ،جنگل ، دھوپ ، زندگی، ندی،آواز،گھر اور خاموشی وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو کلیدی استعارے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی شاعری کا چہر ہ نمایاں اور تابناک کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ،مگر خاموشی ایک ایسا لفظ یا استعارہ ہے جو ان کے یہاںبے حد بلیغ اور وسیع معنوں میں بار بار آیا ہے اور ہر بار ایک نئی معنویت اور نئے مفہوم کے ساتھ روشن ہوتا ہے ۔عادل رضا منصوری کی شاعری کے مجموعے ”سناٹے کی پرچھائیں “ کو پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ خاموشی دراصل آواز کی نفی نہیں اور نہ ہی متضاد ہے بلکہ ان کے یہاں خاموشی بہت ساری آوازوں کے REACTIONسے پیدا شدہ PRODUCTکے افہام و تفہیم کا ذریعہ ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار نقل کرتا ہوں ،جن میں خاموشی سے آواز بنانے کا عمل نمایاں ہے۔
مری خاموشیوں کی جھیل میں پھر
کسی آواز کا پتھر گرا ہے ہیں
خموشی کے بدن کو چیر ڈالا
ذرا سا کام کب سے ٹل رہا تھا
ہر صدا کے اثر سے نکل جاﺅں گا
میں خموشی بدن بھر نگل جاﺅں گا
خامشی کیا گا رہی ہے دور ویرانوں میں سن
پھر کوئی آواز گونجی ساری آوازوں سے دور
کسی کنارے پہ ہنستی ہوئی اداسی کو
خموش دیکھ کے دریا کا دل بھی کانپا ہے
یوں اوڑھے رہتا ہوں آواز کی ردا ہر دم
ہرایک راز مری خامشی سے کھلتا ہے
کسی پہ کھلنے لگی ہے ہماری خاموشی
کسی صدا کا بھنور ہم پہ بھی کھلا تو ہے
محولہ بالا اشعار میں ہم دیکھتے ہیں کہ خاموشی کثیر الجہت معانی و مفاہیم کے عمل سے گزرتی ہے،جس کے لئے نئی اور انوکھی تراکیب تراشنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے ۔عادل رضا منصوری کی شاعری کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اضافت سے شعوری طور پر احتراز کیا ہے اورآسان اور سادہ لفظوں کی مدد سے شعری پیکر بنانے کے عمل میں وہ بجا طور پر کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔خاموشیوں کی جھیل میں آواز کا پتھر گرنا، خاموشیوں کا بدن چیرنا،خامشی کو نگلنا،خاموشی کا کھلنایا خاموشی سے راز کا افشا ہونا وغیرہ دراصل ایسی تراکیب ہیںجو اپنے مفاہیم کے سیاق میں مختلف دشاﺅں میں منعکس ہوتی ہیں اور جنہیں عادل رضا منصوری نے اپنے شعری ڈکشن کا غالب حصہ بنایا ہے اور اس طرح وہ اپنی شاعری کے ذریعہ عصری شاعری کے ایوان میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب ٹھہر تے ہیں ۔
عادل رضا منصوری کی شعری کتاب میں نثری نظمیں بھی شامل ہیں ۔ان نظموں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ایجاز و اختصار کے علاوہ شاعر کے انہماک اور ادراک سے عبارت ہیں ۔نظموں کا ڈکشن بھی غزلوں کی طرح آسان اور سادہ ہے ،مگر ان میں جنگل ، گھر ، خواب اور رات جیسے الفاظ کی مدد سے اپنے احساسات اور جذبات کی بافت کی گئی ہے ۔کچھ نظمیں تو بے حد مختصر ہیں ،محض چند الفاظ پر مشتمل مگر ان کی کئی نظموں کے باطن میں فکر کا ایک دریا رواں ہے ۔عادل رضا منصوری کی غزلوں کے مقابلے ان کی نظموں میں بھی ایک طرح کی اداسی،خاموشی اور دھیما پن محسوس ہوتا ہے ،مگر غور کریں تو ان کے خیال کی شدت ہی ان نظموں کو اہم بناتی ہیں ۔عتیق اللہ کے لفظوں میںعادل کی نظموںکی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ وہ باہر سے بہت خاموش بلکہ کچھ بولتی بھی ہیں تو سرگوشیوں کے انداز میں لیکن اندر کے معرض میں وہ شور آگیں ہوتی ہیں۔کچھ نظموں کے اقتباسات سے ہم عادل رضا منصوری کی نظموں کے تخلیقی نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
منظر کے بدلتے ہی
جنگل ہو گئے ہیں
شہر ( بدلاﺅ۔۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابیں پڑھتے پڑھتے
خود بھی ہو گئے کیا کتاب؟
کتابوں جتنا
کتابوں جیسا
ہو جاتا ہے
کمرہ
جنگل ۔۔۔۔۔۔۔۔(جنگل ہوجاتا ہے کمرہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند کرو
دروازے سارے
اور سہارے
آجائے گی
رات سنہری
ڈسنے اپنے خواب ۔۔۔۔( پہلی کرن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو اپنے نصف کی ہے جستجو
روزِ ازل سے
زندگی آدھی ادھوری کاٹ ہی لی
چاہتا ہوں
مرنا پوری موت ۔۔۔۔(اردھ نارشور )
عادل رضا منصوری کی نثری نظموں کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں زندگی سے مکالمے کا جذبہ موجود ہے ، ان کی نظموں میں ایک طرح کا تحرک ہے جو نظموں کو پاور فل بناتا ہے ۔ان کے خاموشی اور خواب سے زندگی کے متحرک لمحوں کو برآمد کرنے کی ہنرمندی موجود ہے ، ان کی نظموں کا کینوس وسیع ہے ، ان کی نظموں کا محاکاتی منظر نامہ قاری کے ذہن و دل پر تصویریں بناتا ہے ، یہی نہیں ان کے اساطیری کرداروں سے بھی نظم اور اشعار تراشنے کا عمل موجود ہے جس کے واضح اشارے ان کے کئی اشعار اور نظموں میں ملتے ہیں ۔
عادل رضا منصوری نوجوان ہیں اور ان کا تخلیقی سفر بڑی آب و تاب سے جاری ہے ،ان کے یہاں امکانات قوی ہیں کہ وہ آئندہ سناٹے کی پرچھائیں سے آگے کا سفر کریں گے۔