غیر درجہ بند

ڈاکٹر منصور خوشتر کی تبصرہ نگاری کی انفرادیت از ڈاکٹر احسان عالم

جی این کے اردو

31/ جولائی2022

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ


ڈاکٹر منصور خوشتر کی تبصرہ نگاری کی انفرادیت
(طرزِ اظہار کی روشنی میں)

منصور خوشتر ایک حوصلہ مندقلم کارکا نام ہے۔ جن کے بارے میں ہندوستان کے معروف ناقد حقانی القاسمی نے لکھا ہے:”مجھے خوشی ہے کہ منصور خوشتر نہایت متحرک، فعال اور سرگرم ہیں اور مختصر عرصے میں انہوں نے ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی ہے اور اپنے ادب جنون کی عبارت ادب کی معتبر جبینوں پر رقم کر دی ہے۔ وہ تخلیق اور تنقید دونوں سطح پر سرگرم ہیں اور اب تک ایک درجن سے زائد ان کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔“
زیر مطالعہ کتاب ”طرزِ اظہار“384صفحات پر محیط ہے۔ ا س کتاب میں تقریباً سو کتابوں پر تاثرات پیش کئے گئے ہیں۔ اپنے پیش لفظ ”اپنی بات“ عنوان کے تحت انہوں نے اپنے ذوق و شوق سے متعلق کافی اچھی باتیں تحریر کی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں:


”کتابوں کا مطالعہ میری زندگی ہے۔ قدرت نے ذوق کے مطابق مجھے ماحول بھی عطا کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے حلقہئ احباب میں اکثر لوگ مصنف ہیں، تخلیق کار ہیں، شاعر و صحافی ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ کم ہی لوگ اس بات سے واقف ہوں گے ادب و صحافت میرا اصل میدان تو ہے بھی نہیں لیکن قدرت کو شاید یہی منظور ہے کہ میں صحرائے ادب میں ذوقِ تشنگی لیے دیوانہ وار پھرتا رہوں۔ مجھے اپنی دیوانگی بھی عزیز ہے اور ذوقِ تشنہ لبی بھی۔ یہ میری زندگی کی متاع ہیں۔شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب میرے پاس ملک و بیرون ملک سے کوئی کتاب نہ آتی ہو۔ تجارت کی پیشہ وارانہ مصروفیت آج تک میرے ذوق مطالعہ کو شکست نہیں دے سکی۔ پڑھنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ صارفیت اور برقیت کے اس عہد میں مطالعہ اور وہ بھی ”ادب“ کامطالعہ، انتہائی خسارے کا سودا ہے لیکن میں اپنی فطرت سے مجبور ہوں۔“ (ص:11)


کتاب ”طرزِ اظہار“ میں شامل پہلا تاثراتی مضمون ”کیول دھیر کہانیاں“ پر ہے جس کے مرتب ارتضیٰ کریم ہیں۔ کیول دھیر ایک ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کے تجربات اور مشاہدات کافی بلیغ ہیں۔ وہ معاشرے کے خارجی اور باطنی احوال کی خبر رکھتے ہیں جو ایک کہانی کار کے لئے لازمی ہے۔ان کی کہانیوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماج کے نفسیات پر ان کی گہری نظر ہے۔
”مظفر حنفی: حیات وجہات“ کتاب کو مظفر حنفی صاحب کے لائق و فائق صاحبزادے انجینئر فیروز مظفر نے ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر منصور خوشتر لکھتے ہیں:
”زیر مطالعہ کتاب ”مظفر حنفی: حیات و جہات“ فیروز مظفر کی ایک عمدہ ترتیب ہے۔ اپنے عرض مرتب میں فیروز مظفر لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی کا ادبی سفر کم و بیش ستر برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔ شعر وادب کی تقریباً سبھی مروجہ اصناف میں ان کا خاصا کام ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل گو ہیں تاہم تنقید و تحقیق، ترتیب و تدوین، ناول، افسانہ، ترجمہ، سفر نامہ، مزاح نگاری اور ادب اطفال کے میدانوں میں ان کے کام کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ شاد عارفی سے متعلق تحقیق و ترتیب و تدوین کے لئے بھی انہیں بہ نظر تحسین دیکھا جاتا ہے۔“(ص:17)


معروف ناقد اور ایل۔ این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ کے ایک بہترین استاذ پروفیسر رئیس انور کی تحقیقی کتاب ”بنگال کے اردوتذکرے“ ہے۔ کتاب کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے اپنے احساسات و جذبات کی عکاسی منصور خوشتر نے ان الفاظ میں کی ہے:
”پروفیسر رئیس انور رحمن کا تعلق شعبہئ اردو، ایل این ایم یو دربھنگہ سے رہا ہے۔ ان کا تعلق تنقید و تحقیق سے ہے۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور قارئین سے داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ موصوف کی پیش نظر کتاب ”بنگال کے اردو تذکرے“ ۱۲۰۲ء کے آخر میں منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب میں بنگال کے تذکرہ نگاروں کو قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کام تحقیقی نوعیت کاہے۔“(ص:21)


ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی (صدر شعبہئ اردو، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ) کے ایک شاہکارکتاب ”مطالعات فکشن“کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔ دربھنگہ شعبہئ اردو اور پٹنہ شعبہئ اردو میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ میرے پی ایچ۔ڈی کے ممتحن بھی موصوف ہی تھے۔ بہت ہی خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کی کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر منصور خوشتررقم طراز ہیں:
”ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی پیش نظر کتاب ”مطالعات فکشن“ میرے مطالعے میں رہی ہے۔ اس کتاب کئی اہم مضامین ہیں جو اردو شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ”مطالعات فکشن“ ۶۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا انتساب ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اردو فکشن کے نباض پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نام کیا ہے۔ اپنے پیش لفظ کے علاوہ انہوں نے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے۔ اختصاص، امتیاز اور انفراد کے عنوان سے شامل تمام مضامین معلوم افزا ہیں۔“(ص:25)
پروفیسر طیب صدیقی کاتعلق بھی شعبہئ اردو، ایل۔ این۔ ایم۔ یو۔ دربھنگہ سے رہا ہے۔ 30نومبر 2005کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوکر اردو زبان وادب کی خدمت میں لگے ہیں۔ ان کے لائق بیٹے ڈاکٹر عقیل صدیقی بھی کافی فعال اور متحرک ہیں۔ وہ تقریباً ایک سو سے زائد انعامات حاصل کر چکے ہیں۔ پروفیسر طیب صدیقی کی کتاب ”نقشہائے رنگ رنگ“ پر ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنے قلم کی جولانی دکھاتے ہوئے لکھا ہے:
”پیش نظر کتاب ”نقشہائے رنگ رنگ“ میں پروفیسر محمد طیب صدیقی نے اہم مضامین کو شامل کرکے اسے دستاویزی اہمیت کا حامل بنادیا ہے۔موصوف نے کئی اہم سوالات کے جواب تاریخ کی روشنی میں قارئین کے سامنے پیش کئے ہیں جو کافی معلوماتی اور توجہ طلب ہیں۔“(ص:33)
قیصر صدیقی کی کتاب ”سجدہ گاہ فلک“ پر منصور خوشتر نے اس انداز میں روشنی ڈالی ہے:
”قیصر صدیقی نثری تحریری معاملے میں کم سخن، مگر شعر گوئی کے معاملات میں زود گو تھے۔ ان کی شخصیت کا تضاد ان کی تحریر اور تقریر دونوں میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح وہ باتیں تو لہک لہک کر کرتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جس کے وہ حق دار تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز الہامی طور سے چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہوا۔ اگر ۰۵۹۱ء کو ان کی شاعری کا سن آغاز مان لیا جائے تو ان کی شاعری کی عمر پینسٹھ سال رہی۔ اس دوران انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کے خزانہ میں کافی اضافہ کیا۔“(ص:34)
ڈاکٹر مظفر مہدی کا تعلق سرزمین دربھنگہ سے ہے لیکن وہ گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ بذریعہ موبائل ان سے رابطہ قائم ہے۔ ان کی کتاب ”اظہار و ابلاغ“ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ ان کی فنکارانہ صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے منصور خوشتر لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر مظفر مہدی کی پیش نظر کتاب”اظہار وابلاغ“ تنقیدی مضامین کامجموعہ ہے۔ ۴۴۲/ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سولہ مضامین ہیں۔ کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار اردو ادب کی دو مایہ ناز ہستیاں پروفیسر رئیس انور اور ڈاکٹر سید احمد قادری نے کیا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں پروفیسر رئیس انورلکھتے ہیں کہ اردو میں کئی ایسے قلمکار ہیں جو صلے اور ستائش کی پروا کئے بغیر بڑی دلجمعی سے ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر مظفر مہدی کا شمار ان ہی میں کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد فعال اور متحرک شخصیت کانام ہے۔ ان کے کاموں کازمانہ معترف ہے۔ لکچرر، کئی کالج کے پرنسپل کے عہدوں سے گزرتے ہوئے فی الحال ایل۔ این۔ ایم۔ یو۔ دربھنگہ میں رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کی ایک کتاب ”آئینہ حیران ہے“کے عنوان سے چند ماہ قبل منظر عام پر آئی اور داد و تحسین سے نوازی گئی۔ ان کی کتاب ”آئینہ حیران ہے“ پر تاثرات بیان کرتے ہوئے منصور خوشترلکھتے ہیں:
”آئینہ حیران ہے“ کورونا اور لاک ڈاؤن کے تناظر میں تحریر کی گئی نظموں کا مجموعہ ہے۔ ۴۰۱ صفحات کے اس کتاب میں ڈاکٹر مشتاق احمد کے پیش لفظ ”اپنی بات“ کے علاوہ تین نامور قلمکاروں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر محمد علی جوہراور پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے اس کتاب پر اپنے تصورات کا اظہار کیا ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب میں تیس نظمیں شامل ہیں۔“(ص:42)
ڈاکٹر امام اعظم مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی، ریجنل سنٹر کولکاتاکے ریجنل ڈائرکٹر ہیں۔ وہ کافی فعال رہتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ کتابوں کے علاوہ ان کا تعلق صحافت سے بھی کافی گہرا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ رسالہ ”تمثیل نو“ ان کی ادارت میں پابندی کے ساتھ شائع ہوتاہے۔ عصر حاضر میں زوال پذیر ہوتے جارہے ہیں مکتوب نگاری کے فن پر زندہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش انہوں نے کی ہے۔ 434لوگوں کے خطوط کو یکجا کرکے 752صفحات پر محیط ایک کتاب ترتیب دی ہے جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی۔ اس کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار ڈاکٹر منصور خوشتر نے سلیقے کے ساتھ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر امام اعظم کی ”چٹھی آئی ہے“ میں ادبی مسائل کی نشاندہی ملتی ہے۔ ان خطوط میں اظہار ذات ہے اور تخلیقات کی آئینہ داری بھی ہے۔ لکھنے والے مشاہیر نے بے ساختگی اور بے تکلفی سے”تمثیل نو“ میں شائع شدہ مضامین کا جائزہ لیا ہے اور اپنی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ایک طرح سے یہ تفہیم کی کوشش ہے جس کی نوعیت جداگانہ ہے کیونکہ ان خطوط میں دریافت کے اجالے ہیں، اشار ے اور امکانات ہیں اور الگ الگ زاویے ہیں۔ یہ خطوط تقلیدی، مصنوعی یا اقتصادی نہیں ہیں بلکہ نئے رجحانات کے متصادم ہیں جن کی ناگزیری سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان خطوط میں اظہار کی تصدیق و تردید بھی ہے کہ بیشتر خطوط میں ان کے رسالے سے مشمولات پر رائے ہے۔“(ص:50)
پروفیسر محمد آفتاب اشرف صدر، یونیورسٹی ڈپارٹمنٹ آف اردو (ایل این ایم یو، دربھنگہ) کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کا شمار ایک مخلص اور معاون استاذ میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک کتاب ”مولانا ابوالکلام آزاد ایک نابغہ“ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کتاب کی افادیت اور معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے منصور خوشتر لکھتے ہیں:
”ابوالکلام آزاد: ایک نابغہ‘ان کی ایک عمدہ تخلیق ہے۔ اس سے قبل بھی ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔۰۰۲صفحات پر محیط اس کتاب میں ڈاکٹر آفتاب اشرف نے کتاب کی شروعات اپنے پیش لفظ’حدیث دل‘ سے کی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر طرزی کا منظوم تاثر ہے۔ پروفیسر شا کر خلیق نے ”مولا تا آزاد نابغہٗ روز گار کے عنوان سے اپنا تاثراتی مضمون قلم بند کیا ہے۔“(ص:53)
ڈاکٹر جمال اویسی نظمیہ اور غزلیہ شاعر ی کے بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ایک ماہر نقاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے نظموں کا ایک مجموعہ ”نظم نظم“کے عنوان سے کئی سال قبل منظر عام پر آچکی ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے موصوف کی نظم نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
”جمال اویسی کی نظموں کا ضخیم مجموعہ ”نظم نظم“ شائع ہوا اور یہ مجموعہ موصوف کی غزلوں سے زیادہ مقبول ہوا۔ہند وپاک کے رسائل میں اس مجموعہ پر تبصرے بھی شائع ہوئے۔ پروفیسر شمیم حنفی کی مختصر سی تحریر جو نظم نظم (۴۰۰۲) میں شامل تھی اس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ شمیم حنفی نے گویا ایک طرح سے انہیں نظم کے منجھے ہوئے پختہ کار شاعر کا سرٹیکفیکٹ دے دیا جس پر مہر خود مجموعہ کی نظمیں ہی ثبت کرتی ہیں۔“(ص:57)
پروفیسر سید محمد احتشام الدین خوش مزا ج اور خوش اخلاص شخص ہیں۔ ان کی کتاب ”حاصل مطالعہ“ پر روشنی ڈالتے ہوئے منصور خوشتر لکھتے ہیں کہ شعر وادب سے ڈاکٹر سید احتشام الدین صاحب کا رشتہ تقریباً ۰۴/ برسوں کا ہے ان کے بہت سے مضامین ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ چند برسوں سے اپنی خراب طبیعت کے باعث انہوں نے اپنے قلم پر بریک لگارکھی ہے۔ لیکن یکایک ادبی ہلچلوں نے ان کے دل میں انگڑائیاں لیں اور انہوں نے اس کتاب کو شائع کرنے کا فیصلہ لیا۔ اب پھر سے انہوں نے کچھ مضامین قلم بند کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ پیش نظر کتاب ”حاصل مطالعہ“ قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ امید ہے اس کی پذیرائی سے ڈاکٹر احتشام الدین صاحب کا حوصلہ بڑھے گا۔
ان کتابوں کے علاوہ ”لفظ تم بولتے کیوں ہو؟“ (خورشید حیات)، ”آتی ہے یاد ان کی“ (انوارالحسن وسطوی)، ”معاصر اردو افسانہ: فکری جہات“ (ڈاکٹر مجیر احمد آزاد)، ”ادبی جہتیں“ (سلطان آزاد)، ”میزان فکر و فن“ (انور آفاقی)، ”خواتین ادب: تاریخ و تنقید“ (ڈاکٹر صالحہ صدیقی)، ”چراغ آگہی“ (ڈاکٹر ایم۔ صلاح الدین)، ”ادبی صحافت: آزادی کے بعد“ (ڈاکٹر عبدالحی)، ”ناز برداران اردو“ (پروفیسر عبدالمنان طرزی)، ”احساسات کے دائرے“ (ڈاکٹر شہناز فاطمی)، ”بچوں کی کتابیں: تعارف و تذکرہ“ (ڈاکٹر عطا عابدی)اہم کتابوں پر ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنے تاثرات کا اظہار بہت ہی جامع اندا ز میں کیا ہے۔
راقم الحروف کی کئی کتابو ں مثلاً ”سید محمود احمد کریمی: فکرو نظر کے آئینے میں، مناظر عاشق ہرگانوی کے مختلف تخلیقی رنگ، اوراق غزل اور بچوں کے سنگ“ پر اپنے تاثرات کوڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنی کتاب ”طرز اظہار“ میں شامل کیا ہے۔
اس طرح ایک سو کتابوں کا تعارف پیش کرکے ڈاکٹر منصور خوشتر نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اردو حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی یقینا ہوگی۔ اس کتاب کی اشاعت کے لئے میں ڈاکٹر خوشتر کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ