جی این کے اردو
30/جولائی 2022
“عوام کا عقوبت خانہ اور اشرافیہ کا “ببل”: طاہر بن جلون کا ناول اور ایک ہسپانوی فلم
اشرافیہ اپنے ہی بنائے گئے بلبلے (bubble) میں گھری ہوتی ہے ۔ اور عوام اشرافیہ کے قائم کیے گئے عقوبت خانے میں قید ہوتی ہے۔دونوں کی دنیائیں الگ الگ ہیں؛کافی حد تک۔ دونوں کےلیے جینے کاڈھنگ ہی نہیں، زندگی کا مطلب و مقصد بھی الگ الگ ہے۔دونوں کی ذہنی وطبیعی کارگاہیں بھی الگ الگ ہیں؛تفریحات واخلاقیات بھی؛ جگہیں ، مقامات اور زمین وآسمان بھی۔اشرافیہ کا “ببل” چھوٹا ہے ،جب کہ عوام کا عقوبت خانہ کرہ ء ارض کے بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ چھوٹے سے “ببل ” میں بیٹھ کر صرف کرہ ء ارض ہی سے متعلق نہیں، پوری کائنات سے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں۔اس “ببل” سے جاری ہونے والی ایک خبر ،ایک تصویر کرہ ء ارض پر محیط عقوبت خانے کے لیے ،کئی دنوں کے بحث مباحثے کا سامان ہوسکتی ہے اور اس بحث مباحثے سے صرف پرانے تعصبات کو نئی زبان میں ظاہر ہونے اور مستحکم ہونے کا موقع ملتا ہے۔وہ اس فکر میں عملی شرکت شاید ہی کرپاتے ہوں، جو ان خبروں ،تصویروں کو ممکن بناتی ہے۔مجموعی طور پرعوام کی جدوجہد عقوبت خانے سے آزادی تک محدود ہے، جب کہ اشرافیہ کے “ببل” کی جدوجہد ایک طرف انسانوں کی روحوں کی تشکیل ِ نو کے لیے ہے اور دوسری طرف اپنی طاقت واختیار کو کائنات کے بعیدترین گوشوں تک پھیلانے سے عبارت ہے۔ کبھی کبھی عقوبت خانے اور “ببل ” کے زبردست قصے بھی لکھے جاتے ہیں۔کبھی کبھی ان قصوں کو دہرانے میں حرج نہیں!
مراکشی ناول نگارطاہر بن جلون سے اردو قارئین واقف ہیں۔ ان کے ناولThis Blinding Absence of Light میں (جسے اردو میں محمد عمر میمن اور ارجمند آرا نے الگ الگ ترجمہ کیا ہے)۔میں ایک جگہ ہسپانوی فلم Exterminating the Angleکا ذکر آتا ہے ۔مراکش کے شاہ الحسن الثانی کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے پس منظر میں لکھاگیا یہ ناول ، عقوبت خانے کے واقعات پیش کرتا ہے۔ یہ عقوبت خانہ جنگل میں زیر زمین بنایا گیاتھا۔ یکسر تاریکی میں ۔صرف ہوا کا انتظام تھا۔ یہاں ایک بیرک میں ان تئیس فوجیوں کو رکھا گیاتھا جن پر بغاوت میں حصہ لینے کا الزام تھا۔ ناول کا راوی انھی تئیس میں سے ایک ہے۔ناول کا راوی، جو ناول کا مرکزی کردار بھی ہے، اس تاریک عقوبت خانے میں خود کو اور ساتھیوں کو زندہ رکھنے کے کئی حربے اختیار کرتا ہے۔ ایک حربہ کہانیاں سنانے کا ہے۔ الف لیلہ ولیلہ کے علاوہ وکٹر ہیوگو اور کامیو کے ناولوں کی کہانیاں سناتاہے۔کہانیاں صرف باہر کی دنیا سے نہیں جوڑتیں، ان کی منجمدزندگی کے مقابل ایک متحرک و فعال زندگی کا احساس دلاتی ہیں۔انھیں عقوبت خانے میں زندہ رہنے کے لیے ،رواں دواں زندگی کا تصور ، خوراک سے زیادہ اہم محسو س ہونے لگا تھا۔انھیں جسم کے ساتھ اپنے ذہن اور روح کو بھی مردہ ہونے سے بچانا تھا۔چناں چہ کئی باران کی کہانی کی اشتہا ، کھانے کی طلب سے بھی بڑھ جاتی۔وہ سوچتے کہ ذہن اور روح بچ گئے تو جسم بھی بچ جائے گا۔ اسی دوران میں مذکورہ فلم کی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ ناول میں فلم کی کہانی کا دہرا کردار ہے۔ ایک تو یہ کہانی قیدیوں کی کہانی کی طلب کی تسکین کرتی ہے،اور دوسرا فلم کی کہانی کا گہرا تعلق ،ناول کی کہانی سے ہے۔ ناول ،عوام کے عقوبت خانہ کی کہانی ہے،جب کہ فلم(جسے سررئیل انداز میں لکھا گیااور فلمایا گیا ہے) میں اشرافیہ کی اپنے “ببل ” میں گھرکر رہ جانے کا قصہ پیش ہوا ہے۔
1962ء میں ریلیز ہونے والی یہ ہسپانوی فلم ہے اور زمانہ ہے جنرل فرانکو کا۔ فلم کی کہانی بس چھوٹی سی ہے مگر اپنے معنی ومفہوم میں خاصی بڑی۔ ایک پوش گھر میں شہر کے رؤسا عشائیے پر اکٹھے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک خاتون پیانو بجاتی ہے۔ایک پراسرار طریقے سے سب لوگ اسی پوش گھر میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔کوئی باہر سے آتا ہے نہ وہ باہر جاسکتے ہیں۔ کئی دن قید رہتے ہیں۔ ایک شخص کی موت ہوجاتی ہے اور دو لوگ خود کشی کرلیتے ہیں۔ پہلی ہی رات گھر کے نوکر رخصت ہوجاتے ہیں۔ اب شہر کے رؤسا، ایک دوسرے رئیس کےشاہانہ گھر میں محبوس ہیں۔ باہر سے کٹے ہیں۔ کھانا ختم ہے۔ پانی نہیں مل رہا۔ دیوار توڑ کر پانی کے پائپ میں سوراخ کر کے پانی حاصل کرتے ہیں۔اسی دوران میں کچھ بھیڑیں اورایک ریچھ کہیں سے آتا ہے تو وہ دوڑ کر بھیڑوں کو پکڑتے ہیں اور کاٹتے ہیں اور بھون کر کھاتے ہیں۔کسی کی تدبیر کام کرتی ہے ، نہ کسی کی عبادت۔وہ کیوں قید ہوئے، یہ بھی نہیں کھلتا۔ ایک کردار کہتا ہے کہ اس مصیبت کا ذمہ دار گھر کا مالک نو بائل ہے، اس لیے اس کی قربانی دی جانی چاہیے۔کچھ افراد اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جب اس کی قربانی کی بحث چل رہی ہوتی ہےتو اچانک ایک غیر ملکی مہمان کو خیال آتا ہے کہ اگر سب لوگ پہلی رات والی نشستیں سنبھال لیں تو یہ قید ختم ہوسکتی ہے۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح ، ڈنر کی رات والی اپنی اپنی نشستوں کو یاد کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ پیانو پر وہی دھن بجائی جاتی ہے تو دروازے کھل جاتے ہیں۔ باہر کئی دنوں سے لوگ جمع ہیں۔وہ ان کا استقبال کرتے ہیں۔ شکرانے کے طور پر وہ سب چرچ جاتے ہیں تووہاں موجود سب لوگ، اسی پراسرار طریقے سے قید ہوجاتے ہیں۔ اسی دوران میں باہر ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ ایک بار پھر بھیڑوں کو چرچ میں آتے دکھایاگیا ہےاور اس کے ساتھ گولیوں کی بوچھاڑ بھی۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ گولیوں کی بوچھاڑ کون کرسکتا ہے۔اس سررئیل فلم کا ایک ایک سین اپنی تعبیر چاہتا ہے ۔ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹنے سے ، سب اشراف کی قید ختم ہوئی۔ یہ پہلی حالت کس کا استعارہ ہے؟ بھیڑیں کس کی علامت ہیں؟ نئے زمانے کے اشراف کی سب سے بڑی طاقت عقل وسائنس ہے، وہ کیوں توہمات کا جلد شکار ہوجاتی ہے؟ پہلے قربانی ،پھر چرچ جانا ، کیا معنویت رکھتا ہے؟
جنرل فرانکو1975 میں گزر گیا۔ شاہ الحسن ثانی 1999ء میں قتل کردیا گیا۔کیا اشرافیہ کے “ببل ” میں کوئی خراش پڑی ؟
ناصر عباس نیّر
14جولائی 2022ء