تجزیے کتاب شناسی

زبیر رضوی شخصیت اور خدمات: ایک جائزہ (ڈاکٹر عبدالحی کی ایک عمدہ ترتیب) از ڈاکٹر احسان عالم

جی این کے اردو

جی این کے اردو

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ


زبیر رضوی شخصیت اور خدمات: ایک جائزہ
(ڈاکٹر عبدالحی کی ایک عمدہ ترتیب)

زبیر رضوی نے شاعری اور صحافت کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ان کے کئی شعری مجموعے مثلاً ”لہر لہر ندیا گہری“، ”خشت دیوار“، ”پرانی بات ہے“ دھوپ کا سائبان“، ”دامن“، ”مسافت شب“، ”انگلیاں فگار اپنی“، ”سبزۂ ساحل“، ”پورے قد کا آئینہ“اور ”سنگ صدا“ منظر عام پر آچکے ہیں۔ لیکن کسی بھی فرد کاکارنامہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اسے بھلا دیا جاتا ہے۔ زبیر رضوی کی یاد کو برقرار رکھنے کے لئے ڈاکٹر عبدالحی نے عمدہ مضامین سے مزین ایک کتاب ”زبیر رضوی: شخصیت اور خدمات“کے عنوان سے ترتیب دی ہے۔ معروف نقاد حقانی القاسمی نے زبیر رضوی کی فراموشی اور عبدالحی کی کامیاب کوشش کو اس انداز میں پیش کیا ہے:

”ڈاکٹر عبدالحی نے شاید فراموشی کی اس آہٹ کو محسوس کرلیا تھا کہ زمانہ شاید انہیں بھلا نہ دے اسی لیے ان کی موت کے کچھ عرصے بعد ہی خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبیر رضوی کے تعلق سے مضامین کے جمع و ترتیب کا بیڑا اٹھایا اور شب و روز کی محبت کے بعد انہوں نے زبیر رضوی کی متنوع اورمختلف الجہات شخصیت پر پرانے رسائل جرائد اور دیگر ذرائع سے مضامین اکٹھا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔“(ص:۲۱)
ڈاکٹر عبدالحی نے پیش نظر کتاب کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے بڑی دلچسپ باتیں تحریر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”میں نے زبیر رضوی کی شخصیت کو موضوع اس لیے بنایا کہ ان پر کوئی بھی مضمون یا تحریر لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں یہ خیال بار بار ستاتا رہا کہ زبیر رضوی جیسے بڑے تخلیقی ذہن کی جس طرح قدر شناسی ہونی چاہیے تھی وہ شاید نہ ہوسکی۔ جب کہ ان کا ادبی اور تخلیقی سرمایہ اتنا مہتم بالشان ہے کہ اس کے حوالے سے ان کی زندگی میں ہی تنقیدی و تحقیقی کام ہونا چاہئے تھا مگر اردو زبان و ادب میں ناقدری کی ایک ایسی روش چل پڑی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے جینوین فنکار بھی محرومی کے شکارہوجاتے ہیں۔“(ص:۸۱)
زبیر رضوی کا تعلق شمالی ہندوستان کی مردم خیز سرزمین امروہہ سے ہے۔ ان کا گھرانہ علمی و مذہبی، سماجی و روحانی اعتبار سے ایک روشن و تابناک اور امروہہ کی علمی وادبی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔
کتاب کا پہلا مضمون مصباح احمد صدیقی (امروہہ، اترپردیش) نے ”زبیر رضوی کا خاندانی تعارف“ کے عنوان سے قلمبند کیا ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے زبیر رضوی کے خاندانی احوال،شجرۂ نسب، ان کی شخصیت کے چند نمایاں پہلوؤں اور ان کے ادبی کارناموں کا تذکرہ بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
زبیر رضوی کی شخصیت سے متعلق لکھتے ہوئے ان کی شریک حیات جمشید جہاں لکھتی ہیں:”ان کی یاد جب آتی ہے دل کا سفینہ ڈوبنے لگتا ہے۔ ان سے میرا بہت مضبوط تہہ دار اور خوشگوار رشتہ رہا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ گذارے ہوئے دن آج بھی یاد ہیں، جیسے کل ہی کی بات ہو۔
”زبیر ضوی: سریلا آدمی“کے عنوان سے مجتبیٰ حسین نے اپنی دلکش تحریر میں رقمطرازہیں:
”ادیب، زبیر کو بہت عزیز رکھتے ہیں اور مشاعروں میں زبیر کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوش ہوتے تھے۔ برخلاف اس کے وحید اختر اپنے عالمانہ مزاج کے ہاتھوں مجبور زبیر پر چوٹیں کستے تھے اور ان کی مقبولیت کا مذاق اڑاتے تھے لیکن وہ بھی سچے دل سے زبیر کو چاہتے تھے۔ زبیر کے معاملے میں ایک بات میں نے یہ محسوس کی ہے کہ اول تو زبیر کا کوئی دشمن نہیں ہے اور اگر وہ ہے بھی تو زبیر کے لئے اپنے دل میں کوئی نہ کوئی نرم گوشہ ضرور رکھتا ہوگا۔ بلکہ زبیر سے دشمنی ہی اس لیے کرتا ہوگا کہ شاید اس بہانے زبیر سے بعد میں دوستی ہوجائے۔“(ص:۵۷)
اس کے علاوہ زبیر رضو ی کی شخصیت سے متعلق مضامین سید خالد قادری، حمید سہروردی، آفتاب رضوی، رفعت عزمی وغیرہ کے ہیں۔
زیر رضوی کی شاعری کے حوالے سے معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی نے پُر مغز انداز میں لکھا ہے کہ ”لہر لہر ندیا گہری“ کا شاعر لاڈ پیار میں بگاڑے ہوئے بچے کی طرح تھا، جسے ہر آسائش میسر تھی اور جو کبھی کبھی کھیل میں گھر پڑنے کی تکلیف سے یا اپنے محبوب کھلونے کے ٹوٹ جانے کے غم میں یا بڑے سے غبارے کے پھٹ جانے کی آواز سے سہم کر رودیا کرتا تھا۔ سطحی سرمستی اور سطحی رنجیدہ دلی سے سنجیدہ کیف اور گہرے تفکر کے ساتھ ساتھ فریب شکستگی کی طرف یہ مراجعت زبیر کے تازہ کلام کی سب سے زیادہ دل خوش کن اور امید افزا خصوصیت ہے۔
زبیر رضوی کی غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
زندگی جن کی رفاقت ہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑی توکوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں
کوچہ کوچہ کاٹتے پھرتے ہیں یادوں کا لکھا
دل کو جانے کیا تری رسوائیاں سمجھا گئیں
زبیر رضوی کے لب و لہجہ اور انداز بیان میں طنز اور گہرے طنز کے ساتھ ساتھ اخلاقی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں مسرت اور رومانی لذت اخلاقی مسائل کو قارئین کے سامنے پیش ہوتی نظر آتی ہے۔
مخمور سعیدی نے ”شب کی مملکت میں دن کا سفیر“ کے عنوان سے بہت ہی جامع مضمون تحریر کیا ہے۔ ان کی شاعری کے حوالے سے مخمورلکھتے ہیں:”زبیر کی شاعری کے سننے والے اور اکثر پڑھنے والے بھی انہیں ایک ایسے شاعر کے روپ میں دیکھتے اور پسند کرتے رہے ہیں جو حسن کی رعنائیوں اور عشق ہوس پیشہ کی بزم آرائیوں کا نغمہ خواں ہے۔ عمر کی پچاسویں منزل میں قدم رکھتے ہوئے بھی اسے خود سے جدا نہیں کیا ان کا مجموعہئ کلام ”دامن“ جو ۴۸۹۱ء میں منظر عام پر آیا اس میں بھی جگہ جگہ انہوں نے اپنی حسن پرستی اور عشق پیشگی کا اظہار اسی مستی اور سرشاری کے لہجے میں کیا جو کسی نو عمر عاشق کا لہجہ ہی ہوسکتا ہے۔“
زبیررضوی غزلیہ شاعری کے علاوہ نظموں کے شاعر بھی تھے۔ زبیر رضوی کے پہلے تین مجموعے ”لہر لہر ندیا گہری“، ”خشت دیوار“ اور ”مسافت شب“ قاری پر دیرپا اثرات مرتب نہیں کر پائی۔ لیکن ”پرانی بات ہے“ نامی مجموعے میں شامل نظمیں نہ صرف ان کی اپنی بلکہ ان کے ہم ہعصروں کی نظموں سے بھی مختلف اور منفرد ہیں۔ موصوف کی ایک نظم کے کچھ حصے ملاحظہ کریں:
عاقبت اندیش بنیے
پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
ہمیشہ ان کے ہونٹوں پر
مقدس آیتوں کا ورد رہتا تھا
ریاضت اور عبادت کی نشانی کو لیے
روشن رہا کرتی
وہ پانچوں وقت
مسجد کے میناروں سے اذان دیتے
وہ میلوں پا پیادہ
تیز دھوپوں میں سفر کرتے
خدا کی برتری، اس کی عبادت کے لیے
لوگوں میں جاکر رات دن تبلیغ کرتے
لوگ ان کو مرحبا کہتے

واقعی زبیر رضوی کی مندرجہ بالا نظم کافی متاثر کرتی ہے۔ اس نظم کے توسط سے شاعر نے ہمعصر زندگی کے تلخ حقائق کو دریافت کرنے اور شائستہ پرانی قدروں کی بے حرمتی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ”زبیر رضوی کی نثری نظمیں“ کے عنوان سے عبدالسمیع (شعبہئ اردو، بی ایچ یو، بنارس) نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”زبیر رضوی کی نثری نظموں کا مجموعہ ”دھوپ کا سائبان“ مکتبہ ذہن جدید، نئی دہلی سے ۲۹۹۱ء میں منظر عا م پر آیا۔ ا س مجموعہ کی بیشتر نظمیں ہند و پاک کے مقتدر رسالوں میں شائع ہوچکی ہیں۔انہوں نے جنسی موضوعات پر خاص توجہ دی ہے۔ مغرب میں نثری نظم جنسی خیالات کے اظہار کا بڑا وسیلہ تصور کی جاتی ہے۔“
زبیر رضوی کی ایک نثری نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
اَن گنت شہروں کو ملانے والی
عظیم شاہراہوں پر ہونے والے حادثوں کے
خوف نے
سفر پرنکلنے والی گاڑیوں کی پیشانیوں پر
خدا کا نام لکھ دیا ہے!
(رضوی، زبیر دھوپ کا سائبان، نئی دہلی،مکتبہ ذہن جدید ۱۹۹۱ء، ص:۵۷)
زبیر رضوی کی خود نوشت پر اسلم پرویز نے روشنی ڈالتے ہوئے ”زبیر کی خود نوشت“ کے عنوان سے لکھا ہے۔ خود نوشت اور یاداشتوں کے بارے میں اب تک ہوجاتیں ہوتی رہیں ان تمام باتوں کا زبیر رضوی کی ”گردش پا“سے گہرا تعلق ہے۔ کتاب کا نام ”گرد ش پا“ اس کے خود نوشت ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اس کے بیشتر مندرجات ہمیں زبیر کی ذات کے وسیلے سے ایک socio cultural historyکی جھلکیاں بھی دکھاتے ہوئے چلتے ہیں۔
اسلم پرویز کے علاوہ محمد نوشاد عالم اور تالیف حیدر نے زبیر رضوی کی خود نوشت ”گردش پا“کے حوالے سے اپنے منفرد انداز میں تحریریں رقم کی ہیں۔
زبیر رضوی نے ایک معیاری رسالہ ”ذہن جدید“ کے نام سے نکالا۔ اس کا آغاز ۰۹۹۱ء میں ہوا اور ۵۱۰۲ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی۔ یعنی چھبیس سالوں تک یہ رسالہ پابندی سے اردو زبان وادب کی آبیاری کرتا رہا۔ اس رسالہ کے حوالہ سے کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ادیب غلام نبی کمار نے عمدہ مضمون قلمبند کیا ہے۔ اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
”ذہن جدید ایک ایسا رسالہ ثابت ہوا ہے کہ جس کا اول تا آخری ہر شمارہ جدید تھا اور یہ انفرادیت اس رسالے سے کبھی ختم نہیں ہوئی۔ زبیر رضوی مرحوم نے یہ رسالہ مخدوم محی الدین اور سلیمان ادیب کی یاد میں جاری کیا تھا اوریہ تحریر رسالے کے ہر شمارے کے سرورق کے اوپر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اس رسالے کی ایک اور روایت رہی ہے کہ اس کے سرورق پر ”بڑی زبان کا زندہ رسالہ“ اور ”ادب، آرٹس اور کلچر کا ترجمان“ جیسے الفاظ بھی اس کو خوبصورت اور دیدہ زیب بنانے میں معاون ثابت ہوتے رہے ہیں۔“
زبیر رضوی کی صحافت سے متعلق دوسرا مضمون کتاب کے مرتب ڈاکٹر عبدالحی کا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں رسالہ ”ذہن جدید“ کے حوالے سے مفصل انداز میں موصوف کے صحافتی کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”ذہن جدید اپنی طرز کا منفرد رسالہ ہے اور اس کا ہر شمارہ عام اردو رسائل کے مقابلے کافی ضخیم ہوتا ہے۔ ذہن جدید کے بانی اور مرتب اس رسالے کی شروعات سے قبل ایک اچھے اور جدید شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے لیکن ذہن جدید کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کی گونا گوں صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ وہ اچھا شاعر ہونے کے ساتھ بہترین صحافی اور اعلیٰ درجے کے ادیب بھی کہلائے۔ ذہن جدید کومرتب کرنے کا ڈھنگ یہ ثابت کرتا ہے کہ زبیر رضوی کو اردو ادب اور اس کے قاری سے کتنا پیار ہے۔ وہ اردو کے قاری کو اپنے رسالے سے مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے اس چھوٹے سے رسالے میں انہوں نے تقریباً سارے موضوعات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔“
اردو زبان و ادب کی معروف شخصیات شہپر رسو ل، خوشنودہ نیلوفراور غضنفر اقبال کے ذریعہ زبیر رضوی سے لیے گئے انٹرویو بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں احمد علی برقی اعظمی، کشور ناہید، جمال اویسی، محمد عباس انصاری سکندر، مظفر حسین سید، سہیل انجم، سرور الہدیٰ، محمد ریحان،منظور وقار اور عبدالحی شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحی کا ایک اہم کام جو اس کتاب میں شامل ہے وہ زبیر رضوی کے غیر مطبوعہ کلام ہیں۔ ساتھ ہی موصوف کے کئی مضامین بھی کتاب میں پیش کئے گئے ہیں۔ یہ دونوں حصے اس کتاب کو تحقیقی اہمیت کا حامل بھی بنا تے ہیں۔
کتاب کے آخری سولہ صفحات پر ۸۴ تصاویر ہیں جو کتاب کی معنویت میں چار چاند لگاتی ہیں۔ یہ تمام تصویریں زبیر رضوی کی یاد کو تازہ کرتی ہیں۔
اس طرح عبدالحی نے عمدہ مضامین کو یکجا کرکے کتاب کو دستاویزی حیثیت کا حامل بنادیا ہے۔
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga – 846004
Mob: 9431414808, Email: ahsanalam16@yahoo.com

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ