جی این کے اردو
۳جولائی۲۰۲۲
اردو ہائیر پرائمری اسکول قاضی محلہ شکاری پور میں تعلیمی بیداری جلسے کا انعقاد اور اعزازات
حکومت نے ضرورت کے مطابق اردو اسکول کھلولنے میں ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان اردو اسکولوں کو رتعلیم و تربیت کا گہوارا بنانا اور اسے بند ہونے سے بچانا اساتذہ کی محنت اور لگن پر انحصار کرتا ہے۔:حافظؔ کرناٹکی
گذشتہ دنوں سرکاری اردو ہائر پرائمری اسکول قاضی محلہ شکاری پور میں ایک شاندار تعلیمی بیداری اور اعزازی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کے فرائض محترمہ شاذیہ بانو صدر ایس، ڈی، ایم،سی نے ادا کیے۔ محترمہ عزیز النساء میر معلمہ نے سرپرستی و نگرانی کی ذمہ داری ادا کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے قومی ساہتیہ انعام یافتہ معروف و مقبول شاعر و ادیب ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے شرکت کی۔ جن کی تعلیمی، سماجی، رفاہی اور فلاحی خدمات کے لیے بھی انہیں مختلف انعامات و اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ اور جو بلا شبہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے مالک ہیں۔ بطور مہمانوں کے جن لوگوں نے شرکت کی ان میں ایس، ڈی،ایم،سی کے نائب صدر جناب سیف اللہ اور ایس، ڈی، ایم، سی کے ممبر جناب شمشیر خان شامل تھے۔ مہمانان اعزازی کی حیثیت سے وظیفہ یاب اساتذہ جناب رفیق مڈلیری صاحب اور جناب امیر خان بڈگی صاحب نے شرکت کی۔ اسکول کے دوسرے اساتذہ مثلاً یوسف بیگ صاحب، رفیق احمد صاحب اور محترمہ نسرین بانو بھی اسٹیج پر موجود تھیں۔
اس اسکول کے کنڑا استاد شری من جپّا بی، آر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے باضابطہ طور پر اس جلسے کا افتتاح کیا اور من جپّا بی،آر نے اغراض و مقاصد پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس اردو اسکول میں کنڑا استاد ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں ایک ایسے اردو اسکول میں کنڑا کا استاد ہوں جس کا ماحول حب الوطنی، جمہوریت اور سیکولرزم کی خوشبوؤں سے معطر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے نہایت فخر کی بات ہے کہ بین الاقوامی شخصیت کے حامل ہمارے اپنے شاعر و ادیب ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے نہ صرف یہ کہ اس جلسے کا افتتاح کیا بلکہ وہ بہ نفس نفیس اسٹیج پر تشریف فرما ہیں۔ ان کی شرکت نے اس جلسے کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا ہے۔ ہم ان کے نہایت ممنون ہیں۔
انہوں نے جلسے کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس جلسے کی غایت یہ ہے کہ آج ہم نئے داخل ہونے والے بچوں کا استقبال کریں گے اور ان بچوں کو جنہوں نے میٹرک کے امتحان میں صد فیصد نمبرات حاصل کیے ہیں انہیں اعزاز سے نوازیں گے اور اپنے قدیم اور مخلص اساتذہ جناب رفیق مڈلیری اور جناب امیر خان بڈگی کے ریٹائرمنٹ کے موقع سے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تہنیت پیش کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سبھوں کو یقین ہے کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی تقریر سے طلبا اور اساتذہ کو نئی روشنی ملے گی۔
اس کے بعد ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے اپنے ہاتھوں سے صد فیصد نمبرات حاصل کرنے والے طلبا اور ڈسٹنگشن حاصل کرنے والے طلبا کو اپنے ہاتھوں اعزاز دیا اور اساتذہ کو بھی تہنیت پیش کی۔ اس موقع سے محترمہ نسرین بانو نے بچوں کو حافظ کرناٹکی کی لکھی جو نظمیں یاد کراوائیں تھیں بچوں اور بچیوں نے انہیں نہایت خوب صورتی سے جوش و خروش اور امنگ کے ساتھ پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ تہنیت قبول کرنے کے بعد جناب رفیق مڈلیری صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی آج ادب، اور سماجی خدمات کے لیجنڈ بن چکے ہیں۔ لیکن ہمیں خوشی ہے کہ وہ ہماری برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے پہل بطور سرکاری مدرس کے جس اسکول میں جوائن کیا تھا وہ نہایت خزاں رسیدہ تھا۔ مگر حافظ کرناٹکی نے اپنی محنت سے اسے رشک گلستاں بنادیا۔ اور پھر انہوں نے زندگی کے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اسے رشک کے قابل بنا کر ہی دم لیا۔ ان کا دم ہماری ہمت اور طاقت کا مظہر ہے۔ جناب امیر بڈگی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی اردو اسکولوں کی ترقی کے سب سے بڑے بہی خواہ ہیں۔ اور یہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ آج بھی ہم لوگوں کو اپنائیت کے ساتھ گلے لگاتے ہیں۔ اور اردو اسکولوں کی ترقی کے لیے محنت کرتے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اس موقع سے تمام اساتذہ اور ایس،ڈی، ایم، سی کے صدر و سکریٹری اور ممبروں نے ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کا اعزاز کیا۔ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ؛ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بچوں کو تحتانوی سطح پر ہی اپنی مادری زبان سے پوری طرح روشناس کرادیں۔ اور جب زبان کا شعور پیدا ہو جائے تو انہیں دوسری زبانوں اور مضامین میں مہارت حاصل کرنے پر آمادہ کریں۔ تا کہ ان کا مستقبل روشن سے روشن تر ہوسکے۔ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے دسویں کے امتحان میں صد فیصد نمبرات حاصل کرنے والے طلبا کی تعریف کی ان کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں احساس دلایا کہ آپ اپنے ملک کے قیمتی سرمایہ ہیں اس احساس کے ساتھ آگے بڑھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو اساتذہ آج وظیفہ یاب ہوچکے ہیں ان کے لگائے تعلیمی درختوں نے پھل دینے شروع کر دیے ہیں۔ یہ بہت قدیم اسکول ہے۔ جو دہائیوں سے قائم اور آباد ہے۔ اور یہاں سے پڑھنے والے بچوں نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس اسکول کو اور اسی طرح کے دوسرے سبھی اردو اسکولوں کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔حکومت نے ضرورت کے مطابق اردو اسکول کھلولنے میں ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان اردو اسکولوں کو رتعلیم و تربیت کا گہوارا بنانا اور اسے بند ہونے سے بچانا اساتذہ کی محنت اور لگن پر انحصار کرتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے اساتذہ جب تک ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے کوئی بھی اردو کا اسکول بند نہیں ہوگا۔ حافظ کرناٹکی صاحب نے بڑی وضاحت سے حاضرین کو بتایا کہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ یہ تہذیب کا خزانہ اپنے اندر بسائے ہوئی ہے۔ اس لیے بچوں کو مہذب اور انسانیت نواز بنانے کے لیے اردو زبان پڑھانا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اسکول کے طلبا نے محترمہ نسرین بانو کی نگرانی میں تیاری کر کے جو ادبی اور ثقافتی پروگرام پیش کیے اور جس لب و لہجے میں گفتگو کی اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی زبان بہت صاف ہے۔ اور انہیں اچھی اردو آتی ہے۔ حافظ کرناٹکی نے حاضرین میں موجود والدین اور سرپرستوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں کسی بھی کام سے نہ لگائیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر بچہ اسکول جائے اس طرح اردو اسکول بھی آباد رہیں گے۔ اور ملک و ملّت کا مستقبل بھی محفوظ ہوگا اخیر میں محترمہ نسرین بانو نے سبھی شرکائے جلسہ اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور جلسہ ایک خوش آئند ماحول کی بشارت کے ساتھ بہ حسن و خوبی اختتام کو پہونچا۔