تبصرے جی این کے پبلی کیشنز کتاب شناسی

سِلوٹوں میں الجھا افسانہ نگار: اشوک پٹواری ، مبصر/دیپک بدکی

کشمیر کے ادب نواز ’پٹواری‘ خاندان سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار اشوک پٹواری کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ’سلوٹیں‘ حال ہی میں منظر عام پر آچکا ہے۔ اس سے پہلے ان کا ایک مجموعہ ’کچھ لمحے کچھ سائے‘۵۰۰۲ء میں شائع ہوکر مقبولیت سے سرفراز ہوا تھا جب کہ دوسرا مجموعہ ’دستک‘ اَمیزان کِنڈل ڈائریکٹ پبلشنگ کی وساطت سے مغربی ممالک میں تقسیم ہوچکا ہے۔ چنانچہ دوسرے مجموعے کی نِکاسی اور اپنے ہی ملک میں اردو کے تئیں قارئین کی سرد مہری کو دیکھ کر افسانہ نگار فرماتے ہیں کہ ”امیزان کنڈل ڈائریکٹ پبلشنگ کے ذریعے شائع ہونے والی تصانیف کی قیمت بہت زیادہ مقرر کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود میں دیکھ رہا ہوں کہ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور انگلینڈ سے برابر کوئی نہ کوئی اردو نواز یہ مجموعہ خرید رہا ہے۔“
اشوک پٹواری کو اردو ادب ورثے میں ملا ہے۔ وہ پیشے سے ڈاکٹر ہیں اور ان کے دو اور بھائی مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں،ویریندر پٹواری انجینئر ہیں جبکہ راجیندر پٹواری آرٹسٹ ہیں۔ تاہم تینوں بھائیوں نے اردو افسانہ نگار ی میں اپنے لیے ایک خاص مقام پیدا کیا ہے۔اشوک پٹواری کا جنم سوپور کشمیر میں ۲/اکتوبر ۸۴۹۱ء کو ہوا تھا۔ انھوں نے علم طِب میں ایم بی بی ایس، ایم ڈی، ڈی سی ایچ، ایم این اے ایم ایس، ایف آئی اے پی اور ایف اے پی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور امراضِ اطفال میں مہارت حاصل کی ہے۔ لیڈی ہارڈنگ کالج دہلی کے شعبہئ اطفال میں پروفیسر رہے، بوسٹن یونیورسٹی(اسکول آف پبلک ہیلتھ) میں بطور انٹرنیشنل ہیلتھ ریسرچ پروفیسر کے کام کیا نیز ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ افسانے قلمبند کرنا ان کا مشغلہ رہا ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ۸۶۹۱ء میں ماہنامہ نگینہ انٹرنیشنل (کشمیر) میں شائع ہوا تھا۔ وہ تین زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں جن میں ان کے کُل۵۱/مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ بیسیوں صدی کی نویں دہائی میں کشمیر سے نقل مکانی کرنے کے بعد انھوں نے ۷۱۰۲/ میں ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ ہجرت کی اور اب زیادہ تر وہیں پر رہتے ہیں۔ان کے کئی افسانوں میں کشمیر کے علاوہ امریکہ کا ذکر ملتا ہے۔ کشمیر سے افسانہ نگار کی وابستگی ان کی جذباتی تحریروں سے صاف عیاں ہوتی ہے یہاں تک کہ کشمیرواپس جانے کی ان کی دیرینہ آ رزو باربار افسانوں میں جھلکتی ہے۔
اشوک پٹواری کے اکثر افسانے ان کے پیشہ ورانہ تجربے کی دین ہیں۔ ڈاکٹر ہونے کے سبب انھیں انسانی رویے اور نفسیات پر دسترس حاصل ہے۔ چنانچہ زیر نظر مجموعے کا پہلا ہی افسانہ ’امی جھوٹ نہیں بولتی!‘میں انھوں نے اعصابی امراض ’پٹھوں کی کمزوری‘ (Muscular Dystrophy) کو افسانے کا موضوع بنایا ہے جس میں ایک مریض اپنی ماں کے بھروسے کے باوجودرفتہ رفتہ معذور ہوتا چلا جارہا ہے۔کئی اور افسانوں میں بھی بیماریوں کا ذکر ملتا ہے جیسے ’سلوٹیں‘ میں ہائپرتھائی میزیا(Hyperthymesia)۔ دوسرا افسانہ’گلدستہ‘ موڈرن زمانے میں بکھرتے کنبوں اور بوڑھوں کی فراموشی و عدم تحفظ پر لکھا گیا درد ناک افسانہ ہے۔ نسلوں کے درمیان سوچ و فکر کا اختلاف افسانہ ’رشتہ‘ میں اجاگر ہوتا ہے کہ امریکہ میں مقیم تین نسلیں کشمیر سے ہوئی جبری ہجرت کو تین مختلف زاوئیوں سے دیکھتی ہیں۔ ’سرسوں کی مہک‘ میں ایسی نسل کے کردار کو ہنر وری سے پیش کیا گیا ہے جس کی جڑیں اپنی مٹی سے اکھڑ چکی ہیں اور وہ اپنی مشرقی تہذیب کو کم تر سمجھتی ہے لیکن آخر ش غیر ملک میں اس کی اپنی زبان ہی ا س کو شناخت عطا کرتی ہے۔اگلا افسانہ ’آخری ٹیلی گرام‘ ہے جس میں ڈاک و تار محکمے سے حال ہی میں ریٹائرشدہ پوسٹ ماسٹر کا ضمیر اس وقت جاگ اُٹھتا ہے جب اس کی نظر اس کی ڈائری میں پڑی ایک تار پر پڑتی ہے جو کئی دنوں تک تقسیم نہیں ہوپائی ہے اس لیے وہ خو دجاکر اس کو تقسیم کرتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ کسی کا روزگار جڑا ہوتا ہے۔افسانے میں چند تکنیکی غلطیاں نظر آئیں جو افسانوی روپ میں نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔ افسانہ ’اُمید باقی ہے‘ رجائیت پر لکھا گیا ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں یہ باور کیا گیا ہے کہ شدید ارضی آفات میں بھی آدمی کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ’سزا‘ ایسے ملزم کی کہانی ہے جو پکڑا تو نہیں جاتا ہے مگر اس کا ضمیر آخر کار اس کو کچوکتا ہے۔ افسانہ ’ہزاروں خواہشیں ایسی!‘ کہانی ہے اس انسان کی جو کبھی نہ ختم ہونے والی دنیاوی لذتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اوران سے چھٹکارا نہیں پاسکتا ہے۔
مجموعے کا نواں افسانہ ’میں وہ نہیں‘ بہت ہی مختصر اور خوبصورت افسانہ ہے جس میں مرکزی کردار اس درندگی اور بہیمیت، جس کے سبب اس کے بچھڑے ہوئے دوست کو وادیِ کشمیر سے ہجرت کرنی پڑی، کاحوالہ دے کر سمجھانا چاہتا ہے کہ وہ وارداتیں سوچی سمجھی چال کے تحت کچھ دہشت گردوں نے مذہب کی رِدا اوڑھ کر انجام دی تھیں مگر ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ لیں۔افسانہ ’ہجرت‘ میں انسانیت کی تجسیم کرکے افسانہ نگار یہ جتلاتے ہیں کہ اس دنیا میں طاقت ور کچھ بھی کرسکتا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ انسانیت کے عظیم آدرش کو اپنالیتا۔’دو آوارہ گردوں کی داستاں‘ میں اپنی اَنا کی طمانیت کے لیے ایک دوست دوسرے دوست سے بدلہ لینے کے لیے فرقہ وارانہ فسادات شروع کرانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔اگلا افسانہ ’ووٹر‘ ہے جس میں عینیت پسندی (Idealism)اور عملیت پسندی (Pragmatism)کا تصادم سامنے آتا ہے کہ جمہوریت میں لوگ اس پارٹی کے حق میں ووٹ دینا پسند کرتے ہیں جو ان کے چھوٹے موٹے کام کرتی ہے چاہے کچھ پیسہ بھی خرچ کیوں نہ کرنا پڑے۔ ’مسٹر بی‘،جو مسٹر بلاٹنگ پیپر کا مخفف ہے، ایک ایسے کردار کا قصہ ہے جو تبحر علم سے لبریز ہوکر بھی اپنے علم کو دوسروں میں تقسیم کرنے سے گریز کرتا ہے اور آخر کار مکتی پانے کے لیے بنارس چلا جاتا ہے۔ افسانہ ’فاصلہ ایک سانس کا‘ زندگی کی حقیقت پر ایک اور افسانہ ہے جس میں پرانی گھڑی کو علامت بنا کر آخر کار مرکزی کردار کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان محض ایک سانس کی دوری ہے اس لیے اسے اپنی قیمتی زندگی انسانی فلاح وبہبود کے لیے صرف کرنی چاہیے۔ ’سنیاس‘ بھی بہت ہی فکر انگیز افسانہ ہے جس میں مرکزی کردار اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ ”میں کون ہوں؟ یہاں کیا کر رہا ہوں؟“ زندگی کے آخری مرحلے پر جب وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سنیاس لینے کے دہانے پر ہوتا ہے، اس وقت اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ جہاں اس نے اپنے بال بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں اس نے اپنے ڈرائیور اور اس کے کنبے کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے۔ افسانہ ’صدائے جمہور‘ بھی ایک فکر انگیز مختصر افسانہ ہے جس کے توسل سے افسانہ نگار نے یہ باور کرایا ہے کہ جہاں غریب اور ان پڑھ رعایا انتخاب میں حصہ لینے کو اپنا فرض سمجھتی ہے وہیں عبقری طبقہ اسے محض بحث و مباحثہ کا موضوع بناتی ہے اور ووٹ ڈالنے کو ایک بوجھ سمجھتی ہے۔
مجموعے کا اگلا مختصرافسانہ ’کرب‘ہے جس میں یتیم خانے میں پلے ایک نوجوان کو اس وقت اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کو یتیم خانے میں کیوں چھوڑا گیا ہوگا جب وہ خود اپنے پالتو کتے کو بھوک سے مر جانے کے بجائے ڈھابے کے پاس بے سہارا چھوڑ دیتا ہے۔افسانہ’سرگوشی‘ میں احساس کمتری کا بوجھ اٹھائے ایک لنگڑا آدمی، جس نے بچپن میں دو ہمسایہ ملکوں کی آپسی جنگ و جدل میں بارودی سرنگ سے اپنی ٹانگ کھوئی تھی، یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ دور امریکہ میں انہی دو ملکوں کے باشندے آپس میں کیسے مل جل کر رہنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں۔ ’گہار‘ کہانی ہے اس معاشرے کی جس میں مجرموں کا دبدبہ رہتا ہے اور عام رعایا ظلم و ستم کے خلاف کچھ بھی نہیں بول پاتی ہے۔ افسانہ ’پدما‘ میں یہ باور کرایا گیا ہے کہ انسان کی طرح ہی حیوانوں میں بھی مائیں اپنے بچے کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ ’بہت اُداس ہوں میں‘ مختصرکہانی ہے اس نوجوان کی جس کے والد نے اس کی ہر تمنا پوری کی ہو مگر ایک چوک کی وجہ سے وہ احساس کمتری میں گھر جاتا ہے اور خود پر نالاں ہوجاتا ہے۔ افسانہ ’چتر کوٹ کا چور‘ میں ایک ڈاکو کا بیٹا اسکول کی پڑھائی چھوڑ کر چوری چکاری میں لگ جاتا ہے مگر ایک روز اس کا سامنا اس کے اپنے ہی استاد سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ پشیمان ہوتا ہے۔ کشمیر سے وابستگی کے حوالے سے مختلف نسلوں کے درمیان اختلاف افسانہ ’جستجو‘ میں اُجاگر ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو وہاں پر جنمے، پلے اور بڑھے اب بھی اس کو جنت بے نظیر تصور کرتے ہیں جبکہ زمانہ کروٹ لے چکا ہے اور حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ افسانہ ’فریاد‘ سرحدوں پر بسے لوگوں کی کسمپرسی پر مرتکز ہے کہ کس طرح ان کو دونوں طرف سے ہورہی گولی باری اور تخریبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ آخری افسانہ ’سلوٹیں‘ ہے جس میں ایک ریٹارڈ سرکاری ملازم لقوے کے سبب اپنی دُر دشا سے بے زار ہوکر اپنے ماضی کو کھنگالتا رہتا ہے۔ اس کو اپنی کوتاہیاں نظر آتی ہیں مگر اب اس مرحلے پر ان پر نادم ہونے کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔اس افسانے میں بھی مرکزی کردار کو کشمیر کی یادیں شدید طور پر ستاتی ہیں۔
راقم التحریرنے اشوک پٹواری کے پہلے مجموعے ’کچھ لمحے کچھ سائے‘ کے بارے میں جو لکھا تھا وہ حرف بہ حرف اس مجموعے کے بارے میں بھی صحیح ہے (بحوالہ ’عصری تناظر (تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے):

”جہاں تک اسلوب کا سوال ہے افسانہ نگار اپنی بات بیانیہ کے توسط سے قاری تک پہنچاتے ہیں حالانکہ کبھی کبھار علامتوں کا استعمال بھی کرتے ہیں مثلاً ’مسیحا نظر نہیں آیا‘ کی ماں اور کتا۔ ان کی علامتیں انجام تک پہنچنے کا وسیلہ ہوتی ہیں جدیدیوں کی طرح خود ہی انجام نہیں بن جاتیں۔ افسانوں کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سوچ ترقی پسند ہے اور وہ غریبوں، پسماندہ طبقوں اور محنت کشوں کی کسمپرسی کو جذباتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کسی کسی افسانے میں انھوں نے طنز و مزاح کا بھی خوب استعمال کیا ہے اور سماج پر طنز کے تیر برسائے ہیں۔“
اشوک پٹواری کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع ملتا ہی ہے تاہم کردار ان کے مشاہدے اور ڈاکٹری تجربے کا آئینہ ہیں۔ چند ایک تو قاری پر دیرپا اثر چھوڑ دیتے ہیں۔کشمیر سے متعلق ان کی منظر نگاری بھی قابل ستائش ہے۔ اپنے چند افسانوں میں تیاگ اور نروان کا ذکر کرتے ہیں کہ انسان کو بقول اقبال’’اپنے اندر ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی‘‘کی مانند خود بینی اور تجزیہئ نفسی ہی سے زندگی کا مدعا مل سکتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس کو مادی زندگی کو تیاگ کر روحانی حصول کی جانب کوشاں ہونا چاہیے۔اس مجموعے میں بھی انھوں نے چند علامتوں کا استعمال کیا ہے جیسے ’فاصلہ ایک سانس کا‘ میں پرانی گھڑی اور ’کرب‘ میں کتا۔ چند ایک افسانے اتنے مختصر ہیں کہ ان پر افسانچہ کا گماں ہوتا ہے۔البتہ ایک بات جو کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کھٹکتی ہے وہ یہ کہ متن میں املا کی بہت ساری غلطیاں در آئی ہیں جو شاید نظر ثانی میں عجلت کا نتیجہ ہے۔ امید ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں اس خامی کو دور کیا جائے گا۔
افسانہ نگار کے افسانوں کے بارے میں نور شاہ فرماتے ہیں:
”ڈاکٹر اشوک پٹواری کے فن میں ان کے خون جگر کے نقش واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ کشمیر سے دور رہنے کے باوجود ان کے افسانوں میں کشمیر کے پھولوں کی مہک محسوس ہوتی ہے اور یہ ان کی ادبی خوبصورتی تصور کی جاسکتی ہے۔“
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اشوک پٹواری کے افسانے وسیع مطالعے اور عمیق مشاہدے کی دین ہیں اور وہ اپنے موضوعات کو اس تکنیکی ہنر کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ قاری کی دلچسپی اور تجسس اول تا آخر برقرار رہتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ آگے بھی اردو ادب کو اپنے بہترین افسانوں سے مالامال کرتے رہیں گے۔

٭٭٭
Deepak Budki, A-102, S G Impression, Sector 4-B, Vasundhra, Ghaziabad-201012. Mob; 9868271199

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ