تبصرے کتاب شناسی

جو “سمندر بولتا ہے” وہی ساحل لکھتاہے

جی این کے اردو

محمد حسین ساحل
ممبٸی

جو ” سمندر بولتا ہے ! “ وہی ساحل لکھتا ہے !

”ممبٸی کے کھولی سے کھٹمل لاکر گھر میں بھر دے گا“

وقار قادری أردو ادب کی ایک ایسی شخصیت جس کی بودوباش ساحل سمندر کے قریب یعنی کوکن میں ہوٸی۔کوکن سرزمین مہاراشٹر
کا وہ سرسبز وشاداب علاقہ ہے جسے ”سکونِ مہاراشٹر“ بھی کہا جاسکتا ہے۔جہاں ہاپوس آم، کٹھل ، کاجو ،چاول اورمچھلیاں تو بولتی ہی ہیں مگر بقول وقار قادری اب تو ” سمندر بولتا ہے ! “

” سمندر بولتا ہے ! “ جسے وقار قادری سُنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔
” سمندر بولتا ہے ! “ یہ وقار قادری کا وہ ناولٹ ہے جوخطہ کوکن کی بھرپور ترجمانی کرتاہے اور ترجمانی بھی صبر سے لیکر قبر تک۔
کوکنی زبان کے بہت سے الفاظ بھی ناول نگار نے اس چابکدستی سے استعمال کیے ہیں کہ بیرون کوکن کا قاری لطف اندوز بھی ہوتا ہے اور اپنی معلومات میں بھی اضافہ کرتا ہے اور الفاظ کےزخیرہ میں بھی۔
”سمندر بولتا ہے ! “میں وقار قادری کی حقیقت نگاری میں دیانت داری کی چمک ، کوکن کی منظر کشی میں الفاظ کی ملمع کاری ، گاٶں کی درگاہ کا عظمت اور بندرگاہ کا ذکر جو سمندر کےلیے کسی درگاہ سے کم نہیں ہوتی۔ کوکن گاٶں میں کوکنی زبان کی جھلک کے نمونے بھی ” سمندر بولتا ہے ! “ میں نمایاں طور پر قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ جمال الدین چاچا کا ذکر منفی ذکر بھی مثبت مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ جنھیں کوکن کودیکھنا ہو یا سمجھنا ہو انھیں دو کام کرنے ہونگے ایک تو ” سمندر بولتا ہے ! “ کے مصنف وقار قادری سے ملنا ہوگا یا ” سمندر بولتا ہے ! “ کے سمندر میں غوطہ زن ہونا ہوگا۔

” سمندر بولتا ہے ! “ کا درج ذیل اقتباس مصنف کی تحریر کا کمال اور جمال قاری کے سامنے اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ قاری ” سمندر بولتا ہے ! “ کی تلاش شروع کردے گا اورمصنف سے رابطہ کر لے گا کہ ” بھاٸی مجھے بھی” سمندر بولتا ہے ! “کی ایک کاپی بھیج دیجیے میں 200روپیے GPay کرتا ہوں۔

{میری دادی پیروں فقیروں میں گہرا اعتماد و اعتقاد رکھتی تھیں، باوا جمال الدین ان سے پیر جلال شاہ رحمتہ اللہ کی درگاہ کے لیے نیاز نذرانہ وصولنے کی غرض سے گھر آیا کرتے تھے۔ سلیم نے باوا جمال سے بچپن میں ایک مرتبہ نمک پردم کروایا تھا۔ آج اسے اپنی وہ ضعیف الاعتقادی یاد آئی تھی۔ بچپن میں وہ جب ایک مرتبہ بیمار ہوا تو دادی نے اس کی نظر اتارنے کے لیے بھی لکشمی تیلِن کو بھی بلایا تھا۔ اس نے سوکھی مرچیں جلا کر ان پر نمک چھڑک دونوں ہاتھ سلیم کے اردگرد گھما کر اس کی نظراتاری تھی سارا گھر کھانستا رہا تھا، سلیم پریشان ہو اٹھا تھا، اس نے لکشمی سے دوبارہ نظر نہ اتروانے کی بات دادی سے کہہ دی تھی۔ دادی پر بابا بھی بہت چلائے تھے مگر دادی کے آگے ان سب معاملات میں کسی کی نہ چلتی۔ لکشمی تیلن جب دوسری مرتبہ نظر اتارنے کے لیے آئی تب سلیم گھر سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ دادی اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کی نظر ا تاروا کر رہی تھی۔ آج ان باتوں کو یاد کر کے وہ مسکراتا ہے۔ تعلیم نے اس کے دماغ کی کھڑکیوں کو کھول دیا ہے۔ اور حالات نے کئی حد تک دادی کے دماغ کی کھڑکیاں بھی کھول دی تھیں۔ اب دادی بیمار ہوئی تو اسے چھیڑتے ہوئے اس نے کہا ” تم کو نظر لگی ہے دادی،لکشمی کو بلاٶں ؟“ }

” سمندر بولتا ہے ! “ اگر یہ کاپی مجیب خان ،عرفان برڈی ، عدنان سر کھوت یا اقبال نیازی کے ہاتھ لگ جاٸے تو وہ اس ناولٹ کو اسٹیج کیے بنا نہیں رہیں گے۔

”ممبٸی کے کھولی سے کھٹمل لاکر گھر میں بھر دے گا“اس جملے کے حسن وجمال کو اگر قاری سمجھنا چاہتا ہے تو ” سمندر بولتا ہے ! “ تک رساٸی کرنی ہوگی، ایسے بیشمار جملے اس ناولٹ میں پنہاں ہے۔ جس سے لطف اندوز ہونا ہے تو اردو کے سچےقاری کو سمندر بولتا ہے !کی تہہ تک جانا ہوگا کیونکہ موتی تو سمندر کی تہہ میں ہی ہوتے ہیں !!

وقار قادری نے جس مٹی میں جنم لیا،جہاں کے پھل پھول اور پودوں سے محبت کی،جہاں کی مچھلی کا ذاٸقہ چخا،وہاں کے رسیلے آم اپنے ہونٹوں سے دبوچے اور جس سرزمین کے پانی سے اپنی پیاس بجھاٸی ! میں سمجھتا ہوں انھوں نے اس کا حقیقت میں حق ادا کیا۔
میرا مشورہ ہے کہ ہر ادبی بزم میں اس کا اجرا ہونا چاہیے۔ میں ”سمندر بولتا ہے“ کے حوالے سے وقار قادری سے گزارش کرونگا کہ اپنے احباب پر بھی اپنے قلم کو جنبش دینے کی زحمت کریں

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ