تبصرے کتاب شناسی

“پرویز مانؔوس کا عشق تکمیل کے مراحل میں” از اشہر اشرف

جی این کے اددو

“پرویز مانؔوس کا عشق تکمیل کے مراحل میں” دوستوں کی نذر

تحریر : اشؔہر اشرف

اردو شاعری کا مطالعہ جب باریک بینی سے کیا جاتا ہے تو ہر نوعیت و سطح کے موضوعات پر اعلی شاعری کے ساتھ ساتھ عامیانہ شاعری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ اردو شاعری میں جس صنف نے ازل سے تاہنوز شاعر اور قاری دونوں کو یرغمال بنارکھا ہے بلا شبہ وہ غزل ہے۔ غزل کو اگر چہ حالی سے لیکر کلیم الدین تک کئی معتبر اہلِ نقد نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن میر ، غالب ، اقبال، فراق اور فیض جیسے لازوال شعراء کی بیش بہا محبت بھی ملی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو غزل ہمیشہ سے شعراء کی محبوب ترین صنفِ سخن رہی ہے اور رہے گی۔ خال ہی کوئی شاعر گزرا ہوگا جس نے غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وادیِ حسن جنتِ بینظر سے تعلق رکھنے والے خوش مزاج و نرم طبیعت اور خوبصورت لب و لہجے کے شاعر جناب پرویز مانوس کو غزل راس نہ آتی۔ اگر چہ موصوف کے قلم سے اب تک کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور قارین کی توجہ و داد و تحسین سمیٹنے میں کامیاب ہوئے جو ادبی دنیا میں ان کے قد کاٹھ کا تعین کرنے کے لئے کافی ہے۔ پرویز مانوس کی شعری کائنات انسان دوستی اور ہمدردی، امن اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ ماضی کی بازیافت کی آئینہ دار ہے۔ وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے کسی بھی مقام پر بے خبر نظر نہیں آتے ہیں۔ خواہ نثری تخلیق ہو یا شعری، وہ ایک سچے اور حب الوطن تخلیق کار کا فرض ہر موڑ پر ایمانداری سے نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو انہیں اپنے ہمعصروں سے ممتاز بنادیتا ہے۔ وہ آنکھ بند کر کے اپنے قلم کو شتر بے مہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑ دیتے ہیں بلکہ کھلی آنکھوں اور کشادہ ذہن سے جو کچھ بھی مشاہدہ کرتے ہیں اسے اپنے تجربات کے ذریعے تخلیقیت کے سانچے میں ڈال کر اپنے معاشرے کو لٹادیتے ہیں۔ وہ ابتذال اور رقیق و سطحی موضوعات سے گریز کرتے ہیں اور اپنی شاعری میں تاذہ کاری کے متمنی ہیں۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں موضوعات کے انتخاب کے لئے ریگستانوں اور بیابانوں کی خاک چھاننی نہیں پڑتی اور نہ ہی گوشہ نشینی اختیار کر کے دنیا سے قطع تعلق ہونی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ وہ جہاں کے ہیں وہیں کا رنگ و روپ اور لذت و چاشنی ان کے کلام میں رقصاں ہیں۔ ان کا تخلیقی جہاں وطن دوستی کے ساتھ ساتھ زمان و مکاں کی عکاسی سے آباد ہے۔ان کا دل اپنے معاشرے کی ذبو حالی اور انسانی اقدار کی پامالیاں دیکھ کر پسیج جاتا ہے۔ ان کے یہاں بیجا ظلم و جبر کے خلاف کہیں دبی دبی آواز میں احتجاج ملتا ہے تو کہیں کھلی مزاحمت نظر آتی ہے۔ وہ اپنے معاشرے کی تئیں برسوں سے رواں ناانصافیوں کے خلاف بہ بانگ دہل آواز اٹھانے سے نہیں کتراتے ہیں۔ الغرض ان کی شاعری مخلتف پھولوں سے آراستہ گلدستے کی مانند یے، جس میں کچھ پھول اپنی منفرد خوشبو سے ممتاز ہیں تو کچھ اپنی ظاہری بناوٹ سے نمایاں ہیں۔ زبان عام فہم اور اسلوب رواں جو ہر سطح کے قاری کے لئے یکساں تسکینِ مطالعہ کا موجب ہے۔ ان کے یہاں استعاروں اور کنایوں کا استعمال جستہ جستہ ہی ملتا ہے اس لئے شعر کی معنوی جہتوں کو وا ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے اور نہ ہی قاری کسی مقام پر غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے۔ ہے۔ اور میں یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتا ہوں کہ جہاں پرویز مانوس کی شاعری میں اچھے اور معاری اشعار کی فراونی ہے وہیں کمزور اور عامیانہ اشعار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ہوں کہ پرویز مانوس کے یہاں خیال اور مضمون کی عمدہ پیشکش کے باوجود کہیں کہیں الفاظ کی نشست و برخواست کے معاملے میں فنی کمزوریاں بھی پائی جاتیں ہیں۔ اس امر سے بھی انکار نہیں کہ کبھی کبھی کوئی عامیانہ شعر بھی مقبولِ عام ہوتا ہے جو شاعری کی پہچان بن جاتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ شاعر کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ہی معیاری شعر کافی ثابت ہوتا ہے۔ جیسا میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ پرویز مانوس کے دل میں اپنے وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پرویز مانوس کی شاعری میں جابجا کشمیر کے حسین قدرتی مناظر، دلکش وادیوں و آبشاروں اور فلک بوس چناروں کا ذکر ملتا۔ جب وہ ماضی کے جھروکوں میں جانک کر دیکھتے ہیں تو فی زمانہ حال زار دیکھ کر مایوس ہوتے ہیں۔ تو وہ یاس اور نا امیدی میں بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں؂

وحشتوں کی شکل میں یہ استعاروں کا عذاب
کس نے تحفے میں دیا جلتے چناروں کا عذاب

متذکرہ بالا شعر کی ترکیب و الفاظ کی درو بست کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پرویز مانوس کو اپنے وطن کی خستہ حالی اور قیامت خیز مناظر کس قدر تڑپاتے ہیں اور وہ اپنے مشاہدات و تجربات کو کس بے باقی سے تخلیقت کا جامہ پہناکر سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اس تباہی و بربادی کے پیچے محرکات سے ناواقف ہو کر استفامیہ انداز اختیار کرتے ہیں بلکہ وہ ” کس نے تحفے میں دیا ۔۔۔۔۔الخ کی ترکیب میں ان طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قاری کو اپنا ہم خیال بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ میرے دعوے کی دلیل اسی غزل کا اگلا شعر پیش کرتا ہے۔
ملاحظہ کیجئے؂

صوفیوں کی سرزمیں سے بچ کر ہر اک گلاب
ہم نے تو خود ہی خریدا ہے یہ خاروں کا عذاب

جہاں قاری کو جلتے چناروں کی مقامی اسطلاح سے شعر کا سارا مضمون سمجھنے میں دیر نہیں لگی وہیں مذکورہ شعر کی ترکیب ” صوفیوں کی سرزمیں۔۔۔۔۔۔الخ سے یک لخطہ اندازہ ہوتا ہے کہ پرویز مانوس اپنے وطن کی زبوحالی اور انسانیت کی پامالی کو دیکھ کر رنجیدہ ہیں۔ ایک طرف انہیں غیروں سے شددت کی شکایت ہے تو دوسری جانب اپنوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ انہیں قوم اور وطن کی اس بربادی و تباہی کے پیچھے کہیں نہ کہیں اپنے ہی کار فرماں نظر آتے ہیں، اس لئے آگے جاتے ہوئے برملا اعتراف کرتے ہیں کہ” ہم نے تو خود ہی خریدا ہے یہ خار زاروں کا عذاب” پرویز مانوس کی شاعری میں ہمیں اکثر ایسی غزلیں بھی ملتی ہیں جن میں موضوع کی یکسانیت اور خیال کا دہراؤ پایا جاتا ہے لیکن یہاں یہ عیب کی صورت میں سامنے نہیں آتا ہے بلکہ ہر دوسرا شعر مضمون کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ اور وضاحت کے ساتھ خلق ہوتا ہے۔ جس کی مثال درج ذیل شعر ہے؂

سرخ پانی پر اڑانیں کیا بھریں مرغابیاں
دیکھتی رہتی تھی ہر دن وہ شکاروں کا عذاب

یہاں پرویز مانوس کی حب الوطنی اور انسان دوستی کے خوبصورت نمونے ان کی ایک ہی غزل کے اشعار میں تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ ان کے بیشتر کلام کا ماخذ انسانی ہمدردی اور وطن دوستی ہے۔ امید ہے کہ آگے چلتے ہوئے ہمیں مزید خوبصورت اشعار پڑھنے کو ملیں گے۔ پرویز مانوس اپنی ایک الگ ہی شعری دنیا بساتے ہوئے دیکھا دیکھی اور روایتی رجحان و ماحول سے بے نیاز ہوکر تخلیقی سفر پر رواں دواں ہیں۔ انہیں دنیا کی چکاچوند اور ظاہری ٹھاباٹھ خیرہ نہیں کرتی ہے۔ وہ موجودہ دور کے اس Cut throat مقابلے سے بیزار اور ماضی کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ اس ماحول میں ان کا دم گھٹتا ہے جہاں لوگوں نے ایک دوسری کی دیکھا دیکھی اور تعصب میں فلک بوس عمارتیں کھڑی کر کے خود زمین میں دھنس چکے ہیں۔ انہیں ان شیش محلوں اور بڑی بڑی کوٹھیوں کے درمیاں مفلس و نادار اپنی جھونپڑیوں میں دم توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کا درد محسوس کر کے ان کی آواز بن جاتے ہیں۔ اس قبیل کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے؂
کیسے بھلا نصیب ہو پھر دھوپ کی تپش
جب جھونپڑیوں کے گرد گھروں کا ہجوم ہے۔

رفتہ رفتہ جب پرویز مانوس کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو ان کے قلم کی نوک کے نیچے نہ آیا ہو۔ یہ سچ ہے کہ ہم وہی کہتے ہیں یا لکھتے ہیں جو ہم سے پہلے کہا گیا یا لکھا گیا ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہم منفرد پیشکش اور اپنے زمان و مکان کی عکاسی کرتے ہوئے نئے تخلیقی قالب میں ڈالنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہی معاملہ کچھ مضامین کے حوالے سے پرویز مانوس کے ساتھ بھی پیش آیا ہے، جس میں وہ قاری تک اپنی بات پہنچانے میں کامیاب تو ہوتے ہیں لیکن فنی اسرار و رموز کو برتنے میں مات کھاتے ہوئے ناظر آتے ہیں۔
درج ذیل شعر ملاحظہ کیجئے؂
خوش تھے قفس کو توڑ کے آزاد ہوگئے
دیکھا تو آس پاس پروں کا ہجوم ہے

قابلِ غور بات یہ نہیں ہے کہ شعر کس طرح کہنا چاہئے تھا بلکہ غور طلب نقطہ یہ ہے کہ پرویز مانوس نے ایک وسیع و کثیر الجہت مضمون کو کتنی آسانی سے شعر کے سانچے میں ڈالا ہے
یہاں پرویز مانوس کے ہاں سیاسی شعور کی ایک جھلک ملتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سماج کی سیاسی سرگرمیوں اور کھیلے جانے والے داو پیچ سے بے بہرہ ور نہیں ہیں۔ متذکرہ بالا شعر میں وہ خود غرض سیاست دانوں کے سیاسی ہتھکنڈوں پر طنز کرتے ہوئے انہیں باور کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے۔یہیں پر وہ نہیں رکتے ہیں بلکہ اور بھی سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے بلند آواز میں اپنا احتجاج درج کرتے ہیں۔ تو آئے میرے دعوے کی دلیل میں ایک شعر ملاحظہ کیجئے؂

امیر شہر دعوی امن کا کرتا تو ہے لیکن
حقیقت میں نہیں بدلا کبھی حالات کا موسم

یہاں آئے روز سادہ لوح عوام اور عالمی برادری کو اندھیرے میں رکھنے کے لے جو بدلے ہوئے حالات کا رخ پیش کیا جاتا ہے اس پر پرویز مانوس کا قلم کسی طرح کی بندش اور پابندی کو خاطر میں لائے بغیر نہ صرف قاری کو جگانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ دنیا کو حقیقی صورت حال سے آگاہ بھی کرتاہے ۔یہ شعر اپنے مضمون اور الفاظ کی بندش کی خوبصورتی سے آفاقی حثیت اختیار کر گیا۔ یاد رہے جب شعر اپنے زمان و مکاں سے آزاد ہو کر تخیل کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے تو وہ آفاقی رنگ اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلاسکی شعراء کے بیشتر اشعار آج بھی زبانِ زد عام ہیں۔ پرویز مانوس جس دیس کے واسی ہیں وہ اسی دیس کے گیت بھی گاتے اور شاعری میں وہیں کے استعارے بھی لاتے ہیں۔ یہ استعارے ایسے ہوتے ہیں جو اس کی مٹی سے خاص ہیں۔ معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اجتمائی بے حسی اور نابرابری سے بیزار ہوکر وہ اپنے سماج پر کچھ اس طرح سے طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں؂

محل والے مطمئن محو تماشہ تھے مگر
پھر کسی مفلس کا ٹوٹا چھپر برف میں

یہاں پرویز مانوس نے “برف” کو نہ صرف اپنے اصلی معنی میں استعمال کیا ہے بلکہ ایک خوبصورت استعارے کے طور پر بھی شعر میں پوستہ کیا ہے۔ شعر میں جب کوئی لفظ ذو معنی ہوجائے تو ابہام پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمیشہ دور کے یا پوشیدہ معنی کو ہی ترجیع دی جاتی ہے۔ اس طرح یہاں بھی برف کو ناگہانی آفت و مصیبت کے معنی میں اختیار کیا گیا ہے جن کا سامنا مفلس اور نادروں کو بنسبتِ صاحبِ ثروت لوگوں کے زیادہ رہتا ہے۔ یہاں بھی پرویز مانوس یہ سمجھانے کی سعی کرتے ہیں کہ اگر ہم آج نہیں جاگے تو کل ہم سب اسی اجتمائی بے حسی کے ہاتھوں بے مات مارے جائیں گے۔ پرویز مانوس کی شاعری کا خاص پہلو رنج ہے۔ لیکن یہاں یہ انفرادی حثیت کے بجائے اجتمائی صورت اختیار کرتا ہے۔ گردشِ ایام کے ہاتھوں مجبور و لاچار انسان کی داستان الم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس قبیل سے ایک شعر ملاحظہ کیجئے؂
بظاہر تیرے چہرے پر سجے گلدان دکھتے ہیں
تری آنکھوں میں لیکن وقت کے طوفان دکھتے ہیں

پرویز مانوس خود کو مخاطب کر کے آپ بیتی میں اپنی قوم کی اجتمائی بے بسی کا رونا روتے ہیں۔ وہ انکشاف کرتے ہیں کہ بظاہر میں ہشاش بشاش اور ایام گردش سے بے فکر نظر آتا ہوں لیکن اگر کوئی ذی شعور انسان میرے دل میں جھانکنے کی کوشش کرے تو اسے دل میں چھپے طوفان نظر آئیں گے۔ یہاں پرویز مانوس اپنی قوم کے ہر مببور و لاچار فرد کی خوبصورت تصویر کشی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
پرویز مانوس کے یہاں بھی غزلیہ شاعری کے آفاقی مضامین ملتے ہیں۔ ہاں میری مراد حسن اور عشق سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر عشق اور حسن کی نوک جوک کو غزل سے نکال دیا جائے تو یہ بنا روح کے انسانی ڈھانچے کی مانند ہوجائے گی۔ گو کہ غزل آج اپنے ابتدائی سفر سے بہت دور نکل چکی ہے اور موضوع کی سطح پر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی یے لیکن عشق کے تسلط سے پھر بھی آزاد نہیں ہوئی۔ تو آئے دیکھتے ہیں کہ پرویز مانوس کے یہاں تکمیلِ عشق کا فلسفہ کیا ہے۔
پرویز مانوس عشق میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ عشق کے داو پیچ اور کلابزیوں سے خوب واقف نظر آتے ہیں۔ وہ عشق کو حاصل نہیں بلکہ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے یہاں زمان و مکان کی عکاسی کے شانہ بشانہ حسن و عشق کے ترانے بھی سنائی دیتے ہیں اور معاملہ بندی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ وہ عشق کا انجام تصور میں نہیں لاتے ہیں بلکہ نڈر ہوکر آتش عشق میں کود جاتے ہیں۔ شاید انہیں معلوم ہے کہ عشق صبر آزما مراحل سے گزر کر ہی اپنی تکمیل تک پہنچتا ہے۔ اس قبیل کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کیجئے؂
مشکل ہے گرچہ کرنا کسی باؤلی سے عشق
پھر بھی کیا ہے ہم نے تری سادگی سے عشق۔

عشق کا ایک آفاقی تصور یہ بھی ہے کہ یہ اندھا ہوتا ہے تو متذکرہ شعر کے نفس کو دیکھ کر پرویز مانوس کے یہاں اس کا عملی نمونہ بھی ملتا ہے۔ کیوںکہ کوئی ہوش مند اور باعقل آدمی کیسے کسی پاگل و مجذوف کے عشق میں دیوانہ ہوسکتا ہے۔ خیر اس کا جواب ہمیں اگلے مصرع سے اس وقت ملتا ہے کہ جب انہیں پاگل پن کے ساتھ ساتھ اپنے معشوق میں سادگی نظر آتی ہے۔ گو کہ معاملہ صاف ہوتا ہے کہ عشق کرنے کے لئے ہزاروں خوبیوں کا حامل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہمیں کسی کی ایک ادا سے بھی جنون کی حد تک عشق ہوسکتا ہے۔ انجام جو بھی ہوتا ہے عاشق کبھی اس کی فکر نہیں کرتے ہیں۔ عشق میں حسن اور عشق کی نوک جوک تو ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور اردو شاعری میں کلاسکی شعراء سے لیکر جدید شعراء کے کلام میں اس کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں تو ایسا ہی ایک شعر یہاں بطورِ نمونہ پیش ہے؂

فقیر شہر سارے در پہ تیرے آج آئے ہیں
سنا ہے چل رہا ہے حسن کی خیرات کا موسم

بلاشبہ یہ عشق کے موضوع پر ایک عمدہ شعر ہے۔ یہاں ایک طرف محبوب کے حسن کی تعریف ہورہے ہیں تو دوسری طرف ادب کے دبیز پردے میں رہ کر دیدار کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ذیر مطالعہ مجموعہ کے تکمیلِ عشق کی مناسبت سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے؂

ہم نے جوانی وار دی تکمیلِ عشق میں
رو رو کے شب گزاردی تکمیلِ عشق میں

پرویز مانوس عشق میں خود پسندی کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی محبوب سے کج روی سے پیش آتے ہیں۔ وہ عشق میں جھکنا پسند کرتے ہیں جو کہ ان کا مزاج بھی ہے۔ عشق میں خود پسندی کے بجائے خود سپردگی کا اصول ہی آفاقی ہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو تکمیلِ عشق کے پیچھے کارفرما ہے۔ یہاں میں اس امر کی وضاحت بھی کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ عشق وہی مقبول و بقائے دوام حاصل کرتا ہے جو جوانی میں ہوجائے ورنہ پیری میں تو سارے تھک ہار کے گوشہ نشینی اختیار کر کے اللہ اللہ کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ؂
ہم منتظر تھے اس نے بھی مڑ کر نہیں دیکھا
آواز بار بار دی تکمیلِ عشق میں

گو کہ عاشق کو اگر تکمیل عشق مقصود ہو تو عاشق کے لئے معشوق کی کج ادائوں اور بے رخیوں کے آگے سینہ سپر ہونے کے ساتھ ساتھ نازبرداریاں اٹھانا بھی لازمی ہے۔
الغرض پرویز مانوس کے یہاں قاری ہر طرح کے اشعار سے لطف اندوز ہوتا ہے اور بلا شبہ ان کی غزلیہ شاعری ان کی مشاقی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ان کے یہاں الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ نہ ہونے کے باوجود بھی الفاظ کو مختلف معینوں اور حالات میں بہت مہارت اور چابکدستی سے استعمال کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان کی شاعری وسیع العریض کینواس پر محیط ہے۔ان کے یہاں شعبہ ہائے زندگی کے تمام موضوعات پراشعار ملتے ہیں۔ان کا قلم صفحہ قرطاس پر ایک الگ تخلیقی جہاں آباد کرتا ہے۔
یہی تنوع اور وسعتِ خیال ان کی پہچان ہے۔ موضوع کیسا بھی ہو ان کے یہاں موسیقیت اور نگمگی ہمیشہ برقرار رہتی ہے جو انہی کا خاصہ ہے۔
پرویز مانوس ایک ہی خیال کو مختلف انداز میں بہت خوبصورتی سے بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور ہر مرتبہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نیا اور اچھوتا خیال ہے
@everyone

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ