پیش کش: جی این کے اردو
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر_31
بینر :- عمران یوسف
افسانہ:- انسان اور پرندے
دانش علی راؤ
صبح کے آغاز کے ساتھ سامنے درختوں کے جھُنڈ سے پرندوں کی چہچہاہٹ کا بھی آغاز ہوتا تھا وہاں مختلف اقسام کے پرندے تھے
کبھی کبھار تو اُنکی آواز میں فرق کرنا بھی ممکن نہ ہوتا سبھی ایک ساتھ جو چہچہانا شروع کر دیتے اور ایک لمبے وقت تک چہچہاتے رہتے۔
یہاں میرے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک بڑا شہتوت کا درخت بھی تھا جس پر بہت ساری چڑیاں اور ایک جوڑا فاختہ بھی رہتا تھا جب ہم بچے کبھی دوپہر میں شہتوت توڑنے کی غرض سے جاتے تو فاختہ کا جوڑا پُر سکون لمحات سجائے بیٹھا ہوتا اور ہر شاخ پر کئی کئی چڑیا خاموشی سے بیٹھی ہوا کرتیں اس جوڑے میں ایک وہی فاختہ تھی جو کچھ عرصہ پہلے نجانے کہاں سے زخمی حالت میں ہمارے کمرے میں گھس آئی میں نے اُسے پکڑ کر ایک پنجرے میں بند کر دیا اور اُسے روز دانا پانی ڈالتا تھا۔
اُس میں ایک معصومیت نظر آتی اُسے دیکھ کر امن و سکون کا احساس ہوتا تھا۔
اسکے ساتھ کی فاختہ جو سائز کے اعتبار سے اُسکا نر معلوم ہوتا ہر روز کُچھ کُچھ لمحوں بعد ہمارے گھر کی منڈیر پر آ کر بیٹھتا جو صرف اپنی ہمنوا کی جدائی میں بیچین معلوم ہوتا تین دن میں اس فاختہ کے زخم بالکل ٹھیک ہوگئے تو دادا جی نے کہا اُسے آزاد کر دو میرا اُسے چھوڑنے کا بالکل بھی من نہیں تھا پر اسکے نر کی حالت دیکھتے ہوئے جو شام کو ہمارے گھر کی منڈیر پر بیٹھا تھا تو میں نے بوجھل من کے ساتھ اُسے چھوڑ دیا اُسے چھوڑنے سے پہلے میں نے گلابی رنگ اُسکے پروں میں لگا دیا۔
اکثر اوقات جب وہ ہمارے گھر کے اوپر سے اڑان بھرتی تو وہ گلابی پروں کے ساتھ کمال لگتی تھی۔
صبح صبح درختوں کے جھنڈ کی طرف دیکھ کر ایک تازگی کا احساس ہوتا ان درختوں سے پرندوں کا غول یکدم اُبھرتا اور پھر فوراً واپس اسی میں جذب ہو جاتا تھا۔۔
اکثر سُننے میں آیا کرتا تھا کہ اس جگہ بڑے بڑے فلیٹس بنیں گے پر اُس وقت یہ سنی سنائی باتیں ہی لگا کرتی تھیں۔
ہم جب بھی اس بارے میں سوچتے تو یہ بات ہم پر بہت گراں گزرتی ۔
یوں ہی دن گزرتے چلے گئے
ایک روز صبح جب آنکھ کھلی اور میں نے درختوں کے جھنڈ کی جانب دیکھا تو اس کے ساتھ کُچھ تعمیراتی مشینیں کھڑی تھیں۔ کرین، ٹریکٹر ٹرالی جس میں لمبے لمبے آرے رکھے ہوئے تھے اور دیگر مشینیں بھی تھیں اور لوگوں کا ایک مجمع لگا تھا۔۔
یہ دیکھتے ہی احساس ہوگیا تھا کہ جو صرف سنی سنائی باتیں لگتی تھیں وہ دراصل حقیقت تھی یہاں سچ میں لوگوں کے لیے فلیٹس بنائے جائیں گے۔
کُچھ لمحوں بعد چند لوگوں نے برقی آریاں ہاتھوں میں اٹھائیں اور درخت کاٹتا شروع کے دیئے۔
جس بھی درخت کو کاٹا جاتا پرندوں کا غول یہاں سے نکلتا اور واپس نا آنے کی غرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُڑ جاتا یوں ایک ایک کر کے جھنڈ کے تمام درخت کاٹ دئیے گئے اور مغرب کے قریب اس شہتوت کی بھی باری آگئی جو ہمارے گھر سے چند فرلانگ پر تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں اُنھیں روک نہ پایا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہتوت بھی زمیں بوس ہوگیا چند پرندے اس میں سے نکلے اور اُڑ گئے۔
پر میری نظریں اس فاختہ کے جوڑے کی تلاش میں تھیں جو مجھے نظر نہ آیا پھر کُچھ اندھیرا ہوا اور عشاء کے وقت میری نگاہ اپنی منڈیر پر پڑی تو وہ جوڑا وہیں بیٹھا تھا اور وہ گلابی پروں والی فاختہ ایک لمحے کو اپنی آنکھیں موندتی اور جھٹ سے ڈر کے مارے واپس کھول لیتی اُسے یہاں بالکل بھی چین نہیں تھا۔
وہ دونوں شائد اپنا سب کُچھ اجڑھتے دیکھ پریشان ہونگے۔
میں رات گیارہ بجے تک اُنھیں دیکھتا رہا پھر جا کر سو گیا صبح اُٹھتے ہی میں نے منڈیر کو دیکھا جو خالی تھا۔
اُس روز کے بعد نہ وہاں کوئی پرندہ آیا اور نہ ہی پرندے کی آواز۔۔۔۔۔