پیش کش: جی این کے اردو
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر_ 18
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :-اندھیرے کا راز
مسرت آرا
اننت ناگ، جموں و کشمیر
حلیمہ دو سال سے بیمار تھی اور مسلسل بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ وہ دمہ کی مریضہ تھی جس کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے وہ اپنی نو سال کی بیٹی آمنہ کو اشاروں میں بتایا کرتی تھی کہ کون سا کام کس طرح کرنا ہے اور بار بار بولنے پر کوئی ایک کام ٹھیک سے کر پا رہی تھی۔ ابھی تو اس کے ہنسنے کھیلنے اور پڑھنے کے دن تھے۔ جن ہاتھوں میں قلم ہونا چاہئے تھا وہ ہاتھ برتن مانجھتے مانجھتے اپنی اصل صورت کھو بیٹھے تھے۔ حلیمہ یہ سب دیکھ کر برداشت نہ کر پاتی تھی، مگر وہ بیمار تھی۔ اس لیے مجبور تھی۔ اسے ہر وقت یہ خدشہ رہتا تھا کہ میرے مرنے کے بعد اس لڑکی کی زندگی کا کیا ہوگا۔ وہ یہی خیالات دماغ میں لیے ہوئے کچھ سے کچھ ہوجاتی تھی۔ جیسے وہ سب کچھ جانتی تھی کہ اس کی بیٹی کا مستقبل کیا ہوگا۔ اسی لیے رات اس کی پلکوں سے نیند بوجھل ہوتی تھی اور دن بدن حالت بھی بگڑتی جا رہی تھی۔
آمنہ جانتی تھی کہ اس کی ماں اس کے تئیں گہری فکر رکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ مزید پریشان رہتی ہے۔ اس فکر کو دور کرنے کے لیے آمنہ ایک دن ماں سے مخاطب ہوئی۔”ممی تم یہ سوچنا بند کردو۔ پاپا کہتے ہیں کہ اگر تم نے میری فکر کرنا چھوڑ دیا تو تم ٹھیک ہو جاؤ گی“ آمنہ یہ کہہ کر ماں کے جواب کا انتظار کرنے لگی مگر کافی عرصے تک ماں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تو اس نے پلٹ کر ماں کی طرف دیکھا جس کی نظریں چھت پر ٹھہری تھیں۔ آمنہ اٹھ کر اس کے پاس گئی اور ممی ممی کہہ کر کئی مرتبہ اس نے پکارا، دیکھا، چھوا، اور زار وقطار رونے لگی۔ ماں نہ جانے کب سے اس کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ مکان میں عورت کا خالی وجود ہی کافی ہوتا ہے اسے گھر بنانے کے لیے۔ ماں کے بغیر آمنہ کو گھر عجیب لگ رہا تھا۔ وہ اکیلی پڑ گئی تھی۔ مگر زندگی کے لمبے سفر میں اسے آگے نکلنا تھا۔ یہ بات اس کا باپ منصور بھی بخوبی جانتا تھا جو اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتا تھا۔ کیونکہ بن ماں کی لڑکی کا ایک ہی مضبوط سہارا تھا وہ تھا اس کا پہاڑ جیسا مضبوط باپ جس کے کاندھوں پر اب سینکڑوں ذمہ داریاں تھیں۔ جن میں سے ایک کو کم کرنے کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کو چاروں پہر گھر میں ہی بٹھا دیا۔ کیونکہ اسے پیٹ کی خاطر باہر جانا تھا اور وہ اس خیال سے بہک جاتا تھا کہ اس کی بیٹی کا شباب کہیں لوگوں کی نظروں میں نہ آئے۔
منصور کی پریشانی کو دیکھ کر ایک دن سمینہ اس کے گھر آئی اور کہنے لگی ”بھائی جان آجکل وہ وقت نہ رہا کہ آمنہ دن بھر گھر میں اکیلی پڑی رہے۔ اب جلدی سے اس ذمہ داری سے آزاد ہو جائے۔ اپنے گھر جائے گی تو آپ کی پریشانیاں بھی کم ہو جائیں گی۔ اور میری بہن کے روح کو بھی سکون ملتا“سمینہ نے آمنہ کے تئیں اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے منصور سے کہا۔
”دیکھو سمینہ آپ کی بات تو صحیح ہے مگر ابھی میری بچی کی اتنی عمر نہیں ہوئی کہ وہ مجھ پر بھوج بنے۔ ابھی میں شادی کرکے دوسرے گھر نہیں بھیج سکتا۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ یہاں بہو کو نوکرانی کا درجہ حاصل ہے۔ پھر میں اپنی آنکھوں سے اس کی بے قدر نہیں دیکھ سکتا۔ ابھی کچھ سال رہنے دو ان باتوں کو“ منصور نے سمینہ کی بات کو رد کیا اور پھر وہ کام پر چلا گیا۔ مگر آمنہ گھر کے اندر ہی کام کرتی رہی۔ اس کا دل بھی کرتا تھا کہ وہ باہر جائے اور کسی سے ملے۔ اپنے دکھ کسی سے بانٹے لیکن اگر پاپا کو یہ بات پتہ چلی تو وہ مجھے کسی بھی صورت میں معاف نہیں کریں گے۔ وہ کام ختم کرنے کے بعد گھر کی دہلیز پر اپاہچ کی طرح آسمان کو دیکھتی رہتی تھی۔ وہ دنیا کا ذرا ذرا دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چار دیواری کے اندر کام کرنا ہی کافی نہیں ہوتا ہے۔ انسان کو انسانیت سیکھنے کے لیے دنیا دیکھنی پڑتی ہے۔ خیر وقت کا مرہم بھی عجیب ہوتا ہے۔ بڑے بڑے گھاؤ بھر دیتا ہے۔ ماں کو مرے ہوئے پورے چار سال ہوگئے تھے۔ ان چار سالوں نے بہت سی کروٹیں بدلی۔ وہ چھوٹی سے بڑی ہوگئی اور پاپا کے لاڈ پیار سے دن بدن نکھر رہی تھی۔
مگر کچھ دنوں سے اس کی چال ڈال میں تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ اب وہ دیر سے اٹھا کرتی تھی۔ صبح جب اس کی آنکھیں کھلتی تو چائے تھرماس میں رکھ کر پاپا کام پر چلے جاتے تھے۔ اسے اس بات سے بڑی کوفت ہوتی تھی مگر وہ کیا کرتی کہ اس کے بس میں کچھ تھا ہی نہیں۔ نیند ہی کچھ ایسی گہری تھی کہ شام کو ہی سونے کی فکر رہتی تھی۔ باقی رات کہاں سے گزری اس کا اسے علم نہ تھا۔ ایک دن شام سے پہلے اس نے پاپا سے کہا ”پاپا مجھے صبح جلدی جگایا کرو۔ پتہ نہیں آجکل مجھے یوں گہری نیند کیوں آنے لگی ہے کہ میں اٹھ ہی نہیں پاتی۔ زیادہ نیند کرتی ہوں تو دن بھر تھکاوت رہتی ہے۔ مجھے اتنی دیر سونے کی عادت نہیں ہے نا“ آمنہ نے ایک بڑی شکایت باپ سے کی۔
”ارے بیٹا یہ جوانی کی نیند عجیب ہوتی ہے،مست مگن!۔۔۔۔ خیر تم باپ کے گھر آرام نہیں کروگی تو کہاں کرو گی۔ ابھی تمہارا باپ اتنا بوڑھا نہیں ہے جو اپنی بیٹی کی نیند حرام کرے۔ دیکھو جوان ہوں ہٹا کٹا ہوں، تمہارے سامنے“ باپ نے بیٹے کو حوصلہ دیا۔
”تم بھی نا پاپا!۔۔۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ آج کے بعد مجھے صبح جلدی اٹھاؤ گے۔ تبھی میں کھانا دوں گی“ آمنہ نے چھوٹی بچی کی طرح باپ سے ضد کی۔ باپ نے وعدہ تو کرلیا مگر صبح پھر معمول کی طرح چائے تھرماس میں اور پاپا کام پر۔ آمنہ کو صبح بہت غصہ آیا۔ وہ اسی غصے میں اٹھی اور واشروم چلی گئی۔ اور برش کرنا شروع کیا۔ برش کرتے وقت اسے عجیب سی الجھن محسوس ہوئی۔ سر بھاری اور جسم تھکا تھکا سا لگا۔ وہ واشروم سے نکلی اور سیدھے بستر پر جا کر سو گئی۔شام کو جب منصور آیا تو آمنہ کی حالت ہی خراب تھی۔ اسے اپنی بیٹی کی یہ حالات دیکھی نہ گئی۔ وہ جلدی باہر گیا اور دوائی لے آیا۔ اسے جب آرام نہ آیا تو منصور رات بھر آمنہ کے سرہانے بیٹھ کر نہ جانے کن کن خیالوں میں کھویا رہا۔ وہ بہت پریشان تھا کیونکہ اس نے پہلی دفعہ اپنی بیٹی کو اس قدر بیمار دیکھا تھا۔ وہ جب شام کو گھر لوٹتا تھا تو اس کی ساری تھکان آمنہ کو دیکھ کر دور ہو جاتی تھی۔ یہ کھل کھلاتا چہرہ آج ذرد پڑ گیا تھا۔ وہ رات بھر اسی بے قراری میں صبح کا انتظار کرنے لگا۔ صبح جب ہوئی تو دروازے پر کسی نے دستک دی۔ منصور نے دروازہ کھولا تو سمینہ کو پایا۔ سمینہ کے بیٹھتے ہی منصور نے آمنہ کی ساری بیماری کا بیان کیا اور رونے لگا۔ وہ اپنی بیوی کو کھو چکا تھا۔ اب وہ اس کی امانت کھونا نہیں چاہتا تھا۔ سمینہ نے آمنہ کی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا تو وہ تپ رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا وہ کچھ کہے بغیر اٹھی اور آمنہ کو اسپتال لے گئی۔ منصور بھی ان کے پیچھے پیچھے اسپتال جا پہنچا۔ گھر میں اکیلے آمنہ کے بغیر اس کا جی نہیں لگ رہا تھا۔ اس کو آمنہ کا گول اور ہرا بھرا چہرہ یاد آنے لگا۔ منصور کی آنکھوں میں مایوسی کی لمبی کہانی دکھ رہی تھی۔ حالانکہ اس نے بہترین باپ بننے کی کوشش کی تھی۔ اس نے اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کی تھی کہ لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ مگر اس نے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنے سائے تلے اس غیر مہذب سماج میں رہنے کے لیے پختہ بنانا چاہتا تھا۔ وہ یہی سارے خیالات لیے اسپتال میں داخل ہوا۔
سمینہ اندر بیٹھی آمنہ کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ منصور بھی اسے دیکھ کر وہیں بیٹھ گیا ”اوہ! بڑھاپے میں یہی سب دکھ لکھا تھا“ منصور نے اپنے آپ سے کہا۔ تبھی اندر سے ہاتھ میں لفافہ لیے ہوئے ایک عورت باہر آئی۔ اور باہر آتے ہی وہ دونوں سے مخاطب ہوئی۔ ”تھوڑی سی کمزور ی ہے، وزن بھی کچھ گھٹنے لگا ہے حالانکہ اس حالت میں عورت کا وزن بڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کا خاص خیال رکھو۔ اب تیسرا مہینہ شروع ہونے کو ہے“ عورت نے سمینہ کے ہاتھ میں چھٹی دی جس پر سب کچھ لکھا تھا۔ اور واپس چلی گئی۔ سمنیہ نے اسے غصے بھری نظروں سے دیکھا مگر آہستہ آہستہ کچھ بڑبڑا کر رہ گئی۔ اور ذرا تیز قدموں سے اندر چلی گئی۔ وہ رونا چاہتی تھی مگر زبردستی چلائی ”آمنہ یہ منہ کیوں کالا کیا تم نے؟ یہ بچہ کس کا ہے؟“ سمینہ نے سوال پر سوال کیے مگر یہ سن کر آمنہ خاموش تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں بہہ رہے تھے۔ وہ کیا جواب دیتی اسے خود پتہ نہ تھا۔ وہ خود حیرا ن تھی کہ یہ کیا بول رہی ہے۔ وہ کچھ بولنے والی تھی کہ منصور اندر آیا۔ اور بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس نے آمنہ کو بیڈ سے نیچے گھسیٹ دیا۔ اور سمینہ کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ سمینہ کانپنے لگی کیونکہ وہ بھی ایک عورت تھی۔ منصور کو جب تاب نہ رہی تو اس نے سب کے سامنے ایک تھپڑ آمنہ کے منہ پر رسیدکیا۔۔۔۔۔۔”بول میرے پیچھے تم یہی کر رہی تھی۔ کیا کمی تھی میری پرورش میں اور کس چیز کی کمی تھی گھر میں۔ میری شفقت کا یہی صلہ دیا تم نے“ دوچار باتیں ہی وہ کر پایا اور سر نیچے دے کر رونے لگا۔ ”آج میں بہت شرمندہ ہوا سمینہ۔ اس کو پوچھو اس نے یہ کیا کیا“
”دیکھئے یہ عدالت نہیں ہے، اسپتال ہے، معاملے اگر حل کرنے ہیں تو عدالت میں جاکر کرو، یہاں نہیں“ ڈاکٹر نے انھیں دھکیلتے ہوئے کہا۔ آمنہ اپنی صفائی میں کچھ اور بولتی لیکن منصور دونوں کو چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔ سمینہ چپ چاپ خالی نظروں سے منصور کو دیکھتی رہی، اس کا دماغ بھی خالی ہوگیا۔ جب منصور نظروں سے اوجھل ہوگیا تو سمینہ نے آمنہ کو اٹھایا ور گھر لے آئی۔ آمنہ نڈھال ہوکر بستر پر گر پڑی اور سوچنے لگی۔ وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔ سمینہ نے کمبل نکالا۔ وہ کمبل ہاتھ میں لیے اس کے پاس آئی اور کہا ”آمنہ! کیا تمہیں سچ میں اس کے باپ کی خبر نہیں“ آمنہ کے لب جواب کے لیے ہلنے ہی والے تھے کہ کمبل سے بے ہوشی کی دوا فرش پر جا گری۔