افسانچہ افسانوی نثر

انوار انجم کے 8 / افسانچے، پیش کش جی۔این۔کے اردو

GNK URDU April 20 , 2024

اس عمر میں آپ اتنی شراب پیئیں گے؟کچھ تو شرم کیجئے!۔۔۔“کرنل بشن سنگھ نے اُس بزرگ کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا جو کبھی ملک کا رکھوالا رہا تھا اور جس کی عمر ۰۹ سال سے تجاوز کر چکی تھی۔
بات دراصل یہ واقع ہوئی تھی کہ غلطی سے اس بزرگ کے ملٹری کینٹین کارڈ سے ملنے والی شراب کاٹ دی گئی تھی۔جس پر اس بزرگ نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ اسی لئے کرنل بشن سنگھ نے اسے اپنے آفس میں بلایا تھا۔
”بابا!سچ بتانا کیا تم اس عمر میں بھی شراب پیتے ہو؟“
”شراب کی بدولت ہی تو آج تک زندہ ہوں ورنہ کب کا مرچکا ہوتا۔“
بزرگ نے روہانسی صورت بنا کر جواب دیا۔
”اس کا مطلب ہے کہ ڈیڈڈرنکر ہو۔۔۔“کرنل بشن سنگھ نے اس کے ملٹری کارڈ کی تجدید کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں صاحب جی!یہ بات بالکل نہیں ہے۔شراب کو تو میں نے چکھ کر بھی نہیں دیکھا، لیکن اس کے باوجود شراب ہی میرے جینے کا سہارا ہے۔۔۔“بزرگ نے کرنل صاحب کو ایک عجیب الجھن میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
”یہاں کینٹین سے ہر ماہ اپنے کوٹہ کی شراب کی بوتلیں لے کر جاتے ہو اور کہتے ہو کہ کبھی شراب نہیں پی۔دوسری جانب کہتے ہو کہ شراب ہی تمہارے جینے کا سہارا ہے۔بابا۔۔!دماغ توٹھیک ہے تمہارا؟۔۔۔“کرنل صاحب نے نہایت الجھن سے پوچھا۔
”نہیں جناب!۔۔۔میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔بات دراصل یہ ہے کہ میرے دونوں بیٹے مجھ سے علیحدہ رہتے ہیں لیکن جب مجھے پنشن ملتی ہے تو دونوں آکر چھین لے جاتے ہیں۔بس اس شراب کے متعلق انہیں علم نہیں ہے۔میں کینٹین سے شراب لے کر بازار میں مہنگے بھاؤ فروخت کرکے اس سے اپنی گزر اوقات کرتا ہوں تو ہوئی نا شراب مجھے زندگی بخشنے والی؟۔۔۔“بزرگ یہ کہہ کر چپ ہوگیا۔
اس پر کرنل بشن سنگھ نے بزرگ کا کینٹین کارڈ پکڑا اور اس پر ملنے والی شراب کا کوٹہ دو گنا کرکے اس بزرگ کو تھماتے ہوئے ایک عجیب سی خوشی محسوس کی۔
٭٭٭

اگرچہ اس کی تعلیمی لیاقت بی۔اے،بی۔ایڈ تھی مگر اُسے بطور کانسٹیبل نوکری ملی تھی۔اس نوکری میں اسے بنا مانگے ہی اچھی خاصی رشوت مل جاتی تھی جس کی وجہ سے اسے شراب پینے کی لت لگ گئی تھی۔ بس یوں سمجھئے جتنی رقم اسے رشوت میں ملتی وہ اسے شراب کی نذر کر ڈالتا۔اس کے پاس تو اس کی اصل تنخواہ ہی بچتی تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنی نوکری سے مطئمن نہیں تھا۔ اس کا ضمیر اکثر اسے ملامت کرتا رہتا اور وہ کسی ایمانداری والی نوکری کی تلاش میں تھا کیونکہ بقول اس کے پولیس اور رشوت ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں اس لئے اس محکمہ میں رشوت کے بنا گزارہ ممکن ہی نہیں۔ قسمت اس پر مہربان ہوئی ماسٹروں کی نوکریاں مشتہر ہوئیں اس نے بھی اپلائی کیااور اس کا کام بن گیا۔ اس نے فوراً پولیس کی نوکری سے استعفٰی دیا اور ماسٹر کی نوکری جوائن کرلی۔
اب اس کا ضمیر مطئمن تھا لیکن اپنی شراب پینے والی عادت سے وہ اب بھی چھٹکارا نہیں پاسکا تھا۔ مہینہ پورا ہونے پر حساب لگا کر اس نے دیکھا کہ اس کی تنخواہ کا ایک بڑا حصّہ شراب کی نذر ہوچکا ہے یہ دیکھ کر اُسے بہت صدمہ ہوا۔
پولیس محکمہ میں اُس کا استعفٰی ابھی منظوری کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ اسلئے اس نے اپنا استعفیٰ واپس لینے کیلئے محکمہ کو عرضی دے دی۔ اُس کی درخواست منظور ہوئی اور اُس نے دوبارہ پولیس کی نوکری جوائن کرلی۔
٭٭٭

شراب پی کر تیزرفتار سے ٹرک چلاناکرپال سنگھ کی پرانی عادت تھی۔ اسی عادت کی بدولت کئی قیمتی جانیں بھی اس نے اپنے ٹرک کے نیچے کچل ڈالی تھیں لیکن اسے اتفاق یا اس کی خوش بختی ہی کہا جائے کہ وہ حادثہ ہونے کے بعد کبھی بھی پکڑا نہیں گیا۔ہر مرتبہ وہ ٹرک بھگا کر فرار ہوجاتا یہاں تک کہ کوئی اس کے ٹرک کا نمبر بھی نوٹ نہ کر پاتا۔
آج بھی اس کے ٹرک کی رفتار میں کوئی کمی نہ تھی۔ ٹرک کی ٹیپ ریکارڈر پر چل رہا پنجا بی گیت ”جی۔ٹی۔روڈ تے دہائیاں پاوے نی یاراں دا ٹرک بلئیے۔۔۔“اس کے سرور کو دو گنا کر رہا تھاشراب کے نشے کی بدولت ٹرک پر اس کا کنٹرول ڈھیلا ہوتا جارہا تھا۔
اتنے میں سامنے سے آرہے ایک طالب علم پر اس کا ٹرک جا چڑھا۔ حادثہ ہوتے ہی جیسے اس کی آنکھ کھل گئی اور سارا نشہ اتر گیا۔ اس نے ٹرک کو اندھا دھند بھگا لیا تاکہ کوئی اس تک پہنچ نہ سکے۔
مگر چند لوگوں نے یہ حادثہ ہوتے دیکھ لیا تھا۔ اس لئے انہوں نے کرپال سنگھ کے ٹرک کا سکوٹروں موٹر سائیکلوں اور کاروں وغیرہ کے ذریعہ پیچھاکرنا شروع کردیا اور چند کلو میٹر کی دوری پر گھیرا ڈال کر اسے جا دبوچا۔ وہ کرپال سنگھ کو واپس حادثہ والی جگہ پر لے آئے۔
لاش کو دیکھتے ہی کرپال سنگھ کی چیخ نکل گئی۔ حادثہ میں مرنے والا اس کا اکلوتا بیٹا راجندر پال خون میں لت پت اس کے سامنے بے جان پڑا تھا۔ ٭٭٭

بی اے فائنل ایئر کے امتحانات چل رہے تھے۔اس روز ہمارا پولیٹیکل سائنس کا پرچہ تھا۔ میں حسب معمول اپنے احباب کے ہمراہ امتحان دینے گیا۔سوالنامہ دیکھا تو پسینے چھوٹ گئے۔بہت مشکل سوالات پوچھے گئے تھے۔ مجھے صرف دو سوالات کے جوابات آتے تھے جبکہ پاس ہونے کے لئے کم ازکم تین سوالات کے بالکل صحیح جوابات پتہ ہونے ضروری تھے یعنی صرف ۳۳ نمبر لینے کے لئے تین سوالوں کی جانکاری ضروری تھی اس لئے دل نے کہا کہ پرچہ چھوڑ دیا جائے۔
ایک دوست کو اپنی رائے بتائی تو اس نے میری ہاں میں ہاں ملادی مگر دوسرے نے کہا اگر پرچہ چھوڑ دیا تو ڈگری کالج سے نہیں مل سکے گی بلکہ پرائیویٹ سٹوڈنٹ کہلاؤگے۔اس لئے فیصلہ ہوا کہ تمام سوالات کے جوابات لکھ دیئے جائیں خواہ اس میں گپیں ہی ہانک دی جائیں۔ بس پھر کیا تھا تمام سوالات حل کردیئے۔دو کے جواب تو یاد تھے باقی آٹھ میں گپیں ہانک دیں۔
جب نتیجہ نکلا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی میں نے مذکورہ امتحان میں ۰۰۱ میں سے ۵۵ نمبر حاصل کئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے اپنی کامیابی کہوں یا پیپر چیک کرنے والے کی ناکامی؟
٭٭٭

سرکارکی جانب سے ’بجلی بچاؤ‘ہفتہ منایا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں طلباء وطالبات کے تقریری اور پینٹنگ مقابلے منعقد کئے جارہے تھے۔ اتفاق ہی تھا کہ بجلی بچانے کے متعلق پینٹنگ مقابلے میں منجیت سنگھ کی بیٹی سندیپ اور تقریری مقابلے میں اس کا بیٹا امن دیپ پہلے مقام پر آئے۔اس بجلی بچاؤ ہفتہ سے پہلے منجیت سنگھ کے گھر کا بجلی بل کبھی بھی دو ہزار روپے سے کم نہیں آیا تھا۔ مگر اب اپنے بچوں کے سمجھانے پر اس نے نہایت حکمت عملی سے بجلی کی بچت شروع کردی۔ گھر کے تمام بلب بدل کر ان کی جگہ ٹیوبیں لگوادیں۔ بجلی کے فضول استعمال کو بند کردیا۔ اس طرح منجیت سنگھ کا اگلا بجلی بل صرف آٹھ سو روپے کا آیا۔منجیت سنگھ اس پر بہت خوش تھا۔ اس بچت کے لئے اس نے اپنے بچوں کی تعریف کی۔ اسی طرح دوسرا، تیسرا اور پھر چوتھا بل کم آئے تواکثر کوئی نہ کوئی بجلی چیکنگ ٹیم اس کے گھر چیکنگ کے لئے آنے لگی۔ وہ اس پر الزام لگاتے کہ اُس نے ضرور بجلی چوری شروع کردی ہے۔تبھی تو بجلی بل آدھے سے بھی کم آنے لگا ہے۔
”منجیت سنگھ ہر ٹیم کو بجلی کا بل کم آنے کے متعلق تفصیل سے بتاتا مگر انہیں یقین ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس پر منجیت سنگھ کا من بہت دکھی ہوا۔ بہت غورو خوض کے بعد منجیت سنگھ نے اپنے اصولوں کو تاک پر رکھتے ہوئے سچ مچ ہی بجلی چوری شروع کردی۔اب اسے چیکنگ ٹیم کو تفصیل سے بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ تھوڑے سے ’چائے پانی‘سے ہی بات بن جاتی ہے۔
٭٭٭

سنجیو بورڈ کی کلاسوں میں طلباء کو پاس کروانے کی گارنٹی لیا کرتا تھا اور اس کے بدلے میں ان سے موٹی رقمیں وصول کرتا تھا اگر پیسے دینے کے باوجود کسی کا کام نہ ہوتا تو ایمانداری سے ان کی رقم واپس لوٹا دیتاتھا۔
میں نے ایک دِن اُس سے دریافت کیا۔
”سنجیو صاحب ایجوکیشن بورڈ میں تمہارا کوئی واقف کار نہیں ہے اس کے باوجود طلباء کو پاس کروانے کاکام کیسے سر انجام دیتے ہو؟۔۔۔“
اس پر وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”سب میرے دماغ کا کھیل ہے مجھے کچھ بھی کرنا نہیں ہوتا۔۔۔“
میں نے پھر پوچھا۔
”کمال ہے!۔۔۔دماغ کا کھیل۔۔۔ یہ کوئی گیم تو ہے نہیں!۔۔۔ چلوایسا مان بھی لیا جائے تو پھر تم طلباء کو پاس کیسے کرواتے ہو؟“
اس پر وہ آرام سے بولا۔
”یہ بات تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ بورڈ ہر مرتبہ کچھ نمبروں کی گریس یعنی رعایت دیتا ہے اس طرح کئی طلباء جنہیں فیل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے پاس ہوجاتے ہیں۔جو پاس ہوجاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے رشوت دے کر اُنہیں پاس کروایا ہے۔اس بدولت بنا کچھ کئے بہت سی رقم میری جیب میں رہ جاتی ہے۔ جو طلباء فیل ہوجاتے ہیں ان کومیں ان کی دی ہوئی رقم یہ کہہ کر لوٹا دیتا ہوں کہ باوجود کوشش کے تمہارا کام نہیں بن سکا اور تم پاس ہونے سے رہ گئے۔اس میں میرا تو کچھ خرچ نہیں ہوتا تھوڑا سا جھوٹ ہی تو بولنا پڑتا ہے۔ اس طرح بنا کچھ کئے اچھی خاصی رقم میری جیب میں آجاتی ہے تو ہوا نہ سب میرے دماغ کا کھیل؟“
میں نے اس پر کہا۔
”جواب نہیں تمہارے شیطانی دماغ کا۔۔۔“
وہ میری بات پر غصّہ ہونے کی بجائے کھلکھلاکر ہنس پڑا۔

آج کلاس کے تمام نالائق طلباء بہت خوش تھے،وہ اپنی نوٹ بکس دوسرے طلباء کو دکھاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
”دیکھو!۔۔۔آج ہمیں انگریزی والے ماسٹر جی نے ویری گڈ (Very Good) دی ہے۔“کلاس کے ذہین طلباء یہ بات ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں تھے۔پڑھائی میں اتنے کمزور طلباء کو جن کی تحریر بھی بمشکل سمجھ آتی ہے انہیں ”ویری گڈ“ کیسے مل سکتی ہے؟انہوں نے نالائق طلباء کی کاپیاں (نوٹ بکس)دیکھیں۔لیکن ان سے اپنے ٹیچر کے لکھے ہوئے ریمارکس پڑھے نہیں جا سکے۔ بار بار کوشش کرنے پر بھی انہیں ناکامی ہی ہاتھ لگی۔ اتنے میں سکول میں چھٹی ہوگئی۔
اگلے دن انہوں نے اپنے انگریزی پڑھانے والے ٹیچر سے دریافت کیا۔
ماسٹر جی!۔۔۔دیکھنا ان کاپیوں پر آپ نے ویری گڈدی ہے؟۔۔۔“
ماسٹر جی غور سے اپنی تحریر کردہ لکھائی پڑھنے لگے۔یکے بعددیگر کئی کاپیاں پڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر کار ماسٹر جی کو کامیابی مل ہی گئی انہوں نے اپنی لکھائی کو پڑھ ہی لیا۔
”ارے بیوقوفو!۔۔۔یہ تومیں نے لکھا ہوا ہے کہ اپنی لکھائی درست کرو۔۔۔“ماسٹر جی کچھ شرمندہ سے ہوتے ہوئے بولے۔
٭٭٭


بہت لاڈ پیار سے حامد کو اس کے والدین نے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ ان کا ایک سپنا تھا کہ ان کا لاڈلا پڑھ لکھ کر ان کا نام روشن کرے۔ لہذا انہوں نے اس کی پڑھائی کے لئے قرض بھی اٹھایا۔ حامد بھی پڑھائی میں پوری دلچسپی لے رہا تھا اور ہر کلاس میں امتیازی پوزیشن سے پاس ہو رہا تھا۔حامد کے والدین اپنے لاڈلے کی اس کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔
اب حامد ایک ڈاکٹر بن چکا تھا اس لئے اس نے اپنے شہر میں ہی ایک کلینک کھول لیا۔ خوش قسمتی سے اس کی ڈاکٹری چل نکلی اور وہ روپوں میں کھیلنے لگا۔
اس روز حامد کے والداپنے ایک دوست کو حامد سے ملانے کی غرض سے اس کے کلینک میں لے گئے۔ اتفاقاً حامد کے کچھ دوست بھی اس سے ملنے آے ہوئے تھے جب حامد کے والداُس کے آفس میں داخل ہوئے تو حامد نے بنا کوئی بات سنے اپنے والد کو ویٹنگ روم میں انتظار کرنے کو کہا۔ وہاں وہ کافی دیر تک بیٹھے رہے طویل انتظار کے بعد جب وہ مایوس ہوکر کلینک سے باہر جانے لگے تو حامد کے دوستوں میں سے ایک نے پوچھا۔
”یہ بزرگ کون تھے جو آپ سے ملنے آئے تھے؟“حامد نے چور نظروں سے اپنے والد کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ بزرگ ہمارے نوکر ہیں لیکن مجھے اپنے بچوں کی مانند پیار کرتے ہیں۔“ حامد کے یہ الفاظ اس کے والد کو اپنے کانوں میں گرم سیسے کی طرح پگھلتے ہوئے محسوس ہوئے اور وہ اشکبار آنکھوں سے اپنے دوست سے بات کئے بنابوجھل قدموں سے کلینک سے باہر نکل آئے۔٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ