افسانہ افسانوی نثر

الماری (تحریر) از زاہد ظفر، افسانہ ایونٹ 2022، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 30

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _30
بینر :- عمران یوسف


افسانہ :-الماری


زاہد ظفر
شوپیان کشمیر

فرش پہ اکثر ہلکے قدموں سے چلنا پڑتا کچی اینٹوں سے بنی دیوار پے گندمی رنگ کی مٹی تھوڑی سی گر جاتی. لیکن مٹی کی خوشبو اتنی سوندھی کہ اکثر مجھے اپنی اور کھینچتی. کھڑکی سے لٹکتا ہوا وہ بے جان سا پردہ جس پہ بنے لال رنگ کے گلابی پھول مرجھائے اور بے رنگ سے لگتے تھے گھاس کی بنائی ہوئی دو بڑی بڑی چٹائیوں کے اوپر کالے رنگ کی کپڑے کی شیٹ پے جب وہ پردہ سورج کی کرنوں کو چھان کر چھوڑتا تو شیٹ پوری گلابی ہو جاتی. دیوار پہ چپکائی ہوئی اپنوں کی بلیک اینڈ وائٹ فوٹو ساتھ میں لکھے ہوئے سفید چاک سے مختلف اشعار جنہیں میں اکثر پڑھتا ہزار الجھے ہوئے سوالوں کے جواب تلاش کرتا.۔۔۔
گھر والے اُسے میرا کمرا کہتے تھے لیکن وہ ایک کوڈے دان سے کم نہ تھا ۔کتابیں،کپڑے باقی ضرورت کی چیزیں سارے کمرے میں بکھری پڑی رہتی تھیں۔ میں انہیں اور وہ مجھے ایسے دیکھتی جیسے کہ وہ قیدی اور میں دربان جو چاروں پہر ان کی نگرانی کرتا رہتا۔ ہر روز اپنے آپ سے کہتا کہ کل صفائی کروں گا لیکن ہر دن کل پے ہی چھوڈ دیا جاتا تھا ۔ایک کرسی جو میری وفادار تھی ۔میں اکثر اُس پے ٹیک لگا کر سوجاتا یا کبھی اس پر بیٹھ کر کچھ لکھ یا پڑھ لیا کرتا۔ میں آج بھی اسی لکڑی کی کرسی پے آنکھیں بند کیے ہوئے کسی گہری سوچ میں تھا کہ اچانک خنکتی چوڑیاں خاموشی کو توڑتی ہوٸی میرے کان کے پردوں سے ٹکرائی جیسے کوٸی سریلا ساز بج رہا ہو اور پھر پائل کی آواز نے اس ساز میں اور بھی مٹھاس بھر دی ۔کوئی اچانک میرے کمرے میں آگیا ۔آتے ہی اُس کا سامنا بکھری پڑی کتابوں اور کپڑوں سے ہو اور پھر جا کے اُس کی نظر ہم پے پڑی وہ آہستہ سے بولے ”کمرے کی یہ حالت“ توبہ توبہ إ
کم سے کم کتابیں نہ سہی کپڑے تو اپنی جگہ ٹانگا دیا کرو یا پھر تہہ کر کے الماری میں رکھ دیا کرو۔کتاب پڑھنے کے بعد اُسے اپنی جگہ رکھنا ایک اچهی عادت ہے ۔ بچے تو ہو نہیں ؟
میں خاموش سنتا گیا جو وہ بولتے گئے ۔پہلی بار ہمیں کسی نے احساس مند بنادیا۔کپڑے تہہ بھی ہوتے ہیں ؟ کتابیں ترتیب وار رکھی جاتی ہیں؟ ایسا میں پہلی بار سن رہا تھا ۔ اُس نے کمرے کی ساری چیزیں اپنی جگہ ترتیب وار رکھیں ۔اُس چھوٹے سے کمرے میں بہت ساری جگہ نکل آئی ۔ایک پرانی کپڑے کی شیٹ جو میرے خیال میں کسی کام کی نہیں تھی جناب نے اُس کو میز پر ڈال دیا۔وہ پرانا میز پھولوں والی گلابی شیٹ سے بالکل نیا ہو گیا ۔پیدان {Door mat}جس کو میں نے کرسی پہ رکھا ہوا تھا، جناب نے اسے دروازے کی دہلیز پر اپنی جگہ رکھ دیا ۔میں تو اب اس پیدان کے کام کو سمجھ رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ میرے من میں یہ خیال آج تک کیوں نہیں آیا ۔چھوٹی چھوٹی چیزوں کا استعمال بھی کبھی کبھی بڑا پیارا اور اچھا لگتا ہے۔آج میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی بھی چیز بیکار نہیں ہوتی۔ بیکار تو ہم انہیں بنادیتے ہیں ۔اپنے ہی کمرے کو نہارتے ہوۓ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ میرا ہی کمرا ہے اور وہ بھی اتنا خوبصورت ۔وہ اچانک بولا کمرے کی ہی نہیں بلکہ خود کی حالت بھی خراب کر رکھی ہے ۔جب سے اکیلے رہنا شرو ع کیا ہے اکیلے ہی رہ گئے ہو ۔پرانا بوسیدہ فرن ڈال رکھا ہے ۔داڑھی لمبی رکھ لی ہے ،مونچھیں حد سے زیادہ بڑھ گٸ ہیں اور پرانے گانے سننے لگے ہو۔
میں ہلکاسا مسکرایا اور پھر ایک ہارے ہوۓ سپاہی کی طرح اُٹھا۔ الماری میں لگے پرانے شییشے میں اپنی شکل دیکھی ۔میں بالکل غالب جیسا لگا رہا تھا۔ ویسے تو غالب میرے پسندیدہ شاعر ہیں ۔اُس نے اچانک مجھے ایک طرف ہونے کو بولا اور الماری کھولی ۔وہ الماری شاید چار سال بعد پہلی بار کھلنے والی تھی۔ اُس میں میرا ماضی دفن تھا ۔جیسے جیسے اُس الماری سے چیزیں باہر آنے لگیں میری زندگی میرے سامنے بکھرنے لگی ۔لال رنگ کا ڈبہ جوں ہی اُس نے باہر نکالا اُس میں ڈھیر سارے عید اور نٸےسال کے مبارک بادی کے کارڈ لٹکتے ہوٸے نیچے گرے۔میرا ماضی میرے سامنے میرا حال بن کے بکھرا ہوا تھا ۔نئے،پرانے ،رنگ،بے رنگ سارے میں نے اپنے ہاتھ میں تھام لیے جن کو دینے والے ہاتھ نہ جانے کب کسی اور کی انگوٹھی پہن چکے تھے ۔ایسے موقع پہ اکثر مجھے غالب یاد آجاتے ہیں۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا۔۔
اُوپر والا بھی کیا خوب کہانیاں لکھتا ہے ۔شاید کبھی اطمینان اور کبھی جلدبازی سے لکھتا ہوگا۔سب سے پہلا والا کارڈ جو بہت میلا ہو چکا تھا اس پر لکھا ہوا ایک ایک لفظ دیکھ کر اُس شروعاتی اور کچی محبت کا احساس ہوا۔اس کے بعد والا کارڈ بڑا رنگین تھا۔ اُسے دیکھتے ہی پہلی محبت کا احساس ہوا جو صرف جوانی میں ہوتا ہے۔ آج یہی احساس مجھے کچھ سال پیچھے لے جارا تھا۔ ایسے اور بھی بہت سارے کارڈ میرے ہاتھ میں تھے۔ میں سب کو دیکھتا لیکن اُس سے پہلے میرے ہاتھ میں ایک ایسا کارڈ آیا جسے دیکھتے ہی میرے ہاتھ تھرتھرانے لگے چہرے نے سو رنگ بدلے۔آنسوں میری کرسی کے سامنے رکھے ہوۓ میز پہ گررہے تھے اور بے تحاشا غالب یاد آریے تھے۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آۓ کیوں۔
روٸیں گے ہم ہزار بار کوۓ ہمیں ستاۓ کیوں.
اچانک کوئی اپنی نرم انگلیوں سے میرے چہرے سے آنسوں صاف کرنے لگا اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ [میں تمہارا اکیلا پن دور کرنا چاہتا ہوں]
میری سانس تیز ہو رہی تھیں ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے تھے ۔ میرے ہونٹ اُس کے ہونٹوں سے ٹکرانے ہی والے تھے کہ جلد ہی میں نے خود کو قابو کر لیا ۔آج پھر میرے ساتھ وہی ہونے والا تھا ۔شاید میں پھر کسی کے ہاتھ کا پیار والا پہلا کارڈ لینے جارہا تھا۔ “ایک غلطی اور سہی “دل ہی دل میں بول کر میں نے خود کو سمجھا لیا۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ