افسانچہ افسانوی نثر

ڈاکٹر نذیر مشتاق کے 10 افسانچے


ارے میں نوے سال کا ہوچکا ہوں میں نے زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا ۔۔۔اج کیوں ڈالوں ۔۔۔۔۔خواجہ بدرالدین عنایتی نے اپنے بیٹے شاکر عنایتی سے کہا ۔۔۔۔۔یہی تو بہت بڑی غلطی ہے ۔۔ہم اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتے ہیں ۔۔۔ہم اپنے ووٹ کی طاقت سےبے خبر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاکر عنایتی نے باپ کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
آج میں چنار پارٹی کی طرف سے لوک سبھا الیکشن کے لیے امیدوار ہوں ۔۔۔۔آپ کو کسی بھی صورت میں ووٹ ڈالنا ہی پڑےگا ۔۔۔۔میرے لیے۔۔۔۔۔شاکر عنایتی نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتیجہ آگیا ۔۔۔۔تاریخ رقم ہوگئی ۔۔۔۔۔
شاکر عنایتی صرف ایک ووٹ سے الیکشن جیت چکا تھا ۔۔

میاں بیوی کمرے میں بکھرے سامان کو ترتیب دے رہے تھے ۔۔۔ان کا چھوٹا معصوم بیٹآ بھی ان کی مدد کر رہا تھا ۔۔۔۔مرد مختلف موضوعات پر کتابوں کو الماری کے شیلفوں میں رکھ رہا تھا ۔۔اچانک بیٹے نے اس کی طرف قرآن بڑھایا اور کہا ۔۔ڈیڈی اسے الماری کے سب سے اوپر والے شیلف میں رکھدیں
باپ خوش ہوا کہ بیٹا قرآن شریف کی عظمت اور حرمت جان چکا ہے ۔۔پھر بھی اس نے بیٹے سے پوچھا
کیوں بیٹا ۔۔الماری کے اوپر والے شیلف میں کیوں رکھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے نے بیچ والے شیلف میں کوئی کتاب رکھتے ہوئے کہا
کیونکہ یہاں اسے کوئی پڑھتا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


الیکشن نزدیک آنے کی وجہ سے۔۔اس علاقے میں دھنگے فسادات کروانا بہت ضروری ہے غنڈوں کے۔۔۔سربراہ نے زر خرید بلوائیوں سے کہا اور پھر اچھی طرح سمجھایا کہ کس طرح عبادت گاہ میں جانور کا سر اور آدھا جسم رکھنا بے ۔۔۔۔۔۔بلوایوں نے ویسا کیا ۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف آگ لگ گئی اور بہت سارے لوگ مارے گئے ۔۔۔۔شام کو سارے بلوائی اپنے ہیڑ کوارٹرمیں شراب سے اپنی دن بھر کی تھکان دور کر رہے تھے
کباب تو بہت ہی مزیدار ہے ۔۔۔ایک بلوائی نے کباب کا دوسرا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا اور باورچی سے پوچھا ۔۔۔۔۔گوشت کہاں سے لایا
کہاں سے لاتا یہ اسی جانور کا گوشت ہے جو عبادت گاہ میں رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔یہ سن کر سب بلوائی ایک دوسرے کی طرف عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔ ایک بلوائی نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
سالے یہ کیا کھلایا ہم کو جانتا نہیں اس جانور کا گوشت ہم پر حرام ہے ۔۔۔

۔
مسجد کے امام کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مسجد میں مسئلہ پیدا ہوا کہ نماز با جماعت کو ن پڑھانے ۔۔۔۔۔۔مسجد کے ان پڑھ اور دین سے بے خبر صدر نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔مگر کؤی فیصلہ نہیں کرسکا ۔۔۔اس کے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے دبے الفاظ میں اس سے کہا ۔۔۔۔۔۔وہ دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص اسلامک سٹڈیز میں ماہر ہیں وہ امامت کے فرائض انجام دے سکتے ہیں ۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔صدر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔میں نے اسے آتے ہؤے دیکھا ۔۔اس کی تو داڑھی بہت چھوٹی ہے ۔۔اس کا پینٹ ٹخنوں سے نیچے تھا ۔۔۔۔
تو کیا ہوا ۔۔عالم دین تو ہے ۔۔نوجوان نے کہا
مگر پہلے یہ تو پتہ چلے کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور کون سے مسلک کی پیروی کرتا ہے۔ہماری لاین کا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔ ،،


مرد دکاندار کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔اس کے چھ سالہ
بیٹے نے فرمایش کی ۔۔۔۔بابا چوکلیٹ ۔۔۔۔ مرد نے سو روپے کا چوکلیٹ بیٹے کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے اسکے گال کو چوما ۔۔۔
اس کے پیچھے کھڑی اس کی آٹھ سالہ بیٹی نے کہا۔۔۔۔بابا مجھے بھی ۔۔۔۔
مرد نے دکاندار سے کہا ۔۔وہ پانچ روپے کا چوکلیٹ اسے دے دو ۔۔۔۔


آج تم ساتویں ڈاکٹر کے پاس گیے ۔۔۔اخر کب تک ڈاکٹروں کے کلینکوں کے چکر لگانے رہو گے ۔۔۔۔امجد نے اپنے دوست سلیم سے کہا ۔۔۔۔۔۔سلیم نے جواب دیا۔۔۔ارے یار یہ ڈاکٹر لوگ کچھ کہے سنے بغیر اتنے سارے ٹیسٹ اور دوایاں لکھتے ہیں کہ خدا کی پناہ
میں کسی ڈاکٹر کے علاج سے مطمئن نہیں ہوا میں نے سارے نسخے پھاڑ دیے ۔۔۔۔۔
چلو میں تمہیں ایک ایسے ڈاکٹر کا ایڈریس دوں گا جو تمہاری پوری ہسٹری سنے گآ تم اس کے پاس ضرور جاؤ ۔۔۔
سلیم ڈاکٹر کے پاس گیا ۔۔ڈاکٹر نے بڑی دلچسپی سے اس کی ہر بات سنی ۔۔۔اور دوایاں تجویز کیں
دوسرے دن اس کے دوست نے اس سے کہا ۔۔دیکھا کیسا ڈاکٹر ہے ۔۔کتنے غور سے مریض کی باتیں سنتا ہے۔۔تمہیں کیسا لگا ۔۔۔
ارے یار ۔۔کیا۔بتاوں وہ ڈاکٹرمیرے ساتھ۔ادھ گھنٹہ باتیں کرتا رہا اور پھر کوئی ٹیسٹ کیے بناءنسخے پر دو معمولی دوایاں لکھ دیں۔


سلام الدین وگے میووں کا تاجر ہے وہ فروٹ منڈی میں سیٹھ وجاہت ملک سے قرضہ پر میوہ لیتا تھا
گرمیوں کا موسم تھا ۔۔۔تربوزہ کا موسم تھا ۔۔اس نے سیٹھ سے تربوزوں کی ایک بھری ہوئی ٹرک مانگی
مگر سیٹھ نے کہا ۔۔پہلے پچھلا قرضہ ادا کرو ۔۔۔ یہ سن کر سلام الدین کے دل کو ٹھیس لگی ۔اور وہ سیٹھ پر ایک غصب ناک نگاہ ڈال کر چلا گیا۔۔۔۔
سیٹھ کے پاس تربوزوں سے بھرے ٹرک تھے مگر خریدار ندارد ۔۔تربوزے سڑنے لگے لاکھوں کا نقصان ہورہا تھا۔۔۔۔وہ پریشان ہوا اس کا بلڑ پریشر بلندیوں کو چھو نے لگا۔۔۔۔اس نے اپنے ملازم مختلف بازاروں میں بھیجے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھان بین کرنے کے بعد اسے پتہ چلا کہ سلام الدین نے مختلف ذرایع سے ہر جگہ افواہ پھیلائی ہے کہ باہر سے لاے گیے تربوزے کھانے سے معدے اور انتڑیوں کی خطرناک کینسر جیسی بیماری ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایسے زہریلے انجکشن بھر دیے جاتے ہیں جن سے یہ بہت شیرین اور سرخ ہوجاتے ہیں ۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنرل پرووجنل اسٹور کے ہیڑ سیلز مین نے اسٹور کے مالک۔سیٹھ کمال الدین نورانی سے کہا ۔۔۔۔حضور۔۔۔۔۔ایک ہزار پی کاک برانڑ تیل کے ڈبوں کا آرڈر ہے ۔۔۔۔۔۔
ریجیکٹ کرلو ۔۔۔۔۔۔سیٹھ نے فوری جواب دیا
مگر کیوں حضور ۔۔۔۔۔منیجر نے حیرانگی سے پوچھا
سیٹھ نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔جلد ہی ماہ رمضان شروع ہونے والا ہے ۔۔۔


پروفیسر عظمت علی جنوبی افریقہ میں تبلیغی جماعت کے ساتھ کافی وقت گزارنے کے بعد واپس آیا تھا اور آج اپنی بہن سلیمہ بیگم سے ملنے گیا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی بہن کی ترقی دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔۔اس کی بہن اب عالی شان مکان میں رہتی ہے اور شوہر کا کاروبار بھی بہت پھیل چکا ہے ۔۔۔۔۔اس کی چار سالہ بھانجی اس کی گود میں بیٹھی تھی اور پروفیسر چاے کی چسکیاں لے رہا تھا ۔۔۔۔ بہن یہ ننھی سی گڑیا صرف انگریزی میں بات کرتی ہے ۔۔ایسا کیوں
پروفیسر نے سلیمہ سے پوچھا ۔۔۔
بھائی صاحب وقت کا تقاضا ہے ۔انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے ۔۔ہماری زبان تو بانہال ٹنل تک محدود ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے اسے ٹرینڈ کیا ہے آپ اس سے کؤی بھی سوال پوچھ لیں یہ انگریزی میں جواب دے گی ۔۔۔۔پروفیسر نے بچی سے ملکوں مہینوں دریاؤں جھیلوں پھلوں پھولوں سبزیوں کھیلوں فلموں کے بارےمیں پوچھا ۔۔اس نے ہر سوال کا جواب دیا ۔۔۔۔پروفیسر بہت متاثر ہوا ۔۔۔۔اس نے بچی کو سینے سے لگا یا اور اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا ۔۔تم تو چلتا پھرتا انسائکلوپیڈیا ہو ۔۔۔
اچھا میری جان۔۔۔۔اب زرا کلملہ سناؤ۔۔۔۔
کلمہ ۔۔۔۔۔بچی نےکچھ نہ سمجھتے ہوئے ماں کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔
موم ۔۔۔واٹ از ۔کالما۔۔۔۔۔۔


زونہ دوڑتی ہوئی ڈاکٹر روبی کے فلیٹ کی طرف جو اسی کمپلکس میں تھا جہاں وہ کلاس فورتھ کوارٹر ز میں رہتی ہے دوڑنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر روبی ایک ایمرجنسی آپریشن کرکے ابھی ابھی آی تھی اور کپڑے بدل رہی تھی۔۔۔۔۔۔اس نے ہانپتی کانپتی زونہ جو ہسپتال میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے کو دیکھا تو سمجھ گیی کہ ماجرا کیا ہے۔۔۔۔۔۔،اس نےتولیہ سے چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔کیوں زونہ اج پھر اس نے تم کو مارا۔۔۔۔۔۔۔زونہ نے آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ہاں ڈاکٹر صاحبہ۔۔اج بہت مارا۔ آج تو۔ لاتوں اور گھونسوں کی بارش ہوئی۔۔لگتا ہے آج کمر کی ہڑیاں چور چور ہوگئی۔ہوںگی۔۔۔۔۔۔اج شاید کچھ زیادہ ہی پی لی تھی اس لیے میری ہڑی پسلی ایک کردی۔۔۔۔چھوڑو ڈاکٹر صاحبہ ۔۔۔۔۔۔۔کیا کروں۔۔۔
چلو تمہارا معاینہ کرتی ہوں دیکھوں کہ کہاں کہاں چوٹ لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر روبی نے اسثیتھوسکوپ اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحبہ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔بات در اصل یہ ہے کہ۔ ۔۔۔۔اس نے جب میری ناک پر زور دار مکہ مارنا چاہا میں ڈر کے مارے جھک گئی۔۔۔اس کا ہاتھ۔ کھڑکی کے شیشہ سے ٹکرایا۔۔شیشہ چکنا چور ہوا اس کا ہاتھ بہت زخمی ہوا۔۔۔۔میں نے جلدی سے دوپٹہ کاٹ کر اس کے ہاتھ پر باندھا۔۔۔۔۔۔اب مجھے جلدی سے گاز ٹیوب کاٹن اور درد کی گولیاں دیجیے۔۔۔۔۔اسے بہت درد ہورہا ہوگا ۔۔۔۔۔جلدی کریں۔۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ