افسانہ افسانوی نثر

ہمارے اپنے محسن جی (ایک مختصر کہانی) از ویریندر پٹواری

جی این کے اردو

ہمارے اپنےمحسن جی!
ایک مختصر کہانی ۔۔۔۔۔۔ویریندر پٹواری
میں ایک قلمکار اور فلمکار ہوں ! مجھے اپنے تصورات سے ابھرے واقعات سے جڑے خیالاتی حالات کی بجائے، اپنے چشم دید حقیقی سماجی ، ثقافتی و اقتصیادی واقعات سے ابھرے حالات پر موضوعاتی فلمیں بنا نے کا جنونی شوق ہے! پہلی بار اپنی مادری زبان میں ایک فلم بنانے کی تیاریاں کر رہا ہوں ! اور اپنے آبائی شہر میں ، لوکیشنز کی کھوج کے ساتھ ساتھ اپنی فلم کےاہم کرداروں کو فطری انداز میں ادا کرنے والے فنکاروں کی تلاش کررہا ہوں !
میں اپنے ان سبھی ہم جماعتیوں سے مل چکا ہوں جو میرے ساتھ تھیٹرکیا کرتے تھے! اوران سے مل کر یوں محسوس کرچکا ہوں گویا برسوں پرانی یادوں کا جم چکا گلیشیر، اپنایئت کے احساسات کی سہانی آنچ سے ،پگلتےپگلتے، ہمیں ہماری ہی بھولی بسری داستان سنا چکا ہے ! اور ان عذاب دہ واقعات کی یادیں بھی تاذہ کر دی ہیں جب فنون ء ادب کے سبھی شعبوں سے مقصداّ دوریاں رکھنے والے، ارادتاّ مستقبل میں ہمارے معقول روزگار کے امکانات کو ، معاشراتی اختلافات سے ابھرے خدشات کے شکار بنا کر، ہماری حوصلہ شکنی کرنے کے عادی ہوا کرتے تھے !
میں خوش ہوں کہ تقریباّ تیس برس بعد، اپنوں کی بھری بزم میں ماضی کی یادوں سے ابھرے تجسس کے حوالات سے جڑے سوالات کے جوابات سن کر یہ جان چکا ہوں کہ انقلابی تدبیروں پر عمل کرنے والے میرے سبھی ہنرمند ساتھیوں نے، اپنے تصورات کو حقیقت میں بدلنے کی خاطر اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا تھا! اوراب گوگلز کے رواں دور میں وہ سب، اپنی اعلی تعلیمی قابلیت،سے جڑی اپنی فنّی صلاحیتوں کے دم پر فنون ءادب سے جڑے ؛ سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں اپنی تخلیقی و انتطامیہ لیاقت سے معاشرے میں اپنی ثمر آفرین اہمیت کا احساس دلانے میں کامیاب ہو چکے ہیں !
مگر آج جب میں نےاپنے اس انوکھے جماعتی کا ذکرچھیڑا ،جس نے مجھے’ فلمولا’ کا نام دیا تھا، تب بھری بزم میں پھیلی سنسنی خیز خاموشی نے مجھے خوفذدہ کر دیا ! اس سے پہلے کہ میں اپنی سراسیمگی کا اظہار کر پاتا میرے سبھی ہنرمند جماعتی ، معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ، مجھے گھورتے ہوئے ایک ساتھ بول پڑے! ” کون۔۔۔۔؟ وہ ۔۔۔۔ ؟ !۔۔۔۔ ‘ وہ ہمارے اپنے محسن جی ‘؟
اور پھر جب وہ سب سوالیہ نگاہوں سے مجھےدیکھ کر شرارتاّ کھلکھلا کر ہنستے رہے تب میں انکی کیفیت بھانپ گیا! مگر ایک جذباتی جھٹکے کی شدّت نے مجھے یہ جانکاری دی کہ ، ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود میرے سبھی ساتھی؛ یہ نہیں جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے!
مگر میں نے ماضی کے دریچے سے جھآنک کر دیکھا تو ہمارے محلے کے واحد عالیشان بنگلے میں رہنے والے اور اپنے اسکوٹر پر کالیج آنے والے ہم عمر پڑوسی اور ہم سب کے جماعتی کی یادیں تازہ ہوگیئں !
میں ایک کروڈ پتی جنگلات کے ٹھیکیدار کے اکلوتے بیٹےسورج پرکاش کی ذہنی کیفیت سے آشنا تھا ! اور یہ جانتا تھا کہ ‘محسن’ نہ تو اسکی خاندانی شناخت تھی اور نہ اسکا اپنایا ہوا ایک تخلص تھا! بلکہ اسکےاپنے تراشے غریب پرور کے کردار کی ڈرامائی نمائیش کیلئے ؛ اسکا خود اپنایا ہوا ایک لقب تھا !
سورج پرکاش مجھے محلے میں اجنبیت کا احساس دلا کر اور کالیج میں اپنایت کا احساس دلا نےکے باوجود ٹالنے کی کوشش کرتا رہتا تھا ! مگر کسی نہ کسی،سنیما ہال کے احاطے میں اکثر مجھے، فلم دیکھ چکے لوگوں کی بھیڑ میں یوں ڈھونڈتا رہتا تھا گویا مجھ سے ملنا اسکا واحد مقصد ہوا کرتا تھا! اورباربار ملن کی خوشی کے تاّثرات کے اظہار کے ساتھ وہ ہر بار اپنی گفتگو کا آغاز اپنے ایک ہی سوال سے کرنے کا عادی ہو چکا تھا !
“میرے ہم نفس میرے ہم نوا پیارے فلمولے ! کیا تم اپنے پیارے ‘محسن جی’ کے ساتھ ،ایک بار پھر یہ فلم دیکھنا پسند کرو گے؟ اور میں کوئی جواز دیئے بغیراسکو ٹالنے کا عادی ہو چکا تھا ! لیکن یہ سچ ہے کہ میری بے رخی کے باوجود ، وہ اپنی گفتگو کو جاری رکھنے کی خاطر ؛ مجھے کسی ریسٹورنٹ میں میری بے لوث خاطرداری کرنے کا عادی تھا ! ہر بار کچھ کہتے کہتے رک کر ایک تذبذب کا شکارہوکر؛ کچھ کہے بغیر مجھے اپنے اسکوٹر پر بٹھا کر گھر پہنچایا کرتا تھا ! اور میں یہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ کیا ہے جو وہ روبرو ہوکر مجھے بتا دینا چاہتا ہے مگر بتا نہیں ہے !
سورج پرکاش کالیج کے احاطے میں میری موجودگی کو ایک ناظرکی دلچسپی کانام دے کرمجھے ٹال کر اپنے ارد گرد کھڑے تماشہ بین کو وہ اپنے مداحوں کا نام دے کر،اپنی کارکردگیوں کو سخاوت کا نام دینے کا عادی تھا ! جبکہ میں ، قابلء توجہ پوشاکیں پہن کر، گلے میں مالایں ڈال کر؛ تواریخی فلموں کے کرداروں کی عکاسی کرتے ہوئے رٹّے ہوئے فلمی مکالمےبولنے والے اپنی خیالی دنیا کے غریب پرور شہنشاہ کو دیکھنے کا عادی ہو چکا تھا ! مگر مقصداّ ضرورت مندوں کی شناخت کرنے کے الہام کا مظاہرہ کرنے والے ایک بگھڑ چکے ریئس ذادے کو دیکھ کر چونک پڑتا تھا ! خاص طور پر تب جب وہ ‘ ہمارے اپنے محسن جی !’ کا جملہ بولنے والے کسی بھی شناسا یا اجنبی فریادی کی مانگیں پوری کرتا رہتا تھا ! اور اکثراپنی ہاں میں ہاں ملا کر ،احسان مند ہونے کا یقین دلا کر ،اپنی مانگیں پوری کروانے کے عادی؛ چند چالاک مطلب پرست لڑکوں کی موجودگی میں فنونءادب سے جڑے سبھی ہنر مند جماعتیوں کی بے رخی سے بوکھلا کر، اپنی ہردل عزیز ہونے کے مظاہرے کرتے ہوئے پڑھائی میں دلچسپی لینے والوں کو ‘کتابی کیڑے’ کہہ کر انکا مذاق اڑایا کرتا تھا ! فن ء مصوری کے شوقین لڑکوں کو’رنگ ساز’ اور موسیقی سے سامعین و ڈراموں سے ناظرین کو متاثر کرنے والوں ہم جماعتیوں کو طنزاّ میراسی ہونے کا احساس دلا کراپنی اہمیت کا احساس دلاتا رہتا تھا !
اور تب میں یہ سوچتا رہتا تھا کہ میرے ساتھیوں کو دور رکھ کر نفرت کا احساس دلانے والا میرا پڑوسی میری ‏عزت افزائی کرتے ہوئے کیا یہ چاہتا تھا کہ میں بھی اسکو محسن ہونے کا یقین دلا کر ،اپنی کوئی مانگ پوری کروا دوں ؟ یا پھر وہ انتظار کر رہا تھا کہ کب، میں اسکے احسانات کا قرضہ اتارنےکیلئے،اسکے ساتھ کوئی فلم دیکھ کر اسکی مانگ پوری کردوں ! اپنے سوالات کے جوابات جان لینے کی خاطر، آج میں اپنےفنکار دوستوں سے ملنے کی بجائے،سورج پرکاش کے گھر جاکر، اسکے ساتھ اپنے لیپ ٹاپ پر اپنی تازہ ترین فلم دیکھ کر اسکی مانگ پوری کر دوں ! اسلئے اسکےاحسانات کا قرضہ چکانے کی خاطراس سے ملنے آیا ہوں !
ایک طویل عرصے کے بعد آج ، اپنے شناسہ بک چکے موروثی مکان کے ساتھ جڑے ‘سورج مینشن’ کی پھاٹک جب چوکیدار کی بجائے سورج کے بوڑھے باپ نے کھول دی تو چونک پڑا ہوں !اور ایک بے شکل کے تذبذب کا شکار ہوکر یوں محسوس کر چکا ہوں گویا ایک حسین منظر کو دھویں نے دبوچ کرمجھے عذاب دہ آنسوں بہانے کیلئے مجبور کردیا ہو ! بوڑھے باپ نے مجھے یہ جانکاری دی کہ کہ اگرانہوں نے مجھے پہچان نہیں لیا ہوتا،تو پھاٹک کھولنے کی بجائے اپنے چوکیدارسے کہلوا دیا ہوتا کہ اسکا بیٹا کسی سے بھی مل نہیں سکتا !
بد بخت باپ نے مجھے اپنے عالیشان مگر ویراں ڈراینگ روم میں بٹھا کر ،سسک سسک کر اپنے بیٹے کے بارے میں جانکاری دی تو میں یہ جان گیا کہ سورج پر پچھلے بیس برس سے گرہن لگ چکا ہے !بوڈھا باپ یہ جانتا تھا کہ کالیج میں پڑھ رہا اسکا غریب پرور اپنے ساتھیوں کی مدد کرنے کی خاطرامیر باپ کی تجوری سے روپئے نکالتا رہتا تھا ! اوروہ اپنی بن ماں کی اپنی اکلوتی اولاد کو کبھی روکنے ٹوکنے کی بجائے اسکی غریب پروری کی حوصلہ افزائی کرنے کے عادی تھے ! جب بیٹا جوان ہوا تب مصروف باپ نے ایک مشترکہ بینک کھاتا کھول دیا تھا !
اور سورج کو ‘ہمارے اپنے محسن جی’ کے لقب سے مخاطب ہوکر ہر خاص و عام کو چھوٹی بڑی رقوم کے چیک دے کراپنی غریب پروری کا دعوی کرتے ہوئے اپنی انّا کو تسکین پہنچانے کا چشکہ لگ چکا تھا !مگر ایک شاطر نے ‘ہمارے اپنے محسن جی!’ کا جملہ بول کر اپنی بیوی کے آپریشن کیلئے ،سورج کو الّو بنا کر ایک کورا چیک لیا تھا !اور پیشہ ور جعالساز نے چیک میں اتنی بڑی رقم لکھ دی تھی کہ بینک منیجرنے باپ بیٹے دونوں کو فون پر اپنے شکوک کی جاانکاری دے کرگویا دونوں پر برق گرا دی تھی ! باپ کے صدمے کی شدّت محسوس کرتے ہوئے بیٹا اپنے باپ کی موجودگی میں ہ تقریباّ بیس برس پہلے ایک ٹوٹ چکے مینار کی ماند گر کر پھر اٹھ نہیں پایا تھا ! علاج پر لاکھوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود وہ اپنے کمرے میں رہنے لگا ہے ! ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق سورج بول سکتا ہے ! مگر بولتا نہیں !! وہ چل سکتا ہے ! مگر چلنے کی بجائے ویہئل چیر پر بیٹھ کر دن بھر اور گئی رات تک لیپ ٹاپ پر پرانی فلمیں دیکھ کر اکثر بڑبڑاتا رہتا ہے ! میں نے جب سورج کو اپن لیپ ٹاپ پر اپنی فلم دکھانے کی خواہش ظاہر کی تب سمجھدار باپ نے مجھے اپنے بیٹے سے ملنےکی اجازت دی ہے ! سورج کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر دروازے پر لگے پردے کوہٹا کر جب میں سورج کو دیکھا تو یوں لگا جیسے میں کالے بادلوں کو چیر رہی ایک روشنی کی کرن دیکھ رہا ہوں ! سورج آج بھی ایک شاہی طرز کا لباس پہن کر،ایک ویہیل چیر پر بیٹھ کر میری تاک جھانک سے بے خبر ہے ! اور میز پر بکھرے فلموں کے کیسٹس کو ٹٹول کر ، ویڈیو کیسیٹ پلیر پر، غالباّ اپنی پسند کی فلم کا کیسیٹ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے ! اور اسکی آنکھوں میں عیاں تذبذب کے عکس، اسکے بے آواز ہونٹوں کی تھرتھراہٹ اور چہرے پر ابھرے تاثرات اسکی بے بسی کوعیاں کررہی ہے ! اور میں بحیثیت ایک فلم کار،کیمرے کی آنکھ سے ایک منجھے ہوئے اداکار کے پہلے شاٹ کو’اوکے’ مان کر؛ شاٹ کو ‘کٹ’ کرنے کے بعد عظیم فنکار کو مبارک باد دیا چاہتا ہوں !
میری جانی پہچانی آواز میں اپنا پسندیدہ جملہ ‘ہمارے اپنے محسن جی’ سن کر سورج کو میری موجودگی نے چونکا دیا ہے ! اور میں اسکے ساتھ اپنی فلم دیکھنے کی فرمایئش کرنے کی بجائے،ایک گزارش کر بیٹھا ! میں اپنی مادری زبان میں ایک فلم بنا رہا ہوں ! میری فلم میں ،میرے ساتھ کام کرو گے ؟ جواباّ ہاں میں سر ہلا کر وہ مسّرت کی قوت سےاچھل کر اوراپنی دبّی خواہش پوری ہونے والی امید کی طاقت سے وہ اپنی فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرامائی انداز میں بغل گیر ہو کر بول پڑا! ” تمہاری فلموں میں دیچسپی بھانپ کر میں نے تمہیں فلمولا کا نام دے کر اپنا ہم نوا بنانا چاہا تھا ! میں کبھی تمہارا محسن نہیں تھا ! مگر آج سے تم میرے محسن ہو ! “
سورج کا بوڑھا باپ ہم دونوں کی ان کہی کہانی سن کر مجھے محسن کی بجائے مسیحا کا لقب دے چکا ہے!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭ ویریندر پٹواری ( غیر مطبوعہ)

— with Veerinder Patwari.
Ashok Patwari
An interesting short story revolving around the characters for whom cinema remained an amazing medium in the 50s and 60s when they had no access to any other visual entertainment except movies. This story introduces us to an interesting character Mohsin Ji whose life itself is immensely influenced by the glamour world. Very well-conceived plot with interesting treatment.????????
Reply28 m

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ