GNK URDU Literary Webdesk, 19 May 2024
عشرت معین سیما کے افسانوں کی معنوی جہت اور انکا تخلیقی پس منظر
صدف اقبال بھدیہ ، گیا ، بہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقسیم ہند کے بعد اردو زبان و ادب کا دوسرااہم مرکزپاکستان ٹھہرا ۔گو کہ اس فرضی جغرافیائی تقسیم سے پہلے بھی اس خطے میں جسے پاکستان سے موسوم کیا جاتا ہے خاص طور سے پنجاب میں اردو ادب ایک دبستان کے طور پر قائم و دائم تھا ۔ گوکہ کبھی بھی اسے دبستانِ پنجاب کا نام نہیں دیا گیا ۔اس سر زمین میں پیدا ہوئے ادبی شخصیات کے ذکر کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اردو کا ہر باشعور قاری پنجاب کے ادبی خدمات سے واقف ہے ۔ تقسیم کے فوراََ بعد مہاجرت کا ایک المناک سلسلہ شروع ہوا اور ہندوستانی صوبوں بطور خاص بہار اور یوپی سے اردو بولنے والا ایک بڑا طبقہ کراچی سندھ میں آن بسا ۔پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ۔اس طرح اس زبان کو فروغ پذیر ہونے کا بہترین موقع حاصل ہوا ۔میرا مقصد یہاں اردو زبان کے ترقی و ترویج کی تاریخ کا بیان نہیں ہے ۔عرض یہ کرنا ہے کہ ہجرت کے المناک واقعے کے بعد ۔ہندوستان سے مہاجرت کرنے والے افراد کے تجربات و مشاہدات میں انقلابی تبدیلیاں آئیں ۔اجنبی سرزمین پر اپنی جڑوں کو پیوست کرنے کا عمل ایک جدوجہد کی صورت اختیار کر گیا ۔تاریخ میں انسانی زندگی کا اس سے بڑا المیہ شایدہی رقم ہو ۔ایک طرف نئے ثقافتی اور تہذیبی منظر نامے میں اپنے وجود کے بقا کی جنگ اور دوسری طرف تقسیم کے عطا کردہ زخموں کے لئے مرہم کی تلاش ۔اردو افسانوی ادب کا ایک بڑا حصہ شاید اسی سانحے کا موضوعاتی اختصاص لئے ہوئے ہے ۔خدا کی بستی سے لے کر آگ کا دریا تک ،منٹو کے افسانوں سے لے کر اشفاق احمد کا گڈریاتک تقسیم کے المیے کی ایک نامختتم داستان ہے اور ہنوز جاری ہے ۔اس پس منظر کودیکھیں تو اب پاکستان میں تقسیم کے بعد وجود میں آئے تیسری نسل فکشن کے ذریعے اپنے تجربات و مشاہدات کو پیش کر رہی ہے ۔ایک تو سیاسی ہجرت ہے اور جو لوگوں پر مسلط کی گئی ۔اس کے ساتھ ساتھ ہجرت کی ایک دوسری صورت بھی معرِضِ وجود میں آگئی یہ ہجرت معاشی ہجرت تھی اور ہے ۔ اس کے پس پشت کارفرما جو محرکات ہیں ان میں سب سے اہم محرک خوابوں کا فنا ہو جانا ہے ۔ایک پر سکون وطن اور پرسکون زندگی کا خواب قوم کی معاشی ناکامی نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ آب و دانہ کی تلاش میں گلوب پر کھینچی گئی سرحدوں کے پار جائیں ۔اس معاشی ہجرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اردو کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہو گئیں ۔اور ان بستیوں میں شعر و ادب کافروغ ہونے لگا ۔اردو ادب میں اردو کی نئی بستیوں سے نیا موضوعات اور نئے مسائل کی آمد ہوئی ۔اس پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ عشرت معین سیما کا شخصی پس منظر جو ظاہر ہے ادبی شخصیت کا بھی لاشعوری حصہ ہوتا ہے ۔وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ۔عشرت معین سیما کا خاندان بھی بہار سے ہجرت کرکے کراچی پہنچا اور بعد میں عشرت تعلیمی مراحل سے گزر کر زندگی سے نبرد آزما ہوتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق جرمنی جا پہنچی ۔عشرت کی ادبی زندگی کا آغاز بچپن ہی سے ہو چکا تھا ۔شروع میں بچوں کے رسالہ نو نہال میں انکی چیزیں شائع ہوئیں اور پہلا افسانہ سن پچاسی میں شائع ہوا ۔ادبی شوق و ذوق کے سلسلہ جرمنی میں بھی جاری و ساری ہے ۔افسانہ نگاری کے ساتھ عشرت معین سیما شاعری سے بھی شغف رکھتی ہیں۔حال ہی میں انکا ایک سفر نامہ بھی شائع ہوا جس میں اٹلی کے سفر کی بہترین روداد ہے ۔منکسرانہ مزاج رکھنے والی عشرت معین سیما اپنے افسانوں کو بڑے معروضی انداز میں دیکھتی ہیں ۔اور انکساری سے کہتی ہیں کہ میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ میرے افسانے بہتر افسانوں میں شامل ہیں ۔فنکار کی یہ معروضیت اسے ایک توازن عطا کرتی ہے اور زندگی کے حقائق کو ذاتی واردات بنانے کے باوجود فنی سطح پر اسے وہ اعتبار دیتی ہے جہاں فنکار کی شخصیت اور متن کے درمیان دوئی قائم کی جا سکتی ہے ۔ادبی تنقیدی تھیوری کے جدید نظریات میں متن اور فنکار کی شخصیت دو مختلف چیزیں ہیں ۔سیما کا اپنے فن پاروں کو ایک objectivityکے ساتھ دیکھنے کا یہ رویہ سیما کو تخلیق کی تکمیل کے بعد اس حساسیت سے بچا لیتا ہے جو عام طور سے معمولی فنکاروں کی کمزوری ہوتی ہے ۔اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر تنقید کی سفاکیت کو جذب کرنے کی صلاحیت بدرجہء اتم موجود ہے ۔ ان کی اس خوبی نے ان کے یہاں یہ جرائت پیدا کی ہے کہ وہ مختلف موضوعات کو اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں فنی اعتبار بخش سکیں ۔اس عمل نے سیما کے افسانوں میں موضوعات کے تنوع کا ایک جہاں آباد کر دیا ہے ۔جیسا کہ بیان کیا گیا کہ پاکستانی معاشرے میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والی نسل اور انکے اخلاف کے تجربات ایک اجنبی زمین پر بالکل مختلف تھی ۔لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورت حال نے نت نئے مسائل کو جنم دینا شروع کیا ۔ادھر پاکستان میں قیام پذیر فکشن نگاروں نے موجودہ سماجی اور سیاسی آویزش کوباریک بیں نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا اور فکشن میں مسائل کی نمائندگی نئے موضوعات کی صورت عمل میں آئی ۔سیما کے بعض افسانوں میں اس صورت حال کو ژروف نگاہی سے پیش کیا گیا ہے ۔لیکن ان کے تجربات کا بڑا حصہ ان موضوعات سے انسلاک رکھتا ہے جو معاشی مہاجرت کے تجربات، مشاہدات اور پردیس کی زندگی سے متعلق ہے ۔اپنے افسانوی مجموعہ’’ گرداب اور کنارے ‘‘ کے پیش لفظ میں سیما لکھتی ہیں ’’میں نے زیر نظر کتاب میں سے زیادہ تر افسانوں کو برصغیر پاک و ہند سے پردیس سدھارنے والوں کی اس زندگی کو موضوع بنایا ہے جو آجکل گزر رہی ہے ۔اس دور کو میں نے ایک آئینے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘۔سیما نے بہت حد تک درست لکھا ہے ۔ان کے افسانوں کے موضوعات ان کے بیان کردہ زندگی کے ارد گرد ہی گھومتے ہیں ۔اپنے افسانے ’’وطن‘‘میں واحد متکلم اپنی بچی کے سوالات سے دوچار ہوتی ہے ۔بظاہر یہ سوالات بڑے معصوم ہیں ۔ان سوالوں میں کسی گہرے تجسس کا اظہار بھی نہیں ملتا لیکن ان سے ایک مجموعی صورت حال کا علم ہوتا ہے ۔ایک ایسی صورت حال جس کے اندیکھے ریشوں کی جکڑن میں بیرونِ ملک بس جانے والے انسان قید ہیں ۔آپ بھی غور کریں کہ ان مکالموں میں کس کرب کی بے پناہی کی طرف ہمارا ذہن منعکف ہوتا ہے ۔’’ماما۔۔۔۔ملک کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟‘‘سوال آسان تھا مین نے بڑے پیار سے جواب دیا ۔’’ملک کا مطلب ہے۔۔ کنٹری۔۔جیسے جرمنی ہمارا ملک ہے ‘‘’’اوہ !ملک ،ہائماٹ کو کہتے ہیں ‘‘عائشہ نے ایک مختصر سے جملے میں بات مکمل کرنے کی کوشش کی ۔’’ہاں !تمہارا ہائماٹ جرمنی ہے مگر میرا وطن کشمیر ہے ‘‘میں نے بڑے غرو ر سے کہا ۔’’وطن ! یہ وطن کیا ہوتا ہے ماما؟‘‘اس مکالمے کو پڑھنے کے بعد فوری تاثر جو ابھرتا ہے وہ یہ کہ یہاں دو رویے موجود ہیں ایک ماں کا ایک دوسرا بیٹی کا ۔ بیٹی کے لئے ملک ہائماٹ ہے ۔اور ماں کے لئے اس کا وطن کشمیر ہے ۔ ذرا بین السطور پڑھنے کی کوشش کریں تو یہ بھی انکشاف ہوگا کہ بیرون ملک پروان چڑھ رہی نسل کی جڑیں کشمیر یا ہندوستان یا پاکستان میں نہیں بلکہ یہ نسل مٹی کی خوشبو اور تہذیبی رنگا رنگی سے بے بہرہ جرمنی کی اجنبی ثقافت سے وابستہ ہے لیکن اس نسل کابھی اپنا ایک المیہ ہے کہ وہ گھر میں اردو میں گفتگو کرتی ہے اور اسکول میں جرمن زبان میں بات کرتی ہے ۔غور کریں تو ترقی یافتہ معاشرہ شاید اس نسل کو بھی اس طرح باہم پیوست نہ کرے جس طرح اس ملک کے آبائی باشندے پیوست ہیں ۔ اور ظاہر ہے اس نسل کاپس منظر اب کشمیر بھی نہیں رہاْ ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ نسل کوئی خلائی مخلوق ہے جو زمین پر اتر آئی ہے ۔دوسری طرف ماں کا غرو راس کا وطن کاشمیر ہے ۔لیکن اس غرور میں ایک شکست کی آواز بھی ہے کہ کشمیر جرمنی میں نہیں ۔ایک مضحکہ خیز صو رت حال میں گرفتار ماں کا کردار کسی بلیک کامیڈی کا حصہ نظر آ رہا ہے ۔جس کی بھیانک صورت حال کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن ۔اس پر کفِ افسوس ملنے کے بجائے ہنسی آجاتی ہے ۔ وطن اور اس جیسے دوسرے افسانے دیار غیر میں انسانی مضحکہ خیزی کے المیاتی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں ۔ابرار مجیب صاحب کا ایک شعر یادآتا ہے ؔ اگر ہے شوق ہجرت تو انا کو چھوڑ آنا دیار غیر میں ہونا پڑے گا سرنگوں تکعشرت معین سیما اپنے افسانوں میں کبھی ماں کی سوئیوں کو یاد کرتی ہیں کبھی ابا جی کی شفقت کو کہ کس طرح عید کے دن صبح صبح ٹھنڈے پانی سے غسل کراتے تھے ۔نئے کپڑے جوتے ،بچپن کے دوست سجی سجائی گلیاں ، ہنگامے ، محبتیں ، دل سے دلوں کا اور گلے سے گلوں کا لگنا یعنی زندگی کی دھنک اور جگمگاہٹ غربت میں موجود چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی صورت معروضی سطح پر اظہار کی راہیں تلاش کر لیتی تھیں۔ لیکن پردیس میں عید کا دن جیسے گرمی کی پرتپش سنسان دوپہر میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔تنہائی اجنبیت اور اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے کی بے چینی فرد کو خلجانی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے ۔کچھ ایسے ہی جذبات اور مشاہدات کا اظہار عشرت معین سیما نے اپنے افسانے ’قدم‘‘ میں کیا ہے ۔وطن سے دوری اور مہاجرت کی جدو جہد زندگی کرنے کی مشقت کے علاوہ سیما نے چند افسانے جرمن زندگی کے قریبی مشاہدات کی بنیاد پر بھی تحریر کئے ۔ان کا افسانہ سر درد اس ضمن میں ایک اہم افسانہ ہے ۔اس کہانی میں افسانہ نگار اور اسکا خاندان جو کہ پاکستانی ہیں ایک جرمن خاندان کے پڑوس میں رہتا ہے ۔یہ جرمن خاندان ایک بزرگ جوڑے پر مشتمل ہے راویہ کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ عمر رسیدہ جوڑا کیوں کر اس قدر محبت کے ساتھ رہتا ہے ۔ہر صبح بوڑھا شمڈاپنی بیوی مسز شمڈپر بوسہ اچھال کر رخصت ہوتا نظر آتا ہے ۔کبھی مسز شمڈ کے گالوں پر بوسہ لینے لگتا ہے ۔ان کی اس محبت کو دیکھ کر راویہ کو حیرت ہوتی ہے کیونکہ خود اس کی زندگی جیسے الجھنوں اور پریشانیوں کی آماجگاہ ہے ۔اسے اپنی خانگی زندگی میں شوہر کے اندر محبت کی وہ گرم جوشی نظر نہیں آتی جو اس بوڑھے جوڑے کے اندر موجود ہے مختلف مسائل میں گھری بچوں اور شوہروں کی نازبرداریوں کو جھیلتی ہوئی وہ ہمیشہ ایک جھنجھلاہٹ کا شکار رہتی ہے اور اس بزرگ جوڑے کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں ، اظہار محبت کے انداز اور گرم جوشی کو دیکھ کر اکثر سر درد کاشکار ہو جاتی ہے ۔وہ اپنے سر درد کی وجہ ان بوڑھے جوڑے کی محبت کو مان لیتی ہے ۔انسانی نفسیات حقیقت سے فرار کی ایسی ہی راہیں تلاش کرتی ہے ۔ایک روز مسز شمڈ اپنے گھر کے دروازے پر انتہائی غم زدہ انداز میں کھڑی نظر آتی ہیں تو کہانی کی راویہ کو حیرت ہوتی ہے اور شاید دل کے کسی تاریک گوشے میں خوشی کی ایک چمک بھی جھلملا اٹھتی ہے وہ اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ بوڑھا شمڈ شاید دارفانی سے کوچ کر چکا ہے ۔عام انسان بھی لاشعوری دباؤ کے زیر اثر شقی القلبی کا شکار ہو جاتا ہے ۔انتہائی باریک جذبے کی پیچیدگی کو بڑے ثلالت سے پیش کیا گیاہے ۔لیکن قصے کے اختتام اس انکشاف پر ہوتا ہے کہ موت دراصل مسٹر شمڈکی نہیں بلکہ ان کے چہیتے بارہ سالہ کتے کی واقع ہوئی ۔اور اسے دفنانے مسٹر شمڈ تنہا گئے کیونکہ مسز شمڈ کتے کودفن ہوتے دیکھنے کی تاب نہ لا سکتی تھیں ۔ دونوں بیحد غمگین تھے ۔مغربی معاشرے میں محبت کی اس انتہا کو دیکھ کر راویہ ایک اور سر درد میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔اور عین مشرقی فطرت کے مطابق محبت کے اس عظیم جذبے کو سطحی ثابت کرنے کے لئے یہ سوچنے لگتی ہے کہ اگر یہ لوگ جانوروں سے اس قدر محبت کرتے ہیں تو انسانوں سے کیوں نہیں ۔اسے ایراق میں برپا جنگ اور انسانی جانوں کے زیاں کا ہیبت ناک خیال آتا ہے ۔اس خیال میں پوشیدہ جذبہ ممکن ہے یہ ہو کہ مشرقی بھلے جانوروں سے محبت نہ رکھتے ہوں مگر ہمارے اقدار انسانوں سے محبت کا درس دیتے ہیں جب کہ مغربی لوگ جانوروں سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن انسانی جانوں کے زیاں پر افسوس بھی نہیں کرتے ۔ گوکہ عشرت معین سیما نے مغرنی معاشرے سے ایک بہترین موضوع اخذ کیا لیکن متن کہیں نہ کہیں ثقافتی تعصب کا شکار ہو گیا ۔شاید افسانہ نگار کا وژن اس بات کا احاطہ کرنے سے قاصر رہا کہ سیاسی فیصلوں کی تباہ کاریوں کے پس پشت فردکی خواہشات کا عمل دخل نہیں ہوتا ۔فرد کی شخصیت اوراس شخصیت کے اعمال اسکے اخلاق ومحبت کا تعین کرتے ہیں ۔کینہ توزی ،عیاری،سفاکیت، بربریت اور مذہب کے نام پر قتل عام آج مشرقی معاشروں میں چلن عام ہے ۔ زہر کی اس گولی کو چاہے ہم لاکھ تہہ دار شہد میں لپیٹ کر کھلائیں اس کے اثرات منفی ہی ہونگے ۔ بہرحال سیما نے مجنوعی طور پر افسانے کے موضوع کے ٹریٹ منٹ میں ہنر مندی دکھائی ہے ۔المختصر مضمون میں گنجائش نہیں کہ سیما کے تمام افسانوں کا فرداََ فرداََ جائزہ لیا جا سکے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ ان کے افسانوں میں موجود موضوعاتی اختصاص کی شناخت کر سکوں اور اس پس منظر کو بھی بیان کر دوں جس نے عشرت معین سیما کی بحیثیت افسانہ نگار ذہن سازی کی ہے ے