افسانہ افسانوی نثر

اندھ وشواس (افسانہ) از محمد شمشاد، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ نمبر 26

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _26
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :-اندھ وشواس
افسانہ نگار :-محمد شمشاد, نئی دہلی

ڈاکٹرنہال نے گیا جنگشن پر ٹرین سے اتر کے بعدپلیٹ فارم کا جائزہ لیا اور اسٹیشن سے باہر آگیا اسے معلوم تھا کہ اسٹیشن سے 10 کلو میٹر کا سفر بذریعہ ٹانگہ یا پیدل کرنا ہوگا وہ ٹانگہ اسٹینڈ کی جانب بڑھا اور ٹانگے والے سے پوچھا ”کیا کٹہری گاؤں چلو گے؟“

”بابو جی! ضرور چلوں گا“ ٹانگے والے نے جواب دیا ”تھوڑا انتجار (انتظار) کر لو بابوجی، کوئی دکت (پریشانی) تو نہیں“ اس نے ڈاکٹر نہال کے سامان کو ٹانگے پر رکھتے ہوئے پوچھا ”بابوجی!“ پھوراً (فوراً) چلوں تو کھرچا (خرچ) بہت پڑے گا۔ اگر ایک دو موڑی (آدمی یا سواری) اور مل جائے تو آپ کی بھی بات بن جائے اور میری بھی“۔

لیکن کچھ دیر انتظار کرنے کے باوجود بھی کوئی نہیں آیا۔ آخر کار وہ اسے تنہا ہی لے کر چل پڑا۔ ٹانگے والے نے اپنی گھوڑی کو ہانکتے ہوئے ڈاکٹر نہال سے پوچھا ”آپ ٖ کہاں سے آرہے ہیں بابوجی؟ آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں بابوجی؟ کیا آپٖ کا گھر کٹہری نہیں ہے؟ شاید آپ وہاں پہلی مرتبہ جا رہے ہیں؟“ اور نہ جانے وہ کیا کیا سوال کرتا رہا۔

پہلے پہل تو ڈاکٹر نہال کو محسوس ہوا کہ شاید ٹانگے والا کٹہری کا ہی رہنے والا ہو یا وہ کٹہری کے سبھی لوگوں کو جانتا پہچانتا ہے لیکن اس کا ایک جملہ اس کے دماغ میں کندنے لگا۔ ”آپٖ تو پڑھے لکھے ہیں بابو جی؟“ اس نے ایسا کیوں کہا اور وہ اس کے اس جملہ میں الجھ کر رہ گیا۔

”دیکھو بابو! یہ راستہ ہے بہت دکت (مشکل) کا، ہر طرف اکھڑ کھابڑ (خراب) سڑک ہے دیکھو نا کتا تاکت (کتنی طاقت) لگا کر ٹانگہ کھینچ رہی ہے میری رانی گھوڑیا۔دیکھو بابو یہ گاؤں ہے نابہت پچھڑا ہے یہاں جانے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے سوائے اس کے۔ اگر برسات ہو جائے یانی پانی برس جائے تو ٹانگہ بھی چلنا مشکل پیدل ہی چلنا پڑے۔ دیکھو ای بھی دیس عجب ہے۔ اتتا (اتنے)لوگ یہاں سے دلی پٹنہ ووٹ جیت کر جاتے ہیں پھر بھی ای گاؤں پر کیو (کسی) کا دھیان نہیں جاتا۔ ایک بات اورہے ای گاؤں میں بہت بڑا گاؤں ہے کئیک(کئی) ہزار گھر ای گاؤں میں ہیں، اکیلے پنچایت ہے مکھیا سرپنچ سب ای گاؤں میں ہیں، مگر ایک بھی اسکول ہے نہ ڈاکٹر ای گاؤں میں۔ گاؤں کے سب کے سب لوگ نپٹ جاہل ہیں بھوچڑ گنوار۔ تھوڑا سا کچھ گھٹنا گھٹے تو دھڑاک سنی (فوراً) کھاٹ پر ٹانگے ٹانگے مریج (مریض)کو سب شہربھاگت (جاتے) ہیں مگر ڈاکٹر گھر پر بیٹھانے میں ڈرت (ڈرتے) ہیں کہ کہیں نہ شہر کے ڈاکٹرجادو نہ کردے ای گاؤں پر“

ڈاکٹر نہال اس کی باتوں کو سنتا رہا اور ہوں ہاں کرتا رہا۔ وہ ڈرا سہما ہوا اپنے سامان کو سمیٹ کر ٹانگے کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے بیٹھا ہوا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یا اس کا قیمتی سامان (آلہ) گرکر ٹوٹ جائے۔ اس وقت اس کے لیے ٹانگے پر بیٹھنا ہی خدا سے جنگ لڑنے کے برابر تھا جہاں اسے ہر لمحہ ہچکولے کھانے پڑ رہے تھے۔

ڈاکٹر نہال کی پیدائش شہر میں ہوئی تھی وہیں وہ پلا بڑھا تھا اور وہیں وہ پڑھ لکھ کر جوان ہوا تھا اور اب وہ ڈاکٹر بن کر اس گاؤں کے نئے ہاسپٹل کا انچارج بن گیا تھا۔ اسکے والدین بہت پہلے شہر میں بس گئے تھے کبھی کبھار اسے دیہاتوں اور گائوں میں گھومنے کا موقع ملا تھا جو شہر سے قریب تھا۔

ڈاکٹرنہال تقریباً ایک گھنٹے کے بعد کٹہری گاؤں پہنچا وہاں اس کا پہلے ہی سے مقامی باشندے، سرپنچ اور مکھیا استقبال کے لیے منتظر تھے گاؤں کے ایک چھوٹے سے مکان میں اسکے رہنے کے لیے انتظام کیا گیا تھا جو کھپر پوش مٹی کا بنا ہوا تھا اور اس کے ساتھ والے مکان کو ہاسپٹل کے لیے طے کیا گیا تھا جو ایک کمرے اور سائبان پر مشتعمل تھا۔ پہلے دن کو تو تھکان کے نام پر آرام نے کھا لیا اور دوسرے روز ملنے ملانے کا سلسلہ چلتا رہا اور تیسرے روز ہاسپٹل کا افتتاح ہوا۔ تب جا کر باضابطہ طور پر اس نے علاج کا کام شروع کیا تھا بہت بار تو لوگوں کو دوا کھانے کھلانے اور سمجھانے میں ہی اسے خوب جھوجھنا پڑتا تھا اب اسے احساس ہو چکا تھا کہ یہاں کے لوگ بہت جاہل ہیں نپٹ جاہل۔
ا
ب تک جن لوگوں سے ڈاکٹر نہال کی ملاقات ہوئی تھی اس میں کوئی بھی شخص اسے ایسا نہ ملا تھا جس نے میٹرک یا اسکے مساوی کی کوئی ڈگری حاصل کی ہو۔ دسویں کلاس کے بعد کسی نے بھی آگے کی تعلیم حاصل نہ کی تھی آخر کار اسے مکھیا جی سے اس سلسلے میں پوچھنا پڑا پہلے تو اسے ڈر محسوس ہوا کہ کہیں نہ مکھیاجی بگڑ جائیں اور ناراض ہو جائیں لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا بلکہ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔

”ہاں ڈاکٹر بابو یہ بات تو سچ ہے بالکل سچ کہ میرے گاؤں میں آج تک کسی نے پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی ہم لوگوں کی قسمت میں تعلیم لکھا ہے اگر کسی نے پڑھا ہے تو صرف دسویں کلاس تک اس سے آگے کوئی نہیں پڑھتا اور نہ ہی کسی نے اور زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی“

”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟“

”ہاں ڈاکٹر بابو! میں سچ کہہ رہا ہوں۔ یہاں کے جن لوگوں نے بھی میٹرک پاس کیا یا اس سے آگے پڑھنے کی کوشش کی تو وہ کوئی نہ کوئی حادثہ کا شکار ہو گیا ہے اور وہ مر گیا ہے“

”یہ بڑے افسوس کی بات ہے“

”اس طرح کا حادثہ ایک دو نہیں درجنوں کے ساتھ ایسا ہوا اور پھر یہاں کے لوگوں نے اس سے زیادہ پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے بھی میٹرک پاس نہیں کی اور اب تو ہم لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ یہاں کا جو بھی آدمی میٹرک پاس کرے گا وہ یقتناً مر جائے گا یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ صرف خط و کتابت اور حساب کتاب کرنے تک ہی تعلیم حاصل کر کے چھوڑ دیتے ہیں“ اور یہ کہتے ہوئے وہ رو گئے۔

مکھیا جی روتے ہوئے بولے ”دیکھیے نا ڈاکٹر بابو! میرے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ دھن دولت عزت کیا نہیں ہے میرے پاس۔ لیکن ایک کمی ہے وہ ہے بڑے بھائی کی۔ دیکھیے نا وہ ہے ان کی تصویر جو سامنے دیوار پر لٹک رہی ہے انہیں پڑھنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ میرے والد بھی چاہتے تھے کہ ہم لوگ پڑھ لکھ کر ان کا اور اپنے خاندان کا نام روشن کریں لیکن خدا کو منظور نہ تھا انہوں نے میٹرک امتیازی نمبر سے پاس کیا تھا میٹرک کا رزلٹ آنا تھا کہ وہ بیمار ہو گئے اور ایسے بیمار ہوئے کہ انہیں دوبارہ چلنا پھرنا نصیب نہ ہو سکا اور پھر …………“ وہ رونے لگے خوب روئے کافی دیر تک…………

اور ………… اس کے بعد ڈاکٹر نہال نے کبھی کسی سے اس سلسلے میں باتیں نہیں کی۔ بس اسکے دل میں ایک ہی بات بار بار گشت کرتی رہی کہ وہ انہیں اس اندھ وشواس سے کس طرح آزاد کرائے۔ ہر وقت اسی فکر میں وہ ڈوبا رہا، یہاں تک کہ اس نے اپنے گھر کو بھی تیاگ دیا ایک دن اس نے سو چا کہ کیوں نہ وہ اپنے گھر نہ جانے کی سبب کو ایک کہانی کا روپ دے دے۔

جب گاؤں والوں نے ڈاکٹر نہال کو گھر جانے کے لیے مجبور کیا تو وہ بولا ” کیا میں بتاؤں کہ میں گھر کیوں نہیں جاتا ہوں۔ آپ لوگوں کے سامنے مجھے کہتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں نہ آپ لوگ مجھے گاؤں سے نکال باہر کر دیں“۔

یہ سنتے ہی ان کی بھاویں اوپر نیچے ہونے لگیں ”ڈاکٹر بابو! ایسا کیوں بول رہے ہیں آپ تو بہت نیک اور شریف آدمی ہیں“ وہ ایک آواز ہو کر بولے ”ڈاکٹر بابو! آپ کیا بول رہے ہیں ایسی اشبھ بات نہ کہیے آپ ہم لوگوں کے لیے ایک فرشتہ سے بھی بڑھ کر ثابت ہوئے ہیں کیا آپ جیسا فرشتہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ ہم لوگوں کے لیے دیوتا اور بھگوان سمان ہیں آپ کہیے نا کیا بات ہے ہم لوگوں کو تھوڑا بھی برا نہ لگے گا“ اور وہ سبھی اس کی باتیں سننے کے لیے بے قرار اس کا چہرہ تکنے لگے۔

”ہم لوگ تین بھائی تھے بڑے بھائی نے میٹرک پاس کرنے کے بعد آئی ایس سی بھی پاس کیا پھر ڈاکٹری کی پڑھائی پڑھنی شروع کی لیکن اس کے ساتھ ہی میرے بھائی کا خدا کے گھر سے بلاوا آگیا۔ دوسرے بھائی کا بھی ٹھیک وہی ہوا جو بڑے بھائی کے ساتھ ہوا تھا ان دو حادثوں نے میرے والدین کی کمر توڑ دی تھی – اور ماں بے چاری کا روتے روتے برا حال ہو گیا ان دو حاثوں کے بعد میرے والد صاحب کے ذہن میں بھی اسی طرح کا گمان بیٹھ گیا تھا کہ اس ڈاکٹری کی تعلیم نے میرے دو بھائیوں کی جان لے لی ہے – اس لئے وہ کسی بھی حال میں مجھے اس ڈاکٹری کی تعلیم سے بعض رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن میں نے بھی ایک قسم کھا رکھی تھی کہ میں جب بھی تعلیم حاصل کروں گا تو صرف ڈاکٹری کی۔ ڈاکٹر کے علاوہ میں کچھ نہیں بنوں گا اسکے سواا میرے پاس کوئی اور راستہ باقی نہیں رہ گیا تھا اور یہی میرے لیے فرض عین اور زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔ میں اپنے والدین کے ذہن سے اس اندھوشواس کو نکالنا چاہتا تھا دوسرا یہ کہ میرا ڈاکٹر بن کر ان دونوں بھائیوں کے ارادے اور خواب کو مکمل کرنا چاہتا تھا تیسرا خدمت خلق اور میں اپنے پروگرام کے مطابق روبہ عمل رہا۔ آخر کار مجھے اس مقصد میں کامیابی مل گئی اور آج میں ایک ڈاکٹر بنا بیٹھا ہوں لیکن میرے ساتھ وہ حادثہ نہ پیش آنا تھا اور نہ ہی آیا۔ آج میرے والدین بہت خوش ہیں انکی زندگی بہت ہی خوشحال ہے اور اب انکا کہنا ہے کہ میں خدمت خلق میں ہر وقت لگا رہوں یہاں تک کہ اس میں اپنی جان کی بازی لگادوں۔ بس ہر ماہ میں تنخواہ کا زیادہ سے زیادہ حصہ انکے نام روانہ کر دیتا ہوں۔ اگر آپ لوگوں کی خواہش ہوگی تو میں انہیں یہاں بلوا لوں گا اب آپ ہی لوگ بتائیں کہ میں آپ کی بات مانوں یا اپنے والدین کے حکم کو پایہ تکمیل تک پنچاؤں“۔

یہ سن کر وہاں بیٹھے سبھی لوگوں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور سبھی لوگوں نے بیک وقت یک آواز ہو کر کہا ”ڈاکٹر بابو! آپ بالکل سچ کہتے ہیں آج آپ نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کو کھول دیا ہے ہم لوگ بڑے بھول میں تھے“۔

اب انہیں یقین ہو گیا تھا کہ تعلیم حاصل کرنے یا نہ کرنے سے کوئی مرتا اور جیتا نہیں ہے بلکہ یہ ایک گمراہی ہے وہاں سے اٹھنے والا ہر شخص یہ قصد کرکے اٹھ رہا تھا کہ آج کے بعد سے اس کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو گا اور اسکے گھر میں کوئی جاہل نہیں رہے گا چاہے اسکے لیے پورے گاؤں کو ہی کیوں نہ اپنی جان گاونی پڑے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ