پیشکش؛ جی این کے اردو
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _25
بینر :- عمران یوسف
افسانہ:۔”چاند گہن کے بعد”
افسانہ نگار:۔ ترنم جہاں
شبنم، نئی دہلی
” نور۔۔اُو نور۔۔۔“ اُسے پکارتی مدھر سریلی آواز کانوں میں گونجی، گھبرا کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، مگر دور تک وہی تنہائی اور ویرانی کا راج۔۔۔۔ اس ویرانے میں جہاں آج کل اس کا سایہ بھی اس سے خوفزدہ ہے۔ ایسے میں اسے پکارتی یہ آواز کہاں سے چلی آئی ہے؟ یہ آواز جسے وہ برسوں سے سنتی آئی ہے، کس کی ہے اور کہاں سے آتی ہے۔ اسے نہیں معلوم مگر جب بھی سنائی دیتی ہے اسے بے چین کر جاتی ہے۔ کبھی تو اسے ایسا لگتا کہ جیسے یہ آواز کہیں اس کے اپنے اندر سے ہی آتی ہے۔ تو گھبرا کر وہ اسے خود میں تلاش کرنے لگتی ہے۔ ناجانے کب سے وہ اِس آواز کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے اور نا جانے کب تک اس کی تلاش میں بھٹکتی رہے گی۔۔۔۔۔۔
ایک عرصے سے اس نے یہ آواز نہیں سنی تھی مگر آج اچانک برسوں بعد اسے بے چین کرتی یہ آواز پھر اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ اب جب کہ وہ اپنی زندگی کی سیاہی اور تنہائی کے درمیان کھڑی ہے جہاں اس کے پاس زندگی کی وحشتوں کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں اگر کچھ ہے تو وہ ہے اس کے احساس میں پلتا ایک آس کا پرندہ، جو اسے کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔
اُف کتنے خوفناک ہیں اس کے یہ دن و رات جہاں نہ دن چہکتے ہیں اور نہ راتیں مہکتی ہیں۔ دن کا شور کان کے پردے پھاڑتا ہے تو راتیں خاموش چیختی ہیں۔ کسی چاند گہن والی رات کی طرح جس میں کبھی خوفناک تاریکی کا راج ہوتا ہے تو کبھی بے نور چاند کی چاندنی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ تب اس گہن والی رات میں غم کے ٹوٹے پہاڑ کے ملبے پہ گھسٹتی ہوئی وہ اپنی سفید د بیز رِدا میں بچوں کو سنبھالے اپنی تنہائی اور بے سائبانی سے جب خوفزدہ ہوتی ہے تو اپنی نگاہیں اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر خداے برتر سے رحم،رحم، رحم کی پکار لگاتی ہے کہ کہیں سے وہ آس کا پرندہ اس کی مدد کے لئے آ جائے جو اسے رحیم و کریم کی عظمتوں کا احساس کرانے والا ہے۔ جو اس کے احساس میں تو کہیں ہے مگر آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ”نور، اُو نور۔۔۔“ من موہنی آواز پھر کانوں سے ٹکرائی۔ تڑپ کے اس نے آواز کی سمت دیکھا مگر دور تک وہی پہلے جیسا سناٹا جس میں خوف کے کالے سائے اپنی وحشتوں کے ساتھ مٹر گشتی کر رہے تھے۔ پر اُمید نگاہوں سے وہ آسمان کو تکتی رہی۔۔۔۔ اچانک ر ات کی تاریکی میں بے نور چاند کی چاندنی کے اس پار سے رات کی خاموش چیخوں کو چیرتی ہوئی اُمید کی چادر اوڑھے نور کی ایک کرن اسے اپنی طرف آتی دکھائی دی۔ اسے لگا جیسے اس کی پکار ساتویں آسمان تک سن لی گئی ہے۔ لمحہ لمحہ نزدیک بہت نزدیک آتی وہ نور کی کرن اس تک آتے آتے سفید براق لباس میں ملبوس فرشتے کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ جو اس کے بہت قریب پہنچ کر اپنے دونوں بازو پھیلا کر اسے اور بچوں کو اپنے بازوؤں کے ساتھ پھیلی چادر کے حصار میں لے لیتا ہے۔ جس کے حصار میں آتے ہی وہ اور بچے کچھ نئے کچھ پرانے، ملے جلے احساس سے اچھل پڑتے ہیں۔ کسی سے بچھڑ کر ملنے جیسا احساس، خود سے خود کی ملاقات جیسا احساس ان کی روح تک کو سیراب کر جاتا ہے۔”نور، اُو نور۔۔۔“ اس کی سماعتوں میں رسیلی آواز پھر رس گھولتی ہے اور اس بار وہ اس آواز پر چونک پڑتی ہے۔۔۔۔۔
”تم، کون ہو تم۔۔؟“ ” تم نے مجھے نہیں پہچانا نور۔۔؟ میں تو ناجانے کب سے تمہیں پکار رہا ہوں۔ میں ہی تو تمہارا لاشعور اور تمہاری آس کا پرندہ ہوں۔ سنو نور! اب تم خود کو کبھی تنہا مت سمجھنا میں ہر قدم پہ تمہارے ساتھ ہوں اللہ تعلی نے مجھے تمہارے اور بچوں کے تحفظ کے لئے بھیجا ہے۔ میں تمہارا محافظ، ر ہبر اور سرپرست بن کے آیا ہوں، تمہاری بے رنگ زندگی میں حیات کے خوش رنگ بھرنے آیا ہوں۔ یوں تو میں ہمیشہ سے تمہارے احساس میں رہا مگر تمہارے روبرو پہلی بار آیا ہوں۔“نظر اٹھا کر اس نے مدھر، سریلی، رسیلی اور من موہنی آواز والے اس احساس کے فرشتے کی طرف دیکھا۔ شناسائی کی چمک اس کی آنکھوں میں بھی پھیل گئی۔ فرشتے کا روپ دھارن کئے اس کی آس کا پرندہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہی جو صدا سے اس کے احساس میں کہیں تھا اور جس کی اسے تلاش تھی۔ اور یہ آواز اسی کی تھی۔ ”ارے تمہاری تلاش میں تو میں کب سے بھٹک رہی ہوں کہاں کہاں تلاش نہیں کیا ہے میں نے تمہیں۔ کبھی تمہاری تلاش میں تاج محل کی ایک مینار سے دوسری مینار تک گئی ہوں تو کبھی مسجد اور درگاہوں میں تمہیں تلاش کیا ہے میں نے۔ اے میرے احساس کے پھول، میرے دل کے سکون اب تک کہاں تھے تم۔۔۔؟“ اس کی بات پر فرشتہ روپی آس کے پرندہ نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ایک محبت بھری نگاہ ان سب پر ڈال کر ایک بارپھر انہیں اپنے آغوش میں لے لیا۔ اور وہ سب اس کی محبت پہ نثار ہوتے گئے۔” اے میرے احساس کے فرشتے! تمہیں معلوم ہے ایک بیوا کے لئے چار مہینے کچھ دن کا عرصہ چار صدیوں سے بڑا ہوتا ہے۔ غم کالے ناگ کی طرح کمر سے لپٹ جاتا ہے نہ مارتا ہے نہ مرنے دیتا ہے۔“ فرشتے کی محبت نے کچھ حوصلہ دیا تو اس نے اپنے غم کی رُداد سنانی شروع کی۔ ”دیکھو فرشتے ان یتیم بچوں کی معصوم اور اُداس شکلیں، جو مجھ پر قہر ڈھاتی ہیں اور اس پرِ ان کی وہ چیخیں جب اپنے باپ کے مردہ جسم کو چھو کر یہ چلائے تھے، ”اب ہمارا کیا ہوگا۔۔۔“ اُن چیخوں کی گونج ہر وقت میرے کانوں میں تڑپتی ہے۔ اور اب اِن کی زمہ داریاں مجھے بے چین کئے ہوئے ہیں۔ میں نے تو اپنی زندگی میں بہت سے خوبصورت رنگ دیکھے ہیں مگر اب ان بچوں کے روشن مستقبل کو لے کر پریشان ہوں، ڈرتی ہوں کہ زمانے کی روش کہیں انہیں بھٹکا نہ دے۔ کبھی سوچتی ہوں کیا میں ان زمہ داریوں کو ٹھیک سے نبھا بھی پاوں گی؟ تو گھبرا جاتی ہوں بڑی سخت اور دشوار کن نظر آتی ہے یہ زندگی مجھے۔ کن کن مصیبتوں کا ذکر کروں اے فرشتے؟ گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتی ہوں کہ شاید وہاں سے میرے لئے کوئی غیبی مدد آ جائے۔ اللہ تعلی سے بھی میرا دکھ دیکھا نہیں گیا تب ہی تو انہوں نے تمہیں میری مدد کے لئے بھیجا ہے۔ تمہیں معلوم نہیں فرشتے اسے بھی یہ لوگ ناجانے کیا کیا نام دیں۔ وہ لوگ کیا جانیں بے سائبانی اور بے سرو سامانی کے بیچ کا خوف کیا ہوتا ہے؟ جوہر وقت بس ڈستا رہتا ہے۔ اے فرشتے تم بتاؤ کیا بچوں کے روشن مستقبل کی تعمیر میں میرا ساتھ دوں گے۔؟“ اس نے محبت بھری نظروں سے فرشتے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ اس کی بات پر فرشتے نے ایک مست نگاہ ان سب پہ ڈال کر اپنی بانہیں ایک بار پھر پھیلا کر ان سب کو اس میں سمیٹتے ہوئے خمار سے آنکھیں موند لیں۔ ملن نے ا س قدر مدہوش کیا کہ ایک دوسرے میں کھوئے انہیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔
”فرشتے یہ کیسا شور ہے۔؟“اچانک چیختے چلاتے بوڑھے،جوان، مرد، عورت اور بچوں کے شور نے انہیں جاگنے پر مجبور کیا۔ کان پھاڑتے شور سے بے پریشان ہوکر دونوں ہاتھ دونوں کانوں پر رکھتے ہوئے وہ آہستہ چلاّئی۔ ”بتاؤ نا فرشتے! یہ کیسا شور ہے؟ جو کان پھاڑتے دن کے شور سے اور خاموش چیختی رات کے شور سے زیادہ خوفناک ہے۔“ مگر جواب میں فرشتہ خاموش رہا۔ کئی بار اصرار کرنے پر بھی فرشتے سے جب کوئی جواب نہیں ملا تو گھبرا کے اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اور بچوں کو اور خود کو فرشتے کے ساتھ ایک چوراہے کے بیچوں بیچ کھڑا پایا۔ جہاں فرشتہ خاموش کھڑا چوراہے سے ہو کر گزرنے والی ان چار سڑکوں کا جائزہ لے رہا تھا جس میں سے ایک سڑک کے کنارے کچھ دانشور لوگوں کا مجمع تھا جس میں صوف، فلسفی، شاعر اور ادیب وغیرہ سب شامل تھے۔ جو فرشتے کو خوش کن اور خاموش نظروں سے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ فرشتے کی آنکھوں میں بھی انہیں دیکھ کر نور کی شعاعِ روشن ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے فرشتے سے ان کا بہت پرانا اور گہرا رشتہ ہو۔ چوراہے سے گزرنے والی دوسری سڑک پر کچھ مجبور اور ضرورت مند لوگ تھے۔جو اپنے غم اور ضرورتوں کا بوجھ ڈھوتے ہوئے زندگی کی اس جدو جہد میں خود کو بھی بھول چکے تھے۔ تیسری سڑک پر چیختے چلاتے بوڑھے، جوان مرد،عورت اور بچے تھے جن کے شور سے اُس کے کان کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ اور چوراہے سے جانے والی چوتھی سڑک سنسان اور ویران تھی جہاں دور تک کسی کا پتہ نہ تھا مگر صاف شفّاف اور پر نور تھی۔ بولو فرشتے! یہ سب کون لوگ ہیں؟ اوریہ کیوں شور کر رہے ہیں؟“ جواب میں فرشتہ ابھی بھی خاموش اور کچھ فکرمند سا تھا۔ ”بولو نہ فرشتے بولو۔“ اُس کے بار بار اصرار کرنے پر فرشتے نے آہستہ سے لب کھولے۔۔۔
”سنو نور! تم بہت بھولی ہو اور میں اس بات کو لے کر ہی فکرمند ہوں کیونکہ تم جس دنیا میں رہتی ہو وہ دنیا انسانوں کی ہے۔ جہاں غموں کے ساتھ رہتے ہوئے انسان کو اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمت ہار کے تم کیسے زندگی گزارو گی؟ وہ دیکھو سامنے جو دانشور حضرات نظر آ رہے ہیں وہ ہمیشہ سے ایسے ہی خوش خرم نہیں تھے۔ بہت سی محرومیوں کے ساتھ محنت مشقّت کرکے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ غم اور محرومیوں کے آگے انہوں نے کبھی ہمّت نہیں ہاری،محنت سے نہیں بھاگے۔ دوسرے سامنے جو لوگ ہیں وہ اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کو جٹانے میں کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے تمہاری دنیا میں سب سے زیادہ استحصال ان ہی غریب لوگوں کا ہو تا ہے اور یہ معصوم اس بات سے واقف بھی نہیں۔ میں ان لوگوں کی طرف سے بھی بہت غم زدہ اورفکرمند ہوں۔ اگر تمہیں اپنا غم بڑا لگتا ہے تو چلو میرے ساتھ ان کی بستی میں کچھ اپنا کچھ ان کا غم بٹاؤ۔ تیسرے شور کرتے وہ لوگ ہیں جن کے شور سے تم پریشان ہو، وہ بوڑھے، جوان، مرد، عورت اور بچے۔ تمہیں معلوم ہے کون ہیں وہ؟ نہیں معلوم نا؟ تو سنو! وہ تمہاری دنیا کا سیاسی نظام اورٹوٹا پھوٹا سماج ہیں۔ جو ہمیشہ سے بس شور کرتا آیا ہے اور جو صرف اپنے مفاد کو سمجھتا ہے۔ اور اس وقت بھی وہ مجھے اور تمہیں ساتھ دیکھ کر پریشان ہیں اور اس لئے ہی شور کر رہے ہیں۔“ ”لیکن کیوں فرشتے ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟“ ”کچھ نہیں!لیکن مجھ میں ان کا بہت کچھ بگاڑنے کی طاقت ہے۔ اس لئے سب سے بڑا خطرہ انہیں مجھ سے ہے کہ ان کو کرارہ جواب دینے والوں میں صرف میں ہوں۔ تمہیں میرے ساتھ دیکھ کر اب انہیں یہ خوف ہے کہ استحصال کا شکار ان لوگوں کی طرف سے تم میرے ساتھ کھڑی نہ ہو جاؤ۔ یا میں تمہیں ان کے خلاف کھڑا نہ کر دوں، یا ان دانشوروں کی صف میں نا پہنچا دوں۔ فرشتے نے دوسری سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کیونکہ دونوں صورت میں جیت میری ہے۔ میں تمھارا رہبر اور سرپرست بن کر آیا ہوں۔ راہ دکھانا میرا کام ہے اور راستہ چننا تمہارا کام۔ میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ تھا، سا تھ ہوں اور ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا مگر اس سے آگے تمہارا ساتھ چل نہیں سکتا کیونکہ میری اور تمہاری دنیا الگ ہے۔ اس لئے مجھے اب جانا ہی ہوگا۔ بتاو نور! تمہیں اپنے غموں کے ساتھ یونہی روتے رہنا ہے یا ایک نئی دنیا کی تلاش کرنی ہے؟ صاف شفّاف پر نور راہیں تمہاری منتظر ہیں جہاں سکون ہی سکون ہے۔ یہ کہتے ہوئے فرشتہ دور آسمان میں کہیں غائب ہو گیا۔ نور۔۔۔اُو۔ نور۔۔“ کی آواز پر ایک بار پھر اُس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ جہاں چاند گہن کے بعد پہلے سے زیادہ روشن نظر آ رہا تھا اور صاف شفاف سڑک اس کی دودھیا روشنی میں نہا کر نورانی ہو گئ تھی۔
ختم شد