افسانہ افسانوی نثر

خنجر (افسانہ) از ناہید نسیم، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ نمبر27

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ _2022
افسانہ نمبر :- 27
بینر :- عمران یوسف


افسانہ:- خنجر


ناہیدہ نسیم
گاندر بل


آج پارک میں اسماء کو دیکھ کر میرے دل میں جیسے ایک تیز دھار والا خنجر پیوست ہوا ہو۔ کچھ لمحوں کے لیے میرا جسم ساکت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ۔اپنی ہتھیلیوں سے آنکھوں کو رگڑ کر سامنے بینچ پر بیٹھے شخص کے ہونے کا اپنے اعضاء حس کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
میرے ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ آہستہ آہستہ اداسی ، بے چینی اور احساسِ ضرر میں تبدیل ہوگی۔
وہ ابھی بھی اتنی ہی خوبصورت اور دلکش لگ رہی تھی جتنی آج سے اٹھ سال پہلے جب میں نے اسے آخری بار یونیورسٹی میں دہلی جانے سے پہلے الوداع کرتے وقت دیکھا تھا۔
بےحد خوبصورت اور زیورات سے لدے ہونے کے باوجود اس کی آنکھیں اداسی مائل تھی۔ وہ رونق جو میرے ساتھ ہونے پر اس کی آنکھوں میں آتی تھی، اور جو اس کا شناختی نشان یعنی trademark بن گیا تھا، اب اس کی جھلک بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ بھی اس باغ میں اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ آئی ۔ تھی جو اسے کئ گز کی دوری پر وہاں کی خوبصورتی سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔
وہ بينچ پر اکیلے بیٹھی تھی ۔ اس کو دیکھنے پر اپنے ارد گرد ہر انسان،شئے اور سرگرمی سے بے خبر ہو کر میرے قدم خودبخو اُس کی جانب بڑھنے لگے۔ مجھے اپنے اور آتے دیکھ کر وہ خوف سے لرز اٹھی اور اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں دو موٹے آنسوں اُبھر آئے۔
لاکھ کوششوں کے باوجود نہ میں اپنے قدموں کو روک پایا ، نہ اپنے جذبات کو اور نہ اپنی زبان کو۔
“عامر تم! اتنے سالوں بعد۔ یقین نہیں آرہا۔ ” اس نے اپنے آنسوں اور چہرے پر چھائے خوف کو چھپانے کی کوشش میں ڈرتے ڈرتے یہ جملہ ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا ۔
“اسماء ہاں میں عامر، تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیا کبھی تمہیں میری یاد نہیں آئی؟ کیا کبھی تم نے میرے بارے میں نہیں سوچا ؟ کبھی یونیورسٹی کے بعد مجھ سے ملنے کی خواہش بھی نہیں ہوئی؟ میں تو دیوانوں کی طرح ہر جگہ تمہیں ڈھونڈتا رہا۔ پانچ سالوں تک میں تمہارے لوٹنے کا منتظر تھا۔ ہر بیپ پر اپنا فون اس اُمید میں جانچتا کہ شاید تمہاری میسیج ہو۔ ہر گھنٹے کے بعد اپنا ائ میل جانچتا”۔ میں نے اپنی جیب میں سے ایک رومال نکل کر اپنے چہرے پر پھیلے آنسوں پونچھے۔
“اگر محبت نبھانے کا جزبہ نہیں تھا تو کی ہی کیوں؟”وہ سہم کر اپنی جگہ پر بنا کچھ کہے کھڑی رہی اور بار بار دور کھڑے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔
” اور تم نے اپنے آخری خط میں کیا لکھا تھا ۔
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہوممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر بھول جانا اچھا۔
کیا یہ وہ خوبصورت موڈ ہے؟”
میرا دل چاہا کہ میں اس کے خوبصورت گالوں پر ایک زور دار تھپڑ رسید کرو۔ پر اتنی ہمت نہیں کر پایا۔
اتنے میں اس کا شوہر وہاں رونما ہوا۔
اسماء نے اپنے ہاتھ میں پکڑے گوگلز googles اپنے چہرے پر اپنی گھبراہٹ اور اُڑتے رنگ کو چھپانے کی کوشش میں پہنے اور مجھ سے ایسے گفتگو کرنے لگی جیسے ہمارے درمیان کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔
” یہ ہے میرے شوہر، ڈاکٹر عدنان”
” نائس ٹومیٹ یو” میں نے ان کے ساتھ ہاتھ ملا کر کہا۔
“ڈارلنگ ان کا تعریف نہیں کراؤ گی۔”
” یہ ہے عامر۔ ہم یونیورسٹی میں بیچ میٹس تھے۔”
” جی ڈاکٹر عدنان” میں نے حامی بھرتے ہوئے سر ہلایا۔
” آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اوکے عامر ہم لوگ چلتے ہیں”۔
وہ دور کھیلتی اپنی بچیوں کی طرف چلی گئی جو قریباً سات اور پانچ سال کی تھی۔
اسی دوران میری بیوی نازیہ میری طرف آئی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
“یہ کون تھی عامر؟ “
” کوئی نہیں میری پرانی کلاس فیلو ۔ ہم لوگ یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے۔”
” تم گُھوم کر آو۔ میں تھوڑی تھکاوٹ محسوس کر رہا ہوں۔ یہاں پر ہی تمہارا انتظار کروں گا ۔” نازیہ کو کچھ لمحوں کے لئے خود سے دور کرنے کی کوشش میں میں نے تھکاوٹ کا بہانہ کرکے اس سے بڑے ہی شائستہ انداز میں کہا۔
” ٹھیک ہے آپ بیٹھے رہیئے میں صاد کو گما کے لے آتی ہوں۔ شام ہو رہی ہے پھر گھر چلیں گے۔” یہ کہ کر وہ ہمارا دو سال کا بیٹا گود میں لیے باغ کے مشرق کی طرف چلی گئی۔
خزاں کا موسم تھا۔ چناروں کے زرد اور لال رنگ کے جھڑتے ہوئے پتے میری غم زدہ حالت میں اضافہ کر رہے تھے۔ جیسے وہ میری ہار پر مجھے طعنے دے رہے ہو اور مجھ پر ہنس رہے ہو۔
میرے دماغ میں اسماء کے ساتھ ماضی میں گزارے دو سالوں کی پوری داستان کی ایک ویڈیو سی چلی۔
ہماری محبت کی داستان یونیورسٹی کے سوشولوجی کلاس سے شروع ہوئی۔ جب میں نے اس سے ایک بار اس کے ہاتھ میں ترقی کے مشہور مصنف الف شفق کی کتاب forty rules of love دیکھی۔
اس کتاب کا عنوان مجھے بہت دلکش لگا اور میں نے اسے پڑھنے کے لئے مانگی۔
“اسماء کیا آپ مجھے کچھ دنوں کے لیے یہ کتاب دے سکتی ہو؟”
” ضرور، لیکن اگلے ہفتے۔ پہلے میں اسے خود تو ختم کر لو”۔
مجھے لگا کہ وہ شاید مجھے ٹال رہی ہے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر میں نے اسے “آل رائٹ” کہا۔
دو ہفتوں کے بعد جب میں اس کتاب اور اس سے کی ہوئی التجا کے بارے میں بھول گیا تھا وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور کہا “لیجیے”۔
” آپ کا بہت شکریہ!” میرے جسم میں جیسے یہ کتاب ہاتھوں میں لے کر ایک خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔
ایک ہفتے کے بعد جب میں نے کتاب اس کو واپس کی، میں اس کے لئے ایک عجیب سی قربت اور احساس محبت محسوس کرنے لگا۔
وہ بھی میری طرف دیکھ کر ہنسی، مسکرائی اور اس کی آنکھیں نور سے چمک اٹھی۔
ہمارے بیچ کی باتیں اور ملاقاتیں آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور محبت میں بدل گئی۔
ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے دیوانے تھے ۔ کلاس میں، لائیبریری میں، گاڑیوں میں، غرض یہ کہ ہر جگہ پر ساتھ ہوتے تھے ۔ ہماری محبت کی داستان سارے سوشالوجی ڈپارٹمنٹ میں مشہور ہوگی ۔
یونیورسٹی کے دو سال مکمل ہونے پر میرا داخلہ پی ایچ ڈی Ph.D کے لئے JNU میں ہوا اور اسماء B.ED کرنا چاہتی تھی اور اس کا داخلہ کشمیر میں ہی ایک ٹیچرز ٹریننگ کالج میں ہوا۔
آخری بار میں اسے JNU کے لیے روانہ ہونے سے ایک روز قبل یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں ملا تھا۔
وہ زار زار رو رہی تھی۔
” عامر میں تمہارے بغیر کیسے رہ سکتی ہو۔ کیا تم یہاں رہ کر پی ایچ ڈی نہیں کر سکتے؟”
” اسماء تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں۔ یہاں کے حالات کے بارے میں تمہیں پتا نہیں۔ آئے دن تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ دو سال کے بعد واپس آ کر ہم لوگ شادی کر لیں گے تم بھی تب تک B.Ed مکمل کرنا۔”
” ٹھیک ہے عامر، لیکن ہر روز مجھے فون کرنا اور میسیج بھیجتے رہنا۔”
یہ کہہ کر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو رخصت کیا اور اپنی اپنی منزلوں پر چل پڑے۔
میرے دہلی جانے کے بعد دیڑھ سال تک ہم لوگ ہر روز ایک دوسرے سے فون پر باتیں کرتے۔ دن میں درجنوں میسیج ایک دوسرے کو لکھتے۔ بے شمار وعدے کرتے اور قسمیں کھاتے۔
ایک روز اس نے مجھے روتے ہوئے فون پر کہا “عامر میرے ابو میرا نکاح میرے ایک دور کے کزن سے کرنا چاہتے ہیں جو لندن میں ڈاکٹر ہے۔ میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ تم پلیزاپنے ابو کو ہمارے گھر ہمارے رشتے کے لئے بھیجو۔”
” ٹھیک ہے اسماء۔ میں اپنے ابو سے بات کرتا ہوں ۔ لیکن وعدہ کرو کہ تم ہر حال میں میرا انتظار کروں گی۔”
” وعدہ” اسماء نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔
ہماری بات ہونے کے اگلے دن میں نے اپنے ابو سے سارا قصہ بیان کیا اور چند دنوں کے بعد اس نے اپنے ایک دوست کو اسماء کے گھر اس کے ابو سے ہمارے رشتے کے بارے میں بات کرنے کے لیے بیجھا۔
اسماء کے ابو نے بنا کچھ وقت لئے اس کو یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ اسماء کا رشتہ پہلے ہی طے کیا گیا ہے۔
یہ خبر میرے اوپر ایک قہر کی طرح ٹوٹ پڑی۔ میں نے کئی روز تک اسماء کا نمبر ملایا پر کوئی جواب نہیں ملا۔
اسے کئی اور طریقوں سے رابطہ کرنا چاہا پر میری ساری کوششیں بے کار گی۔
دو ہفتوں کے بعد دہلی میں مجھے اس کا خط ایک whatsapp image کے طور پر ملا ۔اسماء نے لکھا تھا۔
“عامر
سمجھ نہیں آتا میں کیسے تم سے اس بات کا ذکر کرو کہ میری شادی کی تاریخ طے ہوئی ہے۔ تمہارا رشتہ آنے پر میرے ابو کو ہمارے رشتے کا انکشاف ہوا۔ وہ آگ بگولہ ہوئے۔ اگلے ہی دن انہوں نے میری اور عدنان کے نکاح کی تاریخ پکی کردی۔ تم میرے احساسات کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ میں نے صرف تم سے محبت کی ہے۔ آگے کیا ہوگا پتا نہیں۔ بس تم مجھے بھول جانا اور اپنی زندگی میں آگے بڑھنا۔ ہم لوگ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہماری محبت ایک خوبصورت داستان ہے۔ خوبصورت تو نہیں پر ایک نامکمل افسانہ ضرور ہے۔ویسے بھی کسی نے سچ ہی کہا ہے
وہ افسانہ جس سے انجام تک لانا نہ ہو ممکن۔
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر بھول جانا اچھا۔
ہمارے بیچ گزرے وقت کو تم ایک نامکمل افسانے کی طرح بھول جانا۔ تم سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنا۔
اسماء
تاریخ 4 مئ 2013″

اسماء کا خط پڑھ کر میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ میں نے جب اس کا نمبر ملایا تو اس کا فون سوئچ آف آ رہا تھا ۔ایک ہفتے تک میں نے اس کے ساتھ رابطہ کرنے کی بےشمار کوششیں کی پر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ہر طرف سے ناامیدی ہاتھ آنے پر میں نے کشمیر آنے کا ارادہ کیا۔ سوموار کا دن تھا۔ تاریخ ۱۲ مئی ۲۰۱۳۔ فلائٹ بک کر کے میں واپس کشمیر آگیا اور سیدھے اسماء کے گھر چلا گیا۔
جب میں اس کے گھر کے قریب پہنچا وہاں کافی چہل پہل تھی۔ کچھ لوگ اس کے گھر کے آنگن میں لگا شامیانہ اتار رہے تھے اور کچھ فیری لائٹس اور سجاوٹ کی دیگر چیزیں۔ یہ سب دیکھ کر میں بےہوش ہو گیا اور اس کے گھر کے باہر ہی گر پڑا۔ پاس کے دکانداروں نے جب مجھے دیکھا تو مجھے وہاں سے اٹھا کر ایک دکان میں رکھے صوفے پر لٹا دیا۔ اور ایک پنکھی سے ہوا دے کر مجھے ہوش میں لایا۔
مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر دکان میں بیٹھے ایک بزرگ نے کہا “بیٹا لگتا ہے تم گرمی کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے۔ بہت زیادہ تھکے ہوئے بھی لگ رہے ہو۔ تھوڑی دیر آرام کر لو پھر نکل جانا”
جی، دراصل میں نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” میں نے اپنا بھاری سر دباتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں بیٹا تمہارے لئے چائے منگواتا ہوں”
آدھے گھنٹے تک میں وہی دوکان میں بیٹھا رہا۔ باتوں باتوں میں میں نے اس شخص سے ساری جانکاری حاصل کی۔ “پتا ہے بیٹا یہ دیکھو پاس والا گھر۔ تین دن پہلے ان کی بیٹی کی شادی تھی۔ سنا ہے ایک رئیس گھرانے میں بیٹی بیاہی ہے۔ دوسرے ہی دن اس کو بھی لندن جانا تھا۔ لگ بھگ کروڑ روپیے کے قریب شادی کا خرچہ آیا ہے۔
“اچھا انکل میں چلتا ہوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ”
اگلے دو مہینوں تک میں اپنےگھرکے کمرے میں اپنی ناکام محبت کا ماتم مناتا رہا ۔
اگر امی ابو مجھے سہارا نہ دیتے تو شاید میں خود کو کب کا ختم کر چکا ہوتا۔
دل ہی دل میں مجھے یقین تھا کہ ایک دن اسماء ضرور میرے پاس واپس آئے گی اوراسی آس میں میں نے اگلے پانچ سال گزارے۔
میرا ایچ ڈی بھی مکمل ہوگیا تھا اور میں JNU میں ہی بحثیت اسسٹنٹ پروفیسر تعینات بھی ہوا تھا۔
ایک دن یاور جو کہ میرا اور اسماء کا مشترکہ دوست تھا’ ایک سیمینارکے سلسلے میں JNU آیا ہوا تھا۔ اور کئی دن میرے فلیٹ میں میرے ساتھ ہی گزارے۔
ایک شام کو ہم دونوں اپنے اپنے فون دیکھ رہے تھے اور اس نے چونک کر کہا۔
ارے اسما کی پوسٹ!”
میں نے اس کے ہاتھ سے اس کا فون چھین کر دیکھا تو اس میں ایک اپ ڈیٹ تھی.
“blessed with another baby girl”
” دوسری بیٹی! کیا اس کی اور بھی کوئی بیٹی ہے؟” میں نے حیران لہجے میں خود سے ہی سوال کیا۔
“ہاں عامر اس کی تو ایک اور بیٹی بھی ہیں جو تقریبا تین یا چار سال کی ہوگئ۔”
میں نے اپنے کمرے کی بتیاں بجھا کر یاور کو اپنے سونے کا یقین دلایا۔ اور پوری رات اپنی ناکام محبت کا ماتم مناتا رہا۔ اس رات اسماء کے لوٹنے کی میری ساری امیدیں خاکستر ہو گئ تھی۔
اس رات میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ نہ کبھی اسماء کو یاد کروں گا۔ نہ کبھی اس کا ذکر کروں گا۔ اگر وہ مجھے کبھی اچانک مل بھی جائے تو میں اجنبیوں کی طرح اس سے بنا کوئی سوال پوچھے دوسری جانب چلا جاؤں گا۔ میں اس کی ہر ایک یاد اور خیال کو دل و دماغ سے نکالوں گا اور اس کو بھول جاؤں گا۔ ایک سال تک میں خود کو اسماء کو بلانے کا یقین دلاتا رہا۔
امی ، ابو کے اصرار کرنے پر میں نے بھی ان کی پسند کی ایک لڑکی نازیہ سے شادی کرلی۔
شادی کے بعد میں اسماء کا خیال تک اپنے دل و دماغ میں نہ آنے دیتا۔ اور اس کی محبت دل سے ختم ہونے کا خود سے دعویٰ کرتا۔ اب میں صرف اور صرف نازیہ سے محبت کرتا تھا۔
آج جب آٹھ سالوں کے بعد میں نے اُس کو دیکھا تو میرا دل، دماغ اورقدم اُس کی جانب خود بخود کیوں چل پڑے؟ اور اس پر سوالات کی بارش کر دی۔ میرے دل میں دبے ارمان کیوں ایک آتشفشاں کی طرح پھوٹ اٹھے؟
کیا میرا اس کو بھول جانے کا دعوی اور خود کو یقین دلانا جھوٹا تھا؟
کیا میں ابھی بھی اس کا منتظر ہوں؟۔
کیا میں کبھی نازیہ سے ویسی محبت نہیں کر پایا جو میں نے اسماء سے کی تھی؟
آج مجھے اس بات کا یقین ہوا کہ محبتیں کبھی مر نہیں جاتی ہیں وہ تو صرف دب جاتی ہیں۔ اور ایک خنجر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جو وقت آنے پر دل کو کریدتا ہے۔ میری ناکام محبت اور لاحاصل انتظار کا خنجر ہمیشہ میرے دل ودماغ اور روح کو ہمیشہ یونہی کریدتا رہے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ