پیش کش: جی این کے اردو
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
“ایونٹ کا آخری افسانہ”
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :-شکور بھنگی
افسانہ نگار :-طارق شبنم
قرعہ اندازی میں شکور بھنگی کے نام کی پرچی نکلتے ہی نتیجے کے انتظار میں دل تھام کے بیٹھے مل کے مزدوروں میں ہل چل مچ گئی اور وہ مایوسی کے عالم میں اس کی نکتہ چینی میں جٹ گئے۔
”واہ کیا زمانہ آگیا ہے…… جسے کلمہ یاد نہیں وہ حج پر جائے گا“۔
سلام الدین نے اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”آج تو مجھے اپنے مالک پر بھی شک ہورہا ہے،ورنہ ہر سال اسی بھنگی چرسی کا نام کیوں نکل آتا ہے“۔
انصار احمد،جو مل کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا،نے جھنجلاکر کہا……۔
غرض جتنے مُنہ اتنی باتیں۔
”آپ لوگ خاموش ہوجائیں،قرعہ اندازی میں شکور کا نام نکل آیا ہے،ہم اسی کو حج پر بھیجیں گے“۔
مل کے مالک احسان احمد نے ذرا سخت لہجے میں کہا تب جا کر مزدور خاموش ہوگئے۔شکور،جوساری صورتحال سے بے خبر مل کے صحن کے کسی کونے میں چھپ کر چرس پی رہا تھا،کو بلا کر جب یہ خبر دی گئی تو وہ کانپ اٹھا۔
”نہیں جناب…… مجھے معاف کیجیے،میں نہیں جا سکوں گا“۔
اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔احسان احمد نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ تیار نہ ہوا اور فیصلہ یہ ہوا کہ نئے سرے سے قرعہ اندازی کی جائے۔قرعہ اندازی ہوئی اور اس بار بھی شکور کا ہی نام نکل آیا لیکن اس نے سختی سے انکار کردیا۔احسان احمد اور چند ساتھیوں نے اسے بہت سمجھایا کہ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے ہیں لیکن وہ ہرگز بھی حج پر جانے کے لئے تیا ر نہیں تھا۔
”ارے یہ بے چارہ کیا جائے گا…… اسے تو ٹھیک سے نماز بھی نہیں آتی ہے“۔
انصار احمد نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا۔تیسری مرتبہ قرعہ اندازی ہوئی اس بار شکور کے نام کے بدلے ایک خالی پرچی ڈالی گئی لیکن اللہ کا کرنا تھا کہ اس بار وہی خالی پرچی نکلی اور شکور یہ دیکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہواکیوں کہ حج کا نام سنتے ہی وہ نہ جانے کیوں لرز اٹھتا تھا۔ مزدور نئے سرے سے قرعہ اندازی کرنے پر اصرار کرنے لگے کیوں کہ ہر مسلمان کی طرح ان کے دلوں میں بھی اللہ کے گھر کا دیدار اور روضہ رسول ﷺپر حاضری کا شوق مچلتا تھا۔
”اب آپ لوگ اپنے اپنے کام پر جائیے…… اس سال شکور ہی حج پر جائے گا“۔
احسان احمد نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور اپنے دفتر میں جاکر آرام دہ کرسی پر بیٹھے سوچوں میں گم ہو گیا۔احسان احمد ہر سال اپنی مل کے ایک ملازم کو حج پر بھیجتا تھا اور اس ملازم کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جا تا تھا۔پچھلے سال بھی قرعہ اندازی میں شکور کا ہی نام نکل آیا تھا لیکن تب بھی وہ جانے کے لئے ہرگز تیار نہ ہوا اور دوسری بار قرعہ اندازی کرکے کسی دوسرے ملازم کا نام نکل آیا تھا۔
شکور،جس کو مل کے سارے ملازم بھنگی کے نام سے پکارتے تھے،ایک الگ ہی قسم کے مزاج کا بندہ تھا۔ہر وقت پھٹے پرانے میلے کپڑوں میں ملبوس رہتا تھا، اس کے اُلجھے ہوئے بے ترتیب لمبے بالوں اور داڑھی کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی ملنگ ہے۔وہ بھلا کا کام چور،دھوکے باز،سست اور کاہل انسان تھا۔کبھی کبھی مل سے گندم اور آٹا چوری کرکے بیچ دیتا تھا،اسے زندگی میں کسی نے کبھی مسجد میں جاتے ہوئے یا نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور نہ کوئی نیک کام کرتے ہوئے۔وہ سگریٹ پہ سگریٹ پھونکنے کے ساتھ ساتھ چرس بھی پیتا تھا۔اس کی مالی حالت قابل رحم تھی اور ہر وقت قرض میں ڈوبا رہتا تھا۔احسان احمد نے کئی بار اسے نوکری سے نکالنے کا من بنا لیا تھا لیکن اس کے والد صاحب کی نصیحت آڑے آتی تھی جس نے مرنے سے پہلے اسے تاکید کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد کسی ملازم کو نوکری سے نہیں نکالنا۔ قرعہ اندازی میں بار بار شکور کا نام نکل آنے پر احسان احمد کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ اللہ تبارک تعالیٰ شکور کو ہر صورت میں حج کرانا چاہتا ہے اور وہ اس کو راضی کرنے کے لئے دیر تک ترکیبیں سوچتا رہا۔آخر اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی ِ،اسنے شکور کو دفتر میں بلا کر حج پر جانے کی صورت میں ایک سال کی اضافی تنخواہ دینے کی پیش کش کی۔ایک سال کے اضافی تنخواہ کا سنتے ہی شکور مخمصے میں پڑ گیا اور کچھ دیر سوچ بچار کرنے کے بعد آخر لالچ میں آکر اس شرط پر حج بیت اللہ پر جانے کے لئے راضی ہو گیا کہ اضافی تنخواہ پیشگی ادا کی جائے،جس پر احسان احمد راضی ہوگیا اور اس نے مل کی مسجد شریف میں امامت کے فرائض انجام دینے والے انصار احمد کو بلا کر شکور کو نماز کا طریقہ،حج کے ارکان سکھانے اور دعائیں یاد کرنے کے کام پر معمور کر دیا۔شکور نے بھی چرس اور دیگر خرافات چھوڑ کر سیکھنے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور مکمل تربیت کے بعد وقت مقررہ پر حج کے لئے روانہ ہو گیا……
احسان احمد کے دل میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ اتنے نیک اور عابد مزدوروں کے ہوتے ہوئے مالک دو جہاں نے حج کے لئے شکور بھنگی کا ہی انتخاب کیوں فرمایا؟ضرور اس میں کوئی راز ہوگا لیکن کافی کوشش کے باوجود اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ایک دن وہ شکور کے اہل عیال کی خیر وعافیت دریافت کرنے کے لئے اس کے گھر گیا۔وہاں بھی اسے یہی خیال آیا تو باتوں ہی باتوں میں اس نے شکور کی زوجہ سے شکور کی اس خوش بختی کے بارے میں پوچھا تو اس نے یوں جواب دیا۔
”میرے شوہر میں کوئی خاص خوبی نہیں تھی،نہ وہ اللہ کی عبادت کرتا تھا اور نہ ہی اسنے کوئی قابل ذکر نیکی کی تھی۔باقی اس کی عادتوں سے تو آپ اچھی طرح واقف ہیں…… ہاں ایک بات ہے جسے شکور اور میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے“۔
”وہ کیا؟“
”ہمارے محلے میں ایک پاکدامن، خوبصورت جوان بیوہ رہتی ہے جس پر محلے کے تمام لوفر اور آوارہ قسم کے مرد بری نظر ڈالتے تھے۔ اس کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں بھی ہیں۔اپنی بیٹیوں کی پڑھائی کا خرچہ اور دیگر ضروریات کے لئے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے جاتی تھی لیکن سیاہ دل کمینے لوگ وہاں بھی اس کو بھوکی نظروں سے دیکھتے اور اس کی عزت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے تھے،کوئی اس کو اپنے جال میں پھانسنے کے لئے خوشامدی اور چاپلوسی کے ہنر آزماتا تھا تو کوئی ہمدردی کے پردے میں اس کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔جس وجہ سے وہ ہر باراپنی عزت بچانے کے لئے کام چھوڑ نے پر مجبور ہو جاتی تھی۔معاشرے کی اس کج ادائی کی وجہ سے آخر اس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور پائی پائی کی محتاج ہوگئی جس وجہ سے اکثر ان کا چولہا بھی نہیں جلتا اوراس کی بچیوں کی تعلیم بھی چھوٹ گئی۔ایک دن میں نے اس کا ذکر شکور سے کیا تو……“۔
کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
”پھر کیا ہوا؟“
احسان احمد نے بے تابی سے پوچھا۔
”کل یوگ کے اس زمانے میں انسانیت کہاں ہے،بھوک اور افلاس کے بازار میں جسم اور جنس ایک ہی باؤ بکتا ہے“۔
”شکور نے کہا اور سخت غمزدہ ہوکر رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا۔صبح سویرے ہی اس نے مل کے منیجر سے کچھ روپے پیشگی لئے اور کچھ قرض بھی اٹھا لایااور اسی دن سے اس بیوہ کی مدد کرنی شروع کردی۔اس کی دونوں بچیوں کو سکول میں داخل کرایا۔تب سے وہ لوگوں سے قرض لے کر، مل سے چوری کرکے مسلسل ان بچیوں کی تعلیم اور گھر کے دیگر اخراجات پورے کرتا تھا۔غرض وہ فرشتہ رحمت بن کر تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح اس کی زندگی میں آیا جیسے جھلستی دھوپ میں بارش کا قطرہ۔وہ ہر ہفتے چپ کے سے شام دیر گئے ان کے لئے راشن اور دیگر ضروری چیزیں لے کر ان کے گھر جاتا تھا،لیکن اس نے کبھی اس کے گھر کی دہلیز پار نہیں کی تھی۔وہ سامان باہر رکھ کر اس بیوہ کو بلاتا تھا اور کبھی اس کی طرف نظر بھی نہیں اٹھاتا تھا۔کئی بار میں بھی اس کے ساتھ وہاں گئی اور میں نے دیکھا کہ وہ بیوہ سامان اٹھاتے وقت ہمیشہ نم آنکھوں سے گلوگیر لہجے میں اسے بے شمار دعائیں دیتی تھی اور اکثر کہتی تھی“۔
”جا میرے بھائی،میرے مددگار…… اللہ تمہیں حج کی سعادت نصیب فرمائے اور تمہارا خاتمہ ایمان پر کردے“۔
پچھلے سال بھی آپ نے اس کو حج پر جانے کی پیشکش کی تھی لیکن اس نے یہی سوچ کر انکار کر دیا کہ اگر میں حج پر چلا گیا تو وہ بے چاری بے آسرا ہو جائے گی۔اس بار وہ صرف اس وجہ سے حج پر جانے کے لئے راضی ہوگیا کہ آپ نے ایک سال کی اضافی تنخواہ جو اس کو دے دی اس میں سے آدھی سے زیادہ رقم اس نے اسی بیوہ کو تھمادی تب جاکے اسے اطمینان ہوا۔
شکور کی اہلیہ کی زبانی یہ باتیں سن کر احسان احمد کو شکور پر رشک آنے لگا،شکور کے لئے دل میں بے حد احترام پیدا ہو گیا۔بہر حال دن گزرتے رہے۔شکور کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ اس بیوہ اور احسان احمد کو بھی شکور کی واپسی کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔حج کے آخری دن دیر رات احسان احمد کا فون بج اٹھا۔دوسری طرف شکور کے گروپ کا معلم لاین پر تھا جس نے یہ خبر دی کہ حج مکمل کرکے طواف وداع کے بعد عشا کی نماز ادا کرکے حرم پاک میں سجدے میں شکور احمد اللہ کو پیارے ہو گئے۔
”یا میرے مولیٰ…… مجھ گناہ گار کو بھی شکور احمد جیسی موت عطا فرما“۔
احسان احمد کی زبان سے بے ساختہ نکلا اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔