افسانہ افسانوی نثر

آخری ملاقات (افسانہ) از عرفان احمد ڈار، افسانہ یونٹ 2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ نمبر 21

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _21
بینر :- عمران یوسف


افسانہ :- آخری ملاقات


عرفان احمد ڈار
سمبل بانڈی پورہ

جانان کسی کام سے بازار جا رہا تھا۔ بازار میں پہنچتے ہی اس کو سبزی کی ایک دکان پر نظر پڑی۔ جانان سبزی کی دکان پر پہنچ کر سبزی خرید نے میں مصروف ہوگیا۔ اچانک اسے اپنے دوست نجیب پر نظر پڑی۔ وہ اس کا نام وہیں سے پکارتا ہے۔ نجیب نے پیچھے دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہی جانا ن نجیب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
”میرے دوست یہ کیا حالت بنا کر رکھی ہے۔ آپ کے وہ خوبصورت بال آپ کا لباس یہ کیا فقیر جیسی شکل بنا ئی ہے۔میں آپ کو کئی سالوں سے ڈھونڈ رہا تھا آپ کا کوئی رابطہ نہیں ملا!۔آپ کو ہر جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن آپ کہیں نہیں ملے۔مجھے بار بار آپ کی اور سر جان کی یاد آتی رہتی تھی۔“
”کون سرجان؟“ نجیب نے سوال کیا۔
”وہی سر جان جس کا پچھلے سال ایکسیڈنٹ ہوا اور اس کے بعد دنیا سے چل بسے۔“
”ہاں وہ سر جان اللہ انہیں جنت نصیب کرے!!! جانان آپ کی پڑھائی کہاں پہنچی؟۔“
”میری پڑھائی کب کی ختم ہوگئی۔ اب میں ملازم ہوگیا ہوں۔ اور ہاں! میں بی۔ اے کے بعد کشمیر سے باہر گیا تھا تعلیم کی غرض سے لیکن اسی دوران مجھے ملازمت ملی۔ اگر میں نہیں جاتا تو ابھی بھی بے روز گار ہوتا اور شادی بھی نہ کی ہوتی۔ میں نے آپ کو بھی بولا تھا کہ چلو میرے ساتھ لیکن آپ نے نہیں مانا۔“
”میرے دوست جانان میں کیا بتاؤں کہ حالات نے مجھے کہا لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ خیر چھوڑو!“
”ارے نہیں بتاؤ کیا بات ہے؟“
”اچھا! آپ بضد ہیں تو سنو!!! یہ آج سے پانچ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن ہمارے پڑوس میں شادی تھی۔گھر والوں نے مجھے چھوٹا سمجھ کر دعوت پر بھیجا تھا۔ ہمارے محلے کے چوراہے پرایک چھوٹا سا کھیل کا میدان ہے جہاں پر چھٹیوں کے دن بچے بوڑھے جوان مختلف قسم کے کھیل کھیلا کرتے تھے۔جس دن میں دعوت پر گیا اس دن میں میدان کی طرف نہیں جا پایا۔ اسی دن وہاں کسی معاملے کے سبب کھلاڑیوں میں ہنگامہ شروع ہوگیا۔ اور پھر یہ ہنگامہ لڑائی میں تبدیل ہوگیا۔ جلد ہی پولیس بھی وہاں پہنچ گئی مگر لڑائی نہ رکی۔ اس لڑائی میں نہ صرف مقامی لوگ بلکہ دو چار پولیس والے بھی زخمی ہوگئے۔ کوئی ایک مہینے کے بعد پولیس تھانے سے میرے گھر ایک پرچی آتی ہے اور وہ بھی ابا جان کے نام۔ اس پرچی پر لکھا تھا کہ کل دس بجے تک پولیس ا سٹیشن میں رپورٹ کرنا۔ امی ابو پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ماجرہ ہے دوسرے دن میرے ابو اس بلاوے کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ساتھ اپنے ایک دوست ماسٹر رحمان چچا کو ساتھ لیکر سٹیشن چلے گئے۔ وہاں تھانے دار موجود نہ تھے وہ سیر و تفریح کے لیے باہر گئے ہوئے تھے۔ میرے ابو اور ان کے دوست بہت دیر تک ان کا انتظار کرتے رہے لیکن جب تھانیدار نہیں آیاتو وہ واپس چلے آئے۔ دوسرے دن وہ پھر اسٹیشن گئے اور تھانیدار سے ملاقات کی۔ وہ پریشان تھے اس بات کو لے کر ہمیں یہاں کیوں بلایا ہے۔ تھانے دار صاحب کسی مسئلے کو لیکر غصے میں تھے۔ ابو نے تھانے دار کو بلاوے کا سبب پوچھا۔ تھانے دار نے انھیں کہا کہ آپ نجیب کے والد ہیں۔ ابو نے گھبراہٹ کے ساتھ ہاں بولا۔ تھانے دار نے ایک مہینے پہلے میدان میں ہوئے جھگڑے کا ذکر کیا اور کہا کہ اس لڑائی میں آپ کا بچہ بھی شامل تھا۔ تھانے دار نے ابو کو ایک فائل تھمائی جس میں میرا نام بھی لکھا تھا۔ ابو نے تفصیلاً بتایا کہ میں اس دن ایک دعوت پر گیا تھا مگر تھانے دار نے صاف کہہ دیا کہ معاملہ اب عدالت میں چلا گیا ہے۔اور ساتھ میں یہ بھی دلاسا دیا کہ ہم پوری پوچھ تاچھ کریں گے اور آپ کو انصاف ملے گا۔ ابو نے یہ سارا ماجرا گھر آکربیان کیا۔گھر میں پوری طرح سے پریشانی کا ماحول بن گیا۔ میں اس وقت عشاء کی نماز پڑھ کر گھر واپس آرہا تھا۔میں نے گھر کے پریشان ماحول کو محسوس کیا مگر کسی سے کچھ بولے بغیر امتحان کی تیاری کرنے لگا۔ سویرے اٹھا نماز پڑھ کر معمول کی طرح ناشتہ کیا امتحان دینے کے لیے تیار ہوگیا۔اس سے کچھ دن پہلے اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے ملاقات کی بھی بات ہوئی۔ میں گھر سے نکل کراگزامینشن سینٹر پہنچا۔ طلبہ کے چہروں سے عیاں ہو رہے تھے۔ خوشی اس لیے کہ طلبہ کئی دنوں بعد ملے تھے اور غم اس لیے چونکہ اب ہم اپنے تعلیمی ادارے سے الوداع ہو رہے تھے۔ بس ایک میں تھا جو اندر سے بہت پریشان تھا۔ میں بھی اپنے ساتھیوں سے رخصت ہوا اور گھر کی اور قدم بڑھا لیے۔ غم کے سبب دن بھر کچھ نہیں کھایا مگر شدید بھوک کا احساس بار بار ہو رہا تھا۔ میں اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو میری نظریں سامنے کھڑے دو پولیس والوں پر پڑیں۔ میں ان کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا۔وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی میں نے گیٹ کھولا وہ میری طرف بڑھنے لگے۔”تمہیں ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہے“ انھوں نے تلخ لہجے میں کہا۔
”کیوں؟کیوں؟!!!“ میں نے پوچھا۔
”اس سب کا جواب آپ کو شاید معلوم ہے!!اگر نہیں تو وہاں پہنچ کر آپ کو معلوم پڑے گا۔“ انھوں نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
انھوں نے مجھے اندر جانے کا بھی موقع نہیں دیا اور اب میں واپس نکلنے کی تیاری کر رہا تھا کہ امی کو نظریں مجھ پر پڑیں۔”نجیب بیٹا اپنا خیال رکھنا!! اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو“ امی نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ یہ سنتے ہی میرے اندر کا خوف کچھ حد تک کم ہوا۔ باہر ایک گاڑی کھڑی تھی انہوں نے مجھے اس گاڑی میں بٹھا یا۔ اس گاڑی میں صرف دو گول سوراخ تھے جس میں صرف ہاتھ ہی جاسکتا تھا بیس منٹ کا سفر گاڑی نے طے کیا۔ گاڑی رکتے ہی میں شدت کے خوف سے دوچار ہوجاتا۔ایسا خوف میں زندگی میں پہلی بار محسوس کر رہا تھا۔ تیز بارش بھی شروع ہو چکی تھی اور میں بھیگ کر پولیس اسٹیشن کے اندر داخل ہوا۔ وہاں کام کرنے والے سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔میری طرف ان دونوں کے سوا کسی کو بھی دھیان نہیں تھا۔ میں لرزتے ہوئے سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے ایک کمرے کے باہر کھڑا کردیا گیا میرے ساتھ جو دو بندے تھے ان میں سے ایک اندر چلا گیا اور کچھ وقت کے بعد وہ واپس آ کر کہتا ہے”چلوآپ کو صاحب بلا رہے ہیں“۔ جب میں صاحب کے پاس پہنچاتو صاحب نے بڑی بے رحمی سے مجھے ایک کاغذ پر پر دستخط کرائے۔ اور اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ اس کو وہاں تک لے کے جاؤں۔ صاحب کے کمرے سے واپس نکل کر ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر دوسرے کمرے کے باہر کھڑا کردیا۔ اس کمرے کے دو دروازے کھول کر مجھے اندر جانے کو کہا گیا۔یہ کمرہ بھی بڑا خوفناک تھا۔ اس کی دیواروں پر خطرناک نقش ابھر رہے تھے۔ بارش زور زور سے ٹپک رہی تھی اور قید خانے میں یہ پہلی رات تھی۔ اب وہاں اپنی مرضی کے مطابق آنا جانا محال تھا۔ اس کوٹھی میں داخل ہونے سے پہلے گیٹ پر بستہ انھوں نے لے لیا تھا جس میں میری کچھ کتابیں تھی۔ میری جیب سے انھوں نے شناختی کارڈ بھی نکال لیا تھا۔ پانچ دن کے بعد میرے رشتہ داروں نے ایک وکیل کے ذریعے مجھے وہاں سے نکالا اور گھر لے گئے۔ گھر میں خوشی کا ماحول تھا۔ سارے رشتہ دار مٹھائی لے کر میرا انتظار کر رہے تھے جیسے ایک دولہے کے انتظار میں لوگ ہوتے ہیں۔ ایک دن میں گھر پر رہا اور دوسرے دن میں دہلی چلا گیا یہ سوچ کر کے میں پی ایچ۔ ڈی کے لیے داخلہ لے لوں جو میرے والد صاحب کاخواب تھا۔ لیکن دہلی پہنچ کر میں ذہنی مریض بن گیا۔وہاں سے میں نے علی گڑھ کا سفر طے کیا۔ اس بارے میں آج تک مجھے پتا نہیں کہ میں نے وہاں کتنا وقت گزارا اور کہاں سے کہاں ہوکر گھر پہنچا۔ میرے ابو نے مجھے یہ سوچ کر دہلی روانہ کیاتا کہ میں ذہنی پریشانی سے باہر آ سکوں۔میں نے ابو کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سفر کیا مگر نہ سکون ملا اور نہ ہی داخلہ۔ میں مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا اور ایک طرح سے ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔ گھر پہنچ کر میں نے ملازمت کا فارم بھرا مگر ذہنی دباؤ کے سبب تیاری نہیں کرپایا۔خیر ملازمت کا جس دن امتحان تھا اسی دن کوٹ میں میرا چالان پیش ہوا۔ اس کی سبب میری اور پریشانیاں بڑھ گئیں۔لیکن میں پھر بھی امتحان دینے لگا مگر پریشانیوں کے سبب نہ مجھے سوال کا پتا تھا اور نہ جواب دے پایا۔ وہاں سے نکل کر کچھ گھنٹوں کا سفر طے کر کے میں کورٹ پہنچا وہاں جج صاحب نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کو بہت انکساری کی لیکن انہوں نے ایک بھی نہ سنی۔
خیر آج چار سال گزر رگئے ہیں میں آج بھی کوٹ کے چکر کاٹ رہا ہوں اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ اس دن میں دعوت پر تھا۔ مگر کورٹ بھی ایک منٹ کی بات کو ثابت کرنے میں سالوں سال لگاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ثابت نہیں کر پاتا۔ جانان میرے دوست!مجھے یہ نہیں بولنا تھا آپ کا بھی دل دکھی ہو گیا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے دوست جو خیالی دنیا میں نے سجا رکھی تھی اورجوخواب میں نے دیکھے تھے ان کا جنازہ بھی کب کا نکل چکا ہے۔ اب مجھے محبت سے بھی نفرت ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے میں اب تنگ آ چکا ہوں۔ اب میری یہ حالت ہے کہ میں جم غفیر میں بھی اپنے آپ کو تنہا پاتا ہوں۔ اب میرے ذہن میں غموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس وقت بھی بارش ہونے والی ہے اور یہ بارش بھی مجھے ان چار دنوں کی زندگی میں صرف ایک لمحے پر لے جاتا ہے۔ اب جب تک زندہ ہوں بارش ہوتی رہے گی اب یہ بارش بھی میرے لئے غم کی علامت بن چکی ہے۔“یہاں میرا گلا بند ہوگیا۔
”جانان!!۔۔۔ کیا کہوں یار!!۔۔ تمہاری کہانی سن کر بہت دکھ ہوا۔ مگر افسوس کے بغیر میں کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ بس ایک دعا ہی ہمارا سہارا ہے۔لیکن یہ برا وقت ہے اور برا وقت بہت جلد ٹل جاتا ہے۔ تم صبر رکھو!!۔ اور اللہ پر یقین رکھو، ہو سکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے امتحان کا وقت ہو۔ اس لیے ہمت مت ہارنا میرے دوست“ نجیب نے دلاسا دیا۔
وقت کافی گذر گیا تھا اور جانان کو اس کا احساس تھا اس لیے وہ فوراً اٹھا اور نجیب سے رخصتی کی اجازت لی۔ نجیب نے دوبارہ ملنے کے عہد پر جانان کو اجازت دے دی۔ اب جانان کے ذہن میں یہ ساری دلدوز کہانی گونجتی ہے،کچھ بھی سوچنے نہیں دیتی،اس کی آنکھیں نم ہوگئیں،وہ رونا چاہتا تھا لیکن بڑی مشکل سے روکا۔ نجیب ہر فن مولا تھا ہر ایک چیز میں آ گے رہتا تھا۔ کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی ہوگی، وہ ہمیشہ نصیحت کیا کرتا تھا۔اس نے سبزیاں خریدی اور گھر کی طرف چلنے لگا۔پیچھے سے ایک زوردار آواز آئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ نجیب خون سے لت پت گاڑی کے نیچے پڑا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں جو چیزیں تھیں وہ سڑک پر ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔ جانان جب تک نجیب کے پاس پہنچتا اس کی جان نکل چکی تھی۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ