افسانہ افسانوی نثر

آؤ اب نکاح کر لیں (افسانہ) از ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر، افسانہ نمبر 22

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _ 22
بینر :- عمران یوسف


افسانہ :- آؤ اب نکاح کرلیں


ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

اُس کانام پُھول محبوب تھا۔بڑا عجیب سانام رکھا تھا اُس کے والدین نے اُس کا۔وہ انگریزی دوائیوں کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔اُس کے دو کم سن بیٹے اورایک بیٹی تھی۔بیٹی ساتویں کلاس میں زیر تعلیم تھی اور بیٹوں میں ایک دوسری میں اور دوسرا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔اُس کی بیوی بہت حسین وجمیل اور تعلیم یافتہ تھی۔وہ خود بھی بہت زیادہ خوب صورت تھا۔گندمی رنگ،کشادہ پیشانی، بھرے بھرے گال،سیاہ گھنگھریالے بال،سڈول جسم،نیلی آنکھیں،ستواں ناک، برف کی مانند سفید دانت اور کلین شیو میں اُس کا چہرہ یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی کنوارہ ہو۔عمر چالیس برس سے کم کی معلوم ہوتی تھی۔وہ اپنے والدین اور بیوی بچّوں کے ساتھ ایک پُر سکون زندگی جی رہا تھا۔فیس بُک پہ اُس کے سینکڑوں دوست اُسے ہرروز نظر آتے تھے۔ایک دُنیا اُس کو دیکھتی تھی۔ایک روز اُس کے موبائل فون کے میسنجرپر صدائے سحر نام کی ایک لڑکی نے اُسے اپنی طرف متوجہ کردیا۔لڑکی نے میسنجر میں لکھا تھا
”میں آپ کی پروفائل دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہوئی ہوں۔میں چاہتی ہوں آپ سے فون پہ بات کروں۔یہ میرا فون نمبر ہے،اسی پر میں واٹس ایپ چلاتی ہوں۔آپ چاہیں تو مجھ سے بات کرسکتے ہیں“
پھول محبوب نے صدائے سحر کے لکھے الفاظ پڑھے تو اُس کے دل ودماغ میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی۔سُکون دل سے رُخصت ہوگیا۔اُسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے کوئی شوخ وچنچل حسینہ اُس کے در دل پہ دستک دے رہی ہو۔اُس نے گھر سے نکل کر تھوڑی دُور آگے صدائے سحر کا موبائل نمبر سیو کیا۔اُس کے واٹس ایپ نمبر پر اپنا فوٹو سینڈ کردیا۔نیچے لکھا
”مجھے یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو میری پروفائل نے متاثر کیا۔آپ کیا کرتی ہیں؟کہاں رہتی ہیں؟میں نے اپنا فوٹو بھی آپ کو بھیج دیا“
کچھ ہی لمحوں کے بعد صدائے سحر نام کی اُس لڑکی نے لکھا
”میں جیون نگر کی رہنے والی ہوں۔فزکّس میں ایم ایس سی ہوں۔میرے والدین کے پاس روپے کی کوئی کمی نہیں ہے۔میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔میرے دو بھائی ہیں۔دونوں ملازم ہیں۔آپ کا فوٹو دیکھا تو بہت اچھا لگا۔مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ آپ بھی جیون نگر ہی کے رہنے والے ہیں“
پھول محبوب نے اپنے پھول جیسے بچّوں اور اپنی خوب صورت بیوی مژگاں کا خیال نہ کرتے ہوئے صدائے سحر کی طرف اس طرح مائل ہوا کہ جیسے کسی نے اُس پہ سحر کردیا ہو۔میسنجر اور واٹس ایپ پر پہلے تو اُ ن دونوں کی کسی حد تک سنجیدگی سے باتیں ہوتی رہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد اُن کی یہ سنجیدگی دیوانگی میں بدلنے لگی۔ایک روز جب اُن کی ملاقات ویڈیو کال پر ہوئی تو دونوں کے دلوں میں تجسّس اور پیار کی انگڑائی پیدا ہوگئی۔صدائے سحرنے ہی ویڈیو کال کرنے میں پہل کی تھی۔اُس کے پری پیکر وجود میں غضب کی کشش تھی۔گلابی چہرہ،سیاہ کھلے بال،موتیوں کی طرح چمکیلے دانت،گوری کلائیاں،پُر جوش

جوانی اور اُس کے ہونٹوں پہ دل کو موہ لینے والی مُسکان دیکھ کر پھول محبوب کو کسی شاعر کا یہ شعر یاد آگیا تھا ؎
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنادیا
غرضیکہ پھول محبوب اور صدائے سحر کے درمیان عشق کا مرض بڑھتا گیا جوں جوں اُن کی ملاقاتیں موبائل فون اور واٹس ایپ پر ہوتی رہیں۔پھول محبوب کے دل میں جب عشق کے بدلے ہوس نے جوش مارا تو اُس نے ایک روز صدائے سحر کو کہہ دیا
”میرا دل چاہتا ہے آپ کو قریب سے دیکھوں،آپ سے ملوں،ڈھیر ساری باتیں کروں!بتایئے کب اور کہاں ملاقات ہوگی؟“
صدائے سحر نے اُس کی باتیں سُنیں تو کھلکھلا کر ہنس پڑی، پھر کہنے لگی
”یہ آپ ہی طے کیجیے کہ کہاں ملیں“
پھول محبوب نے جھٹ سے کہہ دیا
”اشجارِ سایہ دار پارک میں ملنا مناسب رہے گا،کیونکہ ایک تو یہ شہر سے تھوڑی دُور ہے اور دوسرا وہاں لوگوں کا آنا جانا کم ہی رہتا ہے۔میں کل دو بجے گھر سے اپنی گاڑی لے کر پارک میں پہنچ جاؤں گا“
صدائے سحر نے کہا
”ہاں ٹھیک ہے۔میں بھی اپنی گاڑی میں وہاں پہنچ جاؤں گی“
وہ دونوں ساری رات ایک دوسرے کی موہنی صورتیں قریب سے دیکھنے اور پیارومحبت کی باتیں کرنے کے لئے تجسّس آمیزجذبے کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔دوسرے دن پھول محبوب نے پینٹ کوٹ اور ٹائی پہنی اور قد آدم آئینے کے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے اپنی شبیہ کا جائزہ لینے لگا۔اُس کے خوب صورت وجود پہ خوب صورت سُوٹ بوٹ سے وہ ہیرو جیسا نظر آنے لگا۔اُس کی خوب صورت رفیقہئ حیات مژگاں اُس کے قریب آئی اور اُس سے پوچھنے لگی
”آج کہاں جانے کا ارادہ ہے؟“
اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
”آج جنرل منیجر کے ساتھ ہماری میٹنگ ہے“یہ کہتے ہوئے وہ اپنی آرام دہ چمچماتی گاڑی میں بیٹھ گیا۔کچھ ہی وقت کے بعد وہ اشجار سایہ دار پارک میں پہنچ گیا۔پارک میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے لوہے اور المونیم سے تیار کئے بینچ لگے ہوئے تھے۔وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور بڑی بے تابی سے صدائے سحر کاانتظار کرنے لگا۔وہ ابھی پارک میں نہیں پہنچی تھی۔اُس کی نظریں اپنی محبوبہ صدائے سحر کی تلاش میں تھیں۔وہ کبھی گنگنانے لگتا اور کبھی انگڑائی لیتا۔انتظار کی گھڑیاں کبھی اُسے یہ سوچنے پر مجبور کرتیں کہ کہیں صدائے سحر اُسے بیوقوف تو نہیں بنارہی ہے۔وہ لفظ وفااور بے وفا کے معنی ومفہوم پر غوروفکر کرہی رہا تھا کہ اُسے پارک کے گیٹ سے ایک حسین وجمیل دوشیزہ بڑے نازوادا کے ساتھ داخل ہوتی نظر آئی۔وہ ادھر اُدھر نظریں دوڑارہی تھی تاکہ اُسے پھول محبوب نظر آئے،پھر جب اُس نے فون کیا تو پھول محبوب نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔وہ خوش ہوگئی۔کچھ ہی لمحوں میں وہ

اُس کے قریب ہنستی مسکراتی پہنچ گئی۔دونوں کی آج بالمشافہ ملاقات ہورہی تھی۔اجنبیت کی جو دیوار کسی حدتک اُن کے درمیان حائل تھی،آج ڈھ گئی تھی۔پھول محبوب نے کہا
”میں بڑی بے تابی سے آپ کا انتظار کررہا تھا۔اب آپ آگئی ہیں تو میرادل خوشی سے جھوم اُٹھا ہے“
صدائے سحر نے کہا
”میں بھی آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہورہی ہوں۔یہ پارک بھی بہت اچھی ہے“یہ کہتے ہوئے وہ پھول محبوب کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئی۔پھول محبوب نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ محسوس کی۔صدائے سحر زرق برق لباس میں ملبوس،پورے بناؤ سنگھار اور دلکش اداؤں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔پھول محبوب کو اُس کے وجود سے خوشبو محسوس ہونے لگی۔لمحہ بھر کے لئے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہ گئے۔پوری پارک میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جوان لڑکے،لڑکیاں اور کہیں کہیں ادھیڑ عمر کے مردو عورتیں ایک دوسرے کی چاہت میں مدغم اپنی شرم وحیا اور خاندانی عزت ووقار کو نہ جانے کہاں چھوڑ آئے تھے۔لگتا تھا کہ جیسے اشجار سایہ دارپارک لوگوں کی ناجائز خواہشات کی تکمیل کا اڈّا ہو۔صدائے سحر نے پھول محبوب کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھاپھر کہنے لگی
”مجھے آپ کے وجود سے خوشبو آرہی ہے۔دماغ کو معطر کرنے والی ایسی خوشبو مجھے پہلی بار محسوس ہورہی ہے“
پھول محبوب نے کہا
”مجھے بچپن سے خوشبو پسند ہے۔میری خوش نصیبی کہ آپ کو مجھ سے خوشبو آرہی ہے“
صدائے سحر لہکتی ہوئی بولی
”مجھے خوشبو پہ کسی شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ ؎
خوشبو کی طرح آ یا وہ تیز ہواؤں میں
مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں
پھول محبوب نے کہا”واہ!خوشبو پہ آپ نے اتنا اچھا شعر سُنایا۔بہت خوب،مجھے تو آپ سراپا غزل نظر آرہی ہیں“
صدائے سحر نے کہا
”یہ آپ کا حُسن ظن ہے“دونوں کے چہروں سے بشاشت اور الھڑپن جھلک رہا تھا۔پھول محبوب نے صدائے سحر سے پوچھا
”اچھا یہ بتایئے آپ ٹھنڈا لیں گی یا گرم؟“
صدائے سحر نے کہا
”میں کافی پینا چاہتی ہوں“
پھول محبوب نے کہا
”میں بھی کافی ہی پینا چاہتی ہوں“اُس نے پارک کے ایک کونے میں لگے سٹال ولے سے کافی منگوائی۔دونوں کافی پینے لگے۔کافی پینے کے بعد صدائے سحر نے کہا

”میں اب اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔میں گھر والوں سے اپنی سہیلی کے پاس جانے کے بہانے آپ سے ملنے آئی ہوں“یہ کہتے ہوئے صدائے سحر اُٹھ کھڑی ہوئی۔پھول محبوب نے کہا
”آپ گھر جانا چاہتی ہیں،ٹھیک ہے لیکن میرے ساتھ ایک سیلفی تو کھینچوالیجیے“
صدائے سحر نے کہا
”ہاں ایک شرط پر کھینچواؤں گی وہ یہ کہ سیلفی صرف آپ کی نظروں میں رہے،کسی بھی واٹس ایپ گروپ یا فیس بُک پہ شئیر نہ کریں“
پھول محبوب نے کہا
”ہاں یہ میرا آپ سے وعدہ رہا،ایسا ہرگز نہیں ہوگا“انھوں نے مسکراتے ہوئے سیلفی کھینچوائی اور ایک دوسرے سے رُخصت ہوگئے۔
پھول محبوب او رصدائے سحر کی اس پہلی بالمشافہ ملاقات کے بعد اُن دونوں کے دلوں میں پیار ومحبت کا جذبہ اس قدر موجزن ہوگیا کہ وہ دن میں موبائل فون پہ دیر تک ایک دوسرے سے باتیں کرتے،ہنستے،مذاق کرتے،ادھر اُدھر گھومنے کا پروگرام بناتے۔اشجار سایہ دار پارک میں اُن کی اکثر ملاقاتیں ہوتیں۔مختلف پوز میں فوٹو کھینچواتے۔ایک روز جب وہ ایک ہوٹل میں چلے گئے تو اُن کی یہ ملاقات گذشتہ ملاقاتوں سے بالکل مختلف تھی۔اس طرح کی ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک قائم رہا۔اب وہ دونوں ایک دوسرے کے جسم وجاں کو دریافت کرچکے تھے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اُکتاہٹ سی محسوس کرنے لگے تھے۔ایک روز صدائے سحر نے پھول محبوب سے کہا
”آؤ اب نکاح کرلیں،لیکن ہاں اس کے لئے ہمیں اپنے اپنے والدین کو راضی کرنا ہوگا“
پھول محبوب نے کہا
”میں تین بچّوں کا باپ ہوں۔آپ سے نکاح کرنے کے بعد اپنی بیوی اور بچّوں کا کیا مُنہ دکھاؤں گا“
صدائے سحر نے جب پھول محبوب کا یہ دل دہلادینے والا انکشاف سُنا تو اُسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے خوب صورت وجود پہ آسمان سے بجلی گری ہو!
٭٭٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ