جی این کے اردو، 23/ جون 2022
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022 افسانہ نمبر 16
بینر :- عمران یوسف
افسانہ_ ” سیدھے پیر کی چپل”
شمع اختر انصاری
حیدرآباد پاکستان
” نئی چپل لائے ہیں بابو میرے لیے ” مدرسے جاتے ہوئے شانو نے رک کر شلوار کے پائنچے اونچے کیے ۔
” نئی چپل۔۔۔۔۔۔۔۔؟
نئی چپل۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کب لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
چار ، پانچ سال کی بچیوں کی ٹولی نے الگ الگ سوال کیے۔
سب نے دیکھا نئی چپل ان سب کی چپلوں سے مختلف تھی ۔رنگین پٹیوں والی۔ گہری نیلی ،سرخ، سبز، کتھئی رنگوں کی پٹیاں جو قریبا ایک جیسی ہی لگ رہی تھیں مگر چمک رہی تھیں۔
” دکھاؤ اتار کر” مہرو نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
شانو نے ذرا سا پیر ہلا کر چپل اتار دی۔
“کتنی خوبصورت چپل ہے؟” روبی نے کہا۔چپل پر گہری نیلی، کتھئی اورسرخ،سبز رنگوں کی افقی لکیریں ڈلی ہوئی تھیں اور تلا بالکل پٹیوں جیسا ہی تھا چمکدار ۔۔۔جو ہلکا سا ہلانے سے رنگ بدلتا محسوس ہوتا تھا۔
” دکھاؤ ذرا” مہرونے اپنی چپل اتار کر شانو کی چپل میں پاؤں ڈالنا چاہا۔
” نہیں ، ہمارے بابو ہمارے لیے لائے ہیں ” شانو نے چپل پہنی اورسر اونچا کیئے آگے چل دی ۔
سیپارہ سینے سے لگائے ساری بچیاں تیز تیز قدم اٹھاکر شانو کا ساتھ دینے لگیں۔
مدرسے میں جماعت کے باہر جہاں چپل اتارتے ہیں عین اسی جگہ روز کی طرح چپلیں اتار دی گئیں۔ لیکن آج بات کچھ مختلف تھی شانو کی چپل ان سب میں الگ نظر آرہی تھی جیسے چپلوں کی شاہزادی ہو ۔باقی ساری چپلیں ربڑ کی قینچی چپلیں تھیں نیلاتلا اور نیلی پٹیاں ، گلابی تلا اور گلابی پٹیاں ، ہرا تلا اور ہری پٹیاں۔ ان میں امتیاز ہوتا تھاتو رنگ کی وجہ سے ۔ نیلی چپل ۔ ہری چپل ۔لال چپل ۔
سالوں سے یہ ہی چپل پہنی جارہی تھی کہ اچانک شانو کی چپل نے ساری چپلوں کو بے وقعت کردیا۔
مدرسہ شروع ہوا ، رحلیں کھول کر رکھی گئیں ، جزدانوں کی ڈوریاں کھلیں اور پھر سپارے نکال کر پچھلے سبق کی دہرائی ہونے لگی۔
دفعتاً مہرو نے باجی سے کہا” باجی ہمیں پانی کی پیاس لگی ہے ہم پانی پینے جائیں ” اجازت ملتے ہی مہرو صحن میں رکھے مٹکے سے پانی نکالنے لگی ۔ مہرو پانی پیتی جاتی اور شانو کی چپل کو توصیفیی نگاہوں سے دیکھے جاتی پھر گلاس رکھ کر مڑی اور چپلوں کے ڈھیر کے پاس آکھڑی ہوئی کتنی ہی دیر شانو کی چپل کو دیکھتی رہی۔شانو بے چین ہوگئی کہیں مہرو اس کی چپل میں پیر نہ ڈال دے۔ سکھیاں شانو کی کیفیت بھانپ گئیں۔
” باجی! مہرو پانی پی کر باہر کھڑی ہے اندر نہیں آرہی ” نوری نے شکایت کی۔
مہرو اندر آگئی اور ہل ہل کر سبق پڑھنے لگی۔بہانے سےکوئی نہ کوئی اٹھ کر باہر جاتی اور شانو کی رنگین چپل کو دور سے ہی جی بھر کر تکتی۔
اس شام سات گھروں والی بند گلی میں عصر سے اندھیرا ہونے تک کھیلے گئے سارے کھیلوں میں شانو کو زیادہ ” ڈھمائیں “(باری) ملیں۔شانو برف ہوجاتی تو ہر لڑکی اسے پانی کرنے بھاگی چلی جاتی۔” کوڑا جمال شاہی” میں جب شانو اپنے پیچھے رکھا کوڑا نہ ڈھونڈ پاتی تو دوپٹے سے بنا کوڑا اس کی کمر پر بڑی آہستگی سے مارا جاتا۔
شام کو ابا کام سے گھر واپس آئے تو زرین نے پہلی بات یہ ہی کہی” ابا! شانو کے بابو، شانو کی نئی چپل لائے ہیں”
کم سامان والے گھر میں بچھے چھوٹے سے دستر خوان پر روٹی کو دال کے ساتھ کھاتے ہوئے زرین نے شانو کی چپل کی تفصیل بتائی۔ ” وہ چپل ہےنا ، اس کے اوپر “تلے “پر سیدھی سیدھی ، موٹی موٹی لکیریں ہیں گہری کتھئی ، گہری نیلی ، سرخ اور سبز۔ سب ایک جیسی لگتی ہیں مگر ان میں چمک ہے ، چپل کو ہلا کر دیکھو تو الگ الگ رنگ نظر آتے ہیں،اور چمکتے بھی ہیں “
” ابا! چمڑا ہوگا چمکدار ،رنگین لائنوں والا،اس سے بنی ہوگی وہ چپل ، آج کل بڑی والی مارکیٹ میں ایسی چیزیں آنے لگی ہیں “(سلیم) بڑے بھئیا نے اندازے سے کہا۔
” ہاں ابا! کل تم بھی میری چپل لے کر آنا” زرین نے ابا کو پکا کیا۔ابا یہ دیکھو یہ نا ایسی۔۔۔۔۔۔۔ آگے سے چپٹی چپل یہ لڑکے پہنتے ہیں لڑکیوں کی چپل ایسی ہوتی ہے آگے سے طوطے کی چونچ جیسی۔۔۔۔۔۔ جیسی اماں کی چپل ہے ویسی چپل پہنتی ہیں لڑکیاں “زرین نے اپنی حالیہ استعمال شدہ چپل ابا کے سامنے لا کر رکھی جو چھوٹے بھئیا کو چھوٹی ہوگئی تھی اور اب زرین پہنتی تھی۔
” اور ابا ! یہ دیکھو یہ چپل نا بڑی ہے پیچھے سے ، ابا میرے ناپ کی چپل لانا جو میرے پیر میں پوری آئے” ۔ زرین نے چپل پہنی اور پیچھے نکلنے والے تلے پر انگلی رکھی تاکہ ابا کو چپل کا ناپ اچھی طرح سمجھ آ جائے۔
__
” اماں شانو کی چپل ہے نا۔۔۔۔۔۔۔”اگلے دن مدرسے سے واپسی پر زرین نے جوں ہی اماں سے کہا ۔ ” زرین کسی کی چیز دیکھ کر مانگتے ہیں تو اسے حرص کہتے ہیں ، اللہ کو اچھا نہیں لگتا حرص کرنا ،اور اب تم اپنے ابا سے شانو کی چپل کی کوئی بات نہیں کرو گی۔ حرص کرنا بری بات ہے بس سبق میں آگے نکلنے میں حرص کرو سب سے آگے نکل جاؤ” ہانڈی میں چمچہ چلاتی اماں نے فوراً گھرکا ۔
” ہاں اماں کل سے شانو کی چپل ، شانو کی چپل کیے جارہی ہے ” دوسال بڑی نسرین نے شکایت کی۔
” بس ! اب زرین چپل کی کوئی بات نہیں کرے گی،کیوں زرین، نہیں کروگی نا؟ ” اماں نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے سوال کیا۔
” نہیں ” زرین کی نہیں میں ایک سسکی شامل تھی۔
اگلے چار دنوں تک گھر گھر والے کھیل میں شانو کو بیگم صاحبہ بنایا جاتا رہا اور مہرو، زرین ، منی، روبینہ سب بھاگ بھاگ کر اس کے احکامات بجالاتے رہے ۔
پانچویں صبح مہرو نے بھی بڑے فخر سے پائنچے اونچےکیے ” میرے ابو میری چپل لائے ہیں “
‘ ہائے اللہ، یہ تو بالکل شانو کی چپل جیسی ہے” زرین نے کہا۔ آج مہرو آگے آگے چلی شانو تیز قدم بڑھاکر مہرو کے ہم رکاب ہولی۔تینوں بچیاں پیچھے رہ گئیں ۔
اب عصر کے بعد کے کھیلوں میں مہرو کو بھی رعایت ملنے لگی ۔ پیل دوج میں پاؤں جلتا یا چیبوک۔مہرو کھیل سے باہر نہیں کی جاتی ۔زرین نے ابا سے نئی چپل کی بات کرنا چاہی مگر یاد آیا یہ تو حرص ہے اللہ حرص کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا تو کیا مہرو کو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اگلے ہفتے میں روبی اور پھر نوری بھی شانو ،مہرو کی ہم پلہ ہوگئیں ۔
بچیوں کی اس ٹولی میں واحد زرین تھی جو ابھی تک پرانی چپلیں ہی پہنتی تھی۔
شام کو ابا آئے تو زرین نے چپکے سےابا کے اوزاروں والے کپڑے کو تھیلے کو کھول کر اچھی طرح دیکھا اس میں چپل نہیں تھی ۔ابا سے پوچھنا چاہا لیکن دل مسوس کر رہ گئی اماں نے منع کیاتھا چپل کی بات کرنے کو۔
ابا جمعے کو دوپہر کے کھانے سے فارغ لیٹے ہی تھے کہ سلیم نے کہا” ابا!… میری چپل کی بدی ( پٹی) ٹوٹ گئی ہے نئی بدیاں آٹھ آنے ( پچاس پیسے/ آدھا روپیہ)کی آئیں گی چونی ( پچیس پیسے / چوتھائی روپیہ)میرے پاس ہے” .
ابا نے لیٹے لیٹے قمیض کی اوپری اور بغلی جیب ٹٹولی ۔ ایک جیب سے دس پیسے کا سکہ اور دوسری سے پانچ پیسے کا سکہ نکال کر سلیم کی ہتھیلی پر دھر دیا۔
” سلیم….! کتنی بار کہاہے اپنے ابا کو پیسوں کانہ کہا کرو” اماں نے “نیامت خانے “کے بالائی خانے میں بچھے اخبار کے نیچے سے ایک چونی برآمد کی اور سلیم کے ہاتھ میں تھما دی پانچ اور دس کے سکے واپس ابا کی جانب کھسکا دیئے گئے۔
” چل زرین ، بدی ڈلاکر آئیں ” سلیم نے اپنی چپل کپڑے کے تھیلے میں ڈالی اور ابا کی چپل پہن لی جو کثرت استعمال سے اتنی گھس چکی تھی کہ ایڑیوں میں بیضوی سوراخ ہوگیا تھا اور پاؤں کی ایڑی براہ راست زمین سے مذاکرات کیاکرتی تھی۔
” سلیم میاں ،سفید بدیاں تو ہیں نہیں تم نیلی ہی ڈلوالو ، سفید تو بہت دن میں آئیں گی ” چاچا نور دین نے مشورہ دیا۔
” نہیں چاچا ، کالج میں دو رنگ کی چپل اچھی نہیں لگے گی ” سلیم نے چپل واپس لیتے ہوئے کہا۔
” سناہے دفتر میں بابو لگ گئے ہو” چاچا نور دین نے استفسار کیا۔
” نہیں تو، وہ تو میں شام کو ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈسیکھنے جاتا ہوں ” سلیم نے ہتھیلیاں زمیں کے متوازی کر کے دسوں انگلیوں کو ایک ساتھ حرکت دی۔
سلیم زرین کوساتھ لیے ساتھ گل زمان کے کھوکھے پر چلا آیا۔یہاں سفید بدیاں موجود تھیں۔ سلیم بدیوں کاگچھا اپنے ہاتھ میں لے کر پڑھتارہا ، پانچ صحیح ایک بٹا دو، سات صحیح تین بٹاچار ، بالآخر ایک بدی گل زمان کے ہاتھ میں تھما دی ” لالہ یہ ڈال دو” بدی ڈلتی دیکھ کر زرین کو اماں کی چپل یاد آئی جس میں بدی ٹوٹنے پر موچی نے چمڑا سی کر چپل کے نیچے سے گزار کر سلائی لگادی تھی اماں نے بدی نہیں ڈلائی تھی ٹانکہ لگوالیاتھا۔
بدھ والی رات ابا کھانے کے بعد سلیم کو لے کر بیٹھ گئے۔ ” سلیم یہ لو کچھ پیسے ، جمعے کو تمہاری چھٹی ہوتی ہے تم نواب شاہ چلے جاؤ،اپنی” ممیری” بہن رابعہ کے گھر،نسرین اور زرین کو لے کے، دیکھو یہ ٹاور مارکیٹ سے شاہی بازار کاراستہ لینا آدھے گھنٹے سیدھے چلو گے تو سامنے ہی ریلوے اسٹیشن ہے دیکھاہوا تو ہے تمہارا ، جوان آدمی ہو پیدل چلے جانا اسٹیشن تک ۔صبح سات بجے نکلو تو آٹھ بجے والی گاڑی مل جائے گی تین روپے بیس پیسے کاٹکٹ ہے ،نسرین اور زرین کاٹکٹ نہیں لگے گا ۔ نسرین کواپنے پاس کھڑا کر لینااورزرین کوگود میں بٹھا لینا ،نواب شاہ پر اترو تو رابعہ اور اکرام کاگھر ولیمے پر دیکھاہی ہے ، تانگے والا پندرہ پیسے لے گا رابعہ کے گھر تک کے ،بس چلے جاؤ بہن کے گھر اور کسی جمعے کی دعوت دے آؤاکرام کو ، دیکھو بات طے کرکے آنا کس جمعے کو پہنچیں گے وہ لوگ؟ ۔بہن کاگھر ہے زیادہ بولنا نہیں ، کھانے کو کچھ رکھیں تو پہلے نہیں اٹھانا جب تک گھر والے کچھ نہ کھائیں ہاتھ نہیں لگانا اور پلیٹ کو بالکل صاف نہ کرلینا کچھ چھوڑدینا باقی ۔ شام چاربجے کی ٹرین سے اسی طرح واپس آجانا۔ اور دو روپے الگ رکھ لو۔ آتے ہوئے بہن کے ہاتھ پر رکھ کر آنا ۔اورہاں! ۔۔۔۔۔۔۔۔جاتے ہوئے گلاب جامن لیتے جانا ۔”ابا نے سلیم کو بارہ روپے پکڑائے۔
“سلیم کے ابا تم خود ہی دے آتے رابعہ کو بلاوا۔” اماں نے مشورہ دیا۔
” نہیں سلیم کی اماں کارخانہ سے تیس روپے ادھار لیئے ہیں اب جمعے جمعے کی دیہاڑیاں بھی لگاؤں گا تاکہ جلد پیسے اتر جائیں”ابا نے گیارہ روپےاماں کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
“تیس روپے؟ مگر یہ تو تیئیس روپے کا حساب ہے !……..،” اماں نے حیرانی سے کہا۔
” سات روپے کی چپل آگئی زرین کی ،شانو کی چپل جیسی ” ابا نے بتایا۔
“کیا ضرورت تھی چپل لانے کی….؟ زرین بھول گئی تھی چپل کو” اماں نے ہلکی ناراضگی سے کہا ۔
” زرین بھولتی نہیں ہے ، بس! بولتی نہیں ہے” ابا نے دل گرفتگی سے ایک نظر سوئی ہوئی زرین پر ڈالی اور ماتھے پر پیار کیا۔
اگلی صبح زرین نے شانو جیسی چپل دیکھی تو پہن کر آنگن میں خوشی سے دوڑتی پھری۔
” اماں شانو جیسی چپل ، اماں شانو جیسی چپل ، اماں میں نے مانگی نہیں تھی ، میں نے حرص نہیں کی تھی ” زرین نئی چپل پہن کر مدرسے چلی ۔
” زرین آج یہ چپل رہنے دو کل بڑے بھئیاتم اور نسرین نواب شاہ جائیں گے وہاں چلی جانا پہن کر” اماں نے سمجھایا۔۔ ” ہاں اماں! صحیح ہے,صحیح ہے، صحیح ہے” زرین خوشی خوشی چپل مدرسے پہن کر جانے کے حق سے دست بردار ہوگئ۔
رابعہ کے گھر میں تین بجے ہی تھے کہ اکرام نے سلیم دنگل دکھانے کی پیشکش کی ، سلیم کی پس اور پیش ایک نہ چلنے دی دنگل ختم ہوتے ہوتے پانچ بج گئے اسٹیشن پہنچے تو ٹرین کب کی جاچکی تھی اگلی ٹرین ساڑھے چھ پر آئی اور اپنے شہر پہنچتے پہنچتے ساڑھے آ ٹھ ہوچلے، چہار سو اندھیرا تھازرین گود میں ہی سوگئی تھی بھئیا نے جگانا اچھا نہ سمجھا کاندھے سے لگایااور نسرین کی انگلی پکڑی ،اندھیرا گہرا ہوگیا تھا سفر کی تھکان الگ ۔
” بھئیا، بھئیا ! زرین کی چپل گر گئی” نسرین ہذیانی انداز میں گویا ہوئی ۔
” چپل ؟ کون سی چپل؟ ” بھئیا نے گھبرا کر زرین کے دونوں پیر ٹٹولے۔
” بھئیا یہ الٹے پیر کی چپل” نسرین نےمغموم ہوکر جواب دیا ۔
” منی، منی! منی چپل کہاں گرائی؟”بھئیا نے زرین کوکاندھے سے ہٹاکر گال تھپتھپائے۔
زرین نے نیم غنودگی میں دونوں پیر دیکھے اورمعاملہ سمجھے بغیر سیدھے پیر کی چپل کو انگوٹھے اور انگلیوں کے بیچ مضبوطی سے دبالیا۔
” نسرین ! تو ادھر دیکھ ، کھوکھوں کے پاس پاس” بھئیا الٹے قدموں واپس پلٹے اور کپڑے سے ڈھکے ٹھیلوں ، لکڑی کے کھوکھوں کے گرد آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔
” ملی……؟
ملی………؟”
بیچ بیچ نسرین سے پوچھتے جاتے ۔۔
” نہیں بھئیا۔۔۔۔۔۔
نہیں بھئیا۔۔۔۔۔۔۔۔”
ہربار وہ ہی جواب۔
بھئیا نے غصے میں سیدھے پیر کی چپل کھینچی اور زور سے ایک طرف پھینک کرواپسی کو مڑے ۔
“تھپ” کی آواز آئی اور چپل کچھ دور جاگری زرین پلٹ کر کاندھے سے لگ گئی اس کی نظریں چپل پر جمی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ چپل کو دور ہوتا دیکھ رہی تھی ۔
” بھئیاااا، بھئیا وہ میری چپل اٹھارہاہے” زرین ملگجے کپڑوں والے راہ گیر کو چپل کے قریب جھکتے دیکھ کربوکھلائی۔
” چپ زرین , بالکل چپ” بھئیا نے آنکھیں نکال کر سختی سے گھرکا۔
” بابوووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، او بابوو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری بچی کی چپل گر گئی ہے” راہ گیر بھئیا کے پیچھے بھاگا چلا آیا ۔زرین چاہتی تھی بھئیا رک کر چپل لے لیں لیکن بھئیا کے غصے سے ڈر کر چپ رہی۔ بھئیانے آواز سنی تو قدم اور تیز کردیئے۔ راہ گیر دوڑا اور سامنے آن کھڑا ہو۔
” بابو ، یہ بچی کی چپل ” راہ گیر نے پھولی سانسوں کے درمیان کہا۔
” ارے میاں ، ایک چپل کہیں اور گرا آئی ہے” بھئیانے چپل لے لی غصے میں ہاتھ سر سے بلند کیا اور کھینچ کر چپل دوبارہ پھینکی ۔ اس بار چپل جانے کہاں گری تھی نہ چپل گرتی نظر آئی نہ ہی” تھپ ” کی آواز سنائی دی۔