افسانہ افسانوی نثر

یخ بستہ تپش (افسانہ) از ابصار فاطمہ ، افسانہ ایونٹ ۲۰۲۲ زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر

پیش کش جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر

افسانہ ایونٹ 2022

افسانہ نمبر 13

بینر :- عمران یوسف

افسانہ :- “یخ بستہ تپش”

ابصار فاطمہ

“اظہر! میں بتا رہی ہوں یہ بندی ٹھیک نہیں ہے. میں بس آج ہی اس کا حساب کردوں گی.”

اظہر آفس جانے کے لیے تیار ہوتا جارہا تھا اور اپنی بیوی زوبیہ سے نئی کام والی کی شکایت بھی سن رہا تھا. وہ کئی دن سے اسے نوٹ کر رہی تھی. اور ہر بار جھنجھلا جاتی تھی.

“یار زوبی پلیز، خود پہ نہیں تو مجھ پہ رحم کرو، ایک تو یہاں میڈ “maid” مشکل سے ملتی ہیں جو ملتی ہیں ان سے تمہارا مزاج نہیں ملتا. اور جن سے مزاج بھی مل جائے ان کے پیسے سن کے پیروں سے زمین نکل جاتی ہے. ایسا لگتا ہے ہمارے پیسوں سے اپنی نسلوں تک کے محل بنا کے دم لیں گی. دیکھو تمہیں تھوڑی بہت نظر تو رکھنی پڑے گی. تمہیں اندازہ تو ہے اس قوم کا. اچھا میں نکل رہا ہوں آج میٹنگ ہے زین اور حسنین کو اسکول سے لینے تم چلی جانا میں نہیں نکل پاؤں گا.”

اظہر نے باہر نکلنے کے لیے کمرے کا دروازہ کھولا اور ایک دم ایسا منہ بنایا جیسے کسی بہت ناگوار چیز سے سامنا ہوا ہو.

” توبہ! گرمی دیکھو جیسے گھر میں گھس کے گلا دبا کے مار ہی دے گی. یار ظلم ہے اتنی گرمی میں بھی آفس بلاتے ہیں.”

اسے ائر کنڈیشنڈ کمرے سے نکل کر ائیر کنڈیشنڈ گاڑی تک جانا بھی ناگوار لگ رہا تھا. آج کی میٹنگ نے کم از کم ایک دفعہ تو دھوپ میں جھلسنے سے بچا لیا تھا. اسے پتا تھا کہ آج اس کی واپسی تک زوبیہ کا مزاج گرم رہے گا کچھ کام والی کا مسئلہ اور کچھ گرمی میں نکلنے کا غصہ.

اس نے آفس پہنچنے کے تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد زوبیہ کو کال کرلی.

کافی دیر تک دوسری طرف بیل بجتی رہی. آخر کار مشینی پیغام چلنے لگا ‘آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الحال جواب……..’ اس نے لائن کاٹ دی. اسے پتا تھا کہ موبائل زوبیہ کے ہاتھ میں ہی ہوگا لیکن یہ بھی ناراضگی دکھانے کا ایک طریقہ تھا. اس نے مسکرا کے دوبارہ نمبر ملا لیا.

” اظہر آپ کو بالکل میرا خیال نہیں ہے.” چار پانچ بار بیل جانے کے بعد آخر کار زوبیہ نے کال اٹھا ہی لی.

“ارے یار ہے خیال تبھی تو ہم ایک سال میں تین میڈز بدل چکے ہیں.”

“اففو زاہدہ کی بات نہیں کر رہی. اتنی گرمی میں رکشہ میں سڑتے ہوئے جاؤ اور بچوں کو لے کر آؤ. آپ خود تو اے سی والی گاڑی میں گھومتے ہیں آپ کو کیا پتا کتنی گرمی ہوتی ہے.”

” کریم یا اوبر ( ٹیکسی سروس) منگا لو یار، اس میں کیا مسئلہ ہے. چلو دونوں مسئلے حل ہوگئے اب خوش؟ “

“دونوں کہاں سے حل ہوگئے زاہدہ کو نکالنے پہ مان جو نہیں رہے آپ.”

زوبیہ کو زاہدہ پہ تو غصہ تھا ہی ساتھ اظہر پہ دُہرا غصہ تھا.

گھر کیسے چلتا ہے اظہر کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا لیکن پھر بھی ہر اہم فیصلہ خود ہی کرتا تھا، والدین سے الگ ہونے سے لےکر بچوں کو بس کی بجائے خود لانے لیجانے تک ہر فیصلہ ہی اس کا تھا. یہ الگ بات کہ ان سب فیصلوں کی وجہ وہ زوبیہ کو قرار دیتا تھا. ساتھ ہی اس کا مؤقف تھا جو چاہیے میں دوں گا لیکن گھر میں تنکا بھی میری مرضی کے بغیر نہ ہلے. گھر کے پردے کیا، زوبیہ کے جوتے تک اظہر کی پسند کے تھے. ان دونوں کے عموماً جھگڑے اسی بات پہ ہوتے تھے. اظہر کو لگتا تھا کہ زوبیہ جان بوجھ کے اس کے فیصلوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی اور زوبیہ کو لگتا تھا کہ اظہر جان بوجھ کے وہ فیصلہ کرتا ہے جس سے اسے مشکل ہو.

ابھی بھی دونوں کی بحث بنیادی مدعے کی بجائے ایک دوسرے سے اپنی بات منوانے پہ ہورہی تھی. زوبیہ کو لگ رہا تھا کہ زاہدہ بہت مشکوک شخصیت کی مالک ہے اور اسے روز گھر میں آنے دینا خطرناک ہوسکتا ہے. اور یہ نکتہ اظہر کو اپنی فیصلے کی صلاحیت پہ الزام کی طرح لگ رہا تھا. اظہر نہیں چاہتا تھا کہ اس کی منتخب کی ہوئی کام والی بدلی جائے.

بڑی مشکل سے انہیں کوئی دو ماہ کے بعد یہ کام والی ملی تھی، شکل سے ہی پریشان حال اور مسکین سی لگتی تھی اسی لیے اظہر اور زوبیہ جلد مطمئین ہوگئے تھے لیکن اس کے کام پہ لگنے کے ایک ہی ہفتے میں زوبیہ کو اس کی حرکتیں مشکوک لگنے لگیں، پہلے چند دن تو زوبیہ کافی مطمئین ہو گئی کیوں کہ بیڈ روم کی ہر ہر چیز اس نے اچھی طرح جھاڑ پونچھ کے دو دو بار صاف کی، بیڈ کے نیچے سے مٹی نکالی، الماریوں کے پیچھے سے سال بھر کا کچرہ نکالا جو کہ پچھلی کام والیوں نے چھوڑا ہوا تھا، بیڈ کے سرہانے پہ بنے ڈیزائین تک کو گیلے کپڑے کے کونے کو بتی بنا بنا کر صاف کیا۔ لیکن یہ تفصیلی صفائی جس میں تقریباً گھنٹہ لگ جاتا تھا روز کا معمول بن گیا کہ زوبیہ الجھنے لگی چلو پورا گھر ہی اتنی باریکی سے صاف ہوتا تو الگ بات تھی۔ مگر باقی گھر میں اس سے بھی برا حل ہوگیا تھا جیسا پچھلی کام والیوں کے وقت تھا۔ پنکھا چلتے میں الٹی سیدھی جھاڑو مار کے بیڈروم کے دروازے سے لگ کے بیٹھ جاتی تھی۔ اور تو اور زوبیہ کی شکل دیکھ کر فوراً بیان دیا جاتا باجی بس ابھی بیٹھی تھی، تھوڑی سی صفائی رہتی ہے باقی تو کرلیا۔ پتا نہیں کتنی دفعہ زوبیہ نے ڈانٹ کے پنکھا بند کروایا، بھلا چلتے پنکھے میں بھی کوئی جھاڑو دِلتی ہے۔ یہاں کا کچرا وہاں وہاں کا کچرا یہاں سارے گھر میں مٹی اور جالے کے بگولے اڑتے پھرتے ہیں۔ زوبیہ کو آہستہ آہستہ یقین ہوتا جارہا تھا کہ یہ یا تو کسی ڈاکوؤں کے ٹولے کی مخبر ہے یا پھر اکرم صاحب کے گھر جاکر گھر کی ہر بات بتاتی ہے، زوبیہ تو پہلے ہی کھٹک گئی تھی کہ کہاں تو اکرم صاحب کی بیگم ہر بات میں زوبیہ سے منہ ماری کو تیار ہوتی ہیں اور کہاں ایک بار کہنے پہ اپنی کام والی بھیج دی۔ اور یہی سب اب وہ اظہر کو سمجھانے میں لگی ہوئی تھی۔ اب تو اسے زاہدہ کی موجودگی میں کسی سے موبائل فون پہ بات کرتے ہوئے بھی الجھن ہوتی تھی۔

وہ اظہر سے بات کر ہی رہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجنے لگی۔ اسے اندازہ تھا کہ زاہدہ ہی ہوگی اس نے کال بند کی اور جاکر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی سب سے پہلے پسینے کی بو کا بھبھکا اندر داخل ہوا۔ زاہدہ روز کی طرح پسینے میں شرابور نڈھال سی دروازے پہ کھڑی تھی۔ زوبیہ نے جان بوجھ کے کراہیت آمیز منہ بنایا تاکہ زاہدہ کو اندازہ ہو کہ اسے بو آرہی ہے۔ اس نے روز کی طرح غور سے زاہدہ کے برقعے کا جائزہ لیا کندھوں اور سر پہ سے اس کا رنگ اڑ کے بھورا سا ہو رہا تھا کمر اور چھاتی کے نیچے ساحل پہ آنے والی لہروں جیسا پہلے گیلا اور پھر سفید حاشیہ سا بنا ہوا تھا۔ روز یہ حاشیہ الگ ہی نمونے کا ہوتا تھا۔

زاہدہ کا کہنا تھا کہ وہ روز گھر سے نہا کے نکلتی ہے اور برقع بھی گھر جاتے ہی دھو کے ڈالتی ہے۔ لیکن ہر بات کی طرح زوبیہ کو اُس کی اِس بات پہ بھی اب زیادہ یقین نہیں رہا تھا۔ کنجوس کہیں کی، ذرا سے پیسے بچانے کے چکر میں گھنٹہ پیدل چل کے آنے کی کیا ضرورت ویگن سے آ جائے تو یہ بھبھکے تو نہ اٹھیں، یہ مشورہ اس نے زاہدہ کو دینے سے اجتناب ہی کیا کیوں کہ پھر وہ ویگن کا کرایہ بھی اسی سے مانگ لیتی، زاہدہ نے برقع اتار کے پیچھے والی گیلری میں الگنی پہ پھیلایا نلکے سے ہاتھ منہ دھویا اور وہیں پہ رکھا صفائی کاسامان اٹھا کر دوبارہ اندر آگئی۔ زوبیہ وہیں کھڑی اسے غور سے دیکھتی رہی۔ زاہدہ نے کچن میں سنک کے سامنے بنی کھڑکی میں رکھے بد رنگ پلاسٹک کے گلاس کو اٹھا کر روز کی طرح رگڑ رگڑ کے دھو کے پانی پیا تو زوبیہ نے بیڈ روم کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ وہ کمرے کے دروازے پہ پہنچی ہی تھی کہ زاہدہ نے ہال کا پنکھا چلا دیا۔ زوبیہ یک دم رک گئی۔

“پنکھا تو بند کرو، چلتے پنکھے میں کوئی جھاڑو دی جاتی ہے، سارے کمرے میں مٹی اڑتی پھرے گی اور محترمہ اِدھر اُدھر ہاتھ چلا کر فارغ ہوجائیں گی۔ صفائی کے باوجود بھی پتا ہی نہیں چلتا کہ کسی نے ہاتھ بھی لگایا ہے کمرے کو۔ ساری توجہ تمہاری بیڈروم کی صفائی پہ ہوتی ہے۔ اچھا ہاں یاد آیا بیڈروم کی صفائی آج چھوڑ دینا۔”

زاہدہ نے فوراً پنکھے کا بٹن بند کیا اور سوالیہ نظروں سے زوبیہ کو دیکھنے لگی، اسے فضول کوفت محسوس ہوئی پھر بھی جواب دے ہی دیا

“آج اظہر بزی(مصروف) ہیں مجھے ساڑھے بارہ سے پہلے نکلنا ہے، بچوں کو لینے”

زاہدہ سر ہلا کر صفائی میں لگ گئی۔ زوبیہ نے سکون کاسانس لیا۔ اور بیڈروم میں چلی گئی

زاہدہ جلدی جلدی جھاڑو نکالنے لگی۔ تاکہ زوبیہ کے بتائے وقت تک فارغ ہوجائے۔ اس کی پیشانی پہ پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگیں چھوٹی چھوٹی بوندیں جلد ہی مل کے بڑی بوند بن گئی اور وہ بہتی ہوئی ٹھوڑی سے نیچے ٹپک گئی۔ زاہدہ نے ایک لمحے کو رک کر کندھے سے نیچے بازو ماتھے پہ پھیرا اور دوبارہ صفائی میں لگ گئی۔ مگر کچھ ہی دیر بعد پسینہ دوبارہ اسی مقدار میں جمع ہوگیا۔ کمر سے شروع ہونے والا پسینہ پنڈلیوں سے ہوتا ہوا چپل کو پسیجے دے رہا تھا۔ حبس سے سانس لینا دوبھر لگ رہا تھا۔ اس نے جھاڑو سائیڈ پہ رکھی اور بیڈ روم کے دروازے کے پاس بیٹھ گئی۔ مگر چند ہی لمحوں میں چونک گئی دروازے کے نیچے چوکھٹ کے نیچے موجود ذرا سا رخنہ اب بند تھا شاید کل رات ہی فوم لگایا گیا تھا۔

زاہدہ نے تھکی ہوئی سانس لی اور دوبارہ جھاڑو اٹھا کے کام میں لگ گئی۔

May be an image of ‎13 people and ‎text that says "‎ولر ولراردو ادبی فورم کشمیر افسانه ایونٹ 2022 افسانه 13. 13.4 یخ بسته یخبسته_تپش ابصار فاطمه‎"‎‎

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ