افسانہ افسانوی نثر

غار والے (افسانہ) از پروفیسر اسلم جمشیدپوری ، افسانہ ایونٹ زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم 2022، نمبر 14

ولر اردو ادبی فورم کشمیر

افسانہ ایونٹ 2022

افسانہ نمبر 14

بینر :- عمران یوسف

غار والے (افسانہ) از پروفیسر اسلم جمشیدپوری (میرٹھ)

”کو ن تھے غار والے“

”تم کیا جانو؟ کون تھے غار والے؟“

سوال کے جواب میں بھی سوال ہی تھا۔سننے والوں نے سنا کہ غار والوں کا قصہ عجب اور حیرت و استعجاب والا ہے۔قصہ گو سامعین کے تاثرات معلوم کرنا چاہتا تھا۔

سامعین کی ایک ساتھ آواز بلند ہوئی۔

”ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم۔۔ہمیں غار والوں کا قصہ سننا ہے۔۔“

سامعین کا اشتیاق دیکھ کر قصہ گو،خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔قصہ گو کا داڑھی والا نورانی چہرہ سامعین کی تعداد دیکھ کر دمک رہا تھا۔قصہ گو سچے قصے سنانے کے لئے مشہور تھا۔

”کوئی بیچ میں ٹوکے گا نہیں۔۔۔ تو قصہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے۔۔“

سننے والوں نے بالکل خاموشی اختیار کر لی تھی۔سب کی توجہ بزرگ قصہ گو کی طرف تھی۔

”وہ چند نوجوان تھے۔۔۔“

”وہ کتنے تھے۔۔؟“ ایک سامع نے سوال داغا تو قصہ گو کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔چہرے پر غصے کے آثار تھے۔

”آپ لوگ صبر نہیں کر سکتے۔۔قصے میں سب کچھ آئے گا۔دودھ کا دودھ،پانی کا پانی ہو جائے گا“

سامعین میں سے بھی کچھ بزرگوں نے سوال کرنے والے نوجوان کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔

قصہ گو نے دوبارہ خود کو تیار کیا اور قصہ پھر شروع ہوا۔

”وہ چند نوجوان تھے۔انہوں نے حق کی حمایت کا اعلان کر دیا۔وہ ایک معبود کو پوجتے تھے۔انہوں نے باقی معبودوں کا انکار کر دیا۔۔انہوں نے کہا کہ ہمارا اور سب کا معبود وہ ہے جس نے شمس و قمر اور نجوم بنائے۔جس نے شجر وحجر کو پیدا کیا۔جس نے پھولوں اور تتلیوں کو طرح طرح کے رنگ عطا کئے۔جس نے ہوا،پانی،مٹّی اور آگ بنائی۔جس نے انواع و اقسام کے پھل پھول اور پودے اگائے۔جس نے مٹّی کو زرخیز بنایا،جس نے آسمان بنائے اور آسمان سے پانی بر سایا۔جس نے زمین میں ریگستان،سبزہ زار،پہاڑ اور میدان بنائے۔ہمارا رب وہی ہے۔۔“

ان نوجوانوں کا اتنا اعلان کرنا تھا کہ پورے ملک میں،ان کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔یہاں تک کہ وہاں کے بادشاہ نے بھی ان نوجوانوں کو باغی قرار دے دیا کہ انہوں نے ان کے دیوی دیوتاؤں کی بے عزتی کی تھی۔ان کے باپ داداؤں کے مذہب کو چیلینج کیا تھا۔ان کے معبودوں کے خلاف توہین آمیز بات کی تھی۔ان کو خوب سمجھایا گیا۔اپنے بزرگوں کا واسطہ دیا گیا۔توبہ کر نے اور دیوی دیوتاؤں کو راضی کرنے کو کہا گیا۔وہاں کا بادشاہ بڑاظالم تھا۔ایمان سے پھر جانے والوں کو وہ سولی پہ لٹکا دیا کرتا تھا۔ بادشاہ نے بھی انہیں ایک موقع دیاکہ اپنی غلطی مان کرمعافی مانگ لیں۔تو ہم معاف کر دیں گے۔

مگر ان نوجوانوں نے سب کے سامنے کہہ دیا۔

”ہم اس رب کو مانتے ہیں،جو ہم کو پالتاہے۔تمہیں،ہمیں،سب کو پالتا ہے۔غریب،امیر،بادشاہ اور فقیر۔۔ سب کو وہی رزق عطا کرتا ہے۔ہم اسی کو اپنا رب مانتے ہیں اور آخر تک اسی کو معبود مانتے رہیں گے۔“

ان نوجوانوں کا اتنا کہنا تھا کہ ان پر آفت آگئی۔سب کے سب ان کے خلاف ہو گئے۔ان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے۔مگر ان نوجوانوں کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ ہوئی۔اور انہوں نے وہ ملک چھوڑ دیا۔ وہ جنگل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔

”پھر کیا ہوا۔۔؟ کیا وہ نوجوان۔۔مارے گئے۔۔“

ایک سننے والے سے صبر نہیں ہوا۔وہ سوال کر بیٹھا۔قصہ گو خاموش ہو گیا تھا۔چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں۔ چہروں پر سوال تھے۔سامعین ان نوجوانوں کے لئے فکر مند تھے۔قصہ گو کے چہرے پر بھی خوف کے سائے تھے۔ قصہ پھر شروع ہو گیا تھا۔

”ان نوجوانوں نے اپنے رب کی مرضی سے پہاڑوں کی ایک غار میں پناہ لی۔ان کے ساتھ ان کا کتّا بھی تھا۔ ان کی تعداد کو لے کر لوگوں میں اختلاف تھا۔کسی کے اندازے کے مطابق وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتّا تھا۔کوئی کہتا کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتّا تھا۔تو کسی کے مطابق وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔لیکن یہ تو سب کے اندازے تھے،ان کی صحیح تعداد کا علم کسی کو نہیں تھا۔یہ بات صرف ان کا رب جانتا تھا کہ وہ کتنے تھے۔اور اس نے کسی مصلحت کے تحت ان کی تعداد کو صیغہ ء راز میں رکھا۔وہ نوجوان غار میں جا کر سو گئے۔ان کے پیر غار کے دہانے کی طرف تھے۔غار کے منھ پر ان کا کتّا اپنے اگلے پیر آگے کی طرف کئے ہوئے بیٹھا تھا۔تم سے کوئی اگر غار میں جھانکتا تو مارے دہشت کے اس کا برا حال ہوتا۔ اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ جاگ رہے ہیں۔دیکھنے والے کو صرف نظر آتا کہ کتا غار کے منھ پر پہرہ دے رہا ہے۔جبکہ غار کے اندر وہ نوجوان بے خبر سو رہے تھے۔انہیں اپنے آس پاس کا ذرابھی احساس نہیں تھا۔

قصہ گو خاموش ہو گیا تھا۔سب اس کے چہرے کو حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگے۔اس کے نورا نی چہرے پر فکر مندی کی لکیریں تھیں۔سننے والوں میں سے ایک نے سوال کیا۔

”قصہ کیوں رک گیا۔۔؟ کیا آپ کو اور یاد نہیں ہے۔۔۔؟“

”میرے بھا ئیو! ایسا ہے کہ میں تمہیں سچے قصے سناتا ہوں۔یہ سبھی قصے اس رب نے سنائے ہیں۔جو ہم سب کا رب ہے۔“

قصہ گو کا بھی ایک قصہ تھا۔وہ حق اور سچ بات کہنے کے لئے مشہور تھا۔وہ ہمیشہ سچے قصے سناتا تھا۔اپنے رب کے قصے،ایسے رب کے قصے جس نے سارا جہان بنایا۔۔اس کے قصوں میں ایمان و یقین کی باتیں ہو تیں۔ان کے قصے اور باتیں پر تاثیر ہوتیں۔ان کی باتوں کا دل پر اثر ہوتا۔بہت سے لوگ اس کی باتوں اور قصوں کے بیان سے ایک خدا کو ما ننے لگے تھے۔ان کی قصہ گو ئی کی محفلوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے۔وہ جو ہزاروں دیوی دیوتاؤں کو مانتے تھے۔وہ بھی جو ایک خدا کو مانتے تھے۔قصہ گو کا نورانی چہرہ ہرایک نور سے چمکتا دمکتا رہتا تھا۔قصہ پھر شروع ہو گیا تھا۔

”ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا۔۔۔“

”آپ غار کے بارے میں بتا رہے تھے۔۔“

”اچھا! اب آگے سنو! سورج جب طلوع ہوتا تو وہ اس غار کے دائیں سے بچ کر نکل جاتا۔اورجب غروب ہوتا تو غار کے بائیں سے بچتا ہوا نکلتا۔اور حیرانی کی بات یہ تھی۔۔۔“قصہ گو نے قصے کو روک دیا تھا۔حیرانی ان کے چہرے پر بھی عیاں تھی۔سامعین میں ایک اضطراب اور بے چینی چھا ئی ہوئی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے،جو قصہ گو بھی حیران ہے۔ایک سامع نے صبر کا دامن چھوڑتے ہوئے کہا۔

”حضور پھر کیا ہوا۔۔۔؟ حیرانی کی ایسی کون سی بات تھی۔۔“

قصہ گو لوگو ں میں بے چینی دیکھ کر خوش ہوا کہ لوگ ہمہ تن گوش اسے اور اس کے قصے کو سن رہے ہیں۔

”پھر یوں ہوا کہ۔۔۔حیرا نی کی بات یہ تھی کہ وہ نوجوان تو بیخود سوئے ہوئے تھے۔انہیں دنیا وما فیہا کی کوئی خبر نہیں تھی۔ان کا رب انہیں کروٹیں بھی دلا رہا تھا۔اسی طرح برسوں گذر گئے۔پھر یہ ہوا کہ اچانک وہ سب کے سب بے دار ہو گئے۔سو کر اٹھے اور انگڑائی لیتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا۔پھر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ تم بتاؤ۔۔ہم کتنی دیر سوئے۔۔؟“ قصہ گو خامو ش ہوگیا تھا۔لوگوں کا اضطراب بڑھ رہاتھا ان کے چہروں پر حیرانی اور پریشانی کے آثار تھے۔قصہ گو نے پھر ان سے ہی سوال کر نے شروع کردیے۔

”اچھا تم بتاؤ وہ کتنی دیر سوئے ہوں گے۔تم میں کوئی بتائے کہ وہ نوجوان غار میں کتنی دیرسوئے؟“

سامعین پرخاموشی طاری تھی۔سب ایک دوسرے کامنھ تک رہے تھے۔کچھ دیربعدآوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔

”دو سال۔۔“

”بیس برس شاید۔۔“

”شایدچند سال سوئے ہوں گے۔۔“

غرض جتنے سامعین تھے،اتنے جواب بھی آئے۔قصہ گوبزرگ کی آوازبلند ہوئی۔

”ان نوجوانوں میں بھی سب کاالگ الگ خیال تھا۔کسی کاماننا تھا کہ کچھ دیرکے لئے سوئے تھے۔کچھ کا خیال تھاکہ وہ چند دن سوئے۔جبکہ کچھ لوگ مانتے تھے کہ وہ ابھی سوئے تھے۔۔“

”مگر وہ کئی صدی سوتے رہے۔۔“

”کئی صدی۔۔“سامعین میں سے کئی کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

جی ہاں۔ ایک اندازے کے مطابق وہ تین سو نو سال تک سوتے رہے مگران کے سونے کی اصل مدت کسی کوپتہ نہیں۔۔یہ ایک راز ہے،جسے وہی جانتاہے۔۔اس کے بھیدنرالے۔“

”پھر کیا ہوا۔۔؟“،غار والے نوجوانوں کاکیا ہوا۔۔؟“ سامعین نے قصہ گو کے رکتے ہی سوال داغے۔

”پھر یوں ہوا کہ انہیں بھوک لگی۔وہ اپنے دوساتھیوں سے بولے۔تم یہ پیسے لے کر بازار جاؤ اور کچھ کھانے کو کچھ حلال سامان لے کر آؤ۔ اور یہ خیال رکھنا کہ کوئی تمہارے پیچھے پیچھے یہاں نہ آجائے۔“

ان کے ساتھی بازار گئے۔ان کے پاس چاندی کے درہم تھے۔ بازار میں جب انہوں نے اپنے سکے دیے۔ تو دوکاندار حیرت میں پڑ گئے کہ یہ تو بہت پرانے سکے تھے۔ان کا بھید کھل گیا۔مگر اب وہاں جو حکو مت تھی،وہ کسی اور بادشاہ کی تھی۔اور ان کے مخالفین بھی اب نہیں رہے تھے۔

ان پر تب کھلا کہ وہ کئی صدی سوتے رہے۔اس طرح وہ اپنے بندوں کی ہر مصیبت و بلا سے حفاظت کر تا ہے۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو اس غار میں ہی ان کی قبریں بنائی گئیں اور یاد گار کے طور پر اس غار کے اوپر عبادت گاہ بنا دی گئی۔وہ لوگ اصحاب کہف کے نام سے ہی جانے گئے۔

قصہ گو خاموش ہوا ہی تھا کے باہر پولس کی گاڑیوں کے سائرن زور زور سے بجنے لگے۔سامعین میں سے کچھ نے مکان کا دروازہ کھولا تو انسپکٹر نے کچھ سپاہیوں کے ساتھ اندر قدم رکھا۔وہ چلا رہا تھا۔

”کہاں ہیں تمہارے قصہ گو۔ان کے خلاف گرفتاری و ارنٹ ہے۔“

اور انسپکٹر نے قصہ گو کو گرفتار کر لیا۔بزرگ قصہ گو نے وہاں سے بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بعض لوگوں کو زبر دستی اپنا ایمان چھوڑنے اور ایک خدا پر ایمان لانے کو مجبور کیا تھا۔سامعین میں سے کئی نے شہادت دی کہ قصہ گو نے کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی۔مگر پولس والے کہاں ماننے والے تھے۔انہوں نے قصہ گو کو گرفتا ر کر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔

قصہ گوکو اپنے رب پر یقین تھاکہ اس نے جب غار والے نوجوانوں کو اپنی حفاظت میں رکھا،تو وہ ضرور کوئی اقدام کرے گا۔

٭٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ