جی این کے اردو
16 جون 2022
اردو کے ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کے انتقال کی خبر سے پوری ادبی دنیا میں غم و افسوس کا ماحول ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کہا کہ پروفیسر نارنگ سے ایک ایک قدیمی تعلق تھا۔ انھوں نے اردو میں بڑی بھرپور زندگی گزاری اور آخری دم تک لکھنے پڑھنے میں مشغول رہے۔ ان کی تحریروں کے سبب اردو میں اتنا اہم تنقیدی سرمایہ جمع ہوا جس کی مثال ان سے پہلے نہیں ملتی۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے اور اس کے ادب پر بھی ان کی نظر تھی جس کی وجہ سے ان کی تعبیرات میں بڑا تنوع پیدا ہو گیا تھا۔ اگر چہ لسانیات ان کا خاص میدان تھا لیکن انھوں نے خود کو صرف لسانی مباحث تک محدود نہیں رکھا بلکہ ادب کے بیشتر مباحث میں انھوں نے جن بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا اس کی معنویت ہر دور میں برقرار رہے گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی جلد تلافی ہو۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ پروفیسر نارگ صاحب کے انتقال سے اردو ادب کا ایک اہم ستون منہدم ہو گیا ہے۔ پروفیسر نارنگ کی تحریروں کے سبب ہی اردو تنقید میں مابعد جدید رجحان عام ہو سکا۔ انھوں نے سنسکرت، فارسی، اردو اور انگریزی ادب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور اپنے عہد کے جدید تقاضوں اور صورت حال پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے ان کا گہرا تعلق تھا 2020کے انٹر نیشل سمینار کا کلیدی خطبہ آج بھی ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔
گذشتہ 7/ مئی 2022کو یہاں ان کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں اردو نے نامور دانشوروں نے ان کی ادبی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی تھی۔پروفیسر نارگ نے بھی ہمیشہ کی طرح بہت شاندار تقریر کی تھی۔ کیا خبر تھی کہ ہم ان کے آخری خطاب کے گواہ بن رہے ہیں۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک کتاب ’پروفیسر گوپی چند نارگ: ادیب و دانشور‘بھی شائع کی گئی تھی جس میں ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر اہم مقالات شامل ہیں۔ میں اپنی اور ادارے کی جانب سے پوری ادبی دنیا خصوصاً پروفیسر نارنگ صاحب کے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کو اپنے سائے رحمت میں جگہ عنایت کرے۔